معروف افسانہ نگار فرخندہ لودھی کا خاکہ میں نے جولائی
2011ء میں لکھا تھا ،وہ ان کی برسی 5مئی2017ء کودوبارہ ہماری ویب پر وائرل
ہوا، اس سے قبل یہ لاہور کے ادبی جریدے ’الحمرا‘ اور میری خاکوں کی کتاب
’جھولی میں ہیرے اور موتی ‘ میں شائع ہوچکا تھا۔ جب یہ فیس بک پر پوسٹ ہوا
تو کئی احباب نے اسے لائک کیا اور کچھ نے کمنٹس بھی لکھے ۔ ان کمنٹس میں
ایک تعریف میرے ایم اے ، جامعہ کراچی کی کلوس فیلو عذرا قریشی کی بھی
تھی۔انہوں نے لکھا تھا’’ کیا کہنے ڈاکٹر صمدانی صاحب ، پراؤڈ آف یو، کبھی
اپنے ساتھیوں پر بھی نظر کرم کر لیا کریں‘‘۔ جواب میں شکریہ کے علاوہ لکھنے
کا ان پر خاکہ لکھنے کا وعدہ بھی کیا۔ الحمد اللہ عذرا قریشی اس وقت میرے
خاکے کا موضوع ہیں۔ میں نے اپنے موضوع کی ہر جہت کا گہرائی اور گیرائی سے
تجزیاتی مطالعہ کر کے ان کی شخصیت اور ان کے پیشہ ورانہ قد کو اجاگر کرنے
کی سعی کی ہے۔
چار دہائیاں ہو چکیں اپنے موضوع کو دیکھتے ، سنتے ،تعلق کے تانے بانے قائم
ہوئے ،گفتار کا انداز، اٹھنا بیٹھنا، اوڑھنا بچھونا، لہکنا ، چہکنا، خوش
ہونا، نصیحت آمیز باتیں کرنا، گفتگو میں ٹہراؤ، تدبراور کھرا پن، اطوار
شاہانہ، دوپٹہ ٹائی نماں، بال سمٹے ہوئے،خلوص بھرا لہجہ، پاکیزہ خیالات، پر
وقار آدھی اردو آدھی انگریزی گفتگو، چکاچوند ،کچھ سوچتی کچھ بولتی آنکھیں
اور بولڈنیس یہ سب کچھ میں نے 1971کی کسی صبح جامعہ کراچی میں ایم اے سال
اول کی کلاس روم میں دیکھاتھا۔ 46واں برس رواں دواں ہے تبدیلی محسوس نہیں
ہوئی سوائے اس کے کہ عمر میں پختگی آ گئی، وہ تو آناہی تھی، عمر کو کون روک
سکا ہے آج تک، یہ تو دراز رہتی ہے۔
تو ہم اب 71/72والے نہیں بلکہ ہمارا رنگ روپ ، چال ڈھال،بول چال غرض تبدیلی
آنہیں رہی بلکہ آچکی ہے۔اپنے موضوع کی مستقل مزاجی کی داد دینا پڑتی ہے،
نام میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، حالانکہ 1971-72کی ایم اے کی کلاس میں
لڑکیاں زیادہ اور ہم لڑکے کم تھے ، اس زمانے میں جامعہ کراچی میں داخلے کے
لیے عمر کی قید نہ تھی چنانچہ ہماری کلاس میں خواتین تو لڑکیاں ہی تھیں
سوائے چند کے البتہ لڑکوں کے ساتھ ساتھ عمر رسیدہ مرد بھی تھے۔رسمِ دنیا ہے
کہ خواتین کے نام کے ساتھ کچھ اضافہ یا تبدیلی آجاتی ہے، لیکن میرے موضوع
کی مستقل مزاجی غضب کی،زندگی کا طویل سفر تنہا ہی گزاردیا، مچال ہے کہ ٹس
سے مس ہوجائے۔ اسے کہتے ہیں مستقل مزاجی۔زندگی کے سفر میں وہ کہاں کہاں
نہیں گئی ، ایک تو آئی ہی تھی بنکاک سے ، اس لیے اُسی وقت عمر کی جولانی
اور اس پر بنکاکی اثرات سونے پہ سہاگہ تھے۔کہتے ہیں کہ انسان کی شخصیت پر
اس کے نام کے اثرات بھی ہوتے ہیں۔نام ہے عذرا،ویسے تو یہ لقب حضرت بی بی
مریمؓ کا ، یہ لقب ہے حضرت فاطمہؓ کا لیکن اس کے معنی کنواری، دوشیزہ ،
کماری ، کنیا اور وامق کی معشوقہ کے ہیں۔انگریزی ڈکشنری میں اس لفظ کے معنی
relationship, kin, alliance , afficity, Beloved of Wamiq کے بیان کیے گئے
ہیں۔ داستانِ وامق و عذرا بھی مشہور ہے، ابوالقاسم بن احمد عنصری کی ایک
مثنوی ‘وامق و عذرا‘ فارسی زبان میں شائع ہوچکی ہے۔بھارت اور پاکستان میں
اس نام کی ایک فلم بھی بنی جو ریاض شاہد1962 میں بنائی تھی ، ۔ ایک حوالے
سے نام کے اثرات زندگی پر نظر آتے ہیں ۔ خاکے اور شخصیات پر تو ہم نے بے
شمار لکھا، البتہ خواتین پر بہت کم، وجہ یہ محسوس ہوتی ہے کہ یہاں قلم کو
بہت ہی احتیاط سے چلاناپڑتا ہے۔ ہم نے معروف افسانہ نگار اور ناول نگار
فرخندہ لودھی کا خاکہ لکھا تھا۔فرخندہ لاہور میں تھیں جب کہ ہم کراچی میں
ان سے بھی علمی و ادبی تعلق تھا، ہم پیشہ بھی تھیں، ہماری دوستی ان کے شوہر
پروفیسر صابر لودھی سے بھی ہوگئی ، ان کا ا نتقال بعد میں ہوا وہ اعلیٰ
درجہ کے کالم نگار تھے ، ہم نے صابر لودھی کا بھی خاکہ لکھا۔ ان کے علاوہ
فاطمہ ثریا بجیا، بانو قدسیہ، طاہرہ قاضی، فاطمہ جناح، رتھ پاؤ، مارگریٹ من
اور اپنی ماں کا خاکہ بھی لکھا۔ ایک اور وجہ یہ بھی ہے بقول اشفاق احمد’
ادب کے ناقدوں نے ہر صنف ادب کے بارے میں کچھ پابندیاں عائد کر رکھی ہیں
اور آپ اس لیگل فریم ورک سے باہر نہیں نکل سکتے۔ خاکہ نگاری کے لیے یہ
پابندی عائد ہے کہ خاکہ لکھتے وقت خاکہ نگار اپنے خاکوانی کی مکمل مدح
سرائی نہیں کرسکتا اور اس کو ایک اچھے اعلیٰ معیارکی شخص کے طور پر پیش
نہیں کرسکتا۔ اس کی شخصیت میں تھوڑی بہت برائی ضرور شامل کرنی پڑے گی خواہ
وہ مانگے کی برائی ہی کیوں ہو۔ کسی شخص کو پورے کا پورا بدمعاش ،عیار، ’بے
ایمان‘ اور ’ظالم‘ پیش کرنے کی البتہ پوری آزادی ہے۔ اشفاق احمد صاحب
کاکہنا ہے کہ انہوں نے ابتداء میں انہوں نے دو دوستوں کے تین خاکے لکھے تھے
لیکن ایڈیٹر نے انہیں اس وجہ سے باقبل اشاعت قرار دے کر واپس بھیج دیا کہ
ان میں ساری اچھی اچھی باتیں ہی تھیں اور اچھی اچھی باتیں پڑھ کر قارئین کے
بے مزاہ ہونے کا اندیشہ تھا‘‘۔ یہ بات اشفاق احمد نے ممتاز مفتی کے خاکے
’’سوالاکھ کا ہاتھی‘‘ میں لکھی ہے۔ ڈاکٹر احسن فاروقی نے خاکے کو ایک ایسی
صراط مستقیم قرار دیا ہے جو بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہے
جب کہ ممتاز مفتی کے نزدیک اس فن میں طوفان چلنے کے لیے بے تاب ہوتا ہے۔ اب
زرا سوچیں کہ اگر خاکہ نگار کسی خاتون کے خاکے میں مشکل سے ڈھنڈ ڈھانڈ کے
چند برائیاں لکھ بھی دے اور وہ خاکوانی زندہ بھی ہو تو خاکہ نگار کا کیا
انجام ہوگا۔ اردو ادب میں خاکوں کی فہرست مرتب کی جائے تو اس میں خواتین کے
خاکے آٹے میں نمک کے برابر ہی ملیں گے۔ میرے نزدیک خاکہ کسی بھی شخصیت کو
ہلکے پھلکے ادبی انداز سے متعارف کرانے کا نام ہے اپنے اس خاکے میں یہی
کوشش کی میں نے کی ہے۔
عذرا قریشی،باپ کی لاڈلی، بہن بھائیوں میں سرِفہرست ، ابا کا کہنا تھا کہ’
عذرا‘ لڑکا ہوجاتی تو اچھا تھا‘، کہتے ہیں کہ اللہ کے دربار میں بندے کی
کوئی گھڑی قبو لیت کی ہوتی ہے ، ممکن ہے کہ وہ گھڑی جب اس کے ابا نے اسے
مرد انہ صفات کی حامل ہونے کی دعا دی وہ قبولیت کی گھڑی رہی ہو اور اللہ نے
اس کا خمیر تو نسوانی صفات کا بنادیا ہوپراس کے ابا کی دعا کے نتیجے میں اس
میں مردانہ صفات بہادُری، شجاعت ، احساس ذمہ داری جیسی صفات پید کردیں اور
اس نے بھی ایسی ہی فرما برداری دکھائی کہ اپنے والدین اور بہن بھائیوں کی
ہی ہورہی۔ ملازمتی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھااپنے گھر کی دیکھ بھال اوراپنے
خانوادے کی خدمت کو اس نے اپنی زندگی کا لازمی جذو بنالیا۔ اس نے ستاروں کی
چمک، چاند کی چاندنی ، اڑتے بادلوں ، سرد ہواہوں ، پرندوں کی چہچہا ہٹ کو
ثانوی حیثیت دی
یہی ہے عبادت یہی د ین و ایماں
کہ کام آئے دنیا میں انسان کے انسان
پہلے والد ‘ پھر18 سال بعد والدہ طویل علالت کے بعد دنیا سے منہ موڑ گئیں ۔اب
ذمہ داریوں کا بار اور بھی بڑھ گیا ، بھائی شاہد جو امریکن ایکسپریس بنک
میں ملازم تھے بیس سال نیویارک اسٹاف میں رہے، 9/11کے بعد گولڈن شیک ہینڈ
لے لیا، دبئی مشرق بنک دو سال کے لیے جوائن کیا، اپنی امی کی بڑھتی ہوئی
بھول کے سبب ان کی دیکھ بھال کے لیے نوکری چھوڑ کر ووطن واپس آگئے۔ ان کا
دوسرا بھائی ارشد جو ان کے ساتھ ہیرہا پی آئی اے سے 2002 ء میں ریٹائر ہوئے۔
اس میں یہ بات بھی تھی کہ عذرا اپنی مدت ملازمت پوری کرلیں۔ ابھی سانس بھی
نہ لیا تھا اپنی امی کی وفات کے دو ہفتے بعد ہی ان کے بھائی شاہد جو غیر
شادی شدہ تھے فالج کا شکار ہوگئے۔ اب تو ناتواں کاندھوں پر اور بھی بوجھ آن
پڑا ، اسی دوران اس کی مدد ملازمت پوری ہوئی اور ریٹائرمنٹ بھی ہوگئی۔ یہ
ایک اعتبار سے اس کے اوپر پڑے بوجھ میں کمی کا باعث تھا، اب وہ کل وقتی
اپنے گھر کی ہوکر رہ گئی لیکن اس نے پیشہ ورانہ اور فلاحی سرگرمیوں میں حصہ
لینا ترک نہیں کیا۔ وہ فلاحی اداروں، ملازمر پیشہ خواتین کی انجمنوں ، پیشہ
ورانہ اداروں اور خواتین کی بہبود کی تنظیموں سے وابستہ ہے ، بے شمار
کانفرنسیز اور سیمینارز میں شرکت ہی نہیں کی بلکہ ان میں پییپربھی پیش کیے۔
سفر کی شوقین ،ہر سال کسی نہ کسی ملک کی سیاحت پر گئی نظر آتی ہے۔ سفر نامہ
نگاری کا سلسلہ بھی شروع کردیا ہے، کچھ سفر نامے مضمون کی صورت میں لکھے جو
شائع بھی ہوئے۔
عذرا کے پرکھوں کا وطن ہندوستان کا شہر گوالیار ہے، والد کا تعلق ’مرار‘ جب
کہ والدہ دہلی سے تعلق رکھتی تھیں۔ عذرا کی پیدائش گوالیار میں2 نومبر1949
ء کو ہوئی، سوا ماہ کی تھیں کہ والدین کے ہمراہ پاکستان ہجرت کی، خاندان
میں پڑھائی کا رجحان تھا دادا انجینئر، نانا ڈاکٹر، ماموں پروفیسر ولی محمد
قریشی جامعہ کراچی میں پروفیسر ڈاکٹر نسیمہ ترمذی کے ساتھ تھے ۔ قیام
پاکستان کے بعد کراچی اس خاندان کا مسکن ٹہرا، ابتدائی تعلیم گھر پر امی
اور ابا سے حاصل کی ، 1954ء میں والد جو پاکستان گورنر جنرل ہاؤس میں ملازم
تھے بنکاک چلے گئے ایک سال بعد عذرا، بھائیوں اور والدہ نے بھی بنکاک کی
راہ لی۔تین سال بعد لاہور میں بھی خالہ کے پاس قیام رہا ،کوئن میری اسکول
سے پانچویں اورچھٹی جماعت تک پڑھا، واپس چچا کے پاس کراچی آئیں اور گورنمنٹ
جیکب لائن اسکول سے میٹرک کیا۔ پڑھنے میں طاق تھیں اسکول میں ہمیشہ اول آتی
رہیں۔ اسکول کے بعد کالج کا زمانہ شروع ہوا گورنمنٹ کالج برائے خواتین،
فیرئیر روڈ لڑکیوں کا معروف کالج ہے وہاں سے انٹر اور بی اے 1965سے1969تک
زیر تعلیم رہیں۔ والدین بنکاک میں تھے اس لیے انہیں ہاسٹل میں رہنا پڑا۔
پروفیسر بیگم ذینت رشید احمد کالج کی پرنسپل تھیں۔عذرا پڑھائی میں تیز ،
کلاس میں نمایاں پوزیشن حاصل کرتی رہیں ہاسٹل لائف کی ایک دوست نے انہیں
میڈیکل کی تعلیم سے دور رہنے میں اہم کردار ادا کیا، ان کا ارادہ ڈاکٹر
بننے کا تھا لیکن اس دوست نے انہیں میڈیکل کی تعلیم سے دور کردیا۔ بی اے کے
بعدایک انگریزی میڈیم اسکول میں اسکول ٹیچر کی حیثیت سے پڑھاتی رہیں۔ طلعت
، عفت اور سیما ان کی بہنیں ہیں، ان میں سے ان کی سب سے چھوٹی بہن سیما کم
عمری میں انتقال کرگئیں ۔ اپنی بہن کی جدائی کی داستان انہوں نے کچھ اس طرح
بیان کی کہ’’ اکتوبر1973 میں سیما جس کے دل میں پیدائشی سوراخ تھا تیرہ برس
کی عمر میں داغِ مفارقت دے گئی، امی ہمارے پاس کراچی میں تھیں اور والد کے
ساتھ دو چھوٹی بہنیں اسکول کی چھٹیاں ختم ہوجانے پر دو ہفتے پہلے ہی بنکاک
واپس گئی تھیں۔ اس وقت ایک بہن جو کراچی یونیورسٹی میں سوشیالوجی میں
ماسٹرز کر رہی تھی اس کے امتحانات چل رہے تھے، رمضان کا مہینہ اختتا م پر
تھا اور عید کرتے ہی والدہ اور طلعت بنکاک واپس جاتیں کہ الوداع جمعہ کو
سیما چل بسیں اور ظفر اللہ شیخ پی آئی اے کے منیجر بنکاک اور ابا کے ایک
قریبی دوست اختر الدین صاحب یہ خبر لے کر ہم تک پہنچے ، یہ ہمارے لیے ایک
بہت بڑا سانحہ تھا ۔ میرے والد کو پاکستانی احباب اور سفیر پاکستان نے وہاں
سے سیما کے جسم خاکی کو پی آئی اے سے روانہ کیا تا کہ تدفین میں والدہ اور
سب بہن بھائی بھی شامل ہوسکیں، شاید دیکھ کر صبر آئے اور بہن کی قبر بھی
اپنے وطن میں ہی ہو ورنہ بنکاک میں بھی تدفین ہوجاتی‘‘۔
عذرا گریجویٹ تھیں ، آگے پڑھنا چاہتی تھیں ، اسی دوران انہیں بنکاک انٹر
نیشنل اسکول کے الیمنٹری اسکول کی لائبریری میں لائبریری ایسو سی ایٹ کی
نوکری مل گی، یہاں مسز پاؤ لائبریری کوارڈینیٹر تھیں ، مسٹر پاؤ ان کے والد
کے ساتھ کام کرتے تھے۔ ان کے علاوہ مسٹرامبیٹکر جو لائبریرین تھے ان سے
متاثر ہوئیں ۔ یہی وہ موڑ تھا جس نے عذرا کو لائبریرین شپ کے پیشے کی جانب
مائل کیا۔ جامعہ کراچی کے شعبہ لائبریری سائنس میں داخلہ کی کوشش انہوں نے
بنکاک میں رہتے ہوئے کی، وہیں سے داخلہ فارم بھیجا، شعبہ کے سربراہ ڈاکٹر
عبدا لمعید سے خط و کتابت پر داخلے کے مراحل طے ہوچکے تھے۔ کراچی پہنچیں تو
کلاس شروع ہوئے چند دن ہی ہوئے تھے۔ اسی کلاس میں میرا داخلہ بھی ہوچکا تھا۔
ایم اے سال اول لائبریری سائنس کی کلاس تھی، شعبہ جامعہ کراچی کی مرکزی
لائبریری جو اب ڈاکٹر محمود حسین لائبریری کہلاتی ہے کی پانچویں منزل پر
تھا۔ کلاس شروع ہوچکی تھی ڈاکٹر جلال الدین حیدر جو بعد میں پروفیسر ڈاکٹر
سید جلال الدین حیدر ہوئے کلا س لے رہے تھے، دوران کلاس ایک لڑکی کالا گاؤن
پہنیں، ٹراؤزر پہنے ،بال سمٹے ، چھوٹا قد، گندمی رنگ، بولڈ انداز ، نظریں
جگہ تلاش کرتی ہوئیں، لڑکوں والی رو میں پچھلی نشست پر فاتحانہ انداز سے
بیٹھی تو لیکچر دیتے ہوئے ڈاکٹر سید جلال الدین حیدر کے چہرے پر ایک رنگ
آرہا تھا ایک رنگ جارہا تھا وہ ٹھٹھک سے گئے ، جو لڑکے اس بہادر و بولڈ
لڑکی کو دیکھ سکے انہوں نے بھی محسوس کیا کہ کوئی مختلف چیز کلاس میں آئی
ہے۔ یہ تھی اس وقت کی عذرا قریشی، بنکاک پلٹ۔ دوران کلاس پہلے ہی دن اس نے
سوالات بھی کر ڈالے اس سے وہ زیادہ نمایاں ہوگئی۔ کلاس ختم ہوئی تو معلوم
ہو اکہ کلاس میں ایک نیا اضافہ ہے، موصوفہ بنکاک سے تشریف لائی ہیں۔ بعض نے
انہیں فارنر بھی سمجھا۔ اسی کلاس میں دو ایرانی لڑکیاں بہائیے جمشید مالی
اور طیبے شیرازی بھی تھیں۔ اس لیے عذرا کا فارنر ہونا کوئی خاص بات نہ تھی۔
دو سال کیسے گزرے ان کی تفصیل قدر طویل ہے ۔ اس میں جانا مناسب بھی نہیں۔
ڈپلو مہ میں فسٹ پوزیشن تھی جس کی بنیاد پر انہیں ورک اسکالر شپ ملااور
جامعہ کراچی کی محمود حسین لائبریری میں ریفرنس سیکشن میں ملازمت بھی، ساتھ
ہی اس سیکشن کی انچارچ انیس زبیری صاحبہ سے دوستی بھی ان کیے حصے میں آئی۔
عذرا کے قریبی کلاس فیلوز میں جاوید سلطانہ، حبیب جہاں، لکشمن،آبان رستم جی
جو سینئر تھے، بشارت مرزا، ظفر نقوی شامل تھے ۔یہ ایک ایسی منفرد کلاس تھی
کہ جس میں مختلف زبانیں بولنے والے، ہندو، پارسی بھی تھے لیکن کسی قسم کی
کوئی تفریق کلاس میں نہ تھی۔ البتہ ہم عذرا قریشی کے دوستوں کی فہرست میں
کہیں دور دور نہیں تھے۔ ہم کلاس کے سب سے زیادہ خاموش طبع، گم سم، پچھلی
سیٹوں پر بیٹھنے والوں میں سے تھے۔ دوست توہمارے بھی تھے ، قریبی اور دور
کے دوست بھی، پر وہ بھی ہمارے جیسے ہی تھے ۔ عذرا اس وقت کے اپنے دوستوں
میں انیس زبیری کو سر فہرست شمار کرتی ہیں۔ انیس زبیری سینئر تھیں اور
ڈاکٹر محمود حسین لائبریری کے شعبہ حوالہ جات میں خدمات انجام دیا کرتی
تھیں۔
لائبریری سائنس میں ماسٹرز کرنے کے بعد مختلف اداروں میں خدمات انجام دیں
ان میں 1973-74میں جامعہ کراچی انسٹی ٹیوٹ آف میرین بائلوجی میں، 1974میں
امریکن سینٹر کراچی کی لائبریری سے وابستہ ہوئی اور 1979تک خدمات انجام
دیں، 1979ء میں ان کا تقرر کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی میڈیکل کالج جدہ میں ہو
اور وہ 1982ء سعودی عرب میں خدمات انجام دیتی رہیں، اسی سال یعنی1982ء میں
وطن واپس آئیں اور آغا خاں یونیورسٹی کراچی کے کتب خانے سے وابستہ ہوگئیں ،
یہاں ان کی لائبریری خدمات 27 سال پر محیط ہے ، وہ2009ء میں
ریٹائرہوئیں۔انہیں 1989-1990میں دو اسکالر شبUSAIDاور AAUWکے لیے جس کے تحت
کینٹ اسٹیٹ یونیورسٹی سے انہوں نے دوسرا ماسٹرز 1990ء میں کیا ، یہ ہیلتھ
لائبریرین شب میں تھا، عذرا اکیڈمی آف ہیلتھ پروفیشن کی سند یافتہ ہیں جو
امریکہ میں ایک طرح کا لائسنس ہوتا ہے میڈیکل لائبریری میں پریکٹس کے لیے۔
انہیں پاکستان میں واحد سند یافتہ میڈیکل لائبریرین ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
عذراقریشی نے لائبریرین شپ کے موضوع پر انگریزی میں زیادہ لکھا جب کہ اردو
میں کم،وہ لائبریرن شپ کے ایک جریدے ’پاکستان لائبریری وانفارمیشن سائنس
جرنل ‘کے مدیران میں بھی شامل ہیں۔2011 سے وہ پاکستان ببلو گرافیکل ورکنگ
گروپ کے اسکول آف لائبریرین شب میں باقاعدگی سے لیکچر بھی دے رہی ہیں، وہ
انتظامی امور میں بھی معاونت کرتی ہیں ۔ وہ جتنا اچھا بولتی ہیں اتنا ہی
اچھا لکھتے بھی ہیں۔
ستاروں کے علم پر اکثر لوگوں کا اِ عتِقاد نہیں مسلمان کی حیثیت سے ہمارا
ایمان بھی ہے کہ غیب کا علم صرف اور صرف اﷲ کو ہے۔ لیکن علمِ فلکیات اُن
علوم میں سے ہے جسے قدیم علم کہا جاتا ہے۔ اﷲ کی مخلوق نے بے شمار کاموں کے
لیے چاند ، سورج اورستاروں سے مدد لی ہے۔ ماہر فلکیات کی باتوں پر یقین
کرنا یا نا کرنا اپنی جگہ لیکن اس کی حقیقت سے انکار بھی مشکل ہے۔ اسے صرف
ایک علم اور سائنس کے طور پر لینا چاہیے۔ عذرا جس تاریخ کو اس دنیا میں
وارد ہوئی اس اعتبار سے اس کا اسٹار ’عقرب‘ یعنی (Scorpio)ہے ۔23 اکتوبر
تا22 نومبرکے درمیان پیداہونے والے ’عقرب‘ہوتے ہیں۔ ماہر ین فلکیات نے
’’عقرب‘افراد کی جو خصوصیات بیان کی ہیں ان کے مطابق ’’عقرب‘ افراد کا نشان
بچھوہے ، برج کا عنصر پانی ہے،’عقرب (Scorpio) افراد کی جن نمایاں چیزوں کی
نشاندھی کی گئی ہے ۔ اس کے مطابق رنگ:بھورا، عنابی، گہرا سرخ،برج
عنصر:پانی،مقسومی نگینہ:ہیرا، عقیق، موتی،مبارک دن:جمعہ ، منگل،نام کے
حروف:ذ،ز،ض،ظ،ن، مقسوم عدد:۹، حاکم سیارہ:پلوٹو۔مفید دھات:لوہا ،
تانبا،نشان برج:بچھو،گروپ: دانش ور(Intellectual)، خصوصیت:دور اندیش ،
بصیرت ہے۔برج عقرب سے تعلق رکھنے والے مرد و خواتین ظاہری طور پر متحمل
مزاج ہوتے ہیں لیکن ان کے مزاج میں انتہا پسندی اور شدت کے عناصر موجود
ہوتے ہیں۔ ان کی ظاہری کیفیت اس کا اظہار نہیں کرتی۔ انہیں خود سر اور
آمریت پسند بھی کہا گیا ہے۔ یہ لوگ اپنے رشتوں سے محبت کرتے ہیں، یہ احسان
فراموش بھی نہیں ہوتے بلکہ احسان کا بدلہ چکا نے میں جلد بازی سے کام لیتے
ہیں۔ان کی رائے بے لوث اور بے لاگ ہوتی ہے۔وہ اس بات کا بھی خیال نہیں کرتے
کہ ان کی دو ٹوک رائے سے ان کے دوستوں کی دل شکنی ہوگی۔ یہ باوقار شخصیت کے
مالک ہوتے ہیں۔یہ زندگی کی سچائیوں اور حقائق سے بخوبی واقف ہوتے ہیں، یہ
اپنے راز دوسروں پر آشکارا نہیں کرتے۔ یہ اپنے دشمنوں کو معاف بھی نہیں
کرتے، انہیں نا قابل تسخیر تصور کیا جاتا ہے۔یہ کسی بھی قسم کی پابندی، جبر
کو پسند نہیں کرتے، یہ جو کام بھی شروع کرتے ہیں بے دھڑک شروع کردیتے ہیں۔
متاثر کن شخصیت کے مالک ہوتے ہیں، مستعد اور محنتی، مختصر گفتگو کرتے ہیں،
طویل گفتگو ہوجائے تو بیزاری محسوس کرنے لگتے ہیں،ان کی خواہش ہوتی ہے کہ
جہاں بھی کام کریں نئے نئے کام سر انجام دیں تحقیق و تخلیق کی کوشش میں
رہتے ہیں۔جائز طریقے سے دولت کماتے ہیں، رازوں کی حفاظت کرناجانتے ہیں،
اپنے بارے میں پر اعتماد ہوتے ہیں، ان کے موزوں پیشوں میں تحقیق، سیاسی
امور، طب، استاد، شعبہ صحافت ، تجارتی جیسے پیشے شامل ہیں۔ عقرب خواتین میں
یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ کہ کاش وہ عورت کے بجائے مرد پیدا ہوئی ہوتیں۔ عقرب
خواتین کم دھوکہ کھاتی ہیں، وفاداری میں ان کا ثانی نہیں ، مضبوط قوت ارادی
کی مالک ، انہیں کمزور لوگ قطعی پسند نہیں ہوتے۔ یہ عورت بن کر نہیں سوچتیں
بلکہ جنس سے بالا تر ہوکر اپنے آپ کو تسلیم کرانے کے گر جانتی ہیں۔ سماجی
بہبود کا شعبہ ا ن کا پسندیدہ شعبہ ہوتا ہے، انہیں دوسروں کی مدد کرنے میں
روحانی سکون میسر آتا ہے۔ یہ کسی حد تک مذہبی بھی ہوتی ہیں۔
میرے موضوع کا برج عقرب ہے اور جو خصوصیات مختصر بیان کی ہیں وہ ان خصوصیات
پر پورا اتر تی ہیں۔ متحمل مزاج،مزاج میں انتہا پسندی اور شدت جیسے عناصر
موجود ہیں، رائے بے لوث اور بے لاگ ،باوقار شخصیت کی مالک ہیں، پابندی اور
جبر کو پسند نہیں کرتیں، مستعد اور محنتی، مختصر گفتگو کرنے کی عادی ہیں،
تحقیق و تخلیق سے دلچسپی رکھتی ہیں، اپنے بارے میں پر اعتماد ہیں، عقرب
خواتین میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ کاش وہ عورت کے بجائے مرد پیدا ہوئی
ہوتیں۔اس سوچ کا اظہار ان کے لیے ان کے والد صاحب نے تو کیا بہت ممکن ہے کہ
والد صاحب نے کبھی بچپن میں ان کے منہ سے اس قسم کے الفاظ سنے ہوں، اکثر
بچے اس قسم کے جملے ادا کرتے ہیں اوران کے والد کے ذہن میں وہی جملے رہ گئے
ہوں جو انہوں نے ان کے لیے خیال کیے۔سماجی بہبود کا شعبہ ا ن کا پسندیدہ
شعبہ یہ کئی سماجی بہبود کی انجمنوں سے وابستہ ہیں، خواتین کے بہبود کی
انجمنوں سے ان کا تعلق ہے۔ بے بہ خوبیوں کی مالک آتشؔ کا شعر
چشمِ بینا بھی عطا کی دل آگہ بھی دیا
میرے اللہ نے مجھ پر کئے احساں کیا کیا
کسی بھی شخصیت کے بارے میں معلومات کا ایک ذریعہ اس شخصیت کا بلڈ گروپ بھی
ہے۔برطانیہ کی ایک یونیورسٹی میں کی جانے والی ایک تحقیقی رپورٹ جو جنگ
اخبار 12اپریل 2014میں شائع ہوئی میں لوگوں کے بلڈ گروپ سے ان کی شخصیت اور
ان کے پیشوں کی پیشن گوئی جیسے نکات سامنے آئے۔ یہ ایک نئی تحقیق ہے ۔اس
تحقیق کے مطابق میرے موضوع کا بلڈ گروپ ’او +‘(O+) ہے ۔گروپ 0میں کچھ ایسی
بات ہے کہ اس سے تعلق رکھنے والے ہمیشہ ٹاپ پر رہنے کی کوشش کرتے ہیں اور
کامیاب بھی ہوجاتے ہیں۔ ایسے لوگ بڑے اداروں کو خوب مرعوب کر تے ہیں اس
گروپ کے حامل لوگ ستائش ، شہرت اور نیک نامی کو پسند کرتے ہیں۔ ان کی ایک
ہی تمنا ہوتی ہے کہ انہیں سماجی طور پر اعلیٰ مقام حاصل ہو۔ میرے موضوع کا
بلڈ گروپ او ہے ۔ اب انہیں خود ہی اپنے بارے میں اندازہ لگانا ہوگا کہ جو
خصوصیات اس تحقیق سے سامنے آئی ہیں وہ ان میں پائی جاتی ہیں یا نہیں۔ اس
تجزیے کے بارے میں بھی سنجیدہ نہیں ہو نا چاہیے۔ یہ بھی ایک علم ہے ۔ بہت
کچھ ان باتوں کے خلاف بھی ہوسکتا ہے۔ اسے محض علم تصور کرتے ہوئے درج کی
گئیں باتوں پر سنجیدہر گز ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔
ایک تحقیق یہ بھی ہے
چہرہ کسی بھی شخصیت کے بارے میں بہت کچھ بولتا ہے۔ دنیا میں ہر شخص کا چہرہ
دوسرے سے مختلف ہوتا ہے جیسے فنگر پرنٹ مختلف ہوتے ہیں ، شکل و صورت میں
مشابہت تو ہوسکتی ہے لیکن ایک جیسے ہر گز نہیں ہوتے، یہ اللہ کریم کی شان
ہے، کہ دنیا میں جتنے لوگ آچکے، موجود ہیں اور آئندہ قیامت تک آئیں گے ان
کے چہرے ایک جیسے نہیں ۔ انسانی چہروں کو مختلف اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے
جیسے چوکور چہرہ، بیضوی چہرہ، لمبا چہرہ، تکونہ چہرہ، گول چہرہ، دل نما
چہرہ اور لمبا چہرہ۔ عذرہ قریشی کا چہرہ گول چہرے میں شمار ہوتا ہے۔ تحقیق
کے مطابق گول چہرہ رکھنے والے مہربان اور رحم دل ہوتے ہیں اور ہمیشہ دوسروں
کی مدد کرنے کے معاملے میں برھ چڑھ کر حصہ لیتے دکھائی دیتے ہیں۔میرا موضوع
اس قسم کی خصوصیات کا حامل ہے، ان کی یہ خصوصیات برج عقرب میں بھی بیان کی
گئی اور ان کے بلڈ گروپ کی خصوصیت بھی یہ سامنے آئی ہے۔
عذرا قریشی نے جامعہ کراچی کے علاوہ کینٹ اسٹیٹ یونیورسٹی سے بھی ماسٹرز
کیا، امریکن سینٹر اور آغاخان یونیورسٹی میں خدمات انجام دیں بلکہ وہیں سے
ریٹائر ہوئیں، سعودی عرب کی جدہ یونیورسٹی میں بھی خدمات دیتی رہیں۔ اب
کراچی میں ریٹائر لائف کے ساتھ ساتھ لکھنے پڑھنے اور سماجی کاموں میں مصروف
رہتی ہیں۔ انہوں نے مختلف موضوعات پر متعدد مضامین لکھے، انگریزی میں زیادہ
اردو میں کم ، کچھ عرصہ سے وہ سفرنامے لکھنے کی جانب مائل ہیں۔ یہ سفر نامے
اردومیں ہیں۔ اسکول ، کالج اور یونیورسٹی کے کلاس فیلوز سے جو تعلق ہوتا ہے
اس کا نعمل بدل کوئی نہیں۔ ایک عجیب سی انسیت پائی جاتی ہے اس تعلق میں۔یہی
تعلق سبب بنا کہ میں نے اپنی ایک ایسی کلاس کی شخصیت پر قلم اٹھایا جن سے
میرے تعلق کی چوتھی دہائی گزرچکی ہے۔ پروردگار صحت و تندرستی والی زندگی
عطا فرمائے۔آمین(28فروری2018ء) |