مقبول نہیں معقول

اگرانسان اپنے آس پاس ہونیوالے مختلف واقعات کے محرکات، اثرات ا ورنقصانات پرغورکرے تواس کیلئے نتیجے تک پہنچنا آسان ہوجاتا ہے ۔انسان کی عزت اور ہزیمت کے درمیان بہت باریک سا فرق ہے۔عزت دارانسان دوسروں کی عزت کرتے ہیں اورجودوسروں کوبے عزت کر ے خودبھی عزت سے محروم ہوجاتا ہے۔باب العلم حضرت علی رضی اﷲ عنہ کاایک بیش قیمت قول پیش خدمت ہے ''جس کاظرف آزماناہواس کوعزت دواگروہ اعلیٰ ظرف ہوگاتو بدلے میں عزت دے گا''،یہ کسی کاظرف دیکھنے اورآزمانے کیلئے زبردست پیمانہ ہے۔آپ کسی جاہل کے ساتھ زندگی بھرتعلق برقراررکھ سکتے ہیں مگرکسی کم ظرف کی صحبت دوپل بیٹھنادشوارہوجا ئے گا ۔مادروطن نے جس جس کوعزت اورحکومت دی ان میں سے کس کس نے پلٹ کرپاکستان کورسواکیا ، تاریخ کے اوراق سے ان کرداروں اورچہروں کو شناخت کرنازیادہ دشوار نہیں ہے ۔ہرایکشن کاری ایکشن ضرورآتا ہے،جس کام کیلئے نیت نیک نہیں ہوگی یقینااس کاانجام بدہوگا۔ انگریز کے سامراجی اورسیاہ دورمیں غلام مسلمانوں نے اپنے اسلامی عقائدپرحملے برداشت نہیں کئے تھے تواب وہ کس طرح خاموش رہ سکتے ہیں،اس وقت بھی ہمارے ہزاروں'' عالم دین'' وہ کام نہیں کرسکے جوتنہا''علم دین'' نے کردیا تھا۔''علم دین'' کو جورفعت ،عزت ،عظمت اورشہادت ملی وہ اس دورکے کسی'' عالم دین'' کوبھی نصیب نہیں ہوئی۔سچامسلمان ہونے کیلئے عالم دین نہیں علم دین ہوناضروری ہے۔غازی ممتازحسین قادری شہید کامقام سمجھانے کیلئے ان کے جنازے نے شہادت دے دی تھی ۔اسلامی ریاست میں اسلامی عقائدمیں نقب لگانیوالے آج کسی چورکی طرح انصاف کے کٹہرے میں کھڑے ہیں ۔ہمارے باپ دادانے ایک آزادوخودمختار اسلامی ریاست میں آزادانہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں زندگی گزارنے کیلئے قربانیاں دیں ،اگراس ملک میں اسلامی اقدار پرحملے ہوں گے تویقینا ہرسچامسلمان ''جمہوریت'' کی بجائے اسلامیت اورپاکستانیت کاعلم لہرائے گا ۔پاکستانیوں کیلئے اسلامیت اورپاکستانیت اہم ہے ،اگرجمہوریت کونظریہ ضرورت ،فسادات اورتضادات کامجموعہ کہاجائے توبیجا نہیں ہوگا۔ پاکستان میں کوئی شہنشاہ ہے اورنہ عوام کسی'' مغل اعظم '' کے غلام ہیں،پاکستان اسلامی نظام کیلئے بنامگر مٹھی بھرسرمایہ داروں نے جمہوری نظام کے نام پرمادروطن کویرغمال بنالیا۔اس نام نہاد جمہوریت میں جمہورکاکرداردوچارسال بعدووٹ کی پرچی پرمہرلگانے تک محدود ہے۔ووٹرزکوووٹ پرمہرلگاتے ہوئے ایک سیکنڈ لگتا ہے جبکہ منتخب نمائندے پانچ برس کیلئے ووٹرزکے حقوق غصب اوران کااستحصال کرتے ہیں ۔حکمرانوں کے اپنے متنازعہ اورعاقبت نااندیشانہ فیصلے سے ان کے اورعوام کے درمیان فاصلے پیدا ہوتے چلے جاتے ہیں۔ہرزمینی فرعون اقتدار کے خمارمیں قادروکارساز کی گرفت اوراس کے غضب کوبھول جاتا ہے۔فرعون کوموسیٰ علیہ السلام نے نہیں بلکہ ہمارے انتہائی قوی، قادروکارسازاورقہار اﷲ عزوجل نے ڈبویاتھا۔ اﷲ تعالیٰ جس کوچاہے تاج وتخت عطاء کرے،جس کوچاہے اقتدار سے نکال دے ،جس کوچاہے سمندرکی گہرائیوں سے اچھال دے اورجس کوچاہے غرقاب کردے۔اﷲ تعالیٰ کاکسی نعمت سے محروم رکھنا،نوازنا اوردے کر محروم کرنادرحقیقت امتحان ہے ۔جوانسان آزمائے جانے پرصبروتحمل کادامن ہاتھ سے چھوڑدے وہ مزیدرسواہوجاتا ہے۔اﷲ تعالیٰ نے اس انسان کو پسندفرمایا جو خاموشی سے بیماری ،پریشانی یا مصیبت جھیلتا ہے۔کسی داناوبیناکاقول دیکھئے ،کہا مقام شکوہ درحقیقت مقام شکرہوتا ہے۔اگرپاناماپیپرز میں بچوں کانام آنے کے بعدنوازشریف نے وزارت عظمیٰ کامنصب چھوڑدیاہوتا توان کے بارے میں کئی اہم راز ظاہر نہ ہوتے مگر موصوف نے اپنے نادان مشیروں کے اشاروں پرتاریک راہوں کاانتخاب کرلیا جس کانتیجہ نااہلی کی صورت میں برآمدہوا۔ نااہلی کے بعدنوازشریف نے مریم کوپیچھے کرنے کی بجائے مزید آگے کردیا،جس مریم کوخودابھی سیاسی تربیت کی ضرورت ہے اس نے میاں نوازشریف کوسیا ست کی ابجدسکھانا شروع کردی ۔حکمران جماعت کاکہنامیاں نوازشریف نااہلی کے بعدمزید مقبول ہوگئے ہیں اورجوتامارنے سے ان کی شہرت میں کمی نہیں آئے گی ۔انہیں کون سمجھائے ریاست کیلئے'' مقبول'' نہیں ''معقول ''قیادت نعمت ہوتی ہے۔ ریما اورمیرا بھی پاکستان میں بہت مقبول ہیں توکیامحض اس بنیادپرانہیں اقتدار دے دیاجائے۔میاں نوازشریف تین باراقتدارمیں آئے اورتینوں بار ڈیلیورکرنے اورخودکومعقول حکمران کی حیثیت سے منوانے میں ناکام رہے ۔

آج پاکستا ن میں آوازخلق نقارہ خدابن گئی ہے ، آئینی اداروں کیخلاف علم بغاوت بلنداورعوامی عدالت کا فیصلہ تسلیم کرنے کابیانیہ بیک فائر کرگیاہے۔امید ہے شریف خاندان نے عوامی عدالت کافیصلہ سن اورسمجھ لیاہوگا ۔ پرویز مشرف کے بعدمیاں نوازشریف اوراحسن اقبال بھی جوتاکلب کے ممبر بن گئے ہیں مگر عمران خان کواس مخصوص کلب میں بھی قبول نہیں کیا گیا،فیصل آباد سے حکمران جماعت کے جس جانثار نے عمران خان کوجوتامارنے کابیڑااٹھایا تھاوہ واردات کرنے میں ناکام رہا اوربروقت دھرلیا گیاپھراس کی ایک ویڈیوبھی منظرعام پرآئی جس میں نے اس نے اپنے مشن اورماسٹرمائنڈ کا بھانڈا پھوڑدیا۔ عجیب بات ہے میاں نوازشریف کوتخت لاہورمیں جوتاماراگیااور خواجہ آصف کے چہرے پر ان کے شہرسیالکوٹ میں کالک ملی گئی جبکہ احسن اقبال کوبھی ان کے شہر ناروال میں جوتاماراگیا۔ میاں نوازشریف کوجوتے مارنے والے کی مذمت کیلئے چاروں صوبوں کی سیاسی قیادت متحدہوگئی کیونکہ موصوف سیاسی برادری کے سرخیل ہیں مگرجوتامارنے والے کوبیسیوں جوتے اورٹھڈے مارمارکرنیم مردہ حالت میں پولیس کے سپردکردیا گیا،ہماری سیاسی قیادت نے اس انسان پرتشدد کی مذمت کرناضروری نہیں سمجھا ۔لاہور،کراچی ،پشاوراورکوئٹہ سمیت ہمارے شہروں میں ہرروز عام اوربیگناہ شہریوں پرتشددہوتا ہے ،ان کے بنیادی حقوق کی دھجیاں بکھیری جاتی ہیں مگر اشرافیہ کے نزدیک ان واقعات کی کوئی وقعت نہیں ۔اگرمیاں نوازشریف کوایک بارجوتامارناقابل مذمت ہے تو موصوف اوران کی بیٹی کے شب وروز آئینی اداروں پر توہین آمیزحملے کس زمرے میں آتے ہیں۔کیاآئینی ودفاعی اداروں کے میڈیا ٹرائل سے تعصب اورتشدد کاتاثرنہیں ابھرتا ۔خواجہ آصف پرسیاہی گرانیوالے کوبھی زدوکوب اورگرفتار کیا گیا ۔کیا عزت صرف اہل منصب کی ہوتی ہے ،عام شہریوں کی عزت نفس روندنے والے مسنداقتدار پرکیوں براجمان ہیں۔جس کوجوتے پڑے وہ خوداپنااحتساب اوراس واقعہ کے محرکات تلاش کرے اسے جواب مل جائے گا۔

نومنتخب چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے انتخابی معرکے میں عمران خان نے سرپرائز دیا ،ماناآصف علی زرداری اپنے ہم عصرسیاستدانوں پربھاری ہیں اوران کی سیاسی مہارت سے انکار نہیں لیکن اس بار کپتان نے کاری ضرب لگاتے ہوئے حکمران اتحادکی یقینی جیت کوشکست میں بدل دیا ۔بلوچستان سے چیئرمین سینیٹ منتخب ہونے کاکلیدی کریڈٹ عمران خان کوجاتا ہے ،آصف علی زرداری کے پاس دوسراکوئی آپشن نہیں تھا۔پی ٹی آئی اورپیپلزپارٹی کے درمیان باضابطہ '' اتحاد'' نہیں صرف چیئرمین سینیٹ کے امیدوار صادق سنجرانی پر''اتفاق ''ہوا ،چیئرمین سینیٹ کو57جبکہ ڈپٹی چیئرمین کو 54ووٹ ملے۔عمران خان نے درست وقت پردوررس فیصلہ کیا اوراپنے فیصلے پرسٹینڈ لیا۔کپتان کے اس فیصلے سے مستقبل میں پی ٹی آئی کویقینا سیاسی فائدہ ہوگا،بلوچ لوگ بہت باوفااورباصفاہوتے ہیں۔سینیٹ کے انتخابی معرکے میں ہونیوالے حالیہ جوڑتوڑ کے دوران سابقہ وزیراعلیٰ پنجاب اورزیرک سیاستدان میاں منظوروٹو کی پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے وزیراعلیٰ غلام حیدروائیں کوہٹانے اورخودوزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہونے کیلئے زبردست سیاسی مہم جوئی کی یادتازہ ہوگئی۔

پاکستان میں ہروقت مختلف'' افواہوں''کا بازارگرم جبکہ بنیادی ضروریات سے محروم ،نادارومفلس عوام کی'' آہوں'' سے ماحول سوگوار رہتا ہے۔وطن عزیز کے مقتدرطبقات آہوں کی بجائے صرف اپنے مطلب کی آوازوں اور افواہوں پرکان دھرتے ہیں کیونکہ انہیں جمہور نہیں جمہوریت عزیز ہوتی ہے،وہ اس جمہوریت کوڈھال کے طورپراستعمال کرتے ہیں ۔پاکستان میں رائج نام نہاد جمہوریت نے جمہورکوجمود اورجبرواستبداد کے سواکچھ نہیں دیا۔شاہراہوں کے جال سے شہریوں کی زندگی میں مزید وبال آئے،لاہوراس کی زندہ مثال ہے۔ لاہورجس کوپیرس بنانے کادعویٰ کیاجارہا ہے ،اس کی شاہراہوں پراب گاڑیاں دوڑتی نہیں بلکہ کچھوے کی طرح رینگتی ہیں،لاہور میں سی ٹی اوکامنصب بہت منفعت بخش ہے ،زیادہ تروارڈن کسی'' ڈان'' کی طرح ''وصولی ''کرتے ہیں اوراس آمدنی میں سے شیئر بہت اوپرتک جاتاہے ۔اگرکسی منتقم مزاج منتظم نے لاہورکوپیرس بنادیاہے توپھربارش میں اس کی شاہراہیں وینس کامنظرکیوں پیش کرتی ہیں۔احدچیمہ کی ہوشربا کرپشن اوراس کی گرفتاری نے لاہورکوپیرس بنانے کے طریقہ واردات کابھانڈا پھوڑدیا ہے،احدچیمہ کومحض ایک مہرا ہے ،امید ہے ماسٹرمائنڈ کانام آیا تووہ ''مائنڈ ''یاشعبدہ بازی سے بھرپورپریس کانفرنس نہیں کرے گا۔شہریوں کاپیسہ ان کی تعلیم اورصحت پرصرف کرنے کی بجائے مخصوص شاہراہوں پرجھونک دیاجاتا ہے۔ ''اب کیا ہوگیا''اس جملے کوہم لوگ ہرمجلس میں کئی بار دہراتے ہیں ہرکوئی اپنے اپنے اندازمیں تجزیہ پیش کرتا ہے۔ہمارے توموچی بھی جوتے مرمت کرتے ہوئے حکمرانوں کی مرمت اورمذمت کرتے ہیں۔حکومت بنانا،بگاڑنااورتوڑنایہ وہ خاص کام ہے جوہماراعام آدمی بھی اپنی گلی اوراپنے چوک میں بیٹھے بیٹھے شب وروز کئی بارکرتا ہے۔ہمارے شیخ رشید کوشیخ تاریخ بھی کہاجاسکتا ہے ،وہ بھی بہت شوق سے حکومت جانے کی تاریخ دیتے ہیں اوراگراس تاریخ پرحکومت نہ جائے توموصوف شرمندہ ہونے کی بجائے بیٹھے بیٹھے نیازائچہ بنادیتے ہیں ۔ہمارے کچھ میڈیاگروپ بھی صحافت نہیں سیاست کررہے ہیں،انہیں حکومت گرانے اورحکومت بچانے کازعم ہے،رحمن کو انسان کے ایمان کاامتحان مقصود ہوتو شیطان کوڈھیل دے دی جاتی ہے۔جوباشعور شہری پانچ سال بعد بھی ووٹ کاسٹ نہیں کرتے وہ اس نام نہادجمہوری نظام پردوسروں سے زیادہ تنقید کرتے بلکہ شورمچاتے ہیں۔ بے یقینی اوربے چینی کے باوجودسینیٹ انتخابات اپنے مقررہ وقت ہوگئے۔مختلف شہروں میں ضمنی انتخابات بھی ہورہے ہیں اوراس میں حکمران جماعت کے امیدواروں کوکامیابی نصیب ہوئی ہے ،ہماری سیاسی روایات کے مطابق ضمنی الیکشن میں حکمران جماعت کی کامیابی کاامکان نناوے فیصد ہوتا ہے ۔پنجاب میں ہو نیوالے ضمنی الیکشن اورسینیٹ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے حامی امیدواروں نے کامیابی سمیٹ لی ،پھراس سازش کاکیاہواجومسلم لیگ (ن) کی قیادت کے خیال میں ان کیخلاف کی گئی ہے۔وہ سیاسی انتقام کہاں گیا جونوازشریف اوران کے بچوں سے لیا جارہا ہے،نوازشریف سے سیاسی انتقام توڈکٹیٹرپرویزمشرف نے بھی نہیں لیا تھاورنہ وہ جیل سے ایک ڈیل کے تحت جلاوطنی کیلئے جدہ کے سرورمحل نہ جاتے ۔ میں مادروطن کی اسٹیبلشمنٹ کو اس قدر کمزوراوربے بس نہیں سمجھتا کہ وہ جس جماعت کیخلاف سازش کرے اوراس کے امیدوارمسلسل کامیاب ہوتے رہیں،مسلم لیگ (ن) کی حالیہ کامیابیوں نے اس کیخلاف سازشوں کاپروپیگنڈا دم توڑگیا ۔ مسلم لیگ (ن) نے سینیٹ الیکشن میں حکمران اتحاد کی ناکامی کے بعدبھی نادیدہ قوتوں کے کردارپر طعنہ زنی شروع کردی ہے مگر میں نے تو عمران خان یاآصف علی زرداری میں سے کسی کے پاس نریندرمودی اورجندال توآتے جاتے نہیں دیکھا۔اپنے اداروں سے وفانہیں بیرونی حکمرانوں سے وفاداری اوردوستی کادم بھرناسوالیہ نشان ہے۔

Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 173 Articles with 139791 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.