زندگی ایک خاص ڈھب پر جا رہی تھی گھر والے اپنے رنگ میں
زندگی کو گزار رہے تھے یا زندگی انہیں گزار رہی تھی اور سلیم محبتی کے رنگ
بدلتے رہتے تھے اور یہ شعر گنگناتا رہتا تھا
رنگ بدل رہے ہیں کام اور شغل کے
زمانہ ہے بڑا نازک چلنا ذرا سنبھل کے
ایک کوی رستہ لینا تو پڑے گا
تنگ آگیا ہوں رستے بدل بدل کے
کہ اس کے گھر پر کام کرنے والی آی جو کہ کوی نئ بات نہ تھی اس سے پہلے کئ
آچکی تھیں تو اس میں ایسا کیا تھا کہ اس کی ساری توجہ اس پر مرکوز ہو گئ
اور گھر سے باہر کتنے ہی چہرے آسانی سے دستیاب تھے جو باہر کے باہر چلتے رہ
سکتے تھے مگر کبھی التفات نہ ہوا خوبصورتی اور امارت کے باوجود مگر سلیم کے
انداز بھی نرالے تھے کہ آیا تو گھر کے اندر ہی پسند آگیا اور چہرہ بھی عام
سا اور طبقاتی فرق اپنی جگہ لیکن محبت نے کب کچھ دیکھا ہے ہو گئ تو بس ہو
گئ اور ہو جایا کرتی ہے لیکن کچھ تو ہوتا ہے اس میں اب محبت اتنی بھی اندھی
نہیں ہوتی یا اتنے دیدہ بینا رکھتی ہے کہ وہ کچھ نظر آتا ہے اس کے اندر کہ
جو دوسرے نہ دیکھ سکیں
سلیم اس کے دل کی گہرایوں میں اور صنمی سلیم کے دل میں جھانکے بغیر اترتی
چلی گئ اور اس کی متجسس آنکھوں کے سامنے اپنی شخصیت پر چڑھا خول اتار کر
اور شرما کر ڈوپٹے سے اپنے آپ کو ڈھانپ لیتی اور کہتی کہ کچھ خیال کریں لوگ
کیا کہیں گے مگر سلیم محبتی کو کب پروا تھی لوگوں کی وہ تو اس کی پروا کرتا
تھا
دوسری طرف صنمی بھی کم نہ تھی وہ بھی ایسی کہ تھوڑی سی جھلک دکھاے اور پھر
ترساے اور ایسی ہو جاے کہ بالکل اجنبی اور اس اتار چڑھاو کے بھنور میں کچھ
ایسا پھنس گیا تھا کہ نکلنا بھی چاہے تو نہ نکل پاے اور اس دلدل میں وہ
دھنستا ہی چلا گیا کہ نکلے بھی تو اور دھنسے اور اپنے آپ کو ڈھیلا ہی
چھوڑنا پڑے اور اسے اس غم میں لزت سی محسوس ہونے لگی تھی اور وہ بھی خدمت
ایسے کرتی کہ اس کے سگے بھی نہ کرتے اور جب سلیم محبتی کام پر نکلتا تو
باہر گاڑی تک اتی اور کچن کے سودے کی پرچی پکڑانے آتی کہ
واپسی پر لے آیے گا
اور سلیم اس کے ہاتھوں کا لکھا پرچہ کم اور ہاتھوں کو زیادہ دیکھ رہا ہوتا
جو چوڑیوں سے محروم مگر شوق سے لگی مہندی چڑھی ہوتی اور ان ہاتھوں نے ایک
کالا ڈورا سا پہنا ہوتا جو نہ جانے کس نے اس کو پہنایا تھا یا خود اس نے
پہنا تھا اور کچھ بھی ہو جاے اتارتی نہ تھی شائد اس سے جڑی کوی یاد وابستہ
تھی
اور پھر اس روایتی محبت میں وہی ہو رہا تھا جو ایسی محبتوں میں ہوتا ہے کہ
اس کے علاوہ کسی سے بات نہ کرے کسی سے نرم لہجہ نہ استعمال کرے اور اس کی
باریک آواز اسے بہت گدگدانے لگی تھی اور وہ اپنے کمرے میں کسی اور سے بھی
بات کرے تو وہ چپکے سے اس کی اواز پر کان لگاے بیٹھ جاتا اور اسے اس کی
باتوں سے کوی دلچسپی نہ تھی بس اس آواز سے لزت لینا مقصود تھا جو دل کے
تاروں کو چھیڑتی اور دل جاگ اٹھتا تھا اور بے قرار ہو جاتا اپنی محبت باہر
نکالنے کو اور نکال نہ پاتا آس پاس کے ماحول کی وجہ سے اور ایک اضطراب کی
سے کیفیت پیدا ہو جاتی
حالات ہو رہے ہیں خراب اور زیادہ
سیکھتا ہوں عشق کے آداب اور زیادہ
رابطہ جیسےجیسے بڑھ رہا ہے
دور ہو رہے ہیں احباب اور زیادہ
خوشبو سے تمہاری مانوس ہو گیا ہوں
کِھل رہے ہیں تمہارے گُلاب اور زیادہ
قریب جتنے بھی تم آتے ہو میرے
ہو رہا ہوں میں بیتاب اور زیادہ
جاری ہے |