محترم قارئین، السلامُ علیکم۔
حضرت یعلی ابن مرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجھ سے ہے اور میں حسین رضی اللہ تعالی عنہ سے
ہوں اور جس شخص نے حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے محبت رکھی اس نے اللہ عزوجل
سے محبت رکھی، حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسباط میں سے ایک سبط ہے۔ (ترمزی)
جب سے دنیا وجود میں آئی ہے اس وقت سے آج تک بہت سے معرکے ہوئے اور تاریخ
نے ان کو اپنے اندر محفوظ کر لیا لیکن ان معرکوں میں ایک ایسا معرکہ ہوا جو
اپنی نوعیت کا واحد معرکہ تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ اس معرکہ کی کمان شہزادہ
رسول صلی اللہ علیہ وسلم، جگر گوشہ بتول سیندنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ
عنہ فرما رہے تھے اور وہ عظیم معرکہ میدان کربلا میں ہوا اس کی انفرادیت اس
وجہ سے بھی تھی کہ اس معرکے کے وقوع پزیر ہونے کی خبر خود حضور پاک صلی
اللہ علیہ وسلم نے دے دی تھی۔
ایک شارح نے لکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس حدیث کے الفاظ جس وقت ارشاد
فرما رہے تھے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کو یا نور نبوت سے اس المیہ
کا پہلے یہ ادراک کرلیا تھا جو تقریباً نصف صدی بعد یزیدیوں کی طرف سے حضرت
امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کی صورت میں پیش آنے والا تھا،
لٰہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ارشاد گرامی میں خاص طور پر صرف حضرت
امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ میں اور
میرا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ یک جان دو قالب ہیں، ہم دونوں کے درمیان
ایسا جسمانی و روحانی قرب و تعلق ہے کہ جس طرح مجھ سے محبت رکھنا واجب ہے،
اسی طرح حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مخالفت و عداوت رکھنا اور حسین رضی
اللہ تعالیٰ عنہ سے لڑنا حرام ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا تقاضا ہے کہ جو جو انہیں محبوب
تھا ہم بھی انہیں چاہیں اور ان سے پیار کریں جن جن سے انہیں تعلق و خاطر
تھا، ہم بھی ایک قلبی رابطہ ان سے محسوس کریں اور ان کا ادب و احترام، ان
کی عزت و توقیر دل کی گہرائیوں میں محسوس کریں، اگر ہم ایسا محسوس نہیں
کرنے تو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہماری محبت میں نقص ہے اور
ہزار ہم سب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دعویٰ کریں لیکن یہ کیفیت نہیں ہے
تو یہ سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم محض ایک فریب نفس ہے۔
وہ لوگ جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انواروبرکات کی معرفت حاصل
ہے سمجھتے ہیں کہ یہ کیسی سعادت عظمی ہے جو حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ
عنہ کے حصے میں آئی بارگاہ رسالت میں جن کی محبوبیت کا یہ عالم تھا کہ آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حسین رضی
اللہ تعالی عنہ میری دنیا کہ دو پھول ہیں(بحوالہ بخاری و ترمزی)
ایک مو قع پر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حسن رضی اللہ
تعالیٰ عنہ اور حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔
(بحوالہ ترمزی)
مندرجہ بالا حدیث میں (اس نے اللہ تعالیٰ سے محبت رکھی) کیونکہ حسین رضی
اللہ تعالیٰ عنہ سے محبت رکھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھنا
ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھنا اللہ عزوجل سے محبت
رکھنا ہے، حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسباط میں سے ایک سبط ہے یعنی میرے
خاندان کے ایک فرد ہیں، اور حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سبط سے تعبیر
کرنا اس طرف بھی اشارہ ہے کہ ان کی نسل سے بے شمار لوگ پیدا ہوں گے۔
یہ وہ ہستی ہیں کہ جن کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ
حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ میرے بیٹے اور میری
بیٹی (فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا) کے بیٹے ہیں اے اللہ عزوجل میں ان سے
محبت کرتا ہوں تو بھی ان دونوں سے محبت رکھ اور ان دونوں سے محبت کرنے
والوں سے بھی محبت رکھ۔ (بحوالہ ترمزی)
آج ہم اپنے دلوں کو ٹٹولیں کہ کیا ہمارے دلوں میں وہ حقیقی محبت ہے جو کہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی اگر وہ محبت اور تعظیم ہمارے سینوں
میں نہیں تو یہ بہت بڑی محرومی اور شقاوت ہے، اللہ عزوجل ہم سب کو ایل بیت
سے صحیح دینی محبت اور عقیدت نصیب فرمائے، آمین۔ |