ہمارے دور کے اکثر حکمران امیر ضرور ہیں لیکن یہ نہیں کہا
جاسکتا کہ وہ دنیا کے امیر ترین حکمران ہیں لیکن برصغیر پاک و ہند میں ایک
ایسا حکمران بھی گزرا ہے جو اپنے دور کا دنیا کا امیر ترین انسان تھا۔اس
حکمران کا نام نظام سر میر عثمان علی خان صدیقی بہادر تھا.نظام سر میر
عثمان علی خان صدیقی کا تعلق حیدرآباد دکن سے تھا۔یہ 6 اپریل 1886ء کو
پیدا ہوا اور اس کا انتقال24فروری 1967ءکو ہوا۔یہ 1911ءسے1948ءتک حیدرآباد
دکن کا حکمران رہا لیکن بھارت کے قیام کے بعد جب نئے ملک نے جاگیردارانہ
نظام اور مقامی ریاستیں ختم کیں تو انہیں کیں تو انہیں 26جنوری1950ءکو
حیدرآباد ریاست کا راج پر مکھ بنا دیا گیا۔
یہ عہدہ ان کے پاس 31اکتوبر 1956ءتک رہا لیکن اس کے بعد ریاست حیدرآباد کو
لسانی بنیادوں پر آندھیرا پردیش،کرناٹکا اور مہارشٹرا میں بانٹ دیا گیا
اور ان کی رہی سہی سلطنت کا بھی خاتمہ ہوا۔اپنے عروج کے دنوں یعنی 1940ءسے
قبل نظام عثمان علی خان کی دولت کا اندازہ 2ارب ڈالر لگایا گیا تھاجو آج
کے 344ارب ڈالر بنتے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت متحدہ ہندوستان
کاسالانہ ریونیو ایک ارب ڈالر تھا جبکہ نظام دکن کی دولت اس وقت کی امریکی
معیشت کا دو فیصد تھی۔22فروری1937ءمیں مشہور زمانہ ’ٹائم میگزین‘ نے ایک
شمارہ شائع کیا جس میں بتایا گیا کہ نظام عثمان علی دنیا کی امیر ترین
شخصیت ہیں۔کہا جاتا ہے کہ اپنی موت کے سال 1967ءتک نظام عثمان جنوبی
ایشیاءکے امیر ترین انسان تھے۔ان کی دولت کا ذریعہ ریاست حیدرآباد میں وہ
ہیرے کی کانیں تھیں جن سے انیسویں صدی میں پوری دنیا کو ہیرے سپلائی کئے
جاتے تھے۔ ریاست حیدرآباد برصغیر کی سب سے بڑے ریاست تھی اور اس کا رقبہ
دو لاکھ 23ہزا مربع کلومیٹر تھا جو کہ یو کے کے برابر ہے۔نظام عثمان نے
دہلی میں حیدرآباد ہاؤس کے نام سے ایک شاندار محل بھی تعمیر کیا تھا اور
یہ آج کل حکومت بھارت کے زیر استعمال ہے۔انہوں نےاپنی ریاست میں کئی
شاندار کام کئے جن میں بجلی کی رسائی، سڑکیں، ریلوے اور اسی طرح کے کئی
ترقیاتی کام شامل ہیں۔نظام نے 1941ءمیں اپنا ایک بینک بھی شروع کیا جس کا
نام حیدرآباد سٹیٹ بینک رکھا گیا اورآج کل اس کا نام سٹیٹ بینک آف
حیدرآبادہے۔ حیدرآباد ہندوستان کی واحد ریاست تھی جہاں نظام نے اپنی
کرنسی بھی متعارف کروائی تھی اور اس کانام’عثمانیہ سکہ‘ تھا۔برطانوی دور
میں صرف ریاست حیدرآباد کو اجازت تھی کہ اپنا کرنسی نوٹ جاری کرے
اور1918ءمیں ریاست نے 100روپے کا نوٹ بھی جاری کیا۔ نظام عثمان کی وصیت کے
مطابق انہیں ’جودی مسجد‘ میں دفن کیا گیا اور ان کے انتقال سے ایک عظیم دور
اپنے اختتام کو پہنچا۔ |