شہزاد: یار سنا ہے کہ کوئی خاص دن آنے والا ہے
غفور: ہاں صاحب سنا تو میں نے بھی ہے کہ کوئی خاص دن آنے والا ہے
شہزاد: کیا مطلب سنا ہے؟ تمہیں رکھا کس لیے ہے کتنی بار کہا ہے پہلے سے سب
خبر رکھا کرو۔ اب دفعہ ہو کسی سے پتا کرو ،
غفور: اوہو ! آپ فکر ہی نا کریں یہ تو میرے دائیں ہاتھ کا کھیل ہے ، ابھی
معلوم کرلیتا ہوں۔
شہزاد: اور ہاں خیال رہے کسی کو کان او کان علم نہیں ہونا چاہیے کہ ہم
معلوم کروا رہے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غفور: کیا حال ہے؟
شکیل: بس کرم ہے مولا کا
غفور: یار آج کل بڑی افراتفری چل رہی ہے خیر تو ہے، سب کس گہما گہمی میں
لگے ہوئے ہیں ؟
شکیل: ارے تمہیں نہیں پتا ؟ بس سب 23 مارچ کی تیاریوں میں لگے ہوئے ، آخر
قرارداد پاکستان منظور ہوئی تھی اب کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑے گا سو ہر ایک
اپنے حساب سے لگے پڑے ہیں
غفور: شکیل کی بات سن کر فوراً دوڑا دوڑا شہزاد کے پاس پہنچتا ہے اور تیز
تیز بولنا شروع کرتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غفور: صاحب صاحب 23 تاریخ آنے والی ہے
شہزاد: آبے سٹیا گیا ہے کیا ؟ 23 تاریخ تو ہر ماہ آتی ہے اس میں کیا خاص
بات ہے؟
غفور: آپ میری بات سمجھے نہیں 23 مارچ آنے والی ہے ، جس دن قرارداد پاکستان
منظور ہوئی تھی
شہزاد: ارے تو ایسے بول نا کہ 23 مارچ آ رہی ہے ، میں سمجھا پتا نہیں کیا
بلا آگئی ہے
غفور: یہ دن ہمیں بہت سے فوائد دے سکتا ہے
شہزاد: اچھا ! تو بتا کیا کرنا چاہیے ؟
غفور: میں تو کہتا ہوں اس 23 مارچ کو ایک بہت بڑا جلسہ رکھتے ہیں ، اور
عوام کے لیے دو تین قسم کے کھانے رکھ دیں ویسے بھی یہ عوام تو بھوکڑ ہے
صاحب
شہزاد: چل رکھ لے جلسہ کونسا ہماری جیب سے پیسا لگنا ہے لیکن تقریر کا
بندوبست کروا تا کہ بے وقوف عوام کو مزید ۔۔۔
غفور: تقریر کی آپ فکر نا کریں ، شکیل سے تقریر لکھوا لوں گا ایسا لکھ کے
دے گا سب تالیاں بجاتے تھک جائیں گے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غفور: سن یار شہزاد صاحب کے لیے 23 مارچ کے حوالے سے تقریر لکھ دے اور ایسی
تقریر ہونی چاہیے کہ لوگ تالیاں بجانے پر مجبور ہوجائیں
شکیل: تقریر تو میں لکھ دوں گا ، منافع مجھے بھی ملنا چاہیے
غفور: ارے تو فکر ہی نا کر تجھے تیرا حصہ مل جائے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زور و شور جلسے کی تیاریاں شروع کردی گئیں ۔ جگہ جگہ سڑکوں پر جلسے کے
بینرز نصب کیے جاتے ہیں ، میڈیا بڑھ چڑھ کر ہونے والے جلسے کی تیاریاں
دکھاتا ہے
بالآخر 23 مارچ بھی آ ہی گیا
پورا پنڈال شہزاد کی پارٹی اور پاکستان کی جھنڈیوں سے سجا دیا گیا
سفید شلوار قمیض اور سبز وسیٹ کوٹ میں ملبوس شہزاد اسٹیج پرآتا ہے ، اور
تقریر کا آغاز کرتا ہے
میرے عزیز ہم وطنوں ، آج 23 مارچ کا دن ہے ، وہ دن جب قرارداد پاکستان
منظور ہوئی ۔ ہمارے آباؤ اجداد نے اس ملک کے لیے بہت سی قربانیاں دیں ،
اپنی جان و مال کا نذرانہ دیا ، ہمیں اپنے بزرگوں کی محنت کو رائیگا نہیں
جانے دینا چاہیے ۔ ۔۔۔۔۔
تقریر ایک گھنٹا چلتی ہے ، جیسے جیسے تقریر میں جوش و ولوالہ آتا ہے ، پورے
پنڈال میں تالیوں کی گونج اٹھتی ہے ،
تقریر کے آخر میں عوام سے وعدے کیے جاتے ہیں کہ اس ملک کو کرپشن سے پاک کر
دیا جائے گا، میرٹ پر بھرتیاں ہوں گی ۔۔۔۔۔
جلسے کے اختتام پر عوام کے لیے لنگر کی طرح کھانا تقسیم کیا جاتا ہے ، اور
سیاسی حکمرانوں کے بڑے بڑے میز پر طرح طرح کے کھانے سجائے جاتے ہیں اور اسی
دوران ایک ٹینڈر پاس کیا جاتا ہے ، جس سے میرٹ واضح ہوجاتا ہے ۔ |