میلاد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ کرام ومحدثین حصہ یاز دھم - گیارھواں

’’منجملہ ان مقدس اَیام کے جو مسلمانوں کے لیے مقدس کیے گئے ہیں ایک میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دن بھی ہے۔ میرے نزدیک انسانوں کی دماغی و قلبی تربیت کے لیے نہایت ضروری ہے کہ ان کے عقیدے کی رُو سے زندگی کا جو نمونہ بہترین ہوا وہ ہر وقت ان کے سامنے رہے۔ چنانچہ مسلمانوں کے لیے اِسی وجہ سے ضروری ہے کہ وہ اُسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مدنظر رکھیں تاکہ جذبۂ تقلید اور جذبۂ عمل قائم رہے۔ ان جذبات کو قائم رکھنے کے تین طریقے ہیں :

1۔ پہلا طریق تو درود و صلوٰۃ ہے جو مسلمانوں کی زندگی کا جزو لاینفک ہوچکا ہے۔ وہ ہر وقت درود پڑھنے کے موقع نکالتے ہیں۔ عرب کے متعلق میں نے سنا کہ اگر کہیں بازار میں دو آدمی لڑ پڑتے ہیں اور تیسرا بہ آوازِ بلند اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَيّدِنَا وَبَارِکْ وَسَلِّمْ پڑھ دیتا ہے تو لڑائی فوراً رک جاتی ہے، اور متخاصمین ایک دوسرے پر ہاتھ اٹھانے سے فوراً باز آجاتے ہیں۔ یہ درود کا اثر ہے اور لازم ہے کہ جس پر درود پڑھا جائے اس کی یاد قلوب کے اندر اپنا اثر پیدا کرے۔

2۔ پہلا طریق اِنفرادی دوسرا اِجتماعی ہے۔ یعنی مسلمان کثیر تعداد میں جمع ہوں اور ایک شخص جو حضور آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوانح حیات سے پوری طرح باخبر ہو، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سوانح زندگی بیان کرے تاکہ ان کی تقلید کا ذوق شوق مسلمانوں کے قلوب میں پیدا ہو۔ اس طریق پر عمل پیرا ہونے کے لیے آج ہم سب یہاں جمع ہوئے ہیں۔

3۔ تیسرا طریق اگرچہ مشکل ہے لیکن بہ ہر حال اس کا بیان کرنا نہایت ضروری ہے۔ وہ طریقہ یہ ہے کہ یادِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِس کثرت سے اور ایسے انداز میں کی جائے کہ انسان کا قلب نبوت کے مختلف پہلؤں کا خود مظہر ہوجائے یعنی آج سے تیرہ سو سال پہلے جو کیفیت حضور سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجودِ مقدس سے ہویدا تھی، وہ آج بھی تمہارے قلوب کے اندر پیدا ہو جائے۔
(فرمان مرد قلندرشاعرِ مشرق حکیم الامت علامہ محمد اِقبال (1877۔ 1938ء)، آثارِ اِقبال : 306،307 غلام دستگير رشيد،

’’ہمارے نبی و آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد شریف کے دلائل کے بارے میں پوچھنے والو اے علماء! جان لو کہ محفلِ میلاد شریف ایسی آیات و صحیح احادیث کے بیان پر مشتمل ہوتی ہے جن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کمالِ شان پر دلالت ہوتی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت، معراج، معجزات اور وصال کے واقعات کا بیان ہوتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کرنا ہمیشہ سے بزرگانِ دین کی سنت رہی ہے اور صرف غافلین نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر سے غفلت برتی ہے۔ پس تمہارا اِنکار ہٹ دھرمی پر مبنی ہے۔
’’اثبات المولد والقیام، شاہ احمد سعید مجددی دہلوی (م 1860ء)

’’سیدنا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت شریف کا ذکر صحیح روایت سے ان اوقات میں جو عباداتِ واجبہ سے خالی ہوں، ان کیفیات سے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور ان اہلِ قرونِ ثلاثہ کے طریقے کے خلاف نہ ہوں جن کے خیر ہونے کی شہادت حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دی ہے، ان عقیدوں سے جو شرک و بدعت کے موہم نہ ہوں، ان آداب کے ساتھ جو صحابہ کی اس سیرت کے مخالف نہ ہوں جو حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اِرشاد ما انا علیہ واصحابی۔ کی مصداق ہے ان مجالس میں جو منکراتِ شرعیہ سے خالی ہوں سببِ خیر و برکت ہے۔ بشرطیکہ صدقِ نیت اور اخلاص اور اس عقیدہ سے کیا جاوے کہ یہ بھی منجملہ دیگر اَذکارِ حسنہ کے ذکرِ حسن ہے، کسی وقت کے ساتھ مخصوص نہیں۔ پس جو ایسا ہوگا تو ہمارے علم میں کوئی مسلمان بھی اس کے ناجائز یا بدعت ہونے کا حکم نہ دے گا۔
المهند علي المفند : 61، 62 ،احمد علی سہارن پوری دیوبندی (م 1297ھ)

میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی منانے پر تو ایک کافر بھی جزا سے محروم نہیں رہتا، توحید پرست مسلمان کو ملنے والے اَجر و ثواب کا کیا عالم ہوگا۔ میلاد شریف منانے والے کے نیک مقاصد اور دلی خواہشات جلد پایہ تکمیل تک پہنچتی ہیں۔
السیرۃ النبویۃ (1 : 53، 54)‘‘ سید اَحمد بن زینی دحلان حسنی ہاشمی قرشی (1233۔ 1304ھ)

’’مولد شریف تمام اہل حرمین کرتے ہیں، اسی قدر ہمارے واسطے حجت کافی ہے۔ اور حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کیسے مذموم ہو سکتا ہے! البتہ جو زیادتیاں لوگوں نے اِختراع کی ہیں نہ چاہئیں۔ اور قیام کے بارے میں کچھ نہیں کہتا۔ ہاں، مجھ کو ایک کیفیت قیام میں حاصل ہوتی ہے۔
شمائم اِمداديه : 47 حاجی اِمداد اﷲ مہاجر مکی (1233۔ 1317ھ)

ہمارے علماء مولد شریف میں بہت تنازعہ کرتے ہیں۔ تاہم علماء جواز کی طرف بھی گئے ہیں۔ جب صورت جواز کی موجود ہے پھر کیوں ایسا تشدد کرتے ہیں؟ اور ہمارے واسطے اِتباعِ حرمین کافی ہے۔ البتہ وقتِ قیام کے اِعتقاد تولد کا نہ کرنا چاہیے۔ اگر اِہتمام تشریف آوری کا کیا جائے تو مضائقہ نہیں کیوں کہ عالم خلق مقید بہ زمان و مکان ہے لیکن عالم اَمر دونوں سے پاک ہے۔ پس قدم رنجہ فرمانا ذاتِ بابرکات کا بعید نہیں۔
اِمداد المشتاق اِلیٰ اشرف الاخلاق (ص : 52، 53، اشرف علی تھانوی

’’رہا یہ عقیدہ کہ مجلسِ مولود میں حضور پُر نور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رونق افروز ہوتے ہیں، تو اس عقیدہ کو کفر و شرک کہنا حد سے بڑھنا ہے۔ یہ بات عقلاً و نقلاً ممکن ہے، بلکہ بعض مقامات پر واقع ہو بھی جاتی ہے۔ اگر کوئی یہ شبہ کرے کہ حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کیسے علم ہوا، آپ کئی جگہ کیسے تشریف فرما ہوئے، تو یہ شبہ بہت کمزور شبہ ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم و روحانیت کی وسعت کے آگے۔ جو صحیح روایات سے اور اہلِ کشف کے مشاہدے سے ثابت ہے۔ یہ ادنیٰ سی بات ہے۔
فيصله هفت مسئله : 6، حضرت اِمداد اﷲ مہاجر مکی

’’فقیر کا مشرب یہ ہے کہ محفل مولود میں شریک ہوتا ہوں، بلکہ برکات کا ذریعہ سمجھ کر ہر سال منعقد کرتا ہوں اور قیام میں لطف اور لذت پاتا ہوں۔
فيصله هفت مسئله : 7، حضرت اِمداد اﷲ مہاجر مکی

’’ایسے ہی لوگوں کو سماع، غناء یا مزا میر یا محفلِ میلاد منعقد کرنے یا مروّجہ فاتحہ پڑھنے پر ڈانٹ ڈپٹ کرنے سے یا اُن کے فسق یا اُن کے کفر پر ڈانٹ ڈپٹ کرنا اور تشدد کرنا نیکی کی بجائے گناہ حاصل کرنا ہے۔
هدية المهدي من الفقه المحمدي : 118، 119، مشہور غیر مقلد نواب وحید الزماں (م 1920ء)

’’اس مقام پر ہر چند کہ آیت کے سباق پر نظر کرنے کے اعتبار سے قرآن مجید مراد ہے لیکن اگر ایسے معنی عام لیے جائیں کہ قرآن مجید بھی اس کا ایک فرد رہے تو یہ زیادہ بہتر ہے۔ وہ یہ کہ فضل اور رحمت سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدوم مبارک لیے جائیں۔ اس تفسیر کے موافق جتنی نعمتیں اور رحمتیں ہیں خواہ وہ دینی ہوں یا دنیوی اور ان میں قرآن بھی ہے سب اس میں داخل ہو جائے گی۔ اس لیے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجود باجود اصل ہے تمام نعمتوں کی اور مادہ ہے تمام رحمتوں اور فضل کا۔ پس یہ تفسیر اَجمع التفاسیر ہو جائے گی۔ پس اس تفسیر کی بنا پر اس آیت کا حاصل یہ ہوگا کہ ہم کو حق تعالیٰ ارشاد فرما رہے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود باجود پر خواہ وجودِ نوری ہو یا ولادتِ ظاہری، اس پر خوش ہونا چاہئے۔ اس لیے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے لیے تمام نعمتوں کے واسطہ ہیں۔ (دوسری عام نعمتوں کے علاوہ) افضل نعمت اور سب سے بڑی دولت ایمان ہے جس کا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہم کو پہنچنا بالکل ظاہر ہے۔ غرض اصل الاصول تمام مواد فضل و رحمت کی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بابرکات ہوئی۔ پس ایسی ذات بابرکات کے وجود پر جس قدر بھی خوشی اور فرح ہو کم ہے۔
خطباتِ ميلاد النبي صلي الله عليه وآله وسلم : 64، 65، اشرف علی تھانوی

’’میرا کئی سال تک یہ معمول رہا کہ یہ جو مبارک زمانہ ہے جس کا نام ربیع الاول کا مہینہ ہے، جس کی فضیلت کو ایک عاشق ملا علی قاری نے اس عنوان سے ظاہر کیا ہے :
لهذا الشهر في الإسلام فضل
منقبته تفوق علي الشهور
ربيع في ربيع في ربيع
ونور فوق نور فوق نور
(اِسلام میں اس ماہ کی بڑی فضیلت ہے اور تمام مہینوں پر اس کی تعریف کو فضیلت ہے۔ بہار اندر بہار اندر بہار ہے اور نور بالائے نور بالائے نور ہے۔)

’’تو جب یہ مبارک مہینہ آتا تھا تو میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وہ فضائل جن کا خاص تعلق ولادتِ شریفہ سے ہوتا تھا مختصر طور پر بیان کرتا تھا مگر اِلتزام کے طور پر نہیں کیوں کہ التزام میں تو علماء کو کلام ہے۔ بلکہ بدوں اِلتزام کے دو وجہ سے :
’’ایک یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر فی نفسہ طاعت و موجبِ برکت ہے۔
’’دوسرے اس وجہ سے کہ لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ ہم لوگ جو مجالسِ موالید کی ممانعت کرتے ہیں تو وہ ممانعت نفسِ ذکر کی وجہ سے نہیں۔ نفسِ ذکر کو تو ہم لوگ طاعت سمجھتے ہیں بلکہ محض منکرات و مفاسد کے اِنضمام کی وجہ سے منع کیا جاتا ہے ورنہ نفسِ ذکر کا تو ہم خود قصد کرتے ہیں۔

’’یہ تو ظاہری وجوہ تھیں۔ بڑی بات یہ تھی کہ اس زمانہ میں اور دنوں سے زیادہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر کو جی چاہا کرتا ہے اور یہ ایک امر طبعی ہے کہ جس زمانہ میں کوئی امر واقع ہوا ہو اس کے آنے سے دل میں اس واقع کی طرف خود بخود خیال ہوا جاتا ہے۔ اور خیال کو یہ حرکت ہونا جب امر طبعی ہے تو زبان سے ذکر ہوجانا کیا مضائقہ ہے۔ یہ تو ایک طبعی بات ہے۔

’تو میرا جو معمول تھا کہ اِس ماہِ مبارک میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل بیان کیا کرتا تھا، وہ دوام کے حد میں تھا، التزام کے طور پر نہ تھا۔ چنانچہ چند سال تک تو میں نے کئی وعظوں میں فضائلِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کیا جن کے نام سب مقفی ہیں : النور، الظھور، السرور، الشذور، الحبور وہاں ایک ذکر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جوکہ اسی سلسلہ میں ہے مقفی نہیں۔ پھر کئی سال سے اس کا اتفاق نہیں ہوا کچھ اسبابِ طبعیہ ایسے مانع ہوئے جن سے یہ معمول ناغہ ہوگیا۔ نیز ایک وجہ یہ بھی تھی کہ لوگ اس معمول سے التزام کا خیال نہ کریں جوکہ خلافِ واقع ہے کیوں کہ میرے اس معمول کی بڑی وجہ صرف یہ تھی ان ایام میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل اور دنوں سے زیادہ یاد آتے تھے نہ کہ اس میں شرعی ضرورت کا اعتقاد یا عمل تھا۔
خطباتِ ميلاد النبي صلي الله عليه وآله وسلم : 190 ، 198، 199‘؛ اشرف علي تهانوي،

’’کیا تم اس کے قائل ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کا ذکر شرعاً قبیح سیئہ، حرام (معاذ اﷲ) ہے یا اور کچھ؟
علمائے دیوبند کا متفقہ جواب:’’حاشا کہ ہم تو کیا کوئی بھی مسلمان ایسا نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت شریفہ کا ذکر بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سواری کے گدھے کے پیشاب کے تذکرہ کو بھی قبیح و بدعتِ سئیہ یا حرام کہے۔ وہ جملہ حالات جنہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ذرا سی بھی نسبت ہے ان کا ذکر ہمارے نزدیک نہایت پسندیدہ اور اعلی درجہ کا مستحب ہے، خواہ ذکر ولادت شریف کا ہو یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بول و براز، نشست و برخاست اور بے داری و خواب کا تذکرہ ہو۔ جیسا کہ ہمارے رسالہ ’’براہین قاطعہ‘‘ میں متعدد جگہ بالصراحت مذکور ہے۔
المهند علي المفند : 60، 61،خلیل احمد سہارن پوری (1269۔ 1346ھ)
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1309649 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.