حسینی انقلاب کا یہ افتخار ہے کہ
آج ہر مکتب خیال کے افراد اس کے ہم آواز ہیں یا کم از کم ہم آواز ہونے کا
اظہار کرتے ہیں کیونکہ یہ انقلاب ایک خالص الٰہی انقلاب ہے، قومی ، مذہبی
یا نسلی اور لسانی تنگ نظری کے ہاتھ اس انقلاب کے دامن کو نہیں چھو سکتے ۔
جب مقصد للّہیت اور راہ انسانیت ہو تو انقلاب خود بخود عالمگیریت حاصل
کرلیتا ہے۔اسلام کو آفاقیت دلانے میں " حسینی پلیٹ فارم " نے نمایاں ترین
کردار ادا کیا ہے حسینیت نے اسلام کی وسیع النظری عام کرنے اور انسانی فطرت
کو بیدار کرکے تمام انسانوں کو اسلام کا ہمدم و دمساز بنانے میں بڑی مدد کی
ہے جس طرح خدا ،رسول (ص) ،علی (ع) سب کے ہیں حسین (ع) بھی سب کے ہیں کیونکہ
کسی نہ کسی شکل میں ان کے فیوضات سے سبھی فائدہ اٹھاتے ہیں اب اگر کوئی
محسوس نہ کرسکے تو خدا و رسول (ص) کا بھی انکار کردیتا ہے۔ سورج کے طلوع و
غروب سے بھی بے خبر ہوجاتا ہے لہٰذا اگر کوئی نواسہ رسول اللہ امام عالی
مقام حسین بن علی ابن ابی طالب (ع) اور حسینیت کی مخالفت کرے تو یہ سمجھنا
چاہئے ،اسے جگر گوشہ خاتون دو جہاں حضرت فاطمہ زہرہ سلام اللہ علیہا کا
عرفان نہیں ، وہ بینائی سے محروم یا بے خبری کا شکار ہے ۔علی (ع) و بتول
(ع) کے فرزند امام حسین (ع) انسان پر حیوانوں بلکہ انسانوں کی بھی حکمرانی
کے مخالف تھے اور ظلم و زیادتی برداشت کرنا انسانیت کی ذلت و توہین سمجھتے
تھے۔ امام حسین (ع) اسلام کے نقاب میں چھپے اموی ملوکیت اور ظلم و ناانصافی
پر استوار لامذہبیت کا چہرہ بر ملا کردینا چاہتے تھے۔امام حسین (ع) کی اسی
اصول پسندی نے انہیں تمام ملک و قوم میں عالم اسلام کے محبوب امام و رہنما
کے ساتھ ہی ساتھ عالم بشریت کا مثالی " ہیرو" بھی بنادیا۔ چنانچہ جس وقت
ہندوستان غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا مہاتما گاندھی نے کہا تھا "
حسینی اصول پر عمل کر کے انسان نجات حاصل کرسکتا ہے " اور پنڈت نہرو نے
اقرار کیا تھا کہ " امام حسین (ع) کی شہادت میں ایک عالمگیر پیغام ہے۔ "
ہیروز ورشپ " کے مصنف کارلائل کا کہنا ہے " شہادت حسین (ع) کے واقعہ پر جس
قدر غور و فکر کیا جائے گا اسی قدر اس کے اعلیٰ مطالب روشنی میں آتے جائیں
گے۔
61ہجری نویں محرم الحرام کی شب نزدیک تھی ، پسر سعد کو ابن زیاد کے آخری
فیصلے کا انتظار تھا ، شمر 4ہزار کے لشکر کے ساتھ ،ابن زیاد کا پیغام لایا
کہ اگرامام حسین (ع) یزید کی بیعت نہ کریں تو ان کو قتل کردو اور اگر تم یہ
کام نہ کرسکو تو لشکر کی کمان شمر کے حوالے کردو ، پسر سعد نے ابن زیاد کا
فرمان پڑھ کر حملے کا حکم دے دیا۔ شمر نے کہا پہلے امام حسین (ع) سے آخری
جواب تو لے لو مگر پسر سعد نے کہا " خدا کی قسم نواسہ رسول اللہ کسی بھی
طور یزید کی بیعت نہیں کریں گے ،ان کے پہلو میں ان کے باپ کا دل ہے "
بہرحال حملہ ہوا تو امام حسین (ع) نے جناب عباس (ع) کو بھیج کر عبادت کے
لئے ایک شب کی مہلت مانگ لی کہ یزیدی لشکر کو ایک رات اور یہ سوچنے کا موقع
مل جائے کہ وہ جس سے جنگ کرنا چاہتے ہیں وہ رسول (ص) کا نواسہ خدا کا عبادت
گزار بندہ ہے۔امام حسین (ع) نے اہل حرم کے خیموں کی پشت پر خندق کھودنے کا
حکم دیا اور جب خندق تیار ہوگئی تو اس میں آگ جلوا دی تاکہ دشمن کا لشکر
پیچھے سے خیموں پر حملہ نہ کرسکے اور پھر پشت خیمہ سے مطمئن ہوکر ایک خیمے
میں تمام اصحاب و اعزہ کو جمع کیا اور اپنی بیعت اٹھا کر سب کو اپنا ساتھ
چھوڑ دینے کی اجازت دے دی حتیٰ کہ شمع بھی خاموش کردی کہ جانے میں شرم مانع
نہ ہو مگر تمام اعزہ و اصحاب نے اپنی وفاداری اور جان نثاری کا یقین دلایا
اور کوئی ایک بچہ بھی آپ کا ساتھ چھوڑنے پر تیار نہ ہوا.
بقول شاعر :
حسین (ع) ابن علی (ع) نے فطرتیں بدلی ہیں اک شب میں
بجھی ہے شمع اور محفل سے پروانے نہیں جاتے
شاعر نے صحیح کہا ہے :
اعجاز مجسم ہیں اصحاب شہ والا
ہم دیکھیں تو شمعیں ہیں شہ دیکھیں تو پروانے
72 جان نثار ، اپنی جانیں ہتھیلی پر لئے کھڑے تھے اور حقیقی معنی میں کل
ایمان کل کفر و نفاق سے جنگ و مقابلے کے لئے تیار تھا۔ادھر سپیدی سحر
نمودار ہوئی ادھر حر ابن یزید ریاحی نے اپنے بھائی بیٹے اور غلام کے ساتھ
لشکر کفر و نفاق سے نکل کر لشکر حق میں شمولیت اختیار کرلی۔
در حقیقت یہ مقدرات ہیں بھائی بیٹے غلام ، سب میں ہے حریت
کوئی ایک شب میں یوں مثل حر نہ تو بن سکا نہ بنا سکا
شبیہ پیغمبر (ص) حضرت علی اکبر (ع) نے صبح کی اذان دی ، لشکر اسلام و قرآن
نے امام حسین (ع) کی امامت میں نماز فجر ادا کی، ابھی سر سجدوں سے بلند
نہیں ہوئے تھے کہ کمانیں کڑکیں اور نماز کے لئے ایستادہ بیسیوں مجاہدین راہ
حق تیروں کی پہلی بوچھاڑ میں ہی شہید ہوگئے اور پھر یہ سلسلہ جاری رہا،
امام عالی مقام سے اجازت لے کر غازیان اسلام میدان میں جاتے اور شہید ہوتے
رہے ،پہلے اصحاب کام آئے اور پھر اعزہ کی باری آئی، اٹھارہ سالہ شبیہ
پیغمبر (ص) ، نو ، دس سال کے عون و محمد (ع) تیرہ سالہ قاسم (ع) 32 سال کے
بھائی عباس علمدار حتیٰ کہ چھ ماہے علی اصغر (ع) کو بھی راہ اسلام میں حسین
(ع) نے قربان کردیا اور پھر ننھی سی قبر کھود کے اصغر (ع) کو گاڑ کے شبیر
(ع) اٹھ کھڑے ہوئے دامن کو جھاڑ کے اب حسین تشنہ کام ، زخموں سے چور ، شدت
پیاس سے زبان چباتے ہوئے کہتے ہیں ”انابن صاحب الکوثر ، میں تو ساقی کوثر
کا بیٹا ہوں ، میں تو شافع محشر کا بیٹا ہوں“۔پھر اک عزم کے ساتھ اٹھے اور
در خیمہ پر آکر آواز دی ”اے زینب و ام کلثوم اے رقیہ و سکینہ حسین کا آخری
سلام قبول کرو۔ سب سے رخصت لی اور دامن سے لپٹی پیاری بیٹی سکینہ بی بی کو
بھی سینے سے لگا کر بہن کے حوالے کردیا اور میدان میں آکر ایسی جنگ کی کہ
یزیدی لشکر کوفے کی دیواروں سے ٹکراتا نظر آیا۔ نہر علقمہ پر پہنچے اور
بھائی عباس (ع) کو آواز دی” کاش تم ہوتے اور تین دن کے پیاسے حسین (ع) کی
جنگ کا منظر دیکھتے اور جب نہر سے پلٹے تو آواز سنائی دی”
”اے نفس مطمئنہ اپنے پروردگار کی طرف پلٹ آ“ اس حال میں کہ میں تجھ سے راضی
اور تو مجھ سے راضی ہے۔ امام عالی مقام (ع) نے تلوار نیام میں رکھ لی تیروں
، نیزوں شمشیروں کی بارش ہونے لگی جن کے پاس کچھ نہ تھا وہ پتھر مار رہے
تھے۔ حسین گھوڑے سے گرے ،بارگاہ معبود میں شکر کا سجدہ ادا کیا، شمر بے حیا
نے پشت گردن سے سر تن سے جدا کردیا ،نواسہ رسول (ص) میدان کربلا میں شہید
کردئیے گئے۔ آسمان سے خون کی بارش ہوئی، زمین کا سینہ شق ہوگیا لیکن امام
حسین (ع) کی صدائے استغاثہ آج بھی بشریت کے کانوں میں گونج رہی ہے " کیا
کوئی ہے جو میری مدد کرے ، کیا کوئی ہے جو میری نصرت کرے "میں پیاسا ہوں ،
پیاسا شہید کیا گیا ہوں ، میری پیاس بجھاؤ ، روئے زمین پر حق و انصاف اور
اسلام و قرآن کی حکمرانی قائم کرو، جس دن ظالموں کا خاتمہ ہوگا میری پیاس
بجھ جائے گی۔
محترم قارئین ۔۔۔۔۔ آپ کی قیمتی رائے باعث رہنمائی ہوگی۔ |