ماضی کا درفش کاوہ اور آج کی زینبی ترمیم

اہل فن کے تیشوں سے چٹانوں پہ کندہ تاریخ بتاتی ہے کہ سر زمین فارس موجودہ ایران پہ ایک ضحاک نامی بادشاہ جس نے جبر و استبداد کی تاریخ معصوم جانوں کے خون سے تحریر کی۔ اپنے کندھوں کے ابھار میں پھوڑوں کا شکار ہؤا۔ جو اس کے لئے اذیت ناک صورت اختیار کر گئے۔ تاجداری کے قرب کے کسی شائق نے مشورہ دیا کہ ان زخموں پہ انسانی مغز کا مرہم لگایا جائے تو وہ آرام پائے گا۔ جلاد کو حکم ہؤا تو کٹ کٹ کے گرتی ابنائے آدم کی گردنیں استراحت کا سامان مہیا کرنے لگیں۔ یاد رہے یہ وہی ضحاک تھا جس نے شہرہ آفاق بادشاہ جمشید کو مغلوب کر کے آرے سے اس کے دو ٹکڑے کروا دیے تھے۔ تازیانے مارنا اور دار پہ لٹکانا اس کا مقبول مشغلہ تھا۔ اس سفاک کی حکومت میں شام کے وقت گلی کوچے ویران ہو جایا کرتے تھے کہ یہی وقت تھا جب جلاد انسانی خون کی بْو سونگھتے پھرتے تھے۔ ان کے نزدیک انسانی کھوپڑی ایک شفا کی پْڑیا کی مانند تھی۔

ضحاک کا ایک خوان سالار تھا دو انسانوں کے مغز روزانہ کی بنیادوں پہ حاصل کرنا اس کے فرائض میں شامل تھا۔ خون ناحق سے ہاتھ رنگنے پہ اس کا دل ملامت کرتا تھا جس کے سبب حصول مغز کے لئے لائے گئے دو آدم زادوں میں سے ایک کو چھوڑ کر پہاڑوں کی جانب رات کی تاریکی میں فرار کرا دیتا۔ موت کے پنجوں سے آزاد ہو کر پہاڑوں کے دامن میں پناہ گزین بعد میں کْرد کہلائے۔

موت کا یہ کھیل جاری تھا کہ اصفہان کے گورنر نے کاوہ نامی لوہار کے دو بیٹے گرفتار کر کے اسی مقصد کے لئے بادشاہ کی خدمت میں بھیجے ان کے قتل کی خبر جب کاوہ کو ہوئی تو اس نے اپنی دھونکنی اٹھائی اور ایک چوراہے میں آ کے کھڑا ہو گیا۔ ( دھونکنی کھال کی تھیلی جس سے ہوا بھر کر قلعی گر آگ بھڑکاتے ہیں ) اپنی دھونکنی کو لکڑی پر باندھ کر بلند کرتا کہتا ،، اے لوگو شباب کو چْھوتے میرے بیٹے تو قربان ہو گئے ہیں لیکن آپ اس تا حیات رستے زخم سے محفوظ ہونے کے لئے بیدار ہو جاؤ۔ میں تو ایک غریب لوہار ہوں مجھے کونسا بادشاہ بننے کا لالچ ہو سکتا ہے۔ ( دھونکنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ) یہ آزادی کا علم ہے جو ضحاک کے خونین پنجوں سے اپنے جگر گوشوں کی امان چاہتا ہے وہ اس جھنڈے تلے آ جائے‘ ظلم و ستم کے پاٹوں میں پستے انسانوں کو یہ کمزور صدا بھی باد نسیم کا جھونکا لگی۔ انسان کْشی سے تنگ آئے لوگ جوق در جوق اس جھنڈے تلے جمع ہونے لگے۔ آزادی خواہوں کے بپھرے ہجوم نے اصفہان کے گورنر کوموت کے گھاٹ اتاردیا اور کاوہ نے خزانے کو سب میں تقسیم کر دیا۔ اس کے بعد اہواز کا رْخ کیا اہواز کا گورنر بھی تہ تیغ ہؤا اور اہل اہواز نے کاوہ کی ہاں میں ہاں ملائی۔ شہر در شہر صدائے آزادی مقبول ہونے لگی۔ تو ضحاک نے آزادی کے متوالوں کو کْچلنے کے لئے ایک لشکر جرار بھیجا۔ ضحاک کی کارستانیوں سے بددل لشکر کا مقدر شکست خوردگی ٹھہری۔ تحریک حریت کا جوش اس وقت دوبالا ہو گیا جب جمشید کی اولاد سے زندہ بچ جانے والا فریدوں جو جان بچانے کی خاطر مارا مارا پھرتا تھا۔ تاریخی شہر رے میں کاوہ سے اسکی ملاقات ہو گئی۔ فریدوں نے لشکر آزادی کو منظم کیا کاوہ کو سپہ سالار مقرر کیا اور ضحاک کو عبرتناک شکست سے دوچار کیا۔ لوہار کی دھونکنی سے بننے والا علم آزادی درفش کاوہ کہلایا۔ (درفش جھنڈے کو کہتے ہیں )۔

فریدوں جب کسی مہم پہ روانہ ہوتا کاویانی جھنڈا اس کے ساتھ ہوتا۔یہ علم ایرانی تاجداروں کی طاقت کی علامت بن گیا۔ اس پر بیش بہا جواہرات ٹانکے گئے جن کی چکا چوند آنکھوں کو خیرہ کرتی تھی۔ نسل در نسل بادشاہ در بادشاہ ایرانیوں نے اس علم کو سنبھالا۔ جب فتح میں اشکال ہوتا تو یہ علم میادین جنگ میں جوانوں کے ولولے کو ہوا دینے کا کردار بخوبی نباہتا۔ فریدوں پہلا بادشاہ ہے جس نے ہاتھی کو سواری کے لئے مفتوح کیا۔ علم ہئیت و طب میں مہارت کے حامل فریدوں نے عدل و انصاف کو اپنا شیوہ بنایا۔ تریاق کی ایجاد کا سہرا بھی اسی کے سر جاتا ہے۔ مغرب میں روم سے لے کر مشرق میں چین و ترکستان تک اور عراق سے حجاز تک فریدوں کے زیر تسلط تھے۔

چار جنوری کا سورج سرخ نقاب میں منہ چھپائے پچھمی افق میں ڈبکی لگانے سے پہلے سطح ارض پہ آخری نظر ڈال رہا تھا جب لائبہ اپنی ننھی بہنازینب کو وضو کی طہارتوں سے آراستہ کر رہی تھی۔ رنگین پونی پہناتی آپی کو الوداع کہتی مْنمنی سی گڑیا نے ادھر کلام مقدس کے انوار سے منور ہونے کے لئے راہ خدا پہ قدم دھرے اْدھر خباثتوں میں لتھڑے شیطان صفت نے ابلیسی کچھار میں گھات لگائی۔ ہائے کیسے ننھی معصوم مزاحمتوں نے سفاک شیطان کی بربریت کا راستہ روکنے کی کوشش کی ہو گی۔ ہائے کرب کے دلدل میں پھنسی اْس ماں پر کیا بیتی ہو گی جس کو جب بتایا گیا ہو گا کہ تیری ننھی زینب آج گھر واپس نہیں آئی۔ طرح طرح کے واہموں کی شکار مامتا کو جب یہ خیال آیا کہ اکثررات کو خشک ہونٹوں پہ زبان پھیرتی گڑیا پانی مانگا کرتی تھی، بلبلا اٹھی یہ سوچ کر میری لخت جگر کو پتہ نہیں پانی بھی کسی نے پلایا یا نہیں، مضمحل ذہن کے پردے پہ منقش اس رات کا منظر اس کی نم آلود آنکھوں کے سامنے لہرا گیا جب اس کو دوبار آپریشنز کی اذیتوں سے گزارا گیا تھا تب جا کے اس کی کوکھ سے چمٹی گوہر رحمت اس دنیا میں آئی، شکم مادر سے نومولود کی فرقت کے سوگ میں ایسی ڈوبی کہ پندرہ روزتک وینٹیلیٹر نامی بستر علالت پہ حیات و موت کی کشمکش میں مبتلا رہی۔ کاش ننھی مقدس آرزو کو مان کر ساتھ لے آتی۔ رہ رہ کے اسے یاد آتا تھا جب توتلے لفظوں نے لمحہ بھر کو اس کے سفر روانگی حج کو تاخیر میں ڈال دیا تھا۔ ماما اﷲ میاں سے کہو نا مجھے بھی اپنے گھڑ تمہاڑے ساتھ آنے دے۔ اسی پچھتاوے کی گرفتوں میں مرتی،اذیتوں کی پگڈنڈیوں پہ چڑھتی اترتی، مامتائی بکا گنبد خضرا پہ پھٹ پڑی۔ ایوانوں میں زلزلہ آ گیا کہیں عدلیہ تو کہیں انتظامیہ کہیں خفیہ ہاتھ تو کہیں چیختا میڈیا زینب کا قاتل ڈھونڈنے پل پڑے۔

گنبد احساس میں ایک تلاطم برپا ہے،دل کی تہوں میں حزن و ملال کے موجزن سمندر کو کونسی لفاظی کی زبان عطا کروں کہ یہ ارداس بن کر اْن ایوانوں میں چیخے،جہاں بڑی آسانی سے کہا جا رہا ہے کہ سر عام قاتل کو پھانسی دیے جانے کی قانون میں گنجائش نہیں، پورے پاکستان کی عوام سے رائے لینے کا سروے کر لیا جائے سب کی رائے یہی ہے کہ عبرتناک سزا دی جائے۔ قانون ساز اداروں میں براجمان عوامی مینڈیٹ کی دعویداری بھول گئے کیا؟ ایسا لگتا ہے دیار اغیار کی عوام کے نمائندہ ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کرچی کرچی مامتا کی رائے سے اختلاف کرنے سے پہلے لفظ اسلامی تو ہٹا دیتی۔ آئی جی بلوچستان نے رائے پیش فرمائی کہ سر عام سزا سے بچوں پہ اثر پڑے گا۔ زینب کی تار تار عزت کی جزئیات تک کو میڈیا پہ بیان کیا گیا تو قوم کے نونہالان پہ اثر اچھا پڑا؟ عدالت عالیہ نے زینب کیس نمٹا کر اپنے تئیں حق ادا کر دیا؟ کیسے یقین کر لیا جائے کہ دس کلو میٹر کی حدود میں نو معصوم جانیں اکیلے بھیڑیے کی درندگی کا نشانہ بن کر کبھی زیر تعمیر مکانوں میں دانت بھینچتی مر گئیں تو کبھی کچرے کے ڈھیر پہ نوچی ہوئی پائی گئیں۔ گر کر لیں یقین تو ایمان فاطمہ کے ساتھ درندگی کے الزام میں پولیس مقابلے کی بھینٹ چڑھنے والے مبشر کی ماں کے کلیجے میں ٹھنڈ پڑ جائے گی۔کوئی ایسا سد باب کیا گیا کہ احساس تحفظ جنم لے پائے عمران کو چپکے سے پھانسی دینے کی سزا مقام عبرت پہ فائز ہو پائے گی؟

جناب والا، زینب ایک علامت ہے جس نے بڑی بڑی خامشیوں کو زبان عطا کی۔ یہ ماننا پڑے گا کہ ایسے مظالم پہلے بھی ہو رہے تھے لیکن نہ ایوان کی تقدیس ٹھٹکی نہ مسند نشین بے چین ہوئے۔ تو کیوں نہ درفش کاوہ کی طرح ایک آئینی ترمیم کو زینب سے موسوم کر کے عمران علی کو ایسی بھیانک سزا سر عام دی جائے کہ کوئی درندہ ایسی درندگی کرنے سے پہلے ہزاروں بار سوچے ، اور زینبی ترمیم عبرت کا مینار بن کر تاریخ کے سینے پہ کندہ ہو جائے گر ایسا نہ ہؤا تو بقول راحت اندھوری
جو جرم کرتے ہیں اتنے بْرے نہیں ہوتے
سزا نہ دے کے عدالت بگاڑ دیتی ہے

افسوس تیسری بار وزارت عظمیٰ، انتخابی اصلاحات سب کو مرضی سے موڑا جا سکتا ہے لیکن آج کے ضحاکوں کو ابدان انسانی کے نوچنے سے روکنے کا قانون کوئی نہیں

Mukhtar Hussain
About the Author: Mukhtar Hussain Read More Articles by Mukhtar Hussain: 6 Articles with 4592 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.