اے خاک نشینوں اٹھ بیٹھو

انسان اپنی موج میں زندگی گزار رہا ہے اور گزار بھی دے گا۔ اسے فرق نہیں پڑتا کہ اس کے ارد گرد معاشرے میں کیا ہو رہا ہے۔ ہر انسان کو صرف اپنا الو سیدھا کرنا ہے۔ حالات حاضرہ میں وقت کس رفتار سے گزرتا ہے کسی کو پتہ نہیں چلتا۔ کس لمحے کیا ہو جائے، کوئی نہیں جانتا۔ پاکستان میں آج کل کچھ موضوعوعات ایسے ہیں کہ جن کا ذکر ہر زبان پر ہے۔کچھ ا ن کو مزاح کے لئے استعمال کرتے ہیں تو کچھ اپنے دفاع کے لئے یا پھر تنقید کے لئے بھی ان کا استعمال کافی زیادہ کیا جا رہا ہے اور ہر شخص اس کو اپنا ذاتی معاملہ سمجھ کر اس پر بحث کر رہا ہے، جو کہ اخلاقیات کے خلاف ہے۔ اگر بات اخلاقیات کی ہی ہے تو ا س کا مسئلہ ہمارے معاشرے میں شروع سے رہا ہے۔ ہر انسان اپنے انداز گفتگو کو اخلاقیات کے معیار پر پورا سمجھتا ہے۔ کوئی تنقید کر دے تو تلخ بھی لگتا ہے۔ کسی کو جوتا پڑ رہا ہے تو کسی کے منہ پر سیاہی پھینکی جا رہی ہے۔ کہیں پی ایس ایل کا چرچہ ہے تو کہیں سینٹ کی سیٹوں کا۔ کچھ دن پہلے پاکستان کے سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف صاحب عوام میں خطاب کرنے آئے تو ان کے منہ پر کسی نے جوتا دے مارا۔ اس سے قبل سابق وزیر خارجہ خواجہ آصف کے منہ پر بھی کالی سیاہی پھینک دی گئی۔ بلاشبہ یہ دونوں واقعات قابل مذمت ہیں۔ ایسے واقعات پاکستا ن میں عام ہیں۔ آئے دن کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ سامنے آتا رہتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ انسان تبدیل ہو سکتا ہے مگر حرکات وہی پرانی ہوتی ہیں۔ ایسے واقعات باعث فخر نہیں ہرہوتے۔ بلکہ ایسے واقعات کسی قوم یا معاشرے کا درست چہرہ سامنے لے کر آتے ہیں۔ پاکستان کا ذکر اگر عالمی سطح پر کیا جائے تو عموماََ اچھے الفاظ میں نہیں کیا جاتا۔ ایسا صرف اور صرف ہماری قوم کی وجہ سے ہی ہے۔ ہمارے لوگ اس قدر جذباتی ہیں کہ جذبات میں اپنی تہذیب تک بھول جاتے ہیں۔ پاکستان کی عوام میں سوشل میڈیا کی اہمیت لوگوں سے زیادہ ہو گئی ہے۔ کسی شخص کا مثبت یا منفی چہرہ سامنے لانے میں سوشل میڈیا بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ موجودہ دور میں تو کسی شخص کو عہدے سے ہٹانے کے لئے بھی سوشل میڈیا کیمپین کا استعمال کیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا کا ہماری زندگیوں میں اس قدر گھل جانا ایک منفی پہلو ہے جو کہ ایک الگ مگر سنجیدہ اور غور کرنے والا موضوع ہے۔ کچھ دنوں سے ہر طرف خواہ وہ سوشل میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا، ہر طرف یا تو جوتے کاذکر ہے یا کالی سیاہی کا۔ اگر دنوں کا ذکر نہ ہو تو پاکستان سپر لیگ کی طرف رخ موڑ لیا جاتا ہے۔ ابھی ایک اور موضوع ہماری عوام کو ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر کے دے دیا ہے۔ اب ہم لوگ ہر طرف اس کا چرچہ کریں گے۔ جب تک کوئی نئی چیز سامنے نہیں آئے گی، تب تک ہم عامر لیاقت کا ہی ذکر کرتے رہیں گے۔

ہم کون ہیں؟ہم کیا کر رہے ہیں؟ گزارش ہے کہ آپ سب یہ سوال اپنے آپ سے کریں۔ جواب ملا۔۔؟؟ نہیں؟ میں دیتا ہوں جواب۔۔۔ ہم مسلمان ہیں، ہم پاکستانی ہیں۔۔۔ مگر ہم کس طرح کے مسلمان ہیں جن کو شام میں ہوتا ہوا مسلمانوں پر ظلم نہیں دکھائی دیتا۔ ہم کیسے مسلمان ہیں کہ جو ان مسلمانوں کا ذکر نہیں کرتے جو کہ شام میں ہماری مدد کے منتظر ہیں۔ ہمارا سوشل میڈیا جو کہ کسی بھی انسان کو ایک دن میں آسمان پہ پہنچا دیتا ہے اور اگلے ہی دن اتار بھی دیتا ہے، کہاں گیا ہمارا سوشل میڈیا؟ کیا اس کو شام کے بچوں کی سسکیاں سنائی نہیں دیتی۔ کیا اس کو مسلمانوں پر ہوتا ہوا ظلم دکھائی نہیں دیتا؟ افسوس۔۔ افسوس کے ہم ایسے ہی مسلمان ہیں۔ ہم ایسے ہی مسلمان ہیں کہ جن کو فرق نہیں پڑتا کہ ان کے ہمسائے نے کھانا کھایا یا نہیں۔ ہم ایسے ہی مسلمان ہیں کہ جن کو پرواہ نہیں ہوتی اپنے غلاموں کی۔ مگر جیسے بھی ہیں۔۔۔ ہمیں خود پہ فخر ہ کہ ہم سچے مسلمان ہیں۔ اگر ہمارا سوشل میڈیا اتنا ہی طاقت ور ہے تو ہمیں اسے فضولیات کی بجائے اپنے بقاع کے لئے استعمال کرنا چاہیئے۔ اگر بات کی جائے کہ ہم پاکستانی ہیں تو ہم پاکستان کی یہ کونسی شکل دکھا رہے ہیں سب کو؟ ہم یہ پاکستان دکھا رہے ہیں کہ ہم لوگ اپنے سیاستدانوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں؟ ہم اپنی یہ تہذیت دکھا رہے ہیں۔ کیا ہم ایسے ہیں۔۔؟ نہیں۔۔ ہم ایسے نہیں ہیں۔ ایک عظیم پاکستان کا عظیم پاکستانی ایسا نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ ایک محب وطن پاکستانی ایسی حرکتیں نہیں کرتا۔ وہ ہر لمحہ ، ہر طرح سے پاکستان کے تحفظ کے بارے سوچتا ہے۔ جو کہ اس کا اولین فرض ہے۔ پاکستان اور شام کے مسلمانوں کو ہماری ضرورت ہے۔ انہیں مدد کی ضرورت ہے۔ گزارش ہے کہ اپنی قوت کا درست استعمال کریں اور پاکستان کو ایک قابل تعظیم پاکستان بنائیں۔ پاکستان زندہ باد

 

Khurram Anique
About the Author: Khurram Anique Read More Articles by Khurram Anique: 9 Articles with 7326 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.