حسب ِ معمول پبلک بَس میں بیٹھے کالج جا رہے تھے۔ کالج کا
فاصلہ ہماری رہائش سے سترہ کلو میٹر بنتا ہے۔دوران سفر اخبار کا مطالعہ
اولین ترجیح ہوتی ہے حالاں کہ رات بھر مختلف نیوز چینلوں پر ہونے تبصروں سے
صبح تک سر میں درد محسوس ہوتا ہے۔ آج دوران سفر دو واقعات پیش آئے۔پہلا
واقعہ باپ کی شفقت کے حوالے سے دیکھنے کو ملا۔بَس میں ہمارے ہم سفرایک باپ
بیٹا بھی تھے۔ بچے کا ہاتھ میں کلپ بورڈ تھا جس سے یہ بات واضح تھی کہ آج
اس کا پرچہ ہے اور باپ اُس کے ساتھ سفارش کے لئے جارہاتھا، جو باربار بیٹے
کو تسلی دیتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ اسحاق کی کال آجائے گی اور انہوں نے
امتحانی عملے سے بات کر لی ہوگی۔ مجھے اور میرے پروفیسر دوست کو اُن کی
گفتگو میں کوئی دل چسپی تھی اور نہ کوئی تجسسو تھا۔ کیوں کہ قرآن ِ مجید کا
واضح پیغام ہے ۔ ’’اے ایمان والو ! بہت بد گمانیوں سے بچو، یقین مانو کہ
بعض بد گمانیاں گناہ ہیں اور بھید نہ ٹٹولا کرو ‘‘۔تھوڑی دیر بعد باپ کا
موبائل فون بجنے لگا اور اُس نے موبائل میں خرابی کے باعث لاؤڈ سپیکر آن کر
دیا۔ یوں دونوں طرف کی آوازیں صاف سنائی دینے لگیں۔ پرائیویسی بالکل ختم
ہوگئی۔ کال کے اختتام پر باپ نے مسکراتے ہوئے کہا کہ امتحانی عملے سے بات
ہو چکی ہے لہٰذا پرچے سے متعلق پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے لیکن بچہ جو
کہ ذہنی طور پر جھکڑا ہوا تھا اُس کی اضطرابی کیفیت اور خود اعتمادی کا
فقدان اُس کے چہرے سے ٹپک رہا تھا۔میرا دوست کہنے لگا کہ یہ باپ کی شفقت کی
بہترین مثال ہے میں نے بھی اُس کی طنزیہ بات سمجھتے ہوئے تائید میں سر ہلا
دیا۔ یہ مسافر باپ بیٹا ایک نجی سکول کے قریب اُترے تو اتفاقاً چند کلومیٹر
کے فاصلے پر ایک اور بچہ امتحانی رول نمبر سلپ ہاتھ میں تھامے پدر ِ شفقت
سے محروم بَس میں سوار ہوا، یعنی اُس کے ساتھ مدد گار باپ تھا اور نہ ہی
کوئی مدد گار ساتھی تھا۔میں نے اپنے پروفیسر دوست سے کہا کہ کیوں نہ ہم اس
کی کچھ مدد کریں۔ ’’ وہ کیسے ؟‘‘۔ دوست نے حیرانگی سے پوچھا۔’’آپ صرف
دیکھتے جائیں ‘‘۔ میں جواب دیا اور ساتھ ہی اُس بچے سے محوِ گفتگو ہو گیا۔
ابتداء میں اس سے حال احوال اور پرچے کے لئے تیاری دریافت کی اور پھر جب
اُس کا ذہن میری بات ماننے پر آمادہ نظر آیا تو پھر میں نے اُس کو سوالات
کے جوابات حل کرنے طریقے بتائے۔ اور اُس کو تمہید سے خلاصہ تک کا طریقہ
بتلایا۔ بچہ انہماک سے میری باتیں ذہن نشین کر رہا تھا اور جب بَس سے
اُترنے لگا تو نہایت مطمئن تھا۔ دوست میری اس رہنمائی پر خوش ہو کر بولا۔
’’ آپ کی صورت میں بچے کو پدر ِ شفقت تو مل گئی ‘‘۔ ’’ استاد کو اس لئے
روحانی باپ کا درجہ دیا گیا ہے ‘‘۔ میں نے جواب دیتے ہوئے کہا۔
ان دونوں واقعات میں جو نمایاں فرق نظر آیا وہ خود اعتمادی کا تھا۔ پہلا
بچہ تگڑی سفارش کے باوجود بھی مضطرب تھا اس میں خود اعتمادی کا لیول صفر ہو
چکا تھا جب کہ دوسرا بچے نے صرف چند منٹ کی بات چیت میں اپنی خود اعتمادی
کا گراف بلند کرلیا تھا۔ پس والدین اور اساتذہ پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی
ہے کہ وہ بچوں کی رہنمائی کریں اور اُن میں خود اعتمادی کا جذبہ پیدا کریں
تا کہ اُن کا انحصار دوسروں پر بالخصوص امتحانی دنوں میں ناجائز طریقوں کے
استعمال پر نہ رہے۔
|