اندھا راستہ

منہ پر چادر لپیٹے تیز تیز قدموں سے چلتی آج کسی طرح وہ پچھتر سال کی بڑھیا نہیں لگ رہی تھی. آج اس کے قدموں کی تیزی کی وجہ بہو سے ہونے والی تازہ ترین لڑائی بھی تهی. رہ رہ کر اس کے اندر نفرت کا بهانبڑ دہکتا. آج تو ایسا جادو ٹونا اس کمبخت پر کرواؤں گئیں کہ کم بخت خون تهوک تهوک کر مر جائے گی.
ابھی پچھلے ہفتے ہی تو اس کی سہیلی نے بڑے مزے سے بتایا کہ آخر کار اس کے بیٹے نے اس کی بہو کو طلاق دے ہی دی. بہت اصرار کرنے کے بعد اس نے یہ عقدہ کهولا کہ یہ سارا کمال اس کالے جادو کا ہے جو اس نے ایک کاریگر سے کروایا تھا. مبلغ دو لاکھ روپے میں اس کی برسوں کی مشکلات حل ہوگئیں.
نفیسہ بیگم نے ہولے سے اپنی دوست کو کہا مگر جادو کرنے والا اور کروانے والا دونوں اسلام سے خارج ہو جاتے ہیں. تو نور بیگم نے آنکھیں چمکا کر کہا :
اللہ معاف کرنے والا ہے. "
نفیسہ بیگم پچھلے کئی دنوں سے نماز کے دوران بھی یک سوئی سے عاری ہوگئ تهیں اس کا دماغ مسلسل نور بیگم کے مشورے پر غور کررہا تھا
وہ سوچتی میں ایسا کیا غلط سوچ رہی ہوں.
"رحمان میں شادی کے بعد ہی سارا بدلاو آیا ہے. اس کمبخت چڑیل نے میرے سیدھے سادے بیٹے کو کوئی ایسی پٹی پڑهائی ہے کہ اب میرے بیٹے کا دل بہن بهائیوں سے ملنے کو ہی نہیں کرتا. پہلے جب بہنیں میکے آکر مہینہ مہینہ رہتی تهیں تو خود اور روکتا تھا. ہر وقت ان کو بهرے ہاتھوں سے رخصت کرتا تھا، مگر اس کلموہی کہ آنے اور پانچ بچوں کی پیدائش کے بعد سے تو ہر وقت رحمان کو اپنے بیوی بچوں کی فکر لگی رہتی ہے. اب تو بہنوں کے بهی ایک ہفتے سے زیادہ رہنے پر اسے اعتراض ہوتا ہے. رحمان کو بلڈ پریشر اور شوگر جیسے امراض بهی اس بلا کے ساتھ رہنے سے ہوئے ہیں."
انهی فتنہ پرور سوچوں میں وه اس جادوگر کے ٹهکانے پر پہنچ گئی. اچانک اس کو یاد آیا کہ آج جمعرات تهی اور اس کی سہیلی نے بتایا تھا کہ وہ جمعرات کے روز عملیات کرنے کے باعث کسی سے نہیں ملتا. مگر اس نے سوچا کہ اب اتنی دور آگئی ہے تو ملنے کی کوشش کرنے میں کیا حرج ہے.
دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی تو ایک ناگوار سی بدبو نے اس کا استقبال کیا اس کے زہن میں اچانک چرس کا خیال آیا. کمرے میں سے باتیں کرنے کی آوازیں آرہی تهیں دستک دینے کے ارادے سے ہاتھ اٹھایا تو ٹهٹک گئی.
اندر سے ایک آدمی دوسرے کو کہ رہا تھا
"وه نور بیگم اور اس کے بیٹے بہو کو ہفتہ وار خرچہ بهجوا دیا تھا. "
دوسرے آدمی نے کہا :
"استاد! ان کی وجہ سے تو ہمارا کام آسان ہے. وه گھر گھر پهر کر ہمارے لئے شکار ڈهونڈتی ہے ان کو ہماری طرف بهیجتی ہے. اس کی بہو دوسری بہوئوں سے مل کر انہیں ہماری طرف بهیجتی ہے. گویا ایک وقت میں سارا خاندان ایک دوسرے پر ہی جادو کروا رہا ہوتا ہے اور ہم لوگوں کی چاندی ہوجاتی ہے"
نفیسہ بیگم نے بےاختیار دروازے کی درز پر آنکھ لگا کر دیکھا .ان دونوں آدمیوں کے آگے بچے ہوئے نان کباب پڑهے تهے. دونوں آدمی تہبند پہنے نیم دراز سگریٹ کے سوٹے لگا رہے تھے.
جس شخص کو استاد کرکے مخاطب کیا گیا تھا. اب کی دفعہ وہ بولا :
ویسے نفیسہ کی بہو بڑی سمجھدار نکلی شمع کے لاکھ اکسانے پر وه ساس کے اوپر جادو کروانے کے لیے راضی نہ ہوئی. سنا ہے کہ پانچ بچوں کے بعد بھی وہ حسین ہے اگر ایک دفعہ ہمارے آستانہ پر قدم رکھ لیتی تو اس سے مستفید ہوئے بغیر ہم نے اسے کہاں جانے دینا تھا. مگر اس کی وه بے وقوف اور شکی جھکی ساس
اب دیکھنا ایک دو روز تک وہ نور کی دوست نفیسہ جو ہر وقت لوگوں کے سامنے اپنی عبادت کے باعث نیک مشہور ہے مگر دل میں اس عورت کے لئے جو اس کی اکلوتی بہو ہے جس کے باعث اس کا خاندان بڑها ہے اسی سے وہ نفرت رکھتی ہے جو کوئی اور نہیں
اس کے اپنے گھر کا ایک
اہم
فرد" ہے.
وہ ضرور
اپنی بہو پر جادو ٹونا کروانے آئیگی. یہ عورتیں اپنے بیٹوں سے اتنا پیار نہیں کرتیں جتنا اپنی بہووں سے نفرت کرتی ہیں. جب ان کی بیٹیاں سسرال کی شکایات لے کر آتی ہیں تو یہ نہ صرف ان کے سسرال والوں کے مزاج ٹهکانے لگاتی ہیں بلکہ دامادوں کو بھی چاند تارے دکھا دیتی ہیں. مگر بہو تو غلام ہے. اس کی ضروریات کا خیال اگر بیٹا رکھے تو زن مرید اور اگر داماد بیٹی کا خیال رکھے تو وہ فرض. دونوں نے مل کر اس بات پر ایک مکروہ قہقہہ لگایا.
نفیسہ بیگم کا پورا جسم سن ہوگیا تھا اور جسم کا ہر مسام پسینہ اگل رہا تھا.
اس نے بڑی مشکل سے اپنے آپ کو گھسیٹا اور گھر پہنچی. آج اسے آنگن میں بہو نہیں بلکہ بیٹی نظر آئی. اس نے سالوں کے بعد اسے صالحہ بیٹا کر کے پکارا اور گلے سے ایک عزم کے ساتھ لگایا. یہی بہو تو اس کی حقیقی بیٹی ہے.چهوٹی موٹی غلطیاں معاف کر کے چهوٹوں کو گلے لگانے میں بڑوں کی بڑائی ہے.وه دل ہی دل میں اللہ سے معافی کی طلب گار تهیں.آج برسوں بعدہی سہی مگر حقیقت کی ان کو پہچان ہوگئی. بہووں سے گهر درحقیقت گهر بنتے ہیں. اپنا سب کچھ چھوڑ کر آنے والی بہو کو کشادہ دل اور کهلی باہوں سے اپنانا چاہیے. آپ کا کیا خیال ہے؟

Mona Shehzad
About the Author: Mona Shehzad Read More Articles by Mona Shehzad: 168 Articles with 281049 views I used to write with my maiden name during my student life. After marriage we came to Canada, I got occupied in making and bringing up of my family. .. View More