کچھ حقیقت کچھ افسانہ قسط (۲)

سلیم اور صنمی میں تعلق بڑھتا جا رہا تھا اور ساتھ اضطراب بھی بڑھتا جا رہا تھا اور دیدار کا سراب بھی بڑھتا جا رہا تھا

دوسری طرف اس سے ہمدردی اور اس کا خیال رکھنا کچھ اضطراب کو کم کرنے لگا اور یہی ایک راستہ تھا کیونکہ وصل کی کوی صورت نظر نہ آتی تھی اس کے ساتھ وقت گزارنے سے اچھی کوی چیز نہ لگتی اور اس کے آنسو پونچھنے میں اسے لزت محسوس ہوتی اور اور اس کے گال گیلے ہوتے اور وہ اس کی محبت سے بھیگ جاتا اور صنمی کے آنسو پھسلتے ہوے اس کے ہونٹوں کے قریب آتے اور ہونٹ کی نمی کو محبتی اسی کا ڈوپٹہ اٹھا کر پونچھ دیتا اور ابھی خشک بھی نہ ہوتا اور دوسرا آنسو اسے پھر گیلا کر دیتے آخر اس کا کوئی منطقی انجام تو ہوتا لیکن جہاں منطق ہی نہ ہو وہاں منطقی انجام کا کیا سوال اور پھر سوال تو اپنی جگہ قائم تھا اور اس کا جواب شائد تقدیر کی طرف سے آنا تھا یا تقدیر کسی دعا کا انتظار کر رہی تھی مگر اُنسیت تھی کہ بڑھتی ہی جا رہی تھی اور محبت تھی کہ مسلسل پروان چڑھتی جا رہی تھی اور وہ نشہ کی صورت چڑھتی ہی جارہی تھی اور ارد گرد کے لوگوں کی دلچسپی بھی بڑھتی جا رہی تھی اور سرگوشیاں شروع ہو گئ تھیں اور ایسا کیوں ہوتا ہے کہ دو محبت کرنے والے کسی کا کچھ بگاڑ بھی نہ رہے ہوں اور انہیں اس زندگی میں سکون سا مل رہا ہو اور زہنی پریشانیوں سے کچھ نجات سی مل رہی ہو اور وہ اپنے اپنے کاموں اور زمہ داریوں سے پیچھے بھی نہ ہٹ رہے ہوں اور فرائض کی ادائگیوں میں کوتاہی بھی نہ ہو رہی ہو اور صرف ایک دوسرے کا خیال اور خدمت کر رہے ہوں تو لوگوں کو تشویش کیوں ہوتی ہے جب کہ اس سے پہلے ان کی تنہای اور ان کی کسی پریشانی میں مدد بھی نہ کریں بلکہ الٹا شائد خود ہی وہی لوگ پریشانی کا سبب بن رہے ہوں اور اب انہیں اس دوستی سے ذرا آرام مل رہا تھا تو سب لٹ لے کے پیچھے کیوں پڑ جاتے ہیں اگر وہ لوگ پہلے انہیں تنہا نہیں کرتے اور محبت دیتے تو شائد وہ اس گرداب میں نہ پھنستے اور ایکِ بند گلی میں جانے پر مجبور نہ ہوتے اور اس وقتی محبت میں پناہ نہ لیتے مگر اب تو جو ہونا تھا وہ ہو چکا تھا

انسان اپنا کام کرتا رہتا ہے اور قدرت اپنے کام خاموشی سے جاری رکھتی ہے اور وہ دن آگیا جب اسے اپنے گاوں جانا پڑ گیا اور واپسی کی امید دے کر وہ واپس نہ آی مگر جو آگ دونوں طرف لگ چکی تھی وہ بدستور سلگ رہی تھی اور انجام کا کچھ پتہ نہ تھا لیکن وقت بہت کچھ بدل دیتا ہے اور بدل رہا تھا اور آہستہ آہستہ رابطہ کمزور پڑتا گیا اور انہوں نے بھی عافیت اسی میں جانی اور تعلق نہ ٹوٹ کر بھی غیر معینہ مدت کے لیے معلق ہو گیا اور بظاہر وہ پھر سے آزاد ہو گئے اور اپنی اپنی زندگیوں میں مصروف ہو گئے
اب بھی دلکش ہے تیرا حسن مگر کیا کیجیے
اور بھی دُکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
مجھ سے پہلی سے محبت میرے محبوب نہ مانگ

(جاری ہے)
 

Noman Baqi Siddiqi
About the Author: Noman Baqi Siddiqi Read More Articles by Noman Baqi Siddiqi: 255 Articles with 290950 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.