انگریز 1803ء میں دلّی میں وارد ہوئے اور تقریبا ً نصف
صدی کے مختصر دورانیہ میں پورے برصغیر پاک و ہند پر اپنا ایسا تسلط قائم
کیا کہ ہم اپنے ملک میں رہتے ہوئے بھی آج تک اس جال میں کسی نہ کسی صورت
پھنسے ہوئے ہیں۔1857ء کے بعد انگریزوں نے جہاں برصغیر میں اپنی مرضی کی
تمام اصطلاحات نافذ کیں،وہیں تعلیمی اصطلاحات کا نفاذ کرتے وقت بھی خاص طور
پر اس بات کا خیال رکھا گیا کہ مسلمان قوم اس تعلیم کو حاصل کرنے کے بعد
بھی ذہنی غلامی کے چنگل سے آزاد نہ ہو سکے ۔اور یہ کہ قوم شعور جیسی قیمتی
دولت سے محروم رہے اور کلرکی سے آگے جا ہی نہ سکے۔انگریزوں کی اپنی تعلیمی
پالیسیوں کے مطابق امتحان میں 65فیصد نمبر حاصل کرنے والا طالب علم پاس
سمجھا جاتا تھا۔(آج ان کا معیار تعلیم اس سے بھی بہتر ہے) لیکن برصغیر کے
ماحول کو اپنے قبضے میں رکھنے کی خاطر انہوں نے بڑی دور اندیشی سے کام لیتے
ہوئے اپنے معیار سے نصف نمبروں کو ہمارا معیار تعلیم بنایا۔پہلے پہل ساڑھے
بتیس نمبراور بعد ازاں گنتی میں مشکلات کے پیش نظر 33 نمبرحاصل کرنے والے
کو پورے مضمون سے ہی سبکدوش قرار دے دیا۔نتیجہ کیا نکلا کہ انگریزوں کو نسل
در نسل غلام ملتے گئے جیسا وہ چاہتے تھے۔اقبالؒ جیسے دیدہ ور نے خواب غفلت
سے جگانے کی خاطر کبھی درا کی بانگ سنائی تو کبھی کلیم کی ضرب سے ذہنی جمود
توڑنے کی کوشش کی مگر بے سود۔خیر اسی نسلی غلامی کے بیچ و بیچ ہزار جتن کر
کے حضرت قائد اعظم نے آزادی تو دلا دی مگرانہیں زندگی نے اتنی مہلت نہ دی
کہ آزادی سے جینا بھی سکھا جاتے۔اس بات کا بھلا کیا غم کہ ان انگریزوں نے
ہمارے ساتھ کیا کیا ہے،وہ تو دشمن تھے ان سے خیر کی توقع کیا تھی؟غم تو اس
بات کا ہے کہ آزادی کے اکہتر سال گذرنے کے بعد بھی شعور ہے ناکوئی
منشور۔دکھ تو یہ ہے کہ ہم آزاد ہو کر بھی خود کو برباد کرنے والے اس نظام
کو ختم نہ کر سکے۔دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور ہم نے الٹا کیا معرکہ
مارا کہ 33 نمبر بھی ذیادہ ہیں،چلو ایسا کرتے ہیں جس کے 28 نمبر آ گئے اس
کو 5 رعایتی نمبر دے کر پاس کر دیا جائے۔ابتدائی جماعتوں میں تو طالب علم
کو امتحان میں ناکام کرنے پر ہی پابندی ہے۔ یعنی کیا اس سے معیار تعلیم
بلند ہو جائے گا۔کسی نے یہ نہ سوچا کہ معیار تعلیم نہیں اس سے معیار غلامی
بڑھے گا۔اس سے معیار جہالت میں اضافہ ہوگا۔اس سے نکمے پن کی بہتات ہو گی۔اس
سے معاشرے میں بے ہنر افراد کی قطاریں لگیں گی ۔اس سے بد تہذیبی کا طوفان
اٹھے گا۔بد چلنی کا سمندر حیا کی چادر کو بہا لے جائے گا۔ا س سے اخلاقی
اقدار کی پامالی ہو گی۔ا س سے بے روزگاری میں فراوانی ہو گی۔اس سے عزت نفس
میں گرانی آئے گی۔سب کچھ ہونے کے باوجوداکہتر سال بعد بھی روٹی، کپڑا اور
مکان ہی بنیادی مسائل ہیں کیونکہ جو آیا وہ33 نمبروں کا قیدی بن کر آیا۔آج
بھی ہمارے ملک میں 1837ء میں دیا گیا لارڈ میکالے کا تعلیمی نظام رائج
ہے۔ہم اپنے ملک کے موسمی حالات کے پیش نظر امتحان کا وقت تک تبدیل نہ کر
سکے کیونکہ ہم قیدی ہیں 33 نمبروں کے۔ہم اپنے بچوں کو اسلامی نظریات کے
مطابق نصاب نہ دے سکے۔کیونکہ ہم قیدی ہیں 33 نمبروں کے۔ ہم تعلیم حاصل کرنے
کے بعد بھی جاہلوں سے بدتر اور درندوں سے ذیادہ خونخوار ہیں کیونکہ ہم قیدی
ہیں 33 نمبروں کے۔ہم میں کوئی محمد بن قاسم،کوئی صلاح الدین ایوبی ، کوئی
محمود غزنوی ،کوئی الپ ارسلان یا کوئی ٹیپو سلطان پیدا ہونے کا سوال ہی
پیدا نہیں ہو سکتا۔کیونکہ ہم قیدی ہیں 33 نمبروں کے ۔ہم میں کوئی ایسا کیوں
پیدا نہیں ہو رہا جو امت مسلمہ کی نگہبانی کرے ۔جو حرم کی پاسبانی کرے۔کیا
کبھی ہم نے سوچا کہ ہزاروں سال گذر گئے نرگس کو اپنی بے نوری پہ روتے ہوئے
لیکن کوئی دیدہ ور پیدا نہیں ہو سکا۔پیدا ہو بھی کیسے سکتا ہے ،ہم تو قیدی
ہیں 33 نمبروں کے۔تعلیم کا مقصد فقط روزگار تک پہنچنا ہے۔زریعہ معاش کے
اسباب کی تلاش ہے سوائے اس کے کچھ بھی ضروری نہیں۔بقول راقم:
کیسے کریں امید کہ ہو ان میں دیدہ ور
اس نسلِ نو کے ہاتھ جب تعلیم ہے غلط
ہم نے صرف یہ سیکھا کہ داڑھی رکھنا سنت ہے،یہ سیکھا ہی نہیں کہ سچ
بولنا،دیانت داری سے رہنا،ناپ تول پورا کرنا،ملاوٹ سے بچنا،وعدہ وفا
کرنااور ہاتھ ،زبان سے دوسروں کو محفوظ رکھنا بھی سنت ہے،کیونکہ ہم قیدی
ہیں 33 نمبروں کے۔کون جانے کہ حرمت رسولؐ ہمارا سب سے بڑا گرین پاسپورٹ
ہے،جس کی وجہ سے دنیا و آخرت کا سارا پروٹوکول سمٹ کر ہماری خدمت میں آ
سکتا ہے۔ سنت رسولؐ وہ کنجی ہے جو سارے بند قفل کھول سکتی ہے۔ اس قوم کو اس
لئے جاہل رکھا تھا ناں کہ ان پر آسانی سے حکومت کی جا سکے تو اب اس قوم کو
کیا پتہ کہ انگوٹھے پر لگنے والی تھوڑی سی سیاہی کا صحیح استعمال چہروں پر
پھینکنے والی پوری دواتوں سے کروڑوں درجے بہتر ہے،لہذا شکوہ کیسا۔اب بھگتنا
بھی آپ ہی کو پڑنا ہے ۔انہیں کون بتائے کہ جوتے اچھالنے سے کہیں بہتر ہے کہ
یہ جوتے پہن کر سیدھے راستے پر چلنا سیکھا جائے۔ہماری کفالت کرنے والوں کی
ترجیحات بھی تو اور ہی ہیں کیونکہ انہوں نے بھی 33 نمبروں والی تعلیم حاصل
کی ہے،اکثریت تو اس سے بھی محروم ہے۔33 نمبروں کی بیساکھی پکڑ کر لڑکھڑاتی
ہوئی قوم سے ترقی کی راہ پر دوڑنے کی کیا امید کی جا سکتی ہے۔ان سے کس
ایجاد و دریافت اور تخلیق و تحقیق کی آس لگائی جا سکتی ہے۔ایک صاحب ایوان
بالا میں فرما رہے تھے کہ انہیں ا س ایوان میں بیٹھتے ہوئے شرم آتی ہے۔اگر
وہ یہ سوچیں کہ اس ایوان میں بیٹھے ہوئے عوام کے معیار زندگی کو بہتر کرنے
کے لئے آخری مرتبہ قانون سازی کب کی تھی (جس مقصد کی خاطر انہیں وہاں بھیجا
گیا تھا)تو وہ یقینا اپنی بات میں سچے ہوں گے۔ |