روایت جو جوڑتی ہے‘ حلیم اور ہماری تہذیب

محرم الحرام اسلامی کیلنڈر کا پہلا مہینہ ہے جو دنیا بھر کے معاشروں میں سنجیدگی‘ خاموشی اور احترام کے ساتھ آتا ہے۔ یہ مہینہ نہ صرف ایک روحانی احساس بیدار کرتا ہے بلکہ ایک گہری سماجی اور ثقافتی یکجہتی کا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔ خاص طور پر 10 محرم جسے یومِ عاشورہ کے طور پر جانا جاتا ہے ایک ایسا دن ہے جب بہت سی روایات زندہ کی جاتی ہیں جن میں اجتماعی کھانوں کی تیاری‘ ہمسایوں سے میل جول اور خدمت خلق کے جذبے کو فروغ دینا شامل ہے۔ ان ہی خوبصورت روایتوں میں سے ایک روایت ’’ حلیم‘‘ بنانے کی ہے جو وقت کے ساتھ نہ صرف برقرار رہی بلکہ نئی نسل میں بھی مقبول ہوتی جا رہی ہے۔
حلیم برصغیر‘ ایران‘ ترکی اور مشرق وسطیٰ کی تہذیبوں میں صدیوں سے پکایا جانے والا ایک روایتی کھانا ہے۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ کئی اجزا کے امتزاج سے تیار کیا جاتا ہے جیسے گوشت‘ گندم‘ دالیں اور مختلف مصالحہ جات۔ اسے دھیمی آنچ پر گھنٹوں پکایا جاتا ہے تاکہ تمام اجزائ نہ صرف نرم ہو جائیں بلکہ ایک دوسرے میں یوں گھل مل جائیں کہ الگ الگ پہچان ممکن نہ رہے۔ یہی بات اس کھانے کو ایک علامتی معنی بھی دیتی ہے: اجتماع‘ یکجہتی اور صبر۔
دس محرم کو حلیم کی تیاری ایک سماجی روایت کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ مختلف شہروں‘ محلوں اور برادریوں میں لوگ مل کر حلیم تیار کرتے ہیں۔ اس عمل میں مرد‘ خواتین اوربچے سب شامل ہوتے ہیں ۔کوئی مصالحہ پیستا ہے‘ کوئی گوشت صاف کرتا ہے‘ کوئی آٹا گوندھتا ہے اور کوئی دیگ کے نیچے آگ جلاتا ہے۔ یہ منظر کسی ایک فرد کی نہیں بلکہ ایک پوری کمیونٹی کے اکٹھے ہونے‘ باہمی تعاون اور محبت کا مظہر ہوتا ہے۔
حلیم کی تیاری میں شامل اجزا بھی اپنی علامتی اہمیت رکھتے ہیں۔ گندم کو صبر اور تسلسل سے جوڑا جاتا ہے‘ گوشت جذبے اور سخی مزاجی کی علامت سمجھا جاتا ہے‘ دالیں مختلف افراد کی نمائندگی کرتی ہیں جو ایک ساتھ مل کر ایک ذائقہ پیدا کرتی ہیں اور مصالحے زندگی کے مختلف رنگوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ ان سب کے ساتھ سب سے اہم جزو محبت ہے جو اس دیگ میں شامل ہر ہاتھ سے آتی ہے اور جس کی خوشبو ہر نوالے میں محسوس ہوتی ہے۔
یہ روایت صرف کھانے تک محدود نہیں بلکہ ایک عمل خدمت بھی ہے۔ اس دن کئی لوگ اپنی روزمرہ مصروفیات سے وقت نکال کر ضرورت مندوں تک کھانا پہنچاتے ہیں اور بعض اوقات گلی محلوں میں دسترخوان بچھا کر سب کو بلا امتیاز مدعو کیا جاتا ہے۔ حلیم صرف جسم کو توانائی دینے والا کھانا نہیں بلکہ دلوں کو جوڑنے والا ذریعہ ہے۔
دور جدید میں جہاں ہم اکثر سوشل میڈیا‘ فاسٹ فوڈ اور تنہائی میں گم ہو چکے ہیں ایسے میں عاشورہ کا حلیم ایک لمحہ فکریہ بن کر آتا ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ کھانا صرف فرد کی ضرورت نہیں بلکہ معاشرتی تعلقات بنانے کا ذریعہ بھی ہو سکتا ہے۔ لوگ گرہوں کی صورت میں چندہ اکٹھا کرتے ہیںجبکہ بعض خاندان پورا سال بچت کرتے ہیں تاکہ عاشورہ کے دن وسیع پیمانے پر حلیم تقسیم کر سکیں۔
اس روایت کا سب سے خوبصورت پہلو یہ ہے کہ اس میں کسی امیر غریب‘ مسلک یا پس منظر کی تفریق نہیں ہوتی۔ ایک ہی دیگ سے سب کو کھلایا جاتا ہے‘ ایک ہی چمچے سے سب کو بانٹا جاتا ہے اور ایک ہی دسترخوان پر سب بیٹھتے ہیں۔ یہ جذبہ ہمیں سکھاتا ہے کہ اتحاد صرف نعروں سے نہیں بلکہ عملی اقدامات سے قائم ہوتا ہے۔
ماضی کے دریچوں میں اگر جھانکا جائے تو کئی لوگ ایسے مناظر یاد کرتے ہیں جب گلی کے نکڑ پر بڑی سی دیگ رکھی ہوتی تھی‘ دھواں اٹھ رہا ہوتا تھا، اور چاروں طرف مہک پھیلی ہوتی تھی۔ بچے قطار میں کھڑے ہوتے‘ خواتین برتن لئے منتظر ہوتیں اور ہر کسی کے چہرے پر ایک عجیب سا سکون ہوتا۔ آج بھی کئی شہروں میں یہ مناظر دہرائے جاتے ہیں البتہ تھوڑے جدید انداز میں۔
عاشورہ کا حلیم صرف ایک روایتی کھانا نہیں، بلکہ ایک زندہ سماجی ثقافت ہے۔ یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ اجتماعی کاوش‘ جذبہ خدمت‘ اور باہمی محبت ہی وہ اقدار ہیں جو کسی بھی معاشرے کی بنیاد بنتی ہیں۔ دیگ سے نکلنے والے ہر نوالے میں صرف گوشت‘ گندم اور دالیں نہیں ہوتیں بلکہ ان میں ایک ایسی اجتماعی روح چھپی ہوتی ہے جو ہمیں ایک دوسرے سے جوڑتی ہے۔ یہی جذبہ‘ یہی خوشبو اور یہی روایت اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ محبت بانٹنے سے کم نہیں ہوتی بلکہ بڑھتی ہے۔


 

Shazia Anwar
About the Author: Shazia Anwar Read More Articles by Shazia Anwar: 2 Articles with 477 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.