زندگی بہت آسان ہو جاتی ہے اگر انسان خود سے ذیادہ دوسروں
کا سوچنے لگے،،،
بہت اچھا لگتا ہے جب یہ احساس جاگ جائے،کہ انسان اور اس کی ذات دوسروں
کے لیے بوجھ نہیں بلکہ ان کے بوجھ کو کم کرنے کا باعث ہے،،،!!
رانا : پھر آپ میرے کندھے کے درد کو فیل کیوں نہیں کرتے،،،؟ جو اس لمبی ناک
والے نے شیشم کی لکڑی کی زور دار ضرب مجھے لگائی ہے،،،!
آفندی نے رانا کو گھور کے دیکھا،،،تم اس کا حساب خود لوگے،،، کیونکہ ‘‘خدا‘‘نے
تمہیں اک مرد پیدا کیا ہے،،،اور مرد اپنے ساتھ کی گئی ذیادتی کو برداشت تو
کر
سکتا ہے مگر بھولتا نہیں،اور یہی بات حق ہے کہ انسان اپنے ساتھ کوئی
ناانصافی
نہ ہونے دے،،،یہی اللہ کا قانون بھی رہا۔
رہا یہ کہ میں کیسا محسوس کررہا ہوں کہ تمہیں درد ہو رہا ہے،،،تم تو ایسے
ہو،،،،
جیسےہم دونوں اک ہی گود میں پلے بڑھے ہوں،،،میں تو اس ملک کے ہر فرد کے
درد کو اپنا درد ہی سمجھتا ہوں،،،!!
رانا نے آفندی کو بہت کم جذباتی دیکھا تھا،،،مگر کسی سے ذیادتی اس کو اس کی
حد میں ناقابلِ برداشت کر دیتی تھی،،،!
رانا نے آفندی کو قریب بلایا،،،غور سے اوپر دائیں بائیں کی طرف دیکھا کہ
کوئی آنکھ
دیکھ نہ رہی ہو،،،کہاں درد ہے،،،؟
رانا نے اپنے میزبان کو آنکھ ماری،اور دائیں کندھے کی طرف اشارہ کیا میزبان
مسکرا
دیا،،،!!
آفندی نے راناکو اپنے سامنے بیٹھنے کوکہا،اسکی پیٹھ کے درمیان اپنے دونوں
گھٹنے
رکھ کے اپنے دونوں ہاتھوں سے اسکی کمر کو کندھوں سے پکڑ کر زور دار جھٹکا
دیا،،،!!
رانا کی ہلکی سی کراہ نکلی اور گردن سے نیچے تک چٹخ کی آواز نے اس کے درد
کو اس
کے جسم سے روانہ کردیا،،،!!
رانا مسکرا کر بولا،،،یہاں سے اگر جان بچ گئی،،،سیدھا ہڈی جوڑ کلینک کھول
لیں گے،،!!
پھر آفندی کی طرف دیکھ کر بولا،،،سکندر بھی آپ سے آنکھ نہیں ملا پارہا
تھا،،،، ایسا
کیوں،،،؟
آفندی مسکرا کے بولا، بس میرے مولا کا کرم ہے،،،رانا فکرمندی سے
بولا،،،جانے ڈاکٹر
انعم کیسی ہوگی،،،سکون سے بھی ہوگی یانہیں،،،!!
آفندی جلدی سے بولا،،،پتا نہیں مگر اس کی غیر موجودگی ہمیں کتنا سکون دے
رہی
ہے،،،!
رانا نے حیرت سے آفندی کو دیکھا،،،حیرت ہے آپ کو اس کی فکر نہیں جبکہ سب سے
ذیادہ آپ کو ہی ہونی چاہیے،،،!!
آفندی نے اطمینان سے جواب دیا،،،کیونکہ میں اسے جانتا ہوں،،،‘‘شی اِز
بیسٹ،،،،!!!““““
رانا نے اثبات میں سر ہلایا،،،بیسٹ فار بیسٹ،،،آفندی نے رانا کے جملے پر
اسے گھور کر
دیکھا،،،،(جاری)
|