تحریر: سیدہ عروبہ فاطمہ، کراچی
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
ہمت، عزم، حوصلہ، یہ تین جذبے ہیں۔ جن سے مل کر پاکستان بنا۔ پاکستان کا
مطلب کیا!’’لاالہ الااﷲ‘‘،تو کیا آج بھی ہم اس مقصد کویاد رکھئے ہوئے
ہیں؟افسوس کے ساتھ نہیں!یہ ملک قائم تو کرلیا لیکن اس کو سنبھال نہ سکے۔ہم
نے یہ ملک اْس وقت حاصل توکرلیا تھاکیونکہ اْس وقت ہمیں ضرورت تھی اور آج
جب ہمارے وطن کو ہماری ضرورت ہے تو ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔اسی ملک میں بیٹھ
کر اسی ملک کا پیسہ اور اس کا حق مار رہے ہیں۔
سب یہ تو کہتے ہیں کہ پاکستان نے ہمیں کچھ نہیں دیا۔آج میں ان لوگوں سے
سوال کرتی ہوں کہ ہم نے پاکستان کو کیا دیا ؟ذرا اس طرف سوچا ہے؟نہیں !کیونکہ
ہمارے پاس فرصت کہاں کہ ہم ان سب کے بارے میں سوچے، بس ہمیں تو صرف پاکستان
کی برائی نظر آتی ہے،یہ نظر نہیں آتا کہ اس کی برائی کی وجہ ہم خود ہی تو
ہیں۔
23مارچ 1940ء میں قراردادِ لاہور جو اب وراردادِ پاکستان کے نام سے مشہور
ہے۔موجودہ مینارِ پاکستان پہلے منٹو پارک کے نام سے جانا جاتا تھا کے مقام
پر منظور ہوئی تھی۔جب ہم 23مارچ کویاد کرتے ہیں تومشہور انسان نما فرشتوں
جیسے اشخاص کو کیسے بھول سکتے ہیں۔ان میں شامل قائداعظم محمد علی جناح ،علامہ
اقبال ،مولانا محمد علی جوہر،مولاناشوکت علی جوہر،چوہدری رحمت علی ،سر سید
احمد خان،اور دیگرشخصیات شامل ہیں۔
قائد اعظم آپ کو یاد ہی ہونگے،انہیں بانیِ پاکستان کے خطاب سے پہچانا جاتا
ہے،مصورِ پاکستان کی پہچان علامہ اقبال کے حصہ میں آئی۔انہوں نے اور اْن
تمام شخصیات نے اپنا خون پسینہ ایک کرکے ،اپنے پیاروں کا خون بہا دے کر
دیگر مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے نہ صرف جہدوجہد کی بلکہ یہ ملک ہمیں تحفہ
تن دیا اورسر سید وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے پہلی دفعہ مسلمانوں کے لئے
لفظ’’قوم‘‘استعمال کیا اورنہ صرف استعمال کیا بلکہ بتایا کہ یہ ایک قوم ہے،
جس کا مذہب ،ثقافت،رہن سہن ،مقصد ،طور طریقے،سوچ،اندازِگفتگو،سماجی احوال
اور دیگر پہلوؤں میں انگریزوں اور ہندؤں سے بہت مختلف ہیں۔
ان لوگوں سے پوچھو جنہوں نے اتنی قربانیاں دی اور خون بہایا وہ آج کا
پاکستا ن دیکھ کر کتنے مایوس ہوں گے۔ پہلے الگ ملک کی خواہش کرتے تھے اور
آج جب ہم اپنی مرضی سے اٹھ بیٹھ سکتے ہیں ، مذہبی طور طریقے پورے کر سکتے
ہیں تو ہمیں اپنے ملک کی قدر نہیں ہے۔ چوہدری رحمت علی نے اس ملک کو نام
دیا جو اس کی پہچان بنی،پاکستان کا قومی پرچم امیر الدین قداوائی نے ڈیزائن
کیا۔جو پاکستان کی پہچان اور اس کی رہنمائی کرتا ہیں۔
آج کل ماحول جتنا ایڈوانس ہو رہا ہم اْتنے ہی آرام طلب اورکاہل ہوتے جارہے
ہیں مطلب ہم بلندی کے بجائے پستی کی طرف جارہے ہیں۔ہمیں فرصت ہی نہیں کہ
اپنا سر موبائل اسکرین سے ہٹاکر پاکستان کے مسائل کی طرف دیکھیں۔ہم نے اپنے
لئے خود ہی ٹیکنالوجی کو مصیبت بنا لیا ہے۔اگر ہمیں استعمال کرنے کا اتنا
ہی شوق ہے تو خدارا کسی اچھے مقصد ،کسی بھلائی کے لئے استعمال کریں، نہ کہ
فضول میں اپنا وقت ضائع کریں ،بے کار چیزیں دیکھ کر، سن کرہمیں کوئی فائدہ
حاصل نہیں ہونے والا۔
ہمارا میڈیاقصور وار ہے لیکن ہم خود بھی کچھ کم نہیں ،اگر ہم اتنا میڈیا کو
فالو کرتے ہیں تو یہ بھی دیکھیں اور عمل پیرا ہوں کہ اگر کسی خاتون کی شادی
ہو جاتی ہے اور اگر انہیں اجازت نہیں کہ وہ اب ڈرامے کرے ، اسکرین پر آئے
تووہ نہیں آتی، مرد حضرات اپنے گھر میں رہنے والی خواتین سے بھی حسنِ اخلاق
سے پیش آئیں ،جس کا ہمارا مذہب ہمیں حکم دیتا ہے۔
آج کل ہم لوگوں کا کام ایک دوسرے کو تنقید کا نشانہ بنانا رہ گیا ہے،ایک
دوسرے کو نیچادکھانا ،ایک دوسرے کی برائی،بس ان ہی سب کاموں میں ہم اتنے
مصروف ہیں اور کہتے ہیں جی پڑھائی،جاب کی وجہ سے مصروف ہیں۔سچ یہ ہے کہ ہم
ایک دوسرے کو آگے بڑھتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے۔ کوئی اچھا کام کررہا ہو تو
بھی ہم اس میں نقص نکال ہی لیتے ہیں۔ کیا یہ سب کرنے کے لئے پاکستان حاصل
کیا تھا؟ نہیں نہ !اور اگر یہ ہی سب کرنا تھا تو ہم غلام ہی رہتے !ایک
دوسرے سے لڑنے سے بہتر دْشمن سے لڑنا تھا۔اْس وقت ایک تو تھے،بٹے ہوئے تو
نہیں تھے۔
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے
آج اس 23مارچ کے موقع پر ہم ایک عہد کرتے ہیں کہ ہم کوئی ایسا کام ،کوئی
ایسا عمل کریں جو پاکستان کی ترقی کا باعث بنے، اپنے لئے تو سب جیتے
ہیں،بات تو وہ ہے جو کسی اور کے لئے کچھ کرجاؤ، پاکستان کا نام روشن کرنے
کے لئے آج عزم کرتے ہیں کہ ہم سچے پاکستانی بن کے دکھائیں گے، لوگوں کے کام
آئیں گیاور یہ عمل چند دن نہیں بلکہ ڈٹ کے عمل پیرا رہنا ہوگا، انشااﷲ۔
وہ کیسے لوگ تھے بھلا بتائے تو ذرا، جو خونِ دل سے لکھ گئے بے مثل کہانیاں
|