میلاد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ کرام و محدثین حصہ دوئم

ج:’’کھانا کھلانا ہر وقت مستحب ہے۔ اگر کسی موقع پر ربیع الاول شریف کے مہینے میں ظہورِ نبوت کی یادگار کے حوالے سے خوشی اور مسرت کے اِظہار کا اِضافہ کر دیا جائے تو اس سے یہ چیز کتنی بابرکت ہوجائے گی۔ ہم جانتے ہیں کہ اَسلاف نے ایسا نہیں کیا اور یہ عمل بدعت ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ مکروہ ہو کیوں کہ بہت سی بدعات مستحب ہی نہیں بلکہ واجب ہوتی ہیں۔
تشنيف الآذان بأسرار الآذان : 136 امام ولی الدین ابو زرعہ احمد بن عبد الرحیم بن حسین العراقی (1361۔ 1423ء)
’’اچھی آواز میں قرآن حکیم کی تلاوت کرنے، قصیدے اور منقبتیں پڑھنے میں کیا حرج ہے؟ ممنوع تو صرف یہ ہے کہ قرآن مجید کے حروف کو تبدیل و تحریف کیا جائے اور اِلحان کے طریق سے آواز پھیرنا اور اس کے مناسب تالیاں بجانا جو کہ شعر میں بھی ناجائز ہے۔ اگر ایسے طریقہ سے مولود پڑھیں کہ قرآنی کلمات میں تحریف واقع نہ ہو اور قصائد پڑھنے میں مذکورہ (ممنوعہ) اَوامر نہ پائے جائیں تو پھر کون سا اَمر مانع ہے؟
مکتوبات، دفتر سوم، مکتوب نمبر : 72
امام ربانی شیخ احمد سرہندی حضرت مجدد الف ثانی (1564۔ 1624ء)

جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اَئمہ و محدثین کی نظر میں قرآن و سنت سے جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تفصیلی دلائل پیش کرنے کے بعد باب ھٰذا میں ہم اُن اَئمہ کرام کے حوالہ جات دیں گے جنہوں نے اِنعقادِ جشنِ میلاد کے اَحوال بیان کیے ہیں۔ تاریخی تناظر میں ان کے یہ تذکرے متعدد اسلامی اَدوار اور بلادِ اِسلامیہ سے متعلق ہیں۔ یہ کہنا مطلقاً غلط اور خلافِ حقیقت ہے کہ میلاد پر منعقد کی جانے والی تقریبات بدعت ہیں اور ان کی ابتداء برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں نے کی۔ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ تقاریبِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِنعقاد ہندوستان کے مسلمانوں کی اختراع ہے نہ یہ کوئی بدعت ہے۔ جشن میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آغاز حالیہ دور کے مسلمانوں نے نہیں کیا بلکہ یہ ایک ایسی تقریب سعید ہے جو حرمین شریفین مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سمیت پورے عالم عرب میں صدیوں سے اِنعقاد پذیر ہوتی رہی ہے۔ بعد ازاں وہاں سے دیگر عجمی ملکوں میں بھی اِس تقریب کا آغاز ہوا۔ ذیل میں ہم اَکابر اَئمہ و محدثین کے حوالہ سے جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آغاز و اِرتقاء کا تذکرہ کرتے ہیں :

’’اہلِ محبت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کی خوشی میں دعوتِ طعام منعقد کرتے آئے ہیں۔ قاہرہ کے جن اَصحابِ محبت نے بڑی بڑی ضیافتوں کا انعقاد کیا ان میں شیخ ابو الحسن بھی ہیں جو کہ ابن قفل قدس اﷲ تعالیٰ سرہ کے نام سے مشہور ہیں اور ہمارے شیخ ابو عبد اللہ محمد بن نعمان کے شیخ ہیں۔ یہ عمل مبارک جمال الدین عجمی ہمذانی نے بھی کیا اور مصر میں سے یوسف حجار نے اسے بہ قدرِ وسعت منعقد کیا اور پھر انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (خواب میں) دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یوسف حجار کو عملِ مذکور کی ترغیب دے رہے تھے۔‘‘
صالحي، سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 363

’’اور شہر موصل میں سب سے پہلے میلاد شریف کا اِجتماع منعقد کرنے والے شیخ عمر بن محمد مَلّا تھے جن کا شمار مشہور صالحین میں ہوتا تھا۔ اور شاہِ اِربل و دیگر لوگوں نے اُنہی کی اِقتداء کی ہے۔ اﷲ اُن پر رحم فرمائے۔‘‘
1. أبوشامة، الباعث علي إنکار البدع والحوادث : 24
2. صالحي، سبل الهديٰ والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 365
3۔ علامہ اِبن جوزی (510۔ 579ھ)علامہ جمال الدین ابو الفرج عبد الرحمٰن بن علی بن جوزی (1116۔ 1201ء) کثیر کتب کے مصنف تھے۔ اُنہوں نے میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دو کتب تالیف کیں:
1. بيان الميلاد النبوي صلي الله عليه وآله وسلم
2. مولد العروس

’’مکہ مکرمہ، مدینہ طیبہ، مصر، شام، یمن الغرض شرق تا غرب تمام بلادِ عرب کے باشندے ہمیشہ سے میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محفلیں منعقد کرتے آئے ہیں۔ وہ ربیع الاول کا چاند دیکھتے تو ان کی خوشی کی انتہا نہ رہتی۔ چنانچہ ذکرِ میلاد پڑھنے اور سننے کا خصوصی اہتمام کرتے اور اس کے باعث بے پناہ اَجر و کامیابی حاصل کرتے رہے ہیں۔‘‘
ابن جوزي، بيان الميلاد النبوي صلي الله عليه وآله وسلم : 58

اور ہر وہ شخص جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کے باعث خوش ہوا، اﷲ تعالیٰ نے (یہ خوشی) اس کے لیے آگ سے محفوظ رہنے کے لیے حجاب اور ڈھال بنادی۔ اور جس نے مولدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ایک درہم خرچ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس کے لیے شافع و مشفع ہوں گے۔ اور اﷲ تعالیٰ ہر درہم کے بدلہ میں اُسے دس درہم عطا فرمائے گا۔

’’اے اُمتِ محمدیہ! تجھے بشارت کہ تونے دنیا و آخرت میں خیر کثیر حاصل کی۔ پس جو کوئی احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کے لیے کوئی عمل کرتا ہے تو وہ خوش بخت ہے اور وہ خوشی، عزت، بھلائی اور فخر کو پالے گا۔ اور وہ جنت کے باغوں میں موتیوں سے مرصع تاج اور سبز لباس پہنے داخل ہوگا۔‘‘
ابن جوزي، مولد العروس : 11

علامہ ابن جوزی شاہِ اِربل مظفر ابو سعید کو کبری کی طرف سے بہت بڑے پیمانے پر میلاد شریف منائے جانے اور اس پر خطیر رقم خرچ کرنے کے بارے میں فرماتے ہیں :
لولم يکن في ذلک إلا إرغام الشيطان وإدعام أهل الإيمان.
’’اِس نیک عمل میں سوائے شیطان کو ذلیل و رُسوا کرنے اور اہل ایمان کو تقویت پہنچانے کے کچھ نہیں۔‘‘
صالحي، سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 363
مراد یہ کہ محافلِ میلاد کا اِنعقاد شیطان کو رُسوا اور ذلیل و خوار کرتا ہے جب کہ اس سے مومنین کو تقویت ملتی ہے۔
4۔ حافظ ابو الخطاب بن دحیہ کلبی (544۔ 633ھ)قاضی القضاۃ ابو العباس شمس الدین احمد بن محمد بن ابی بکر بن خلکان اپنی کتاب ’’وفیات الاعیان وانباء ابناء الزمان (3 : 448۔ 450)‘‘ میں حافظ ابو الخطاب بن دحیہ کلبی (544۔ 633ھ) کے سوانحی خاکہ میں لکھتے ہیں :

’’ان کا شمار بلند پایہ علماء اور مشہور محققین میں ہوتا تھا۔ وہ مراکش سے شام اور عراق کی سیاحت کے لیے روانہ ہوئے۔ 604ھ میں ان کا گزر اِربل کے علاقے سے ہوا جہاں ان کی ملاقات عظیم المرتبت سلطان مظفر الدین بن زین الدین سے ہوئی جو یوم میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انتظامات میں مصروف تھا۔ اس موقع پر انہوں نے ’’التنویر فی مولد البشیر النذیر‘‘ کتاب لکھی۔ انہوں نے یہ کتاب خود سلطان کو پڑھ کر سنائی۔ پس بادشاہ نے ان کی خدمت میں ایک ہزار دینار بطور انعام پیش کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے 625ھ میں سلطان کے ساتھ اسے چھ نشستوں میں سنا تھا۔‘‘
1. سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد : 44، 45
2. سيوطي، الحاوي للفتاوي : 200
3. نبهاني، حجة اﷲ علي العالمين في معجزات سيد المرسلين صلي الله عليه وآله وسلم : 236، 237
5۔ حافظ شمس الدین الجزری (م 660ھ)شیخ القراء حافظ شمس الدین محمد بن عبد اﷲ الجزری الشافعی (م 1262ء) اپنی تصنیف ’’عرف التعریف بالمولد الشریف‘‘ میں لکھتے ہیں :

’ابولہب کو مرنے کے بعد خواب ميں دیکھا گیا تو اس سے پوچھا گیا : اب تیرا کیا حال ہے؟ کہنے لگا : آگ میں جل رہا ہوں، تاہم ہر پیر کے دن میرے عذاب میں تخفیف کر دی جاتی ہے۔ اُنگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگا کہ (ہر پیر کو) میری ان دو انگلیوں کے درمیان سے پانی (کا چشمہ) نکلتا ہے جسے میں پی لیتا ہوں اور یہ تخفیفِ عذاب میرے لیے اس وجہ سے ہے کہ میں نے ثویبہ کو آزاد کیا تھا جب اس نے مجھے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت کی خوش خبری دی اور اس نے آپ کو دودھ بھی پلایا تھا۔

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کے موقع پر خوشی منانے کے اَجر میں اُس ابولہب کے عذاب میں بھی تخفیف کر دی جاتی ہے جس کی مذمت میں قرآن حکیم میں ایک مکمل سورت نازل ہوئی ہے۔ تو اُمت محمدیہ کے اُس مسلمان کو ملنے والے اَجر و ثواب کا کیا عالم ہوگا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کی خوشی مناتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و عشق میں حسبِ اِستطاعت خرچ کرتا ہے؟ خدا کی قسم! میرے نزدیک اﷲ تعالیٰ ایسے مسلمان کو اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی منانے کے طفیل اپنی نعمتوں بھری جنت عطا فرمائیں گے۔‘‘
1. سيوطي، الحاوي للفتاوي : 206
2. سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد : 65، 66
3. قسطلاني، المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1 : 147
4. زرقاني، شرح المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1 : 260، 261
5. صالحي، سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 366، 367
6. نبهاني، حجة اﷲ علي العالمين في معجزات سيد المرسلين صلي الله عليه وآله وسلم : 237، 238

’’(محافلِ میلاد شریف کے) خواص میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جس سال میلاد منایا جائے اُس سال امن قائم رہتا ہے، نیز (یہ عمل) نیک مقاصد اور دلی خواہشات کی فوری تکمیل میں بشارت ہے۔‘‘
صالحي، سبل الهديٰ والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 365، 366

اور اِسی (بدعتِ حسنہ) کے قبیل پر ہمارے زمانے میں اچھی بدعت کا آغاز شہر ’’اِربل‘‘ خدا تعالیٰ اُسے حفظ و امان عطا کرے۔ میں کیا گیا۔ اس بابرکت شہر میں ہر سال میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر اِظہارِ فرحت و مسرت کے لیے صدقات و خیرات کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ اس سے جہاں ایک طرف غرباء و مساکین کا بھلا ہوتا ہے وہاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی کے ساتھ محبت کا پہلو بھی نکلتا ہے اور پتہ چلتا ہے کہ اِظہارِ شادمانی کرنے والے کے دل میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے حد تعظیم پائی جاتی ہے اور ان کی جلالت و عظمت کا تصور موجود ہے۔ گویا وہ اپنے رب کا شکر ادا کر رہا ہے کہ اس نے بے پایاں لطف و احسان فرمایا کہ اپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (ان کی طرف) بھیجا جو تمام جہانوں کے لیے رحمتِ مجسم ہیں اور جمیع انبیاء و رُسل پر فضیلت رکھتے ہیں۔‘‘
1. ابوشامه، الباعث علي إنکار البدع والحوادث : 23، 24
2. صالحي، سبل الهديٰ والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 365
3. حلبي، إنسان العيون في سيرة الأمين المامون، 1 : 84
4. احمد بن زيني دحلان، السيرة النبوية، 1 : 53
5. نبهاني، حجة اﷲ علي العالمين في معجزات سيد المرسلين صلي الله عليه وآله وسلم
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1381151 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.