خَیْرُ النَّاسِِ مَنْ یَّنْفَعُ النَّاس

خَیْرُ النَّاسِِ مَنْ یَّنْفَعُ النَّاس
لوگوں میں وہ بہتر ہے جو لوگوں کو نفع پہنچائے

محمد یوسف میاں برکاتی

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
ہماری آج کی تحریر ایک حدیث مبارکہ جو ہم نے کنز العمال،ج 8،ص54، جزء: 16، حدیث: 44147 سے لی ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " خَیْرُ النَّاسِِ مَنْ یَّنْفَعُ النَّاس" جس کا مفہوم ہے کہ " تم میں سے بہتر انسان وہ ہے جو دوسرے لوگوں کو نفع پہنچائے " یعنی اپنے کردار اپنے اخلاق اور اپنے ہر ہر عمل سے دوسروں کو فائدہ پہنچانے والا شخص لوگوں میں بہتر ہے ایسے انسان کے لیئے یہ فرمان جاری کیاگیا اب ہم روشنی اس بات پر ڈالیں گے کہ وہ کون کون سی خوبیاں انسان میں ہونی چاہئے کہ جو دوسروں کے لیئے فائدہ مند ہوں یا دوسروں کی بھلائی کے لیئے ایک انسان کیا کچھ کرسکتا ہے اور ہمارے اسلاف نے یہ عمل کس طرح کرکے ہمیں بتایا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں فی زمانہ ایسا یا تو نظر ہی نہیں آتا کہ کوئی شخص ایسا بھی عمل کرتا ہو جو دوسرے کے لیئے فائدے کا سبب ہو یا پھر کم ہی دکھائی دیتا ہے لیکن پہلے زمانے میں لوگ اپنے لیئے کم کرتے ہوئے نظر آتے تھے جبکہ دوسروں کے لیئے زیادہ کرتے تھے اب دوسروں کے لیئے نفع کا سبب بننے اور بھلائی کرنے کے کئی رنگ ہیں کئی طریقے ہیں اس بات کو سمجھنے کے لیئے یہاں ہم ایک واقعہ پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں جہاں ہمیں معلوم ہوگا کہ کس کس طرح سے ہم کسی کے لیئے نفع بخش انسان بن سکتے ہیں اور ہماری ذات سے دوسروں کو کیا اور کس طرح فائدہ ہوسکتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک بزرگ تھے جن کا نام شیخ حسن تھا اور جو بغداد کی جامع مسجد میں پیش امام تھے یعنی نماز پڑھاتے تھے وہ جب بھی نماز سے فارغ ہوتے اور دعا کے لیئے ہاتھ اٹھاتے تو یہ ضرور کہتے کہ یا اللہ میرے شہر کے اس تاجر کی دو بیویوں پر اپنا خاص کرم فرمانا ان دونوں پر خاص کرم کرنا مالک وہاں پر موجود ان کے اکثر شاگرد یہ بات سنتے تو انہیں حیرت ہوتی ایک دن کسی نے پوچھا کیا حضور یہ آپ کس کے لیئے دعا کرتے ہیں نہ خاوند کا پتہ نہ اس کی دو بیویوں کا علم تو بزرگ فرمانے لگے کہ میں دعا رب تعالیٰ کی بارگاہ میں مانگتا ہوں اور رب اس تاجر کو بھی جانتا ہے اور ان دو بیویوں سے بھی واقف ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں لیکن جب شاگردوں نے اسرار کیا تو مجبوراً انہوں نے بتانا شروع کیا وہ فرمانے لگے کہ بغداد شہر میں ایک تاجر رہتا تھا جو بہت مالدار بھی تھا سخی بھی تھا نیک اور اللہ تعالی کا فرمانبردار بھی تھا اس کی بیوی بھی بہت نیک عورت تھی لیکن وہ بے اولاد تھا اس تاجر کو کام کے سلسلے میں کئی کئی دنوں کے لیئے ملک شام جانا پڑتا تھا اس کے دل میں یہ خیال آیا کہ کیوں نہ میں ایک نکاح یہاں بھی کرلوں لہذہ انہوں نے ایک دوسری عورت سے نکاح کیا اور اس عورت کو یہاں ایک گھر بھی لیکر دیا روپے پیسے کی کوئی کمی تو تھی نہیں لیکن اپنی پہلی بیوی کو بتا نہ سکا آپ کو معلوم ہے کہ عورت کو کسی نہ کسی طرح ایسی باتیں معلوم ہو ہی جاتی ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کیونکہ دوسری شادی کے بعد جب بھی وہ گھر یعنی بغداد واپس آتا تو اس میں کئی تبدیلیاں اس پہلی بیوی کو نظر آنے لگیں لیکن اس نے شوہر سے کبھی پوچھنے کی ہمت نہیں کی اس لیئے اس نے ایک جاسوس کی ڈیوٹی لگائی کہ اب جب وہ جائے تو اس کے پیچھے ملک شام جاکر پتہ کرے کہ آخر وہ اتنے دنوں تک رہتا کہاں ہے ؟ پھر جب وہ تاجر دوبارہ شام کے لیئے روانہ ہوا تو وہ جاسوس بھی اس کے پیچھے پیچھے روانہ ہوگیا اس جاسوس نے واپس آکر بتایا کہ تیرے شوہر نے وہاں دوسرا نکاح کرلیا ہے اور اس عورت کو گھر بھی لیکر دیا ہے یہ خاموش رہی اور سوچنے لگی کہ اس بار جب وہ آئے گا تو وہ اس سے بات ضرور کرے گی لیکن اس بار جب وہ واپس آیا تو شدید بیمار تھا اس کو بیمار دیکھ کر وہ چپ سی ہوگئی اور سوچا کہ طبیعت ٹھیک ہوئی تب بات کرلوں گی لیکن رب تعالی کو کچھ اور ہی منظور تھا اور اسے موقع ہی نہ مل سکا وہ تاجر اسی بیماری میں انتقال کرگیا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس تاجر کے انتقال کے بعد اس کی بیوی عدت میں بیٹھ گئی اور جب عدت کی مدت پوری ہوگئی تو اس نے اپنے شوہر کا مال جمع کیا کم و بیش چار بوریاں اشرفی کی اس کا مال جمع ہوا اب اس کی کوئی اولاد تو تھی نہیں اس نے سوچا کہ اس کی ایک بیوی شام میں بھی ہے لہذہ اس مال میں اس کا بھی حق ہے لہذہ اس نے دو بوریاں الگ کیں اور اس جاسوس کے ساتھ مال گاڑی میں اشرفیوں کی دو بوریاں لیکر ملک شام روانہ ہوگئی وہاں پہنچ کر اس نے اس عورت سے کہا کہ میرے شوہر کی اگر میں بیوی تھی تو اس کی ایک بیوی تو بھی تھی زمانہ یہ بات نہیں جانتا لیکن ہم دونوں تو جانتی ہیں نہ ہمارا رب تو جانتا ہے نہ ؟
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس نے کہا کہ اس تاجر کے پاس جو مال تھا اس میں سے آدھا مال میں لے آئی ہوں کیونکہ آدھے مال کی وارث میں ہوں تو آدھے کی تو بھی وارث ہے یہ مال تمہارا ہے رکھو اس مال کو تو اس دوسری عورت نے اسے گلے سے لگا لیا اور کہنے لگی کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے ڈرتی ہو تو میں بھی اس رب تعالی سے ڈرتی ہوں سنو اس بار جب وہ یہاں آئے تھے تو بیمار ہوگئے تھے اور ڈاکٹروں نے کہدیا تھا کہ اب تم نہیں بچو گے لہذہ انہوں نے ایک اچھی خاصی رقم مجھے دی یہ مکان بھی میرے نام کردیا اور مجھے طلاق بھی دے گیا تھا اور مجھے کہیں بھی نکاح کرنے کی اجازت بھی دے گیا تھا لہذہ اب اس مال میں میرا کوئی حق نہیں یہ سب تمہارا ہے یہ تم لے جائو ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں وہ بزرگ شیخ حسن فرماتے ہیں کہ میں ایک عالم دین ہوں امام ہوں معلم ہوں مفتی ہوں صوفی ہوں لیکن پھر بھی میں نے تاجر کی ان دو بیویوں سے بہت کچھ سیکھا ہے اسی لیئے جب بھی دعا کرتا ہوں تو ان دو عورتوں کے لیئے ضرور دعا کرتا ہوں اس واقعہ میں پہلی بیوی دوسری کے لیئے نافع تھی اور دوسری پہلی کے لیئے نافع تھی جبکہ دونوں بیویوں کے لیئے وہ تاجر نفع دینے والا شخص تھا یعنی ہماری آج کی تحریر میں موجود حدیث کے مطابق وہ تاجر دوسروں کے لیئے بہتر تھا کیونکہ جب انسان دوسروں کے لیئے بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اور اللہ تعالی کی رضا ان کا مقصد ہو تو اللہ تعالیٰ ان کے لیئے راستے بھی کھولنا شروع کردیتا ہے لیکن اگر ہم اس واقعہ کو آج کے معاشرے کے تناظر میں دیکھتے ہیں تو کیا آپ کو ایسے تاجر جیسے لوگ نظر آتے ہیں جو شادی تو دو یا چار کریں لیکن ساری بیویوں کے ساتھ دنیاوی اعتبار سے بھی اور شرعی اعتبار سے بھی پورا پورا انصاف کرتے ہیں؟ شاید ایسا نہیں ہے اور نہ ہی ایسی دو بیویاں یعنی سوکنیں ہمیں نظر آتی ہیں جو ایک دوسرے کے لیئے اتنی محبت اور پیار رکھتی ہوں کہ ایک دوسرے کے حق پر قبضہ کرنے کی کوشش بھی نہ کرتی ہوں بلکہ ہمارے یہاں تو ایسے مواقع پر قتل و غارتگری کا بازار گرم ہوتا ہوا نظر آتا ہے اور یہ ہماری بڑی بدقسمتی ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں دوسروں کے لیئے نافع ہونے کے بھی کئی رنگ ہمیں تاریخ اسلام میں ملتے ہیں کیونکہ جب اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں جس سے بھی اچھا کام لینا چاہتا ہے تو اسے اس کی طرف مائل کردیتا ہے اب وہ چاہے تو کسی سنسان جگہ پر کوئی گھنا اور سایہ دار درخت پیدا کرکے بھولے بسرے ہوئے لوگوں کا آجانے پر سکون مہیا کرنا ہو اور درخت کو دوسروں سے بہتر بنادے یا کسی جانور یا پرندے کو کسی کی رہنمائی کے لیئے استعمال کرنا ہو یا پھر اللہ تعالیٰ اپنے سب سے افضل و اعلیٰ مخلوق یعنی انسان کو بھی کسی کی بھلائی کی طرف جانے کے لیئے کوئی راستہ بنا دیتا ہے یعنی دکھلا دیتا ہے تاکہ وہ دوسروں سے بہتر ہو اب وہ یہ کام اپنی مخلوقات سے کس طرح لیتا ہے اس کی ایک جھلک ہم یہاں ایک واقعہ کو پڑھ کر حاصل کرتے ہیں جو " قصص الانبیاء" کا ایک معروف واقعہ ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آپ یہ بات بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی عطا سے جانوروں کی بولیوں کو اچھی طرح سمجھتے تھے ایک دفعہ آپ علیہ السلام ایک دریا کے کنارے پر تھے تو دیکھا کہ ایک چیونٹی اپنے منہ میں دانہ لیئے اس کنارے پر آتی ہے اور اس دریا سے ایک مینڈک باہر آتا ہے اور اپنا منہ اس چیونٹی کے سامنے کھول دیتا ہے وہ چیونٹی اس کے منہ میں چلی جاتی ہے تب وہ مینڈک پانی کے اندر چلا جاتا ہے آپ علیہ السلام یہ منظر دیکھ رہے ہوتے ہیں پھر وہ مینڈک دوبارہ پانی سے باہر آتا ہے اور کنارے پر آکر منہ کھولتا ہے تو وہ چیونٹی بخیر وعافیت واپس کنارے پر پہنچ جاتی ہے لیکن وہ جیسے ہی وہاں سے روانہ ہوتی ہے تو حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسے روکتے ہیں اور اس سے اس معاملے کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس چیونٹی نے آپ علیہ السلام سے عرض کیا کہ اس دریا کی تہہ میں ایک بڑا سا پتھر ہے جس کے نیچے بہت سے کیڑے مکوڑے اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائے ہیں لیکن وہ سب نابینا ہیں اس لیئے اپنے رزق کی خاطر کہیں جا نہیں سکتے لہذہ اللہ تعالیٰ نے ان تک رزق پہنچانے کی ڈیوٹی میرے ذمہ لگا رکھی ہے اور اس مینڈک کو میرے کیڑے مکوڑوں تک پہنچانے کے لیئے منتخب کیا ہے وہ مجھے کیڑے مکوڑوں کے پاس لیکر جاتا ہے تو وہ دانہ جو میرے منہ میں ہوتا ہے وہ ان کیڑے مکوڑوں کے پاس چھوڑ دیتی ہوں سارے کیڑے مکوڑے جمع ہوکر اسے کھانے میں مصروف ہوجاتے ہیں تب یہ مینڈک مجھے واپس کنارے پر پہنچا دیتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضرت سلیمان علیہ السلام نے پوچھا کہ کیا تم نے ان کیڑے مکوڑوں کے منہ سے اور کچھ سنا تو اس نے کہا کہ ہاں جب میں انہیں دانہ دیتی اور وہ مجھے دیکھتے تو ایک تسبیح پڑھتے تھے کہ " بیشک ہمارا رب ہمیں
یہاں بھی نہیں بھولا ". حضرت سلیمان علیہ السلام اور چیونٹی کے اس واقعہ میں ہماری آج کی حدیث کے عین مطابق چیونٹی اللہ تعالیٰ کی مخلوق یعنی کیڑے مکوڑوں کے لیئے نافع تھی جبکہ مینڈک اس عمل میں اس کا برابر کا حقدار تھا اس لیئے وہ دوسروں کے لیئے دوسروں سے بہتر ہوگئے کیونکہ انہوں نے دوسروں کے ساتھ بھلائی کی اور اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کیا اب یہ درجات یہ مقامات کسی مخصوص مخلوق کے لیئے نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کا فائدہ کوئی بھی اٹھا سکتا ہے کوئی بھی اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر ثابت کرسکتا ہے بس انسان چونکہ اللہ تعالیٰ کی نائب کی حیثیت رکھتا ہے وہ اشرف المخلوقات ہے اس لیئے انسانوں کو زیادہ ترجیح دی جاتی ہے اور قرآن و حدیث میں ایسے عمل کی تلقین بھی انسانوں کو کی گئی ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں دوسروں کے لیئے بھلائی کرنا یا منافع بخش ہونا چونکہ ایک صفت مانی جاتی ہے لیکن یہ صفت رب العزت صرف اسی کو عطا فرماتا ہے جسے وہ چاہتا ہے آیئے یہاں ہم ایک اور خوبصورت واقعہ پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں دو میاں بیوی جو غربت کے دن گزارنے میں مصروف تھے ایک دن کہیں باہر ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے کی خواہش دل میں لیئے ایک ریسٹورنٹ میں داخل ہوئے وہ جیسے ہی کرسی پر بیٹھے تو ایک خوبصورت گڑیا سی لڑکی جس کا نام نادیہ تھا جو وہاں ویٹرس تھی پہنچ گئی اور انتہائی ادب کے ساتھ پوچھا کہ کیا کھانا پسند کریں گے تو انہوں نے کہا کہ دراصل ہمارے پاس زیادہ پیسے نہیں ہیں لہذہ تمہارے ریسٹورنٹ میں جو چیز سب سے سستی ہو وہ لے آئؤ ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں نادیہ نے مینو کارڈ میں غور کرنے کے بعد دو کھانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارے ریسٹورنٹ میں سب سے سستے کھانے ہیں لہذہ وہ مان گئیے اور آرڈر دے دیا جب وہ دونوں میاں بیوی کھانے سے فارغ ہوئے تو جانے پہلے انہوں نے نادیہ سے بل لانے کو کہا نادیہ جب بل کا والیٹ لیکر آئی تو اس میں ایک پیپر تھا اور ایک سو ڈالر کا نوٹ پیپر پر لکھا ہوا تھا کہ " آپ کے موجودہ حالات کو دیکھ کر آپ کے کھانے کا بل میں اپنے اکائونٹ سے ادا کردیا ہے اور یہ سو ڈالر میری طرف سے تحفہ ہے آپ کے آنے کا شکریہ " میں آپ لوگوں کے لیئے اتنا تو کرہی سکتی ہوں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں دونوں میاں بیوی نادیہ کے اخلاق اور اس کی سروس سے بہت متاثر بھی ہوئے اور خوش بھی لیکن نادیہ کی دوست کو جب معلوم ہوا تو اس نے نادیہ کو بہت ڈانٹا کیونکہ وہ خود ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتی تھی اپنے اور اپنے بچوں کے لیئے ایک عدد واشن مشین لینے کے لیئے اس نے یہ پیسے جمع کیئے تھے جو دوسروں کی مدد کرنے میں استعمال کر دیئے لیکن ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ نادیہ کے گھر سے اس کی ماں کی کال آگئی اور وہ کہنے لگی بیٹا یہ تم نے کیا کیا ہے ؟ وہ چونک گئی اور ڈرتے ہوئے کہا امی جان کیا ہوا ہے میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا تو اس کی ماں نے کہا کہ بیٹا ابھی کچھ دیر پہلے دو میاں بیوی آئے تھے اور ان کے کھانے کا بل تم نے دیا وہ اتنے خوش ہوئے ہیں کہ انہوں تمہاری اس کاوش کو سوشل میڈیا پر اپلوڈ کردیا ہے اور تھوڑی ہی دیر میں ملینز لوگوں نے تمہاری تعاریف کی ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس بات کی تصدیق نادیہ کو اس وقت ہوئی جب اس کی ایک دوست نے اسے مبارک دی تب اسے اندازہ ہوا کہ اس کی یہ کاوش پورے ڈیجیٹل میڈیا پر وائرل ہوگئی ہے اور جب اس نے اپنا فیس بک اکاؤنٹ کھولا تو کئی مشہور و معروف ٹی وی چینلز والوں کے پیغامات تھے جو اس سے ملنے کے لیئے وقت مانگ رہے تھے اگلے دن نادیہ سب سے زیادہ مشہور شو میں مہمان کی حیثیت سے موجود تھی پروگرام پیش کرنے والے نے اسے ایک بہت ہی پرتعیش واشنگ مشین، ایک جدید ٹیلی ویژن سیٹ اور دس ہزار ڈالر دیے۔ اس ایک الیکٹرانکس کمپنی سے پانچ ہزار ڈالر کا پرچیز واؤچر حاصل کیا۔ اس پر تحائف کی بارش ہوئی یہاں تک کہ اس کے عظیم انسانی رویے کی تعریف میں حاصل ہونے والی رقم $100,000 سے زیادہ تک پہنچ گئی۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں دو لوگوں کے کھانے کی قیمت کوئی زیادہ نہیں تھی لیکن اس نے نادیہ کی زندگی بدل دی اصل میں کسی نے کیا سچ کہا ہے کہ سخاوت یہ نہیں ہے کہ جس چیز کی آپ کو ضرورت نہیں ہے وہ کسی کو دے دیں بلکہ سخاوت یہ ہے کہ جس چیز کی آپ کو ضرورت ہے وہ کسی دوسرے ضرورت مند کو دے دیں کیونکہ غربت یہ نہیں کہ آپ کے پاس مال ودولت نہیں ہے بلکہ حقیقی غربت انسان کی انسانیت اور ان کے رویوں میں پوشیدہ ہوتی ہے نادیہ دوسروں کے لیئے نافع بنی دوسروں کے لیئے بھلائی کا کام کیا تو رب تعالیٰ نے اسے وہ کچھ عطا کیا جس کا اسے گماں تک نہیں تھا کیونکہ وہ دوسروں سے بہتر تھی ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں دراصل
"خَيرُ النَّاسِ مَن يَنفَعُ النَّاسَ"
" لوگوں میں وہ بہتر ہے جو لوگوں کو نفع پہنچائے"
یہ حدیث اسلامی تعلیمات کا ایک بنیادی اصول بیان کرتی ہے، جو سماجی بھلائی اور خدمتِ خلق پر زور دیتی ہے۔ اسلام میں ایک اچھے انسان کی پہچان اس کے علم، عبادت یا مال سے نہیں، بلکہ اس بات سے کی جاتی ہے کہ وہ دوسروں کے لیے کتنا مفید ہے اس مذکورہ حدیث میں جن اہم نکات کی جانب ہماری توجہ دلائی گئی ہے وہ یہ ہیں کہ
1. "خیر خواہی اور مدد"
ایک اچھا انسان وہ ہے جو دوسروں کی بھلائی کے لیے کام کرے، چاہے وہ علمی، مالی یا جسمانی مدد ہو۔
2. "ایثار اور قربانی"
نفع بخش انسان وہ ہوتا ہے جو اپنا وقت، وسائل اور توانائیاں دوسروں کی بہتری کے لیے صرف کرے۔
3. "سماجی فلاح و بہبود"
اسلام ایک ایسے معاشرے کی تشکیل چاہتا ہے جہاں افراد ایک دوسرے کی مدد کریں اور بھلائی کو فروغ دیں۔
4. "اخلاقی برتری"
حقیقی نیکی وہی ہے جس میں انسان دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرے، جیسے کہ کسی ضرورت مند کی مدد کرنا، علم سکھانا، روزگار کے مواقع پیدا کرنا، بیماروں کی تیمارداری کرنا وغیرہ۔
یہ حدیث قرآن مجید کی کئی آیتوں کے مفہوم سے ہم آہنگ ہے جیسے سورہ المائدہ کے ایک حصے میں ارشاد باری تعالی ہوا کہ
وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ
ترجمعہ کنزالایمان ۔۔
او نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی مدد کرو۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اسی بات کو دوسرے انداز میں حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے ایک اور حدیث میں اس طرح بیان کیا کہ
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن (دوسرے) مومن کے لئے ایسا ہے جیسے عمارت میں ایک اینٹ دوسری اینٹ کو تھامے رہتی ہے (اسی طرح ایک مومن کو لازم ہے کہ دوسرے مومن کا مددگار رہے)۔
صحیح مسلم 1773
مطلب یہ ہوا کہ بغیر کسی دنیاوی فائدے کے اپنا ہنر اپنا علم اور اپنی صلاحیت کو دوسرے لوگوں میں اس طرح بانٹنا کہ وہ مستفید ہوسکیں یہ مدد ہے اور یہ مدد آپ کو دوسروں سے بہتر بناتی ہے آپ کے اردگرد کے ماحول کو اور معاشرے میں بہتری لانے کے لیئے اپنا کردار مثبت انداز میں ادا کرنا تاکہ لوگوں کے لیئے آسانیاں پیدا ہوسکیں یہ معاملات آپ کو دوسروں سے منفرد کرتے ہوئے دوسروں سے بہتر بناتے ہیں اور اسی بات کی طرف ہمیں ہمارے پیارے آقا و مولا حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ہمیں اشارے سے سمجھانے کی کوشش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضور نے ظاہری وصال سے پہلے ارشاد فرمایا تھا کہ " میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ایک اللہ کی کتاب یعنی قرآن اور دوسری میری سنت " جبکہ ایک روایت میں دو چیزوں میں ایک قرآن اور ایک اہل بیت کا ذکر ہمیں ملتا ہے پھر مزید فرمایا کہ اگر ان دو چیزوں کو مظبوطی سے تھامے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے لہذہ ہماری آج کی حدیث جس میں ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کا یہ فرمان پڑھا کہ
خَيرُ النَّاسِ مَن يَنفَعُ النَّاسَ
لوگوں میں وہ بہتر ہے جو لوگوں کو نفع پہنچائے
یہ بھی سنت مبارکہ ہے لہذہ ہمیں اس پر عمل کرکے اپنی اور دوسروں کی آخرت سنوارنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حدیث کی اس خوبصورت بات سے آج ہم نے بہت کچھ سیکھا ہے لیکن بات صرف سیکھنے تک محدود نہیں ہونی چاہئے بلکہ اس کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی بھی ضرورت ہے میں نے اپنی سی کوشش کی ہے اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ میری اس چھوٹی سی کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے آپ لوگوں سے گزارش ہے کہ مجھے دعاؤں میں یاد رکھیئے گا اور دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے سچ لکھنے ہم سب کو پڑھنے ، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین آمین بجاالنبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ۔

 

محمد یوسف میاں برکاتی
About the Author: محمد یوسف میاں برکاتی Read More Articles by محمد یوسف میاں برکاتی: 187 Articles with 169647 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.