خواتین کا عالمی دن دنیاکے بے شمار ممالک میں ہر سال ۸
مارچ کو منایا جا تا ہے ۔ یہ دن ہے جب خواتین کو اُن کی تمام تر کا میابیوں
کے لیے صراحاں جا تا ہے ۔ بغیر کسی امتیاز کے چاہے وہ کابیابی معاشرتی ہو
،سیاسی ہو یا پھر معاشی ہو ،زند گی کے ہر شعبہ میں خواتین کی کا میابی کو
صراحانے کا دن ہے۔ سب سے پہلا خواتین کا عالمی دن یو نیٹڈ اسٹیٹ میں ۲۸
فروری ۱۹۰۹ کو منایا گیا ۔جب ایک کپڑے کی فیکٹری کی مزدور خواتین نے
نیویارک میں اپنے کا م کے حقوق کے لیے احتجاج کیا ،اور کا میاب ہو ئیں ۔
پھر آہستہ آہستہ ۱۹۴۵ میں یو نیٹڈ نیشن نے ایک قانون پا س کیا کہ خواتین کو
مردوں کے برابر سمجھا جا ئے اور دونوں کو ایک جیسے حقوق دئیے جا ئیں ۔ ویسے
تو کہتے ہیں کہ ہر دن ہی عورت کو خراج ِ تحسین پیش کر نے کا دن ہوتا ہے مگر
۸ مارچ کو پوری دنیا میں عورت کو باقاعدہ طور پر خراج ِ تحسین دیا جا تا ہے
۔اُس کی تمام تر قربانیوں کے لیے جو وہ روزمرہ زندگی میں مختلف طور طریقوں
سے دیتی ہے۔ ۸مارچ کو خواتین نے اپنے حقوق کے لیے آواز اُٹھائی اور اپنے
حقوق حاصل کر نے میں کا میاب ہو ئیں ۔ مگر آج تک وہ اپنی ذات کو وہ مقام
،وہ رتبہ اور عزت دلانے میں کا میاب نہیں ہو سکی جو خدا نے اُسے خلق کرتے
وقت دیا تھا ۔ جس وقت بچے اسکول جاتے ہیں اور گھریلو کا م سے فرصت ملتی ہے
تو وہ چارپائی پر بیٹھ کر یہی سوچتی ہے کہ کیا زندگی اسی کا نا م ہے ؟ کیا
بچے پیدا کرنا ،اُنہیں انگلش میڈیم اسکول میں پڑھانا ،شوہر کی زندگی بسر
کرنا معراج ِ نسوانیت ہے؟ کیا میری ذات کا یہی تقاضہ ہے ؟کیا میں صرف یہی
کچھ چاہتی ہوں ؟ ان سوالات میں پھنسی عورت آج تک نہیں نکل پائی ۔کیوں ؟
کیونکہ جو مرد عورت اور بچے کے تحفظ کے لیے پیدا کیا گیا تھا ،اس کی
تجویزوں اور نارواں سلوک نے عورت کی زندگی اور بچے کی زندگی میں سہولت پیدا
کی کہ ان دونوں کے لیے مرد کے بنائے ہو ئے معاشرے میں جینا دشوار ہو گیا ہے
۔ مرد نے عورت کو ہمیشہ نازک ،اپنے سے آدھا اور کمتر سمجھا ہے۔ بقول شاعر:
عورت نے مرد کو جنم دیا مرد نے عورت کو بازار دیا
جب جی چاہاکچلامسلا جب جی چاہا دھدکار دیا
اُس عورت کو جس کو خدا نے انسان (مرد )کی پسلی سے بنایا تھا تا کہ وہ اُس
کے ساتھ رہے اُس سے محبت کرے،اور وہ دونوں ایک تن ہوں ۔ بانو قدسیہ لکھتی
ہیں کہ ’’ایک مرتبہ ایک قاز اور مور جنگل میں جارہے تھے ،کسی نے دریافت کیا
کہ بھا ئی تم دونوں میں واضح اختلاف ہے اورضرور کو ئی قدر مشترک بھی ہو
گی،جس کے باعث تم دونوں ہر وقت اکٹھے رہتے ہو ۔ دونوں پشمان ہو کر بولے ’بد
قسمتی سے ہم دونوں لنگڑے ہیں اور یہی ہماری قدر مشترک ہے اور اسی کے باعث
ہم ساتھ رہنے پر مجبور ہیں ‘‘۔ غالباً مرد اور عورت میں بھی اس قسم کی ایک
قدر مشترک ہے کہ دونوں جنت سے ایک ہی وقت میں نکالے گئے اور زوج ہو نے کی
حیثیت سے جب بھی یہ دونوں باغ ِ بہشت میں داخل ہو ں گے اکٹھے ہی ہوں گے ۔
لاکھ یہ ایک دوسرے سے چالا کی کریں اس معامعلے میں ایک دوسرے سے دغا بازی
نہیں کرسکتے ۔ لیکن بدقسمتی سے دونوں ایک دوسرے کی ہمدردی محبت دشمنی یا
مقابلے کے باوجود ایک سے نہیں ہو سکتے۔ دونوں کو ایک دوسرے کو سمجھنے کی
ضرورت ہے ۔ دونوں کے بغیر نسل ِ انسانی آگے نہیں بڑھ سکتی۔ دنیا کا ہر مذہب
عورت کو مقدس ،دیوی اور خدا کے روپ میں پیش کر تا ہے ۔ ہر مذہب عورت سے
محبت کرنے ،اُسے عزت دینے ،اُس کی تعظیم کرنے کا پیغام دیتا ہے ۔ کیونکہ
عورت خدا کے بعد دوسری ہستی ہے جو دنیا کو خلق کرنے میں خدا کی مدد کرتی
ہے۔ وہ دنیا کو بڑھانے اور انسان کو پیدا کرنے کا حوصلہ اور شرف رکھتی ہے ۔
وہ اپنی جان ہتھیلی پہ رکھ کر اور موت کا سا درد سہہ کر انسان کو اس دنیا
میں لا تی ہے۔یہاں تک کہ کبھی کبھی عورت انسان کو پیدا کرتے وقت اپنی جان
سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے۔ مگر پھر بھی انسان عورت سے محبت و پیار نہیں کرتا،
اُسے اپنے جیسا نہیں سمجھتا ۔ اوریہ عورت کی وفا داری اور محبت ہی ہے کہ
موت کے منہ میں جا کر ایک مرد کو جنم دیتی ہے ۔ عورت کی محبت مرد سے اور
مرد کی محبت عورت سے بہت مختلف ہو تی ہے ۔ برٹنڈرسل کہتا ہے کہ ’’عورتیں
عموماً مرد کے کردار سے محبت کر تی ہیں اور مرد عورتوں سے اُن کی ظاہری
بناوٹ ،جاذبیت اور جوانی کے باعث محبت کرتا ہے ۔چونکہ محبت ہر انسان کی
بنیادی ضرورت ہے اس لیے ہر شخص پر ستش کرنے والے کے سامنے مجبور ہے ۔وہ
بندگی کرنے والے کے آئیڈل میں ڈھلنا چاہتا ہے ۔تا کہ محبت کر نے والے کا
صدقہ جاریہ چلتا رہے ۔ اور آئیڈل سے گرنے کے جرم میں محبت کی بنیا دی ضرورت
تشنہ نہ رہ جائے۔عورت کا آئیڈل مرد کو شاعر ،انجینئر ،سائنس دان
،دانشور،ادیب ،ایکٹر،موسیقار بننے پر مجبور کرتا ہے ۔ مرد کی محبت عورت کو
کٹ پتلی،کیلنڈروں پر چھپنے والی تصویر ،ایکٹرس نما حسینہ، فاحشہ بننے پر
اکساتی ہے ‘‘۔ عورت ہمیشہ وفادار اور ساتھ دینے والی ثابت ہو ئی ۔وہ تمام
تر مشکلات اور مرد کی سختیاں برداشت کر تی آئی ہے ۔ کہتے ہیں کہ عورت نازک
ہوتی ہے اور مرد سخت ہو تا ہے مگر اس کے باوجود عورت مرد کا تھپڑ بھی سہہ
لیتی ہے اور مرد اس کی اونچی آواز تک نہیں برداشت کر سکتا ہے کیوں ؟کیا
مردانگی اسی کا نام ہے کہ عورت کے ساتھ جا نوروں جیسا ،غلاموں جیسا سلوک
کیا جا ئے ؟ کبھی معاشرے کی پا بندیاں، کبھی مذہب اور کبھی خاندان کی
پابندیاں اُسے غلام بنا دیتی ہے ۔وہ اپنی زندگی کا کو ئی فیصلہ اپنی مرضی
سے نہیں کر پا تی ہے کیوں ؟مرد کو اتنی آزادی دی گئی ہے ۔ آپ ذیادہ دور نہ
جائے ۔پیشہ کے انتخاب میں ہی دیکھ لیجیے۔عورت بچے کی وجہ سے ہمیشہ بڑی
دبدھامیں رہی ہے ۔مرد کے لیے سدا سے ہزاروں پیشے کھلے رہے ہیں اور عورتوں
کے لیے لے دے کے گھریلو کا م کاج اور گھر داری کا پیشہ سرفہرست رہا ہے ۔
عورت چاہے بچہ پا لنے کی اہل نہ ہو،سینا پرونا نہ جا نتی ہو۔کھانے پکانے
میں مشتاق نہ ہو، اس سے ایک ہی توقع کی جا تی ہے کہ گھریلو امور خوب جانتی
ہو ۔ مردوں کے لیے چونکہ پیشے اَن گنت ہیں اس لیے وہ اپنی طبیعت کی اپچ
دیکھ کر کسی نہ کسی پیشے میں سپشلائزکر کے دور نکل جا تا ہے ۔عورت زندگی کے
مختلف مقامات پر مختلف رول ادا کرتی رہتی ہے ۔ اور کسی پیشے میں ماہر نہیں
بن سکتی ۔ کبھی وہ ماں ہے کبھی باورچن ،کبھی دھوبن ہے ،کبھی نرس، اُس میں
چھپے ہو ئے جو اہر کو زندگی بکھیر دیتی ہے ۔ اس کے اند ر ودلعیت کی ہو ئی
بیشتر خاصیتوں پہچاننے کا بھی موقع نہیں ملتا ۔کیوں ؟ آج ضرورت ہے کہ عورت
کو تمام تر پابندیوں سے آزاد کیا جائے تا کہ وہ اپنے آپکو پہچا نے اور اپنی
زندگی کے مقصد کو پہچانے اور اپنے اندر خدا کی دی ہو ئی خوبیوں اور
صلاحیتوں کو پہچان کر مرد کے برابر کھڑی ہو سکے ۔ اور مقام حاصل کر سکے جو
خدا نے اُس کے خلق کرتے وقت دیا تھا ۔ ایک بار پھر بانو قدسیہ کو یا د کرنا
چاہوں گا کہتی ہیں کہ ’’ کئی صدیوں تک عورت نے ہر قسم کی تلاش مرد پر چھوڑ
رکھی تھی وہ سمجھتی تھی کہ کسی روز وہ ضرور مرد کے سینے میں پسلی بن کر
پیوست ہو جا ئے گی اور جب مرد آواز ِ حق کو پہچان لے گا تو وہ خود بخود اس
کا حصہ بن جائے گی‘‘۔ لیکن اب عورت مایوس ہو گئی ہے ۔اس لیے وہ بہشت میں
داخل ہو نے کا اپنا شارٹ کٹ بنانا چا ہتی ہے ۔مرد بھی اب چوری چوری ،راتوں
رات عورت سے نظر بچا کر اپنے رب کے حضور پہنچنا چاہتا ہے ۔ معامعلہ چاہے
بہشت کا ہو یا معاشرے کا ،بابانوح کی کشتی ہو جب بھی مرداور عورت داخل
ہونگے اکٹھے ہی ہونگے کیونکہ نکالتے وقت خدا نے اُن کی رفاقت پر مہر لگا دی
تھی ۔آدم اب کسی کو رشوت دے کر جنت میں داخل نہیں ہو سکتے، کیونکہ وہاں
چیکنگ سخت ہے اور کم پسلی والوں کے داخلے بالکل ممنوع ہیں ۔
پس آج کے دور کے انسان کو ضرورت ہے کہ وہ عورت کو اپنے برابر اور اپنے جیسا
انسان سمجھے تا کہ دونوں اکٹھے مل کر اُس بہشت میں داخل ہو ں جہا ں سے
دونوں اکٹھے نکالے گئے تھے ۔ آئیں ! اِس ۸ مارچ کو ہم یہ وعدہ کریں کہ ہم
ہر عورت کو اپنے جیسا انسان سمجھیں ۔ خدا کی خلق کردہ انسان سمجھیں اور اُس
سے محبت کر یں اور ایک عظیم ، پُر امن اور صحت مند اور اقدار سے بھر پور
معاشرہ بنا ئیں ۔ اور ملکر اپنی تما م عورتوں کو جو ماں ، بہن اور بیوی کے
روپ میں ہیں خراج ِ تحسین پیش کریں ۔عورت کے بغیر مرد کیا یہ دنیا بھی کچھ
نہیں کیونکہ دنیا انسانوں سے بنتی ہیں اور آخر کار ــــ’’عورت بھی انسان
ہیــ‘‘ |