تحریر: علی حسن کریمی، کراچی
نبی صلی اﷲ علیہ وسلم 1400 سال پہلے مکہ سے مدینہ منورہ (یثرب) کی طرف ہجرت
کرتے ہیں کیونکہ مکہ میں جب اسلام اور مسلمانوں پر ظلم بڑھ گئے انکے عبادت
میں مشرکین مکہ کی طرف سے مشکلات پیدا کی گئی تب اﷲ کے حکم سے ہمارے نبی
کریم اپنے چند ایک جانثار صحابہ کو لیکر مدینہ پہنچے اور وہاں ایک اسلامی
ریاست کق قیام کیا اور پھر انہیں مسلمانوں کو لشکر نے ایک دن مکہ کو فتح
کیا۔ اسلام سے پہلے جو صحابہ ایک دوسرے کی جانی دشمن تھے کلمہ طیبہ کی وجہ
ایک دوسرے پر جانیں قربان کرنے کے لیے تیار تھے یہ سب کلمہ طیبہ کی برکت
اور طاقت تھی۔
مدینہ کے بعد دوسرا اسلام کے نام پر حاصل ہونے والے ملک پاکستان تھا جس کا
وہی نظریہ تھا جو 1400 سال پہلے ہمارے نبی ﷺنے پیش کیا تھا۔ یہ حقیقت آسانی
کے ساتھ سمجھی جا سکتی ہے کہ مختلف صوبوں، علاقوں، قوموں اور مختلف فرقوں
سے تعلق رکھنے والے افراد کو جس قوت نے ایک متحدہ قوم بنا دیا وہ قوت
اسلامی نظریہ تھا۔
27 رمضان المبارک 14 اگست کو کئی قوموں کا ایک ساتھ متحد ہوجانا اور ایک
ملک پاکستان بنانا، ان سب کے پیچھے ایک کلمہ ’’لا الہ الا اﷲ محمد رسول
اﷲ‘‘ تھا اور یہی پاکستانی نظریہ ہے۔ 23 مارچ سن 1940ء امید کی روشن کرنوں
سے منور دن، قوم کی اتحاد اور یکجہتی کا دن 23 مارچ وہ عظیم دن ہے جب
انگریز کی غلامی سے نجات پانے کے لئے قرار داد پاکستان منظور کی گئی۔ قوم
کے اتار چڑھاؤ میں کچھ ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جن کے اثرات لافانی ہوتے
ہیں۔ مسلمانان برصغیر کے لیے یہ دن کچھ ایسی ہی اہمیت کا حامل تھا جب لاہور
میں بادشاہی مسجد کے قریب ایک وسیع و عرض میدان میں لاکھوں مسلمان اکھٹے
ہوئے اور ایک قرار داد پیش کی گئی جس کی تائید مسلمانوں نے دل و جان سے کر
دی جس سے ان کی قسمت کا پانسہ پلٹ گیا۔
مسلمانوں نے اپنی منزل کا اعلان پاکستان کی صورت میں کردیا تھا اور یہ بات
کھل کر کہہ دی تھی کہ ہم برصغیر میں مسلمانوں کے لیے ایک الگ ریاست حاصل
کریں گے اور اسی کے لیے ہر ممکن کوشش اور جدوجہد بھی کی جائے گی۔
اگر نظریہ پاکستان کو اسلامی نظریہ کہا جائے تو یہ بات بھی غلط نہ ہوگی ،یہ
نظریہ آسمان سے آیا جب اﷲ کی نبی صلی اﷲ علیہ و سلم نے مکہ میں بتوں کی
پجاریوں کو آسمان سے آنے والا پیغام پیش کیا تو انہوں نے کہا کہ اپ ہمارے
ساتھ مذاکرات کرلیں کچھ اپ ہماری بتوں کی پوجا کرلیں کچھ دن ہم آپ کے رب کی
عبادت کیا کریں تو آسمان سے یہ ایت نازل ہوگئی ’’اے نبی ان سے کہہ دیں
تمہارے لیے تمہارا دین ہمارے لیے ہمارا دین‘‘ اور یہی نظریہ برصغیر کے
مسلمانوں انہی بتوں کے پجاریوں کے خلاف لیکر کھڑے ہوئے۔ قائد اعظم نے یہی
بات واضح کی تھی کے ہمارا اسلام الگ دین، ہمارا الگ کلچر ہے تم گئے کی پوجا
کرتے ہو ہم گئے کو ذبح کرتے ہیں، تو کواڑوں بتوں کو پوجتے ہو ہم ایک اﷲ
واحد لاشریک کو منانے ہیں ہم اور تم ہرگز ایک نہیں ہوسکتے۔ انہیں بنیادوں
پر ہم نے پاکستان کو حاصل کیا تھا۔
آج ایک طبقہ بڑی آسانی کے ساتھ یہ بات کہہ دیتا ہے کہ قائد اعظم محمد علی
جناح تو سیکولر تھے وہ تو سیکولر پاکستان چاہتے تھے وہ نظریہ والا پاکستان
نہیں چاہتے تھے۔ یہ ہمارے بنیادوں کو کمزور کرنے کی سازشیں ہیں، یہی
بنیادیں کمزور ہوئی تھی تو ہم نے بازو بنگلادیش کھو دیا تھا اج وقت کی
ضرورت کے ہم دشمن کے اس غلیظ پروپیگنڈا کو ناکام کریں۔
پاکستان کے دشمنوں نے اس ملک کے وجود میں اتے ہی اس کے خلاف سازشیں شروع
کردیں کبھی لسانیت،عصبیت اور پروپیگنڈے کی تحریک کو خوب بھڑکانے کی کوششیں
کی تو کبھی قوم کو فرقوں میں مبتلا کر کر انتشار پھیلایا۔
نظریہ پاکستان کے خلاف میڈیا نے ایک بہت ہی زیادہ خطرناک رول ادا کیا ہے
کبھی پاکستان کا مطلب کیا ’’پڑھنے لکھنے کے سوا‘‘ کا نعرہ بلند کیا تو کبھی
کبھی اس پروپیگنڈے کو یوں بھی پیش کیا جاتاہے کہ ’’ریاست کا کوئی مذہب نہیں
ہوتا‘‘ بلکہ ریاست تو سیکولر ہوتی ہے۔اگرریاست کسی مذہب کو اپنالے تو ریاست
میں بدامنی پھیل جائے گی۔
لازوال قربانیوں کی بدولت اس ملک کو ’’لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ‘‘ کے نام
پر حاصل کیا گیا اور آج بھی یہ اس وجہ سے دنیا کے نقشے پر ایک ایٹمی طاقت
بن کر چمک رہا ہے۔ نظریہ پاکستان ہی بقائے پاکستان کی ضامن ہے۔ دشمن کے
پروپیگنڈہ سے بچنے کے لیے عوام الناس کو قردار ادا کرنا ہوگا اور اﷲ اور اس
کے نبی ﷺ کی تعلیمات کو مظبوطی سے پکڑنا ہوگا۔ فرقوں، لسانی اور دیگر
بنیادوں پر بٹ جانے کے بجائے ایک پاکستان اور اسلام پر جمع ہونا ہوگا، اﷲ
پاکستان کا حامی و ناصر ہے۔ پاکستان رہے سلامت تا قیامت۔
|