پانی زندگی ہے!

22 مارچ کو دنیا بھر میں پانی کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ پاکستان پانی کی شدید کمی سے گزررہا ہے لیکن ہمارے ہاں اس بارے میں سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر کوئی توجہ اور اقدامات نظر نہیں آ رہے۔ پینے کا صاف پانی کتنے شہریوں کو میسر ہے اور کاشتکاری کے لیے ہم کتنا پانی زیراستعمال لا رہے ہیں اور ہمارا کتنا پانی سمندر کی نذر ہو جاتا ہے۔ ان سوالات کا جواب ہر شہری کے لیے پریشان کن ہوگا۔ پانی کی کمی میں پوری دنیا میں بدلتے ہوئے موسمی حالات کا عمل دخل ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر میسر پانی کو درست طور پر استعمال کیا جائے اور شجرکاری کے ذریعے موسمی حالات کو بہتر بنایا جائے تو پانی کی کمی کو پورا کیا جاسکتا ہے۔ شجر کاری کا موسم کتنی خاموشی سے گزررہا ہے، کہیں کوئی سرگرمی نظر نہیں آتی۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس بارے میں کوئی ویژن نہیں رکھتیں۔حکمرانوں اور بیوروکریسی کی نالائقی کی وجہ سے ہم بجلی اور گیس کی شدید ترین لوڈشیڈنگ سے گزر رہے ہیں اور اگر یہی طرز عمل جاری رہا تو پانی کی کمی انسانی زندگی کو خطرات سے دوچار کردئے گی۔

پاکستان کونسل برائے آبی وسائل کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے 44 فیصد شہریوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ ہر سال پاکستان کے دو لاکھ بچے پینے کا صاف پانی نہ ملنے کی وجہ سے پیٹ کی بیماریوں کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ جس تیز رفتاری سے آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے اور پانی کے قدرتی وسائل میں کمی واقع ہو رہی ہے، اگلا عشرہ اہل پاکستان کے لیے شدید آزمائش کا ہو گا۔

سندھ اور بلوچستان کے صحراوں کی بات نہیں کے پی کے اور آزادکشمیر کے پہاڑی علاقے بھی پانی کی شدید کمی سے دوچار ہیں۔ ستر کی دہائی میں ہمارے گاوں اور دیہاتوں میں درجنوں چشمے اور آبشاریں ہوتیں تھیں، جہاں اب انسانیت پانی کی بوند بوند کو ترس رہی ہے۔ بارشوں کی کمی کی وجہ سے زیر زمین پانی بھی مسلسل کم ہورہا ہے۔ دنیا میں صنعت کی وجہ سے جنگلات کم ہو رہے ہیں، جبکہ آزادکشمیر میں چند بااثر لوگ دن رات جنگل کے تباہ کرنے میں مصروف ہیں۔ ان لوگوں کو سیاسی پنڈتو ں کی پشت پناہی حاصل ہے، جن کے انتخابی اخراجات یہی مافیا پورا کرتا ہے۔ حکمران اور پالیسی ساز وں کو جیسے اس ملک کے مستقبل سے کوئی دلچسپی ہی نہیں۔ وہ اس حقیقت سے واقف نہیں یا انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ آئندہ دس، بیس سالوں میں ہماری نسلین کس مشکل سے دوچار ہو ں گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پینے کے صاف پانی کو مناسب منصوبہ بندی کے ذریعے ضائع ہونے سے بچایا جائے اور موسمی حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے شجر کاری کو قومی فریضہ کے طور پر اختیار کیا جائے۔ اس کا ایک طریقہ یہ ب ہوسکتا ہے کہ ہر بچے اور بچی کے لیے لازم قرار دیا جائے کہ وہ پرائمری سکول میں داخل ہوتے وقت ایک پودا لگائے اور میٹرک تک اس کی دیکھ بھال کرے، ہر سطح کے امتحان میں اس پودے کی پرورش کے خصوصی نمبر رکھے جائیں اور میٹرک کی سند حاصل کرنے کے لیے اس پودے کی دس سالہ پرورش کو لازم قرار دیا جائے۔ یہی معاملہ دینی مدارس کے اسناد کے ساتھ بھی مشروط کیا جائے۔ اسی طرح ہر سطح کی سرکار ی اور نیم سرکاری ملازمت کے لیے لازم کیا جائے کہ امیدوار کم ازکم ایک پودے کا رکھوالا ہو۔ سرکاری اداروں کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے ملازمین کے ذریعے ہرسال ایک پودے کا اضافہ کریں اور سرکاری ملازمین کی سالانہ رپورٹ میں شجرکاری اور پودوں کی دیکھ بھال کے خصوصی نمبر رکھے جائیں۔

شجرکاری اور پودوں کے تحفظ کے لیے سرکاری سطح پر خصوصی قانون سازی کرتے ہوئے درختوں کے کٹاو کو روکنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ملک میں شجر کاری کے لیے وسیع قطعات اراضی میسر ہیں۔ صرف سرکاری مشینری اور عوام کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم صرف تین سالوں میں پورے ملک کو درختوں سے بھر سکتے ہیں۔ صرف توجہ اور تحریک کی ضرورت ہے۔ جس طرح ملک کا دفاع بنیادی فریضہ ہے اسی طرح پانی اور جنگلات کا تحفظ بھی ضروری ہے۔ ہمیں قومی تحفظ کے جذبے کے تحت اس پر کام کرنا چاہیے۔
 

Atta ur Rahman Chohan
About the Author: Atta ur Rahman Chohan Read More Articles by Atta ur Rahman Chohan: 129 Articles with 117097 views عام شہری ہوں، لکھنے پڑھنے کا شوق ہے۔ روزنامہ جموں کشمیر مظفرآباد۔۔ اسلام آباد میں مستقل کالم لکھتا ہوں۔ مقصد صرف یہی ہے کہ ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل .. View More