ریڈیو، ٹی وی، وی سی آر، ڈی وی ڈی، ویڈیو گیمز،
کمپیوٹر،لیپ ٹاپ،ٹیبز، انٹرنیٹ،اور موبائل فون نے پوری دنیا میں ایک ایسا
انقلاب برپا کر دیا ہے جس سے نہ صرف کھانے پینے، رہنے سہنے، پہننے، اوڑھنے
بچھونے بلکہ کھیل اور تفریح کے انداز بھی یکسر تبدیل ہو گئے ہیں الغرض
سائنس کی ترقی نے ہر چیز کو بدل دیاہے ایسے میں والدین بھی اپنے بچوں کو
گھر سے باہر نہیں جانے دیتے اور کوشش کرتے ہیں کہ وہ گھر میں ہی کمپیوٹر یا
موبائل پر گیمز کھیل لیں۔اب یہ عادت اس قدر پختہ ہو گئی ہے کہ ایک سال کا
بچہ بھی موبائل فون میں دلچسپی لیتا ہے اور فون پکڑنے کی کوشش کرتا ہے اگر
آپ اسے فون نہیں پکڑاتے تو وہ رونے لگتا ہے ،یہ عادات ہم لوگوں نے ہی بچوں
میں ڈالی ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پختگی کی منازل طے کرچکی ہیں۔
ابتدا سے ہی انسان علم و فن اور نئی ایجادات کی ارتقائی دوڑ کامیابی سے دوڑ
رہا ہے ا ورساتھ ساتھ کھیل اور تفریح کے میدان میں بھی بتدریج ترقی کر رہا
ہے۔کیونکہ صدیوں سے ہی انسان محنت مشقت اورکام کاج کی تھکن کودور کرنے اور
فرصت کے اوقات میں لطف اندوز ہونے کے لیے کھیل تماشوں کا سہارا لیتا ہے
لہذااگر ماضی کے دریچوں پر نظر دہرائیں تو تاریخ شاہد ہے کہ بہت سے کھیل
ہمارے خطے میں کھیلے جاتے رہے ہیں جو بچوں اور بڑوں میں یکساں مقبول تھے
مثلاکشتی،کبڈی،لکن میٹی،اندر مندر،چور سپاہی،گلی ڈنڈا، بندر کلہ، کوکلا
چھپاکی، سٹاپو یا شٹاپو، ٹیناں،پٹھوگول گرم،بنٹے، اخروٹ، سگریٹ کی خالی
ڈبیوں سے کھیلنا اور ونج وڑیکا وغیرہ وغیرہ۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ کھیل
ماضی کا حصہ بنتے گئے یہی وجہ ہے کہ نئی نسل تقریباًان سے نا واقف ہے۔آج نہ
صرف شہروں بلکہ دیہاتوں میں بھی سنوکر،بلیئرڈ، ٹیبل فٹبال اور ویڈیو گیمز
وغیرہ کھیلی اور پسند کی جاتی ہیں۔ سی سرفنگ(سمندر کی لہروں پر اچھل کود
کرنا) کے بعدکلاوڈ سرفینگ( بادلوں پر اچھل کود کرنا) بھی کھیلا جا رہا ہے ۔ہو
سکتا ہے کہ آنے والے وقتوں میں فٹبال کا عالمی کپ چاند یا کسی اور سیارے پر
منعقد ہو، جہاں بھی ہو لیکن یہ بات تو طے ہے کہ انسان اور کھیل آخری دم تک
ساتھ ساتھ رہیں گئے۔اس سے ایک بات تو واضح ہوتی ہے کہ کھیل کا کوئی بھی
قدیم یا جدید طریقہ کیوں نہ ہو اس کا اور انسان کا تعلق اتنا ہی پرانا ہے
جتنا کے انسان خود۔ نوجوان گلی ڈنڈا، ٹلا، شٹاپو، بندرکلا، پٹھوگول گرم،
چور سپاہی،بنٹے کھیلنا ، کرکٹ کھیلنا ، فٹ بال کھیلنا اور لڑکیاں شٹاپو،
کیکلی، کوکلا چھپاکی ، چھپن چھپائی،اونچ نیچ اور زیادہ تر اپنی گڑیا کے
کپڑے بناتی اور ان کی شادیاں کرتیں تھیں۔اس کے علاوہ گھڑ دوڑ، مرغوں،
بٹیروں، کتوں، ریچھ کی لڑائیاں، تیتروں کی چکری، خرگوش میلہ، خرگوش کتوں کی
ریس، ہتھ جوڑیاں، پہلوان کے اکھاڑے، ڈھول مقابلے، نیزہ بازی، لوک ناچ ،
بازی گر، جھومر، لڈی ، بھنگڑا، لوک وغیرہ جبکہ کھیل و تفریح کے موبائل یونٹ
جن میں بازی گر، مداری، ریچھ بندر تماشا، سپیرے، بہروپیا، نقال، بین پرست
دھنیں، سارنگی، گنگ، چمٹے، ڈھول بجانے والے، بھانڈ اپنے کرتب اور فن کو
دیکھا کر لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرتے اور داد اورانعام لیتے اور
اگلی منزل کی جانب روانہ ہوتے ۔آئیں اب ہم یہاں ان کھیلوں کا ذکر کرتے ہیں
جوآ ج ٹیکنالوجی کی دور میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں اور آج کے نوجوان اور بچے
ان کھیلوں سے بالکل نا واقف ہیں۔
گْلّی ڈنڈا یا گِلّی ڈنڈا :
گلی ڈنڈا پنجاب اور برصغیر کے کئی دوسرے علاقوں میں لڑکوں کا مقبول ترین
کھیل سمجھا جاتا تھاہے۔ یہ کھیل بھی زمانہ قدیم سے برصغیر پاک وہند کے گلی
کوچوں، محلے محلے میں کھیلا جارہاہے۔ خاص طور پر دیہات میں تو بچوں اور
نوجوانون کا پسندیدہ کھیل ماناجاتا تھا۔ گْلّی ڈنڈا یا گِلّی ڈنڈا کو بعض
جگہوں پر بہت سے نام دیئے گئے ہیں ، جیسے تھل اور چولستان میں اسے ’’ڈیٹی
ڈناں‘‘ یا ’’گبیٹی ڈناں‘‘ کہتے ہیں۔ یہ بھاگ دوڑ والا دلچسپ ورزشی کھیل ہے۔
اس کے لیے کھلے میدان کا ہونا ضروری ہے۔ کھیل دن کی روشنی میں کھیلا جاتا
ہے۔ کھیلنے کے لیے ایک گْلّی اور ایک ڈنڈے کی ضرورت پڑتی ہے۔ گِلّی لکڑی کے
قریباً پانچ چھ انچ کے ایک ٹکڑے پر محیط ہوتی ہے، جس کا قطر دو، تین انچ کے
قریب ہوتا ہے۔ گلی کے دونوں سرے تیز دھار تیشے یا دوسری چیز سے تراش کر نوک
دار بنالیے جاتے ہیں، جب کہ ڈنڈا قریباً آدھا میٹر لمبا ہوتا ہے اور اس کا
قطر ایک سے ڈیڑھ انچ ہوتا ہے۔ کھیل شروع کرنے سے پہلے کھیل کے میدان میں
ایک چھوٹا سا نالی نما گڑھا کھودا جاتا ہے جس کی چوڑائی ڈیڑھ انچ اور
لمبائی 3 سے 4 انچ ہوتی ہے۔، گڑھا گْلّی کی شکل سے ملتا جلتا ہے، گلی اس
گڑھے پر رکھ کر ڈنڈے کی مدد سے اْچھالی جاتی ہے۔ کھیل میں دویا دو سے زائد
کھلاڑی حصّہ لے سکتے ہیں۔ کھلاڑیوں کے اہل ہونے کا کوئی معیار مقرر نہیں،
تاہم مضبوط جسم کا مالک ، زور دار ٹل لگانے او رگلی کو کیچ کرنے والے
کھلاڑی کو سب اہمیت دیتے ہیں۔ اگر کھیل ٹیم کی صورت میں کھیلا جائے تو
دونوں ٹیموں میں کھلاڑیوں کی تعداد برابر ہوتی ہے، مثلاً ایک طرف پانچ
کھلاڑی ہیں، تو دوسری طرف بھی پانچ ہونے ضروری ہیں۔ ایک ٹیم جب کھیل شروع
کرتی ہے تو اس کا پہلاکھلاڑی گْلّی کو گلی نما گڑھے میں رکھ کر ڈنڈے کی مدد
سے زور سے اْچھالتا ہے۔ کھلاڑی کی کوشش ہوتی ہے کہ گْلّی اْچھل کر دور جائے
تاکہ مخالف کھلاڑی ڈنڈے کا دْرست نشانہ نہ لگاسکیں۔ گْلّی پھینکنے کے بعد
گلی نما گڑھے پر ڈنڈا رکھ دیا جاتا ہے اور مخالف کھلاڑی گلی سے ڈنڈے کا
نشانہ لے کر اس پر گلی مارتا ہے۔ گلی اگر ڈنڈے پر لگ جائے تو کھلاڑی آؤٹ
ہوجاتا ہے او رپھر دو سرے کی باری آتی ہے، لیکن اگر گلی ڈنڈے پر نہ لگے تو
پھر پہلی باری لینے والا کھلاڑی ڈنڈے سے ٹل لگا کر گلی کو گڑھے کے مقام سے
دور پھینکتا ہے۔ اس کے پاس مارنے کے لیے تین شاٹس یا تین ٹل ہوتے ہیں۔ پہلا
دوسرا ٹل ناکام ہوجائے تو تیسرا آخری ہوتا ہے۔یہ بھی نہ لگے تو کھلاڑی آؤٹ
ہوجاتاہے اور اگر ٹل لگتے رہیں تو گلی پر ڈنڈا مار کر دور پھینکنے کا سلسلہ
جاری رہتا ہے۔ اگر مخالف کھلاڑی ٹل مارنے پر گْلّی کو کیچ کرلیں تو تب بھی
کھلاڑی آؤٹ قرار پاتا ہے اور پھر دوسرا باری لیتا ہے۔ ٹل لگانے کا طریقہ یہ
ہے کہ کھلاڑی ڈنڈے کی مدد سے گْلّی کے نوک دار سرے پر ہلکی سی ضرب لگاتا
ہے، جس سے گلی ہوا میں اْچھلتی ہے۔اب وہ کھلاڑی بڑی تیزی سے ہوا میں اْڑتی
گلی کو زور سے ضرب لگا کر دور پھینکتا ہے۔گلی کتنی دور جاکر گرتی ہے، اس کا
انحصار کھلاڑی کے بازوؤں کی طاقت اورلگائی گئی ضرب پر ہوتا ہے، جتنی مہارت
اور قوت سے ضرب لگائی جائے، گلی اس قدر دور جاکر گرتی ہے۔ المختصر یہ مسرت
و شادمانی کا کھیل ہے، تمام کھلاڑی کھیل سے لْطف اٹھاتے ہیں، آپس میں
ہلّاگلّاہوتا ہے اور سب دلی خوشی حاصل کرتے ہیں۔
چھپن چھپائی (لکن میٹی):
یہ کھیل بچپن میں تو سبھی نے کھیلا ہوگا۔ چھپن چھپائی کا یہ کھیل بچوں میں
چور پولیس یا چور سپاہی کے نام سے بھی مقبول تھا۔ یہ کھیل 18ویں صدی سے
دنیا کے تقریباً سبھی ممالک میں مختلف طریقوں سے کھیلا جارہا ہے۔ گوکہ اب
چھپن چھپائی کا رحجان پہلے کے مقابلے میں بہت کم ہوگیا ہے لیکن گاؤں میں آج
بھی گلی محلوں میں بچے اس کھیل سے محظوظ ہوتے ہیں۔ اسی طرح چین میں بھی بچے
چھپن چھپائی بڑے شوق سے کھیلتے ہیں۔مختلف زبانوں میں اس کھیل کے الگ الگ
نام ہیں۔ بنگلہ دیش میں چھپن چھپائی کو ’’کنامچی‘‘ کہا جاتا ہے۔ بنگلہ دیش
میں کنامچی کا کھیل لڑکیوں میں میں سب سے زیادہ مقبول ہے۔
چھپن چھپائی
تیری ساس کی ملائی
تو نے لپ لپ کھائی
تجھے شرم نہ آئی
یہ بچوں کا بنایا ہوا ایک خود ساختہ قطعہ تھا جس میں’’آئی‘‘ کا لفظ جس کے
سر پر آتا سمجھ لیجے کہ اس کی شامت آجاتی۔ یہ برف پانی پکڑم پکڑائی و
دیگراں جیسے بھاگ دوڑ والے کھیلوں سے بالکل مختلف اور انتہائی مزے دار گیم
ہے۔ یہ کھیل جرمنوں نے ایجاد کیا تھا، جب چھپنے والوں میں سے کوئی پکڑا
جاتا ہے تو چور ایک مشہور جرمن فقرہ ’’اولے اولے اوگزن فری‘‘ کہتا ہے، جس
کے اردو معنی یہ ہیں کہ ’’اب ہر کوئی آزاد ہے کیونکہ میں نے اس شخص کو
پکڑلیا ہے‘‘۔ اس کھیل میں ایک بچہ چور بنتا ہے، اس کی آنکھیں بند ہونے پر
باقی سب بچے چھپ جاتے ہیں۔ لہذا چور بچے کے ذمہ انہیں ڈھونڈ نکالنا ہوتا
ہے، جو بچہ سب سے پہلے پکڑا جاتا ہے اگلی مرتبہ اسے چور بنایا جاتا ہے۔
پہلی بار چور بننے کے لئے سب بچے تین، تین کے گروپ میں مل کر ’’پگنے‘‘ کا
ایک کھیل کھیلتے ہیں۔پگنے سے رہ جانے والے ہی کو چور بننا پڑتا ہے۔
پگنے کا طریقہ:
اس میں بچے ایک دوسرے کی ہتھیلیوں کو جوڑ کر اپنے ہاتھ سیدھے یا الٹے پلٹ
لیتے ہیں، جن دو بچوں کے ہاتھ ایک انداز میں سیدھے یا الٹے پلٹتے ہیں، وہ
پھر سے کسی تیسرے فرد کو شامل کر کے یہی عمل دہراتے ہیں۔ ہاتھ مختلف طریقے
سے پلٹنے والا بچہ پگ کر کھیلنے والی ٹیم میں شامل ہو جاتا ہے۔ اس طرح آخر
میں ایک بچہ ایسا رہ جاتا ہے جو پگنے سے رہ جاتا ہے، وہ ہی کھیل شروع کرتا
ہے۔
کیکلی:
یہ لڑکیوں کا کھیل ہے ۔اس کھیل میں دو لڑکیاں ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر کیکلی
ڈالتی ہیں اوریہ الفاظ کہتی ہیں
کیکلی کلیر دی
پگ میرے ویر دی
دوپٹہ میرے بھائی دا
فٹے منہ جوائی دا
سہنا لکھ بھر جائی دا،۔۔۔۔
کیکلی کا یہ کھیل گروہ بنا کر بھی کھیلا جاسکتا ہے۔
لال پری آنا:
اس کے علاوہ’ لال پری آنا‘کھیل بھی بچوں اور لڑکیوں کا بہت پسندیدہ کھیل
تھا جو وہ بہت شوق سے کھیلتی تھی ۔سہیلیاں جب مل کر دائرہ میں بیٹھتی تھیں
تو ساتھ ساتھ یہ الفاظ دہراتی تھیں کہ
لال پری آنا
چپکے چپکے آنا
ایک تھپٹر لگا کے
واپس چلی جانا
لال پری کا یہ کھیل گروہ بنا کر ہی کھیلا جا تا ہے۔
پینگ (جھولا لینا):
یہ ایسا کھیل ہے جو صرف گرمیوں میں کھیلا جاتا ہے۔ اسے لڑکیاں بہت شوق سے
کھیلتی ہیں۔ ایک ماہر بڑھئی سے پینگ تیار کروانے کے بعد اسے کسی گھر میں
موجودسایہ دار درخت کے نیچے نصب کر دیا جاتا ہے۔ دوپہر کے وقت لڑکیاں اور
خواتین اس پر بیٹھتی ہیں اورجھولا لیتی ہیں۔ برگد کا درخت چونکہ سب سے گھنا
اور چھاؤں والا ہوتا ہے اس لیے گاؤں میں برگد کا درخت اسی لیے مشہور ہے
کیونکہ اس پر خواتین اور لڑکیاں جھولا جھولتی ہیں۔نازیہ حسن کا گانا بھی
اسی روایت کا عکاس تھا جس میں پینگ پر بیٹھ کر وہ یہ گانا گاتی ہیں کہ
ٹالی دے تھلے بیھ کے۔۔۔وے ماہیا وے ماہیا۔۔۔کریے پیار دیاں گلاں
لاٹو (لٹو):
لٹوبھی بچوں اور لڑکوں کا من بھاتا کھیل ہے۔ بڑھئی سے خوبصورت رنگ برنگے
لٹوتیار کروائے جاتے ہیں ، نوک کے طور پر لٹو میں لوہے کا کیل بھی نصب کیا
جاتا ہے۔لٹو گھمانے کیلئے ایک رسی بھی درکار ہوتی ہے۔آج کل مارکیٹ سے بھی
خوبصورت لٹو بنے بنائے مل جاتے ہیں، جنہیں دیہاتی شوق سے خریدتے ہیں۔ دیہات
میں کسی بڑے سایہ دار درخت کے نیچے اس کا میچ لگتا ہے۔ کچھ بڑے لٹوں کے
گھمانے کا کھیل کھیلتے ہیں ، کچھ ایک دوسرے کے لٹو کو اپنے لٹو سے مارنے
کا۔ اس کھیل میں لٹو ٹوٹ بھی جاتے ہیں۔
پٹو گرم:
یہ پنجاب میں بچوں کا ایک کھیل ہے۔اسے مختلف ناموں ست پکارا جاتا ہے جیسے
،پٹھو واڑی، پٹھو گرم اوراپیٹھو گرم وغیرہ۔ یہ دیہات اور شہروں کے گلی
کوچوں میں بہت مقبول کھیل ہوا کرتا تھا، جسے عموماً مختلف لڑکوں پر مشتمل
دو ٹیمیں آپس میں کھیلا کرتی تھیں۔ ویسے لڑکوں کی تعداد کوئی مخصوص نہیں
ہوتی تھی۔ اس میں چھوٹی گول 4 یا 6 ٹھیکریوں کو ایک دوسرے کے اوپر رکھا
جاتا ہے۔ ایک بچہ ایک خاص فاصلے سے ان ٹھیکریوں کو ربٹی گیند/ٹینس بال
مارتا ہے۔ اگر گیند کو دوسری سمت میں مخالف بچہ دبوچ لے تو پہلے بچے کی
باری چلی جاتی ہے اگر ٹھیکریاں گیند سے ٹکرانے کے بعد گر جائیں اور گیند
دور چلی جاتی اور گیند کو ٹھیکریوں کے ساتھ مارنے والا بچہ ٹھیکریوں کو
درست کر دے تو اس بچے کو ایک اور باری مل جائے گی۔ اگر ٹھیکریوں کو درست
کرنے سے پہلے پہلے مخالف کھلاڑی گیند اس بچے کو مار دیں تو اس بچے کی باری
ختم ہو جائے گی۔ ایک نشانے باز تین مرتبہ مار سکتا تھا۔ نشانہ لگتے ہی پتھر
ادھر ادھر بکھر جاتے ہیں۔اب نشانہ مارنے والی ٹیم کو بال کی ضرب سے بچتے
ہوئے پتھروں کا مینار پھر سے تعمیر کرنا ہوتا تھا۔ اگر بال کسی کو کو لگ
گئی تو اگلے فریق کی باری۔ کسی کو نہ لگی اور پتھر پورے کرلیے تو پھر سے
اسی ٹیم اور اسی نشانہ باز کی باری۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ بال پتھروں سے
ٹکراتی اور سیدھا ’’وکٹ کیپر‘‘ کے ہاتھوں میں جاتی۔ ایسی صورت حال میں بھی
پوری ٹیم آؤٹ ہوجاتی ہے۔ اس کھیل میں زیادہ سے زیادہ چھ افراد کا ہونا
ضروری ہے۔ ویسے تو چار افراد میں بھی کھیلا جاسکتا ہے مگر اتنے کم افراد
میں انجوائے منٹ کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔
باندر کِلہ:
یہ بچوں کا مقبول ترین کھیل ہے۔ اسے خواتین بھی شوق سے کھیلتی تھیں۔اس کھیل
کیلئے ایک عدد رسی ، کِلے ( کھونٹے) اور چند جوتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ باری
دینے والا کھلاڑی رسے کو پکڑ کر کِلے کے اردگرد گھومتا ہے جبکہ دوسرے
کھلاڑی پھرتی سے کلے کے قریب پڑے جوتے اٹھاتے ہیں۔ اگر سارے جوتے اٹھا لیے
جائیں تو وہ رسی چھوڑ کر’’ پیڑ ‘‘ (منزل مقصود)کی طرف دوڑتا ہے ، اور باقی
کھلاڑی اس پر جوتوں کی بارش کر دیتے ہیں۔ اگر کوئی کھلاڑی جوتا اٹھانے کی
کوشش کے دوران پکڑا جائے تو وہ ’’سڑ‘‘جاتا ہے اور پھر وہ باری دیتا ہے۔
شیدن:
یہ کھیل بھی دیہاتوں اور شہروں میں یکساں مقبول ہے۔ اس کھیل کیلئے ایک عدد
پِھکری (ٹھیکری) کی ضرورت پڑتی ہے ، جسے گول کر لیا جاتا ہے۔کھلاڑی زمین پر
ایک بڑا سا ڈبہ بنا کر اس کے خانے بنا لیتے ہیں ، اور باری باری ٹھیکری کو
ان خانوں میں ڈال کر ایک ٹانگ کے ذریعے اسے باہر نکالنے کی کوشش کرتے ہیں ،
اگر تمام خانوں سے کامیابی سے ٹھیکری کو باہر نکال لیا جائے تو وہ کھلاڑی
جیت جاتا ہے ، اگر کامیاب نہ ہو سکے تو ظاہر ہے ہار جاتا ہے۔ پھر دوسرا
کھلاڑی اسی ترتیب سے کھیل کھیلتا ہے۔
کوڑا جمال شاہی یاکوکلا چھپاکی:
کوڑا جمال شاہی یا کوکلا چھپاکی کا کھیل ایک بہت ہی مقبول گروپ کھیل ہوتا
تھا۔ اس کھیل کے شرکاء ایک گول حلقہ بناکر اکڑوں بیٹھتے تھے اور اپنا سر
اپنے گھٹنوں میں دبالیتے تھے۔یہ کھیل بھی لڑکے اور لڑکیاں شوق سے کھیلتے
ہیں ، دیہاتوں اور شہروں میں یکساں طور پر مقبول ہے۔ اس کھیل کیلئے کپڑے کے
ایک نوڑے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کپڑے کو بل دے کر(وٹ کے) اس کا ایک چوٹی یا
پراندے کی طرز کا کوڑایا چابک بنا لیا جاتا ہے۔ باری دینے والا اسے ہاتھ
میں پکڑ کر گول دائرے میں بیٹھے کھلاڑیوں کے گرد گھومنے کے دوران چپکے سے
نوڑے (کوڑے) کو کسی کے پیچھے رکھ دیتا ہے۔اس دوران گھومنے والا یہ الفاظ
دہراتا ہے کہ
کوکلا چھپا کے ۔۔۔جمعرات آئی اے
جیڑا اگے پیچھے ویکھے ۔۔۔۔اودی شامت آئی اے
نا رہینا کسی بھولیکھے ۔۔۔جیڑا میرے ول دیکھے
اودے سر واری۔۔۔۔ایس رات آئی اے
اگر اسے پتہ چل جائے تووہ اسے اٹھا کر باری دینے والے کے پیچھے بھاگ کر اسے
مارتا ہے۔ اگر وہ خالی جگہ پر بیٹھ جائے تو مار سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ اگر
جس کے پیچھے نوڑا پڑا ہو اسے پتا نہ چلے تو وہ مار کھاتا ہے۔
ہِل کانگڑہ:
یہ دیہاتی بچوں میں بہت شوق سے کھیلے جانے والا کھیل ہے۔گرمیوں کی چھٹیوں
میں بچے باغوں میں اس کا خاص اہتمام کرتے ہیں۔اس کھیل میں ایک ڈنڈا مرکزی
کردار ادا کرتا ہے۔ ٹاس ہارنے والا کھلاڑی درخت کے نیچے کھڑا ہو جاتا ہے۔
جبکہ باری لینے والوں میں سے ایک اس ڈنڈے کو اپنی ٹانگ کے نیچے سے دور
پھینکتا ہے۔ باقی کھلاڑی درختوں پر چڑھ جاتے ہیں۔ باری دینے والا ڈنڈے کو
اٹھا کر اس درخت کے نیچے رکھ کر خود درخت پر چڑھ جاتا ہے ، تاکہ کسی کو پکڑ
سکے۔ دوسرے کھلاڑی پھرتی سے نیچے اتر کر اس ڈنڈے کو اٹھا لیتے ہیں۔ اگر
کوئی پہلے پکڑا جائے تو وہ باری دیتا ہے۔ اس طرح یہ کھیل شام تک جاری رہتا
تھا۔
گڑیا گڈے کی شادی :
یہ لڑکیوں کا مقبول ترین کھیل ہے۔ایک لڑکی کی گڑیا ہوتی تھی اور ایک کا
گڈا۔ ان کی شادی کا باقاعدہ اہتمام کیا جاتا تھا۔سب سہیلیوں اور کزنز کو
بلایا جاتا تھا۔اور گڑیا کے باقاعدہ کپڑے اور چنے منے برتن تیار کئے جاتے
تھے اور شادی کی ساری رسومات ادا کی جاتی تھیں۔
پہل دوج :
پہل دوج کا کھیل آج سے کوئی ڈیڑھ دہائی قبل تک ایک مقبول کھیل ہوا کرتا
تھا، جو کہ عموماً لڑکیاں اپنی سہیلیوں کے ساتھ یا تنہا بھی کھیلا کرتی
تھیں۔ اس کھیل کے کل لوازمات میں صرف ایک چاک، کٹم اور زمین کا چھوٹا سے
چھے سے آٹھ فٹ لمبا مستطیل قطعہ درکا ہوتا تھا۔لڑکیاں پہلے اس زمینی قطعہ
کو اس طرح جھاڑو لگاکر صاف کیا کرتیں کہ چمک اٹھتا اور پھر چاک کی مدد سے
اس کھیل کی لمبی مستطیل کی شکل میں آؤٹ لائن بنایا کرتیں، جس میں ایک سے
آٹھ عدد تک کے لیے دو ایک، دو ایک اور دو خانے بنایا کرتیں۔ ساتھ ہی لوہے
کا کوئی چھوٹا سا جیومیٹریائی اشکال نما ٹکڑا، جو کہ کٹم کہلایا کرتا تھا،
اسے ان خانوں میں باری باری اچھالا یا پھینکا کرتیں، جسے ان خانوں میں ایک
ننگے پیر اچھل کود کرتے اٹھایا جاتا تھا اور واپسی نقطہ آغاز پر اچھل کود
کرتے جایا جاتا، تاکہ اگلے عدد تک رسائی کی جاسکے۔اس مقصد کے لیے انگریزی
میں ایک جامع لفظ ’’Hop‘‘ کا استعمال کیا جاتا۔ یہ اچھالے جانے والا کٹم یا
کھیلنے والے کا پیر ان چاک سے بنے خانوں کی آؤٹ لائن کو چھوجاتا یا کٹم
کہیں باہر جا گرتا تو وہ کھلاڑی اپنی باری ہار جاتا تھا۔
کنچے:
کنچے، بنٹے اور گولیاں بھی کہلاتے تھے۔ یہ شیشے سے بنی سخت، چھوٹی سی گول
اور خوب صورت رنگ برنگی گولیاں ہوا کرتی تھیں۔ اس کھیل کے لیے کچھ گولیاں
اور زمین پر ایک چھوٹا سا ہول درکار ہوتا تھا۔یہ کھیل اس طرح سے کھیلا جاتا
تھا کہ کھلاڑی سب سے پہلے گولیوں کو زمین پر بکھیر دیتا تھا اور پھر باری
باری زمین پر انگوٹھا رکھ کر کچھ فاصلے پر پڑی دوسری گولی پر نظریں مرتکز
کرتے ہوئے، نشانہ لیتا تھا اور پھر اپنی درمیانی انگلی اور دوسرے ہاتھ کی
کی انگلی مدد سے اسے یوں ضرب لگاتا تھا کہ وہ گولی زمین پر کیے گئے سوراخ
میں چلی جائے۔ یوں وہ کھلاڑی گولیاں سمیٹتا جاتا تھا۔ دیگر کھیلوں کی طرح
یہ بھی دو یا دو سے زاید کھلاڑیوں میں کے درمیان کھیلا جاتا تھا۔
چور پولیس:
چور پولیس کا کھیل دیگر کھیلوں کی طرح بہت دل چسپ ہوتا تھا۔ اس کھیل کے لیے
بچے دو ٹیموں میں تقسیم ہوجاتے تھے۔ ایک ٹیم پولیس کی ہوتی تھی اور دوسری
چوروں کی۔ اس کھیل کے لیے کسی قسم کی کوئی چیز درکار نہیں ہوتی تھی۔اس کھیل
میں ایک فرضی جیل میں بند چور جیل توڑ کر بھاگ جاتے تھے اور پولیس ٹیم کا
کام یہ ہوا کرتا تھا کہ وہ لازمی ان چوروں کو پکڑے اور انہیں واپس اسی جیل
میں لائے، جہاں سے وہ فرار ہوئے تھے۔ چوروں کا کام یہ ہوتا تھا کہ وہ اپنے
پکڑے گئے ساتھیوں کو چھڑا لے جائیں۔ یہ کھیل اس وقت اختتام پذیر ہوتا تھا
جب تمام فرضی چور دھر لیے جائیں یا دوسری ٹیم ہار مان لے۔
آنکھ مچولی:
اس شرارتوں سے بھرے کھیل کو گھریلو کھیل کا نام بھی دیا جاسکتا ہے، جسے گھر
کے سبھی بچے اور بڑے ایک ساتھ گھر میں کھیل سکتے تھے۔ اس کھیل کا طریقہ کار
یہ ہوتا تھا کہ کھیلنے والے اپنے درمیان سے ایک فرد کو چن لیتے تھے، جس کی
آنکھوں پر پٹی باندھ دی جاتی تھی۔ اسے دیگر کھلاڑیوں میں سے کسی ایک کو
پکڑنا ہوتا تھا۔ دیگر شرکاء اس کھلاڑی کے اردگرد رہتے ہوئے اپنا بچاؤکیا
کرتے تھے اور طرح طرح کی شرارتیں بھی کرتے جاتے تھے۔
کھو کھو:
دراصل یہ انگریزوں کا بنایا کھیل ہے جسے وہ گو گو کہتے تھے۔ لڑکیوں میں یہ
کھیل بے حد مقبول تھا، جسے دیگر کھیلوں کی طرح وہ اپنے گھر، اسکول کے صحن
اور گلی کوچوں میں دو ٹیمیں بناکر کھیلتی تھیں۔ اس کھیل میں چاک کی مدد سے
ایک لمبی افقی لکیر کھینچی جاتی تھی، جس کے دونوں کناروں پر اور درمیان میں
کھلاڑیوں کے کھڑے رہنے کے لیے گول دائرے بنائے جاتے تھے۔اس کھیل میں تقریبا
دس افراد تو لازمی ہونے چاہیے۔ پانچ پانچ کی ٹیم کے حساب سے مثلاً اگر ٹیم
میں پانچ کھلاڑی ہیں تو چاردائرے بنائے جائیں گے اور صرف پانچواں کھلاڑی
مخالف ٹیم کے کھلاڑیوں کو پکڑنے کے لیے دوڑ لگا سکتا ہے۔ان گول دائروں میں
کھلاڑی ایک دوسرے کی مخالف سمت میں کھڑے رہتے تھے، یعنی ایک کا رخ مغرب کی
طرف اور دوسرے کا رخ مشرق کی طرف ہوتا تھا، مگر اس پانچویں کھلاڑی کو یہ
اجازت نہیں ہوتی تھی کہ وہ اس افقی لکیر کو پار کرے۔اس مقصد کے لیے اسے گول
چکر کاٹنا پڑتا تھا، مگر مخالف ٹیم کے کھلاڑی خود کو بچانے کی غرض سے اس
افقی لکیر کو پار کرکے دوسری طرف جاسکتے تھے، جنھیں پکڑنے کے لیے پانچواں
کھلاڑی ان حلقوں میں کھڑے کھلاڑیوں میں سے کسی ایک کو کھو کر کے مخالف ٹیم
کے کھلاڑی کے پیچھے لگا سکتا تھا، مگر اسے خود اس دائرے میں کھڑا رہنا پڑتا
تھا۔
پکڑم پکڑائی:
مختصر وقت کے پیش نظر کھیلنے کے لیے ایک بہت ہی عمدہ کھیل ہے۔اس کھیل میں
چار پانچ بچے’’پْگم ‘‘ کے ذریعے یہ فیصلہ کرتے کہ ’’دام‘‘ کس کا ہے؟ پگم
کرنے کا طریقہ یہ تھا کہ سارے کھلاڑی اپنی اپنی ہتھیلی کی پشت کو لٹکا کر
ایک ساتھ ملاتے اور اچھال دیتے۔ کسی کا ہاتھ سیدھا ہوتا تو کسی کا الٹا۔
فیصلہ اکثریت کی بنا پر ہوتا تھا۔ یعنی پانچ میں سے تین سیدھے ہاتھ نکلے تو
تینوں خطرے سے باہر۔اب بچے دو۔ دو میں فیصلہ کرنے کے لیے تیسرے ہاتھ کا
ہونا ناگزیر تھا۔ آپ اس کو ایمپائر کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ چنانچہ دوبارہ
’’پگم ‘‘ کی جاتی۔ دونوں فریقوں میں سے جس کا ہاتھ سیدھے یا الٹے کی بنا پر
اکیلا رہ جاتا پکڑنے کی باری اسی کی ہوتی۔اب کھیل شروع ہوجاتا ہے اور پکڑنے
والا کسی ایک جگہ پر کھڑا ہوکر پانچ سے دس تک گنتا ہے تاکہ بھاگنے والے جلد
سے جلد پکڑنے والے کی پہنچ سے دور ہوسکیں۔ متعین گنتی کے بعد جب پکڑم
پکڑائی شروع ہوتی ہے تو جو پہلے ہاتھ آگیا پکڑنے کی باری اس کی ہوتی۔ اس
تیز رفتار گیم سے ایک تو دوڑ بھی اچھی خاصی لگ جاتی اور کم وقت میں تفریح
اور جسمانی ورزش کا بھی اچھا خاصا انتظام ہوجاتا۔
سیب سیب:
یہ بہت ہی مشکل گیم سمجھا جاتا تھا اور یقینا تھا بھی۔ اس کے لیے دو
دیواروں کا ہونا ضروری تھا۔ ایک دیوار پر تین چار بچے کھڑے ہوتے اور دوسری
سامنے والی دیوار پر بھی اتنی ہی تعداد میں مختلف فاصلے سے فیلڈرز سیب کو
پکڑنے کے لیے تیار رہتے۔ کرنا یہ ہوتاکہ سب کو چکما دیتے ہوئے دوڑ کر سامنے
والی دیوار کو ہاتھ لگانا ہوتا تھا۔ اس طرح آدھا سیب مکمل ہوجاتا۔ پھر اپنی
دیوار پہ واپس آنا ہوتا تو پورا سیب مکمل ہوجاتا۔ اس میں کوئی بونس نہیں
ملتا تھا۔ چاہے کوئی کھلاڑی آدھا سیب بنائے یا پورا۔ یا پہلے ہی پھیرے میں
آؤٹ ہوجائے، بہر صورت باری ایک ہی ہوتی تھی۔ اسے کرکٹ کی طرح کا ایک کھیل
کہہ سکتے ہیں جس میں آپ کو ٹارگٹ اچیو کرنا ہوتا ہے۔ شروع میں جتنا سیب
بنایا جاتا بعد میں پکڑنے والی پارٹی کو اس سے زیادہ بنانا ہوتا تھا۔ کبھی
ایسا بھی ہوتا کہ دونوں فریق آدھا سیب بھی نہ بناسکے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا
کہ میچ ڈرا ہوجاتا۔ المختصر سب سے بچ بچا کر سامنے والی دیوار کو ہاتھ
لگانا بہت مشکل کام ہوتا تھا۔ |