اقوام متحدہ کے زیر اہتمام پانی کا عالمی دن ہر سال
22مارچ کو منایا جاتا ہے۔ دنیا کے 200سے زائد ممالک کی نمائندہ تنظیم اقوام
متحدہ ایسے متعدد ایام کو مناتی ہے جس کا مقصد اس کے موضوع کو اہمیت دیتے
ہوئے اجاگر کرنا ہوتا ہے۔ ترقی پذیر سمیت ترقی یافتہ ممالک میں ذرائع ابلاغ
ان ایام کو جنہیں یو این او کے زیر اہتمام منایا جاتاہے، اپنے نقطہ نظر سے
دیکھتے ہیں اور اسی تناظر میں انہیں اہمیت دیتے ہیں۔ اس حقیقت پریہ کہا
جاسکتا ہے کہ پانی کی انتہا درجے کی اہمیت کے باوجود اس یوم کو منائے جانے
کی وہ بات وہ معیارو گرم جوشی نہیں ہے جس طرح دیگر ایام کا ہوتا ہے۔ اسی
ماہ کی 8مارچ کو خواتین کا عالمی دن گذرا ، اس دن کو ہر ملک نے ہر فورم نے
بھر پور انداز میں منایا ۔ خواتین کی، ان کے حقوق کی باتیں کیں، ان کے
مسائل کو اجاگر کیا ۔ مظلوم خواتین کی لئے آوازیں اٹھائیں لیکن اس کے
باوجود ایسا بھی ہوا کہ یہاں بھی منافقت کا مظاہرہ کیا گیا ۔ وہ اسلامی
ممالک جو زیر قبضہ ہیں وہاں خواتین کے ساتھ مظالم کو پس پردہ رکھا گیا۔
جدید و ترقی یافتہ ممالک میں خواتین کی کارکردگی کو دیکھایا گیا اور انہیں
مزید بہتر انداز میں آسانیاں فراہم کرنے کے نقاط اٹھائے گئے۔
بہرکیف آج کا دن پانی کا عالمی دن ہے اور اس سال پانی کے عالمی دن کیلئے
(nature for water)کا موضوع عنوان رکھا گیا۔ممبران ممالک اقوام متحدہ میں
پانی کی اہمیت کو اجاگر کرنے کیلئے اس عنوان کو مدنظر رکھتے ہوئے تقاریب ،
سیمینار منعقد کئے جائیں گے۔
زمین کے اس سیارے پر دیکھا جائے تو تین حصوں پر پانی جبکہ ایک حصے پر خشکی
ہے۔ اس کے باوجود براعظم افریقہ میں متعدد ممالک ایسے ہیں کہ جو پانی کو
ترستے ہیں۔ پینے کے صاف پانی کو اب بھی دنیا بھر کے بیشتر ممالک میں کمی
ہے۔ ترقی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس ضمن میں ترقی نہیں کی جاتی ، ہتھیار اور
جدید تر ہتھیار بنانے اور اسی کے بل بوتے پر دوسرے ممالک کو ، اپنے مخالفین
کو زیر نگین رکھنے کی کاوشش ہوتی ہیں۔ دو عالمی جنگیں دنیا میں لڑی جاچکی
ہیں اور ان کے نقصانات اب تلک پائے جاتے ہیں ۔ ان جنگوں کے بعد اس طرز کی
جنگیں تو نہیں ہوئیں لیکن اپنی دانست میں ہر ملک ہی اپنے آپ کو ہتھیاروں سے
لیس کرتا چلا جارہاہے۔جس ملک کے پاس ہتھیار جس قدر جدید اور خطرناک ہوتے
ہیں اتنا ہی وہ اپنے آپ کو ممتاز سمجھتا ہے۔
تحقیق کے ساتھ اک مکمل سروے رپورٹ کے نتیجے میں یہ حقیقی سامنے آئی ہے کہ
اب جنگیں ہتھیاروں سے زیادہ ثقافتی طرز پر ہونگی ۔ اس کے ساتھ اب پانی پر
اور پانی کی جنگیں ہونگی۔ ایک ملک دوسرے کے پانی کو روکے گا اور اس طرح سے
وہ اپنی نوعیت کی خاموش جنگ کا آغاز کرے گا۔ پانی کی کمی کے باعث جہاں
فصلیں متاثر ہونگی وہیں پہ پر انسانی زندگی بھی بری طرح متاثر ہوگی۔ پودوں
، پھولوں کی افزائش میں کمی ہوگی ۔ فضائی آلودگی بڑھے گی اور یہ سب کچھ اک
خاموش جنگ کی سی کیفیت کی مانند تصور کیا جاسکتا ہے۔
وطن عزیز جوکہ اک زرعی ملک ہے ، ہر سال زراعتی اشیاءکو برآمد کیا جاتاہے
اور ماضی سے یہ واضح ہوتا ہے کہ برآمدات میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔ لیکن اب
صورتحال منظم منصوبہ بندی کے تخت تبدیل کی جارہی ہے۔ پانی کی مقدار کو
پڑوسی ممالک سے وطن عزیز میں آتی ہے اسے روکا جارہا ہے اس کے ساتھ ملک کے
اندر ایسے پودوں کو اجاگر کیا جارہا ہے جو کہ بظاہر پانی کم استعمال کرتے
ہیں زمین کے پانی کو کم پیتے ہیں تاہم ہوا میں موجود نمی کے ذریعے اپنی
ضرورت کو پورا کرتے ہیں ایسے پودوں کو ایک شہر سے نکال کر صوبے اور پورے
صوبوں میں پھیلاجارہا ہے ۔ برسوں سے زیر التوا ڈیموں کو بنانے تو درکنار ان
پر اب تو بات تک نہیں کی جارہی ہے۔
پانی کے عالمی دن کے مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کے ہر فرد کو چند ساعتوں
کیلئے ہی صحیح پانی کی اہمیت کا احساس کرنا چاہئے ۔ پانی کے ضیاع سے خود
اور دیگر کو روکنا چاہئے اس کے ساتھ ماحول کو سرسبز بنانے کیلئے ، پانی کو
بچانے اور سلیقے سے استعمال کرنے کا شعور اجاگر کرنے کے ساتھ ایسے اقدامات
کرنے چاہئے جن کے مثبت اثرات فوری طورپر ہی عوام کے سامنے آئیں ۔ |