اﷲ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات ہونے کا شرف عطا
فرمایا ہے اور اس کو عقل و خرد اور سو چ وفہم کے وہ ذخائر دیئے کہ جس
کاتصور بھی دوسری مخلوقات کے پاس موجود نہیں ۔اسی فہم و فراست کی بدولت
کبھی یہ زمیں کی پستیوں کو چیر تا ہے تو کبھی فضائی بلندیاں اس کے سامنے
ہیچ دکھائی دیتی ہیں۔ موجودہ دور میں ٹیلی وژن ،موبائل ،کمپیوٹر اور ہوائی
جہاز جیسی کئی اشیاء جن کا ماضی میں کوئی تصور نہ تھاآج معمول کی چیزیں
دکھائی دیتی ہیں اور یہ سب انسانی عقل کاکرشمہ ہے لیکن اس کے باوجودبہت سے
ایسے مراحل ہیں جہاں انسانی عقل پہنچنے سے قاصر ہے وہاں رحمت الہٰی عاجز
انسان کا ہاتھ تھامتی ہے اور صحیح رہنمائی کاپیغام ہدایت نازل کیا جاتا ہے
جس کو وحی الہٰی کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اوریہ وحی الہٰی ہی ہے جو
انسان کو زندگی گزارنے کے کامل اور رہنما اصول فراہم کرتی ہے یہاں تک کہ
دارین کی فلاح تک پہنچنے کا ذریعہ بنتی ہے اسی لئے اﷲ رب العزت نے انسانی
تخلیق کی ابتداء سے اس کا انتظام کیا اور زمیں پر جس پہلے انسان کو بھیجا
اسے نبی بنا کر مبعوث کیا گیا اور پھر یہ سلسلہ ہر دور میں جاری و ساری رہا
۔جس دور میں بھی کوئی نبی یا رسول جہان ارضی پر آیا اس نے دعوت الی اﷲ کے
فریضہ کو سر انجام دیا کیونکہ بھٹکتی ہوئی انسانیت کو صراط مستقیم پر لانا
ہی ان کا منشور تھا ۔
اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔ ’’ہر قوم میں ڈرانے والے (نبی )تشریف لائے
۔‘‘(القرآن)
ٍ انسانی رہنمائی کیلئے دعوت و تبلیغ کا یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ کم و
بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام علیہم السلام نے اپنے ادوار کے مطابق
یہ فرض انجام دیا اور آخر میں رسول اکرم ﷺ مبعوث ہوئے آپ ﷺ کے ذمہ بھی وہی
فریضہ عائد کیا گیا جو گزشتہ انبیاء کرام علیہم السلام نے کیا ۔
آپ ﷺ نے اس فریضہ کو بطریق احسن نبھایا اور اس کیلئے اس قدر تکالیف برداشت
کیں کہ پہلے انبیاء کی تکلیفیں ان کے سامنے ہیچ نظر آتی ہیں ۔
تو اس لحاظ سے اگر توحید و رسالت ،نماز ،روزہ،حج، زکوٰۃ، احسان،صلہ رحمی،
جیسے امور شریعت مصطفویﷺ میں فرض کا درجہ رکھتے ہیں اسی طرح دعوت و تبلیغ
بھی فرض ہے ۔قرآن و حدیث میں اس کا صریح اور غیر مشتبہ حکم ہے ۔ یہاں پرہم
قرآن حکیم میں بیان کردہ نبی اکرم ﷺ کے دعوت و تبلیغ کے اسلوب کا جائزہ لیں
گے لہٰذا نبی اکرم ﷺ کی دعوت و تبلیغ کے قرآنی اسلوب سے قبل دعوت و تبلیغ
کے لغوی اور اصطلاحی معنی کی وضاحت ضروری ہے ۔
دعوت و تبلیغ کے لغوی اور اصطلاحی معنی:دعوت کے لغوی معنی ’’پکارنے اور
بلانے ‘‘کے ہیں۔(مصباح اللغات)
قرآن مجید میں اجیب دعوۃ الداع۔یہاں لفظ دعوۃ بمعنی پکارنا استعمال ہوا ہے
اور اصطلاح میں وہ پیغام جو اﷲ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کے توسط سے انسان کو
دیا ہے دعوت کہلاتا ہے ۔ علامہ راغب اصفہانی لکھتے ہیں۔ ’’دعوت کسی چیز کو
حاصل کرنے پر ابھارنا ‘‘کہلاتا ہے ۔(المفردات القرآن)
اصطلاح شریعت میں اسلام کو دوسرے لوگوں ،قوموں اور ملکوں تک پوری شرح و بسط
کے ساتھ پہنچانا دعوت و تبلیغ کہلاتا ہے۔جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
’’اپنے پروردگار کی راہ کی طرف لوگوں کو دانائی اور عمدہ نصیحت کے ذریعے سے
بلاؤ اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو بہترین ہو۔‘‘(القرآن سورۃ
النحل)
اﷲ تعالیٰ نے انسانیت کو سیدھی راہ پر لانے کیلئے اور اپنے احکامات کو
پہنچانے کیلئے انبیاء کرام علیہم السلام کا سلسلہ قائم فرمایا اور تاریخ
گواہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلا م نے ہر نازک موڑ پر گرتی ہوئی انسانیت
کو سنبھالا دیا ہے اور انہیں سہار ا دیکر ان کا ٹوٹا ہوا رشتہ اپنے معبود
حقیقی سے جوڑا ہے۔ کبھی شرک و بدعت کا مقابلہ، تو کبھی معاشرتی خرابیوں کی
اصلاح اور کبھی اخلاقی برائیوں کا قلع قمع کیا ۔اس جامع اور کامل منصب کو
قرآن حکیم نے یوں بیان کیا ہے ۔’’ہم نے ان کو امام بنایا ،ہمارے حکم کے
مطابق لوگوں کو ہدایت کرتے تھے ،ہم نے ان کو وحی کی تھی ،خیرات کے کرنے کی
،نماز قائم کرنے کی اور زکوٰۃ دینے کی اور وہ ہمارے عبادت گزار تھے
۔‘‘(القرآن سورۃ الانبیاء)دوسری جگہ قرآن حکیم نے حضرت سیدنا ابراہیم علیہ
السلام کی دعا کا تذکرہ یوں فرمایا کہ وہ کہتے ہیں :۔
’’اے پروردگار ان لوگوں میں خود انہی کے اندر سے ایک رسول مبعوث فرما جو
انہیں تیری آیات پڑھ کر سنائیں اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ان
کا تزکیہ کرے ۔‘‘(القرآن سورۃ البقرہ)
قرآن کریم میں ایک اورجگہ فرمایا:’’جس طرح ہم نے تمہارے اندر خود تم ہی میں
سے ایک رسول بھیجا جو تم کو ہماری آیات پڑھ کر سناتا ہے اور تمہارا تزکیہ
کرتا ہے او ر تم کو کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے اور تمہیں وہ باتیں سکھاتا
ہے جو تم نہیں جانتے تھے ۔‘‘(القرآن سورۃ البقرہ )
ایک اور آیت میں الفاظ کچھ اس طرح ہیں۔’’اﷲ تعالیٰ نے ایمان والوں پر احسان
فرمایا جب کہ ان کے اندر خود انہی میں سے ایک رسول ﷺ مبعوث کیا جو انہیں اس
کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتاہے اور انہیں کتاب و حکمت کی
تعلیم دیتا ہے ۔‘‘(القرآن سورۃ آل عمران)
ایک اور جگہ ارشاد ہوا ۔’’وہی ہے جس نے امیوں کے درمیان خود انہی میں سے
ایک رسول مبعوث فرمایا جو انہیں اس کی آیات پڑھا کر سناتا ہے اور ان کا
تزکیہ کرتا ہے انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے ۔‘‘(القرآن سورۃ الجمعہ)
ان آیات پر غو ر کرنے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے رسول کریم ﷺکو
صرف آیات کی تلاوت کیلئے نہیں بھیجا بلکہ ان کی بعثت کے مقاصد کچھ اور بھی
ہیں۔جیسا کہ
۱۔ لوگوں کو قرآن کی تعلیم دیں۔ ۲۔ لوگوں کو حکمت بھی سکھلائیں۔
۳۔ افراد کا انفرادی اور اجتماعی تزکیہ بھی کریں۔
اس کے علاوہ قرآن حکیم نے نبی اکرم ﷺ کی بعثت کا ایک مقصد دوسرے انداز میں
بھی بیان کیا ہے کہ آپ ﷺ کو اﷲ تعالیٰ نے دعوت الی اﷲ پر بھی مقرر کیا ہے
۔جیسا کہ ارشاد ہے ۔’’ ہم نے آپ کو تمام لوگوں کیلئے خوشخبری سنانے والا
اور ڈرانے والابنا کر بھیجا ہے۔‘‘(القرآن سورۃ السبا)
ارشاد ہوا۔:’’ہم نے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا
کر مبعوث کیا اور جہنمیوں کے بارے میں آپ سے کوئی باز پرس نہیں ہو گی۔
‘‘(القرآن سورۃ البقرہ)
دوسری جگہ فرمایا:’’اے نبی (ﷺ) یقینا ہم نے آپ کو گواہی دینے والا ،بشارت
سنانے والا ،ڈرانے والا ،اﷲ تعالیٰ کے حکم سے اس کی طرف بلانے والاروشن
سورج اور روشن چراغ بنا کر بھیجا ہے ۔‘‘(القرآن سورۃ الاحزاب)
وداعیا الی اللّٰہ باذنہ کی تفسیر میں آیا ہے کہ:’’حکم الہٰی کی تعمیل میں
آپ (ﷺ) مخلوق کو اپنے رب کی عبادت کی دعوت دیتے ہیں۔‘‘(تفسیر ابن کثیر)
نبی اکرم ﷺ کی دعوت و تبلیغ میں اس بات کا اہتمام کیا جاتا تھا کہ کہیں
سامعین اکتانہ جائیں۔وعظ و نصیحت سامعین کیلئے بوجھ نہ بن جائے ۔ حالانکہ
آپ ﷺ کے سامعین صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کی وہ جماعت تھی جو ہر وقت اور ہر
آن رضا الہٰی اور آپ ﷺ کی خوشنودی کے متمنی رہتے تھے لیکن اس کے باوجود آپ
ﷺ اس کا پورا خیال فرماتے تھے ۔مسلم شریف میں حضرت عبد اﷲ ابن مسعود رضی اﷲ
عنہ کی روایت ہے :’’ابن مسعود فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ہمیں نصیحت کرنے
کیلئے کچھ دن مقرر فرماتے تھے ۔ہمارے پریشان ہونے کے خیال سے (ہر روز وعظ
نہ فرماتے تھے ۔)
آپ کا اپنا ارشاد ہے کہ یسروا ولا تعسر و بشروا ولا تنفروا۔’’ترجمہ :لوگوں
کو آسانی دو مشکل پیدا نہ کرو اور خوشخبری دو متنفر نہ کرو۔‘‘(ابو داؤد )
اس دور میں وعظ و تبلیغ کے مؤثر نہ ہونے کی بڑی وجہ یہی ہے کہ اس کے حاملین
اس کے اصول و آداب اور ترجیحات کی رعایت سے رو گردانی کرتے ہیں ۔ طویل
بیانات ،ہر وقت نصیحت اور عادی آدمی کو فوراً عادت چھوڑنے اور ترک کرنے پر
مجبور کرنا حکمت و مصلحت کے بالکل منافی ہے ۔انبیاء کرام علیہم السلام
مخاطب کو بالکل شرمندہ اور رسوانہ کرتے تھے اگر مخاطب کسی فعل میں گرفتار
ہوتا یا گناہ کا مرتکب ہوتا تو اس فعل کی نسبت اس کی طرف کرنے کی بجائے عام
خطاب سے اس گناہ کی مذمت کرتے اور ان کی اصلاح کرتے تھے ۔جیسا کہ سورہ
یاسین میں ہے ۔’’اور مجھے کیا ہو گیا ہے کہ میں اپنے پیدا کرنے والے کی
عبادت نہ کروں۔‘‘(القرآن سورۃ الیٰسین)
اور اسی طرح آج کے مبلغین کیلئے بھی ایسے اصول قرآن حکیم میں موجود ہیں جن
میں اﷲ تعالیٰ نے آپ کو دعوت و تبلیغ کے مختلف اسلوب سکھائے ہیں جن سے آج
ہم بحیثیت مبلغ فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں۔
دعوت و تبلیغ کی ابتداء گھر سے:قرآن حکیم میں پیغمبرانہ دعوت و تبلیغ کا
ایک اصول یہ بھی ہے کہ جو ہدایت عام لوگوں کو دی جائے اس کی ابتداء اپنے
اہل و عیال اور قریبی رشتہ داروں سے کی جائے کیونکہ گھر والوں کو اس کا
ماننا اور منوانا نسبتاً آسان اور سہل ہوتا ہے لہٰذا قرآن حکیم میں آیا ہے
۔’’آپ اپنے اہل کو نماز کا حکم دیں اور خود بھی اس پر جمے رہیں۔‘‘(القرآن
سورۃ طٰہٰ)
اس آیت کے نازل ہونے کے بعد آپ ﷺ روزانہ صبح کی نماز کے وقت حضرت علی رضی
اﷲ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے مکان پر جا کر آواز دیتے تھے ۔
الصلوٰۃ ۔الصلوٰۃ ۔(الجامع الاحکام القرآن )
ارادے میں پختگی اور استقامت :دعوت و تبلیغ ایک انتہائی مشکل اور تکلیف دہ
عمل ہے جس کیلئے بعض اوقات بہت سی تکلیفیں جھیلنا پڑتی ہیں ۔اس کیلئے انسان
میں استقامت کا پہلو بدرجہ اتم موجود ہونا چاہیے ۔ لوگ راستے میں رکاوٹیں
بھی ڈالتے ہیں تو اس وجہ سے اپنے مقصد حیات سے دورنہ ہونا چاہیے ۔اسی لیے
اﷲ تعالیٰ نے آپ ﷺ سے فرمایا :’’پس آپ لوگوں کو اسی طرح بلاتے رہیے جیسا کہ
آپ کو حکم دیا گیا ہے مضبوطی سے جم جائیے اور ان کی خواہشوں پر نہ
چلیں۔‘‘(القرآن سورۃ الشعراء)
مبلغ کا کام پیغام پہنچانا ہے نہ کہ ہدایت دینا :ہمارے معاشرے کے مبلغین کا
طریقہ دعوت کچھ ایسا ہے کہ موقع پر ہی چاہتے ہیں کہ سامعین ان کی بات کو
قبول کر لیں حالانکہ ہمارا کام پیغام پہنچانا ہے نہ کہ ہدایت دینا ،کیونکہ
ہدایت صرف اﷲ تعالیٰ کے پاس ہے لیکن اس کے باوجود ہم مخاطبین کو مجبور کرتے
ہیں کہ وہ ہماری بات کو فورا قبول کریں جو کہ مخاطبین اور سامعین کیلئے
تکلیف دہ مرحلہ ہوتا ہے جس کی بناء پر وہ لوگ مبلغین اسلام کی محافل سے دور
بھاگتے ہیں ۔اﷲ تعالیٰ نے آپ کو بھی یہی حکم دیا ہے ۔’’پس آپ نصیحت کر دیں
کہ میں تو صرف نصیحت کرنے والا ہوں ۔‘‘(القرآن سورۃ الغاشیہ)
رمی و شفقت اور حکمت کا استعمال:نبی اکرم ﷺ نے جب کفار و مشرکین کو دعوت
ایمان دینا شروع کی تو کفر و شرک میں ملوث ان لوگوں کیلئے یہ بات چونکہ نئی
تھی اور غیر مانوس تھی جسے نہ تو اپنے آباؤ اجداد سے سنا تھا اور نہ ہی
زمانہ قریب کے لوگوں سے سماعت میں آئی تھی سواس پر وہ آپ ﷺ کے درپے ہو گئے
لیکن آپ ﷺ برابر نرمی ،شفقت، دلسوزی و خیر خواہی اور حکمت سے ان لوگوں کو
سمجھاتے رہے جس بات کا حکم اﷲ تعالیٰ نے آپ کو قرآن حکیم میں دیا تھا ۔
’’اے نبی (ﷺ)! آپ ﷺ کے ذمہ تو صرف پہنچا دینا ہے اور حساب لینا تو ہمارے
ذمہ ہے ۔‘‘(سورۃ الرعد)
احکام قرآن کی روشنی میں کفر و شرک کی مذمت اور توحید کی حقانیت اور صداقت
آپ ﷺ بڑے حکیمانہ انداز میں بیان فرماتے رہے اور ساتھ ہی ان کفار کے مظالم
پر کامل صبر و تحمل سے در گزر اور اعراض بھی فرمایا اسی لیے حق تعالیٰ نے
ایک خاص وقت (مکی دور) تک اسی در گزر اور اعراض کا حکم جاری رکھا ۔’’سو آپ
ﷺ اسی خوبی کے ساتھ ان کافروں سے در گزر کریں۔‘‘(سورۃ الحجر)
بین المذاہب اعتدال کی فضاء:مبلغین کو تبلیغ کرتے وقت اس بات کا بھی دھیان
رکھنا چاہیے کہ تمام مذاہب کا نقطہ نظر یہی ہے کہ اس خالق کی عبادت کی جائے
جس نے اس دنیا اور اس میں جو کچھ ہے کو بنایا ہے اور کوشش کی جائے کہ مذاہب
کو قریب قریب بیان کیا جائے اور ان معاملات پر زور دیں جن میں بین المذاہب
یکسانیت پائی جاتی ہے کیونکہ قرآن حکیم نے آ پ ﷺ کو اہل کتاب سے کلام کرتے
ہوئے اسی اصول تبلیغ کو مد نظر رکھنے کی ترغیب دی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے کہ
’’آؤ اس بات کی طرف جو تمہارے اور ہمارے درمیان برابر ہے کہ بجز اﷲ کے ہم
کسی کی عبادت نہ کریں۔‘‘(سورۃ العمران)
اخلاق و محبت کا مجسمہ :مبلغ و داعی کو اخلاق ،مہر و محبت کا مجسمہ ہونا
چاہیے تاکہ لوگ ہمدردی کی وجہ سے نزدیک آئیں اور اپنے جذبات اور کیفیات کا
اظہار کریں ۔سخت لہجے کو کوئی سننے کو تیار نہیں ہوتا اسی لیے قرآن کریم نے
نبی اکرم ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے تبلیغ کے اس پہلو پر اشارہ دیا ہے کہ اگر آپ
کبھی سختی رکھتے تو کوئی بھی آپ ﷺ کی بات سننے کو تیار نہ ہوتا اور آ پ ﷺ
کی قربت میں آنے کو تیار نہ ہوتاجیسا کہ ارشاد ہوا۔ ’’اور اگر آپ درشت
خواور سخت دل ہوتے تو لوگ آپ (ﷺ) کے پاس سے چل دیتے ۔‘‘(سورۃ العمران)
خلاصہ کلام:یہ نبی اکرم ﷺ کی دن رات کی محنت اور دعوتی اسلوب تھا کہ وہ قوم
جو دنیا میں سب سے زیادہ کمزور سمجھی جاتی تھی اور کوئی حکمران اس پر حکومت
کرنا گوارانہ سمجھتا تھا ،اعمال و اخلاق کے اعتبار سے ایسی اعلیٰ قوم بنی
کہ دنیا اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے ۔ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ایک
دوسرے کی جان کے محافظ بنے اور بالآخر انسانی زندگی کیلئے مطلوب تمام اعلیٰ
صفا ت کو اختیار کر کے رضی اﷲ عنہم و رضو عنہ کی سند امتیاز لیکر آخرت کی
راہ سدھار گئے ۔نبی اکرم ﷺ کے ظاہری پردہ فرمانے کے بعد آپ ﷺ کی تیار کردہ
اس جماعت نے آپ ﷺ کے بیان کردہ دعوت و تبلیغ کے قرآنی اصولوں کو اپناتے
ہوئے دعوت کے پیغام کو شرق و غرب تک پہنچایا ۔دنیا ئے کفر اسلامی تعلیمات
سے روشناس ہو گئی اور رسول اﷲ ﷺ کے تربیت یافتہ افراد کے اعلیٰ اخلاق و
اعمال کا اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکی ۔ آج اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ امت کے
اندر موجود خرابیوں کے لئے انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر سعی کی جائے
تاکہ امت پستی میں گرنے کی بجائے اوج عظمت کی طرف اپنا سفر شروع کر دے اور
امت کو اس مقام پر لاکھڑا کرنے کیلئے دعوت و تبلیغ کے ان اصولوں اور طریقہ
کار کو اپنانا ہو گا جن کو نبی اکرم ﷺ کے اسوۂ حسنہ اور کردار کی شکل میں
قرآن مجید نے بڑی فصاحت و بلاغت کے ساتھ بیان کیا ہے۔دعوت و تبلیغ کا کام
ہمارے معاشرے میں بنیاد ی ستون کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کیلئے صرف انفرادی
نہیں بلکہ اجتماعی طور پر فکر و سعی کرنا ضروری ہے ۔
دعوت و تبلیغ کے کام کیلئے پہلے اپنے کردار کو ماڈل بنانا ہو گا۔افراد کی
اصلاح کیلئے انفرادی و اجتماعی کوششوں کو بروئے کار لایا جانا اور اصلاح
کیلئے تنقید سے گریز ضروری ہے ۔اﷲ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے ۔آمین
|