عشق جوتا کی حسرت

انسان کا بچہ جوتے کے بغیر چل ہی نہیں سکتا کیونکہ اس کے پیر خراب یا زخمی ہو سکتے ہیں اس لیے اسے جوتے کی ضرورت ہوتی ہے اور ضرورت پوری ہوجانے کے بعد تب جا کر وہ چلتا ہے یوں کہیے کہ اسے چلنے کے لیے بھی جوتے کی ضرورت ہوتی ہے اور اسے چلانے کے لیے بھی جوتے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ انسان کا بچہ جب بہت چھوٹا ہو تا ہے تب وہ اٹھنے کی کوشش کرتا ہے ایک قدم اٹھاتا پھر گر جاتا کبھی تو وہ ایسے تیز تیز قدم اٹھاتا ہے کہ گر جاتا چوٹ کھا لیتا ہے پر اپنی عادت نہیں چھوڑتا کیونکہ وہ اپنی فطرت کے خلاف کیسے جا سکتا ہے تب اس کے بڑے سوچتے ہیں اب اسے جوتے کی ضرورت ہے اور اسے جوتا ملنا چاہیے واقعی جب انسان کے بچے کو جوتا ملتا ہے تو اس کی چال ٹھیک ہو جاتی ہے جوتے کی وجہ سے وہ محتاط ہو جاتا ہے اور اسے تسلی مل جاتی ہے کہ جو اسے چاہیے تھا وہ اسے مل گیا ہے

انسان اور جانور میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ انسان جوتا پہنتا ہے جبکہ جانور جوتا نہیں پہنتا لیکن باوقت ضرورت جوتا دونوں پر استعمال ہوتا ہے ہر بار جوتے کا استعمال صرف انسان کرتا ہے کچھ لوگوں کو جوتے بہت اچھے لگتے ہیں جی جی ,,اچھے لگتے,, ہیں لیکن ان کو ملتا ایک پاؤں کا جوتا ہے تبی تو وہ ان کا خاص خیال بھی رکھتے ہیں شادی بیاہ اور دیگر تقریبات کے لیے اعلی جوتے اور مسجد جاتے وقت پھٹے پرانے جوتے ایسا کیوں ، کچھ لوگوں کو اپنے جوتے کی بجائے دوسروں کے زیادہ پسند ہوتے ہیں تب ان کے دل کی خواہش مسجد کے باہر رکھے جوتوں سے پوری ہوتی ہے

کچھ لوگ اپنے جوتے خود اٹھاتے ہیں اور کچھ دوسروں کے جوتے اٹھانے میں خوش ہوتے ہیں ان میں کئی عقدت میں اٹھاتے ہیں تو کئی خوشماند میں اگر خوشماندی جوتے نہ اٹھائیں تو جوتے کے مالک جوتا اتارتے ہی نہیں جیسے یہ جوتے کے ساتھ اس دنیا میں تشریف لائے ہوں دیکھتے نہیں کچھ خاص لوگ محافل میں جوتے کے ساتھ بیٹھے ہوتے ہیں ہاں جی جوتے کے ساتھ ہی تو بیٹھے ہوتے ہیں خیر یہ لوگ مرتے وقت جوتے ساتھ تو نہیں جائیں گے لیکن ان کو اپنے کرتوتوں کی بنیاد پر آخرت ملنے کے چانس ہیں اور ان کی دنیا میں جو حسرت رہے گئی تھی وہاں ضرور پوری ہو جائے گی یہ معززین فرشتوں سے جوتے کھائیں گے

مرمت کا لفظ جوتے کے ساتھ بہت ہی زیادہ فٹ آتا ہے جیسے جوتے مرمت فرمانا اور جوتے سے مرمت فرمانا وغیرہ وغیرہ جوتے مرمت تو موچی کرتا ہے لیکن جوتے سے مرمت موچی سے دو لفظ ہٹا کر ف اور ج لگا دیں تو وہ کرتا ہے لیکن اس کے علاوہ جوتے سے کوئی اور بھی مرمت کر سکتا ہے پہلے بیان کردہ مرمت کرنے والا آ کر مرمت کرتا ہے جب کہ دوسرا بلا کر مرمت کرتا ہے لیکن اس کے مرمت کا طریقہ ہیومیوپیتھیک کی طرح آہستہ آہستہ ہوتا ہے اور اس مرمت سے کچھ لوگوں کو ری ایکشن ہو جاتا ہے جس سے وہ بہکی بہکی باتیں کرتے ہیں اور جب ان سے پوچھا جائے تو کہتے ہیں ہم تو ایکٹنگ کر رہے تھے

صدیوں پہلے نمردو کو ری ایکشن ہوا تھا جب اسے کہیں سکون نہیں ملتا تھا جب اسے کسی نے سر میں ایک مرتبہ جوتا کس کے مارا تو اسے کچھ پل کے لیے راحت ملی اس نے سوچا میرا اصل علاج ہی یہی ہے اور اسے ایک کے بعد ددوسرے جوتےکی ضرورت پڑی اسے جوتے کا نشہ ایسا پڑا کہ جوتے مارنے والے کم ہو گئے لیکن اس کا نشہ کم نہ ہوا اسے جوتے سے عشق ہو گیا کبھی کبھی تو اپنی حسرت خود ہی پوری کر لیتا اس کا جوتا پاؤں کی بجائے سر پر رہتا اسے ایک کے بعد دوسرے جوتے کی حسرت رہتی ہے بعض اوقات ایک ہی وقت میں بہت سارے جوتوں کی رہتی ہے

کچھ لوگ دوسرے کے جوتے کو پسند کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کا جوتا ان کے پاؤں کی بحائے سر پر برستا رہے جوتا برسانے والے بھی دیوانے ثابت ہوتے ہیں وہ نہ آو دیکھتے ہیں نہ تاؤ بس جہاں موقع دستاب ہوتا ہے برسا دیتے ہیں جوتا کھانے والا سوچتا ہے یہ دیوانہ کہاں سے آ گیا حالانکہ کے اس کے جوتے کی ضرورت کسی اور دیوانے نے پوری کرنی تھی خیر ان کی اپنی کامیابی ہے کہ ایسے دیوانوں کی تعداد میں آضافہ ہو رہا ہے جتنے زیادہ دیوانے ہوں گئے عشق جوتا بڑھتا جائے گا تب حالت نمرود والی ہوگی دیوانے تھک جائیں کے لیکن عشق جوتا کی حسرت پوری نہ ہو پائے گی پھر ایک دن ایسا آئے گا
جوتا بھی اپنا اور سر بھی اپنا ہوگا

Abdul Jabbar Khan
About the Author: Abdul Jabbar Khan Read More Articles by Abdul Jabbar Khan: 151 Articles with 144801 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.