مسلمان ہو یا عیسائی ، ہندو ہو یا سکھ، سب کے مذہب ، عقا
ئد اور رسم و رواج الگ الگ ہیں مگر سب، حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد اور
اﷲ کی مخلوق ہیں۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے تمام مخلو ق کو، اﷲ کا کنبہ
قرار دیا ہے ۔ بحیثیت انسان اور پاکستانی شہری، سب ایک ہیں، بھائی بھائی
ہیں۔سب متحد ہو کرپاکستان کو مضبوط بنا سکتے ہیں۔ قومی یکجہتی، جہاں داخلی
استحکام کے لیے ضروری ہے وہاں عالمی سطح پر بھی مطلوب ہے۔ یہ ملک، اس میں
بسنے والے تمام شہریوں کا ہے ۔ہم اپنے مذہبی عقائد پر سمجھوتہ نہیں کرسکتے
مگر ہم کسی کو کاٹ کر بھی نہیں رہ سکتے۔ اگر کا ٹنا شروع کیا تو باقی کتنا
بچے گا۔ اس ضمن میں قا ئد اعظم کا قول ہے اور اسلام بھی اقلیتوں کے حقوق کے
تحفظ کی ہدا یت دیتا ہے۔ مگر ریاست کی وحدت کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس
کے قوانین اس میں بسنے والی اکثریت کی اُمنگوں اور مفادات کے خلاف نہ ہوں۔
مذہب و ملّت کے اعتبار سے کسی غیر مسلم کو بھائی کہنا درست نہیں مگر پا
کستان کی شہریت اور وطنیت کی بنا پر سب بھائی بھائی ہیں۔ مختلف مذاہب کے
ممالک میں خط لکھنے یا مخا طب کرنے میں ایک دوسرے کو برادر یا بھائی کہہ
دیا جا تا ہے۔ کسی غیر مسلم عبادت گاہ پر دہشت گردی ہو جائے تو متاثرین کے
ساتھ اظہارِ ہمدردی کرتے ہوئے، انھیں بھائی، برادر یا برادری کہہ کر دہشت
گردی کی مذمت کی جا تی ہے۔ ملکی سربراہ یا کوئی رہنماء ہم وطنوں سے مخاطب
ہوتے ہوئے میرے بھائیوں،میری بہنوں کے الفاظ استعمال کرتا ہے ۔اس کے مخاطب
کسی امتیاز کے بغیر تمام شہری ہوتے ہیں ۔اس کا مطلب دینی یا حقیقی بھائی
نہیں ہوتا۔اس لیے کہ ریاست ایک سیاسی وحدت ہوتی ہے ، اس کے تمام شہری سیاسی
وحدت کے اعتبار سے ایک ہوتے ہیں۔ چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب، زبان یا
نسل سے ہو۔
حضرت محمدصلی اﷲ علیہ وسلم نے مدینہ ہجرت کرنے کے بعد وہاں کے شہریوں(
باالخصوص یہودیوں) کے ساتھ جو تحریری معاہدہ کیا ،وہ میثاق مدینہ یا منشورِ
مدینہ کہلاتا ہے ۔ یہ انسانی تاریخ کا پہلا بین الاقوامی تحریری معاہدہ اور
دستور ہے۔ یوں کہیے کہ پیغمبر ِ اسلام نے اُس وقت ریاست کو بہترین دستور
دیا جب دنیا کسی آئین یا دستور سے آشنا نہ تھی ۔
اس معاہدے میں مسلمانوں اور یہودیوں کو ریاست ِ مدینہ کا شہری ہونے کے
ناطے، سیاسی وحدت کے طور پر،’’ ایک امت‘‘ قرار دیا گیا۔ معاہدے کے تحت
ریاست کے ہر گروہ اور فرد کو اپنے اپنے دین پر رہتے ہوئے آزادی کا حق حاصل
ہوا، تمام طبقات کے شہری حقوق کا تحفظ کیا گیااور ایک فلاحی ریاست کے
اصولوں کو واضح کر دیا گیا۔جس طرح مذکورہ تحریر ایک موثر دستور کی حیثیت
رکھتی ہے، اسی طرح حجۃ الوداع کے موقع پر حضور اکرم کا تاریخی خطبہ بھی نسل
انسانی کے لیے ایک آفاقی، ابدی اور عالمی چارٹرڈ کا مقام رکھتا ہے۔
وہ ہر زمانے کا رہبر ہے ۔۔۔۔۔ میرا پیمبر عظیم تر ہے
عموماً قوم سے مراد، ایسا خاص گروہ لیا جاتا ہے ، جس کی اقدار آپس میں
مشترک ہوں۔ قوم، قومیت اور قوم پرستی کے الفاظ کا استعمال مختلف انداز سے
کیا جاتا رہا ہے۔ جب یہ الفاظ ہندوستان میں مذہبی طور پر استعمال ہو ئے
تومسلمان اور عیسائی، ہندوستان کی ’’ہندوقومیت‘‘ کے دائرے سے نکل گئے۔
پاکستان، صرف الگ الگ مذہبی تشخص کے وجہ سے قائم نہیں ہوا،ہندو مسلم تو ایک
عرصے سے ساتھ رہتے آئے تھے۔ تصورِ پاکستان کا خالق تو، ہندوستان کے مختلف
شہریوں، باالخصوص مسلمانوں کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر، روا رکھا جانے والا
امتیازی سلوک ہے۔اسی لیے مذہبی قوم پرستی کو پاکستان کی بنیاد قرار دیا
گیا۔ مذہبی بنیاد پر اسرائیل اور مشرقی تیمور بھی وجود میں آئے۔مذہبی قوم
پرستی صلیبی جنگو ں کے دوران بھی نظر آئی اور اب بھی اس کے مظاہرعالمی
مسائل کے ضمن میں اپنا وجود رکھتے ہیں۔ بعض اوقات مذہبی شناخت بھی، نسلی
طورپر کی گئی۔ مذہب کی مزید تقسیم ہوئی تو کیتھولک، پروٹیسٹ، برہمن، اچھوت،
سنی اور شیعہ بھی الگ الگ قوم کہلانے لگے۔علاوہ ازیں ان میں بھی مزید پرت
(Layers) تشکیل پائے۔
جب ’’ قوم‘‘ کا لفظ ، علاقائی اور لسانی بنیادوں پر استعمال ہوا تو عر بی و
عجمی کے نظریے نے جنم لیا اور اس بنیاد پر سعودی عرب اور بنگلہ دیش کا قیام
عمل میں آیا۔اسی بنیاد پر’’ عرب ممالک‘‘ کی اصطلاح استعمال ہوئی اور عرب
قوم پرستی کے جذبے کو ہوا دی گئی ۔بعض افراد جغرافیائی بنیاد پر قومیت کے
تصور کو مسلمانوں کو تقسیم کرنے کے پس منظر میں دیکھتے ہیں اور مذہب کی
بنیاد پر قومیت کے قائل ہیں جو رنگ ، نسل، زبان، یا وطن کی بنیاد پر قائم
تصورِ قومیت کے خلاف ہے۔تاہم مذہب کی بنیاد پر قومیت کے علمبردار خود مسالک
، فرقوں اور آویزشوں میں بھی تقسیم نظر آتے ہیں۔
قومیت کے جغرافیائی تصورکے تحت امریکا، کینڈا، برطانیہ، جرمنی، ایران اور
پاکستان کے شہری ، امر یکی، کینیڈین، برطانوی، جرمن، ایرانی یا پاکستانی
قوم کے افراد کہلائے۔ اس تصور کے تحت ایک مذہب، زبان و اقداررکھنے والے بھی
جغرافیائی سطح پر تقسیم ہوئے۔ کہیں کالی اور گوری قوم کا لفظ بھی استعمال
ہوا، مگر گفتگو، تحریر اور ملی نغموں میں ،قوم کا لفظ عموماً اس ملک میں
بسنے والے تمام شہریوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔اس نظریے پر قومی پرچم،
قومی ترانہ، قومی زبان اور قومی دن وغیرہ قرار پاتے ہیں۔
تاہم ایک طرف کسی مذہب کے پیروکار، ملکی اکثریت کی ایسی تہذیب و ثقافت کو
اختیار کرنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں جو اُن کی اپنی مذہبی و نسلی افکار
و تہذیب سے متصادم ہو۔ دوسری طرف اکثریت ، اقلیت سے ، اپنی تہذیب و ثقافت
اختیار کرنے کا مطالبہ رکھتی ہے۔ بصورت دیگردونوں کے درمیان عدم اعتماد،
تشکیک ، منافرت اور دوری کی فضا قائم رہتی ہے۔
لسانی بنیاد پر بلوچ، سرائیکی، سندھی، پنجابی، پشنون اور دیگر قوموں کی بھی
شناخت ہوئی اور اسی بنیاد پر صوبہ سرحد کا نام خیبر پختون خواہ رکھا گیا۔
مزید تقسیم ہوئی تو ذات، برادری اور قبیلوں کے لیے بھی قوم کا لفظ استعمال
کیا جا نے لگااور گجراتی، میمن، مارواڑی، کچھی، مغل، جٹ،بٹ، کھرل، کھوسو،
سومرو، بگٹی، سنجرانی اور دیگر نے اپنی شناخت بطورِ قوم چاہی۔
انفرادی یا اجتماعی سطح پر محبت و عداوت، کسی کو رعایت اور کسی کی حلق تلفی
بھی معاشرے میں مختلف بنیادوں پر اپنی گروہی شناخت اور قوم پرستی کے جذبات
کو ہوا دینے کا راستہ ہے۔ مختلف ممالک میں مختلف طبقات کے ساتھ مذہبی ،
لسانی، نسلی اور دیگر بنیادوں پر جو امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔اس سے
معاشرے میں فرسٹیشن،محرومی، انتہاپسندی، قوم پرستی اور انسانی حقوق کی پا
مالی کا احساس جنم لیتا ہے۔ اس احساس کو اجاگر کرنے والے وہ رہنما بھی ہوتے
ہیں جو خود استحصال کرنے میں شریک رہتے ہیں۔
بعض لوگ نظریاتی قومیت کو انسانیت پر اور بعض انسانیت کو قومیت پر ترجیح
دیتے ہیں۔ سیاسی ، جغرافیائی اور مذہبی وحدت کے بھی کچھ حقائق اور تقاضے
ہیں۔ فیصلہ ہم نے کرنا ہے کہ کس طرح انہیں ایک توازن وحکمت کے ساتھ،پاکستان
کے قومی مفاد میں تشکیل دینا ہے۔ کس طرح وطن عزیز میں قومی نظریات و قومی
یکجہتی کو پروان چڑھانا ہے۔ اس ضمن میں ہمارا کردار اسلام اور پاکستان کے
خلاف دانستہ یا نا دانستہ طور پر پھیلائی گئی بد گمانیوں کو دور کرنے میں
بھی مدد دے سکتا ہے۔
یاد رکھیں مذہب،مسلک، نیشنل ازم یا قوم پرستی کے الفاظ کا درست اور غیر
جذباتی استعمال ہی پاکستان کو متحد و مستحکم کرسکتا ہے۔ ورنہ محرومیاں ،
شکایتیں اور مطالبات، مذہبی بنیادوں پر بھی ہیں اور لسانی و علاقائی
بنیادوں پر بھی۔
پا کستان زندہ باد |