ایک طوفان بدتمیزی ہے جو اس وقت دنیا میں پربا ہو چکا ہے
کیا کیا جائے کہ لوگ اس بات کو مانتے ہی نہیں ہیں کہ اسلام کوئی چیز ہے ہر
طرف دین کی بے حرمتی ہو رہی ہے مسجدوں کے اندر غلط کاریاں ہو رہی ہیں اور
مسجدیں اور قرآن پاک یرغمال بنائے جاچکے ہیں اور برمالا یہ کہا جاتا ہے کہ
ہم نے مسلمانوں کو ہر حال میں شکست سے دوچار کرنا ہے اس لِے ہم نے مسلمانوں
کے قرآن اور مسجدیں یرغما بنا رکھی ہیں یہ کام بڑے تسلسل کے ساتھ گذشتہ 50
سالوں سے ہو رہا ہے اللہ کا ڈر دل میں رکھنے والوں کو میں اس بات سے مطلع
کرنا چاہوں گا کہ اپنے ارد گرد ان بگڑے ہوئے حالات پر نظر دوڑائیں کہ کیسے
چھوٹے مسئلوں پر مسجدیں الگ الگ بنائی گئی ہیں جن کا انتظام وانصرام گلی
محلّوں کے بے دین اور غیر ذمّہ دار لوگ چلا رہے ہیں اور نمازیوں اور امام
مسجد کو بلیک میل کیا جاتا ہے کہ محلّہ میں رہنا ہے تو چپ چاپ ہماری پیروی
کرتے رہو ورنہ ہم یہاں سے نکال باہر کریں گے اور پراپرٹی بھی نہیں دیں گے
یہ سراسر غنڈہ گردی ہے کیونکہ کرپشن کی وجہ سے عدالتوں میں سنوائی نہیں
ہوتی ہے اس لِے شرلف لوگوں کو اپنی عزّت و آبرو کی حفاظت کرتے ہوئے سب کچھ
دیکھتے ہوئے بھی جانتے ہوئے بھی انجان بن کر رہنا پڑتا ہے کہ ہم اگر ان
غنڈوں بدمعاشوں کی بات نہیں مانیں گے تو ہم سے مال جان عزّت چھن جائے گا
اور برسوں کی محنت اور وراثت سے محروم ہونا پڑے گا ایسی صورت حال میں قرآن
پاک کی بے حرمتی کو کون روکے گا جبکہ عبادت کے لئے آنے والوں کو باہر نکال
کر تالا لگا دیا جاتا ہے اور جن لوگوں کے پاس چابیاں ہوتی ہیں وہ مسجدوں کے
اندر کوئی بھی غیر قانونی اور بے حرمتی والا کام آسانی سے کر سکتے ہیں -
ایسی صورت حال چند مہینوں یا چند سالوں میں پیدا نہیں ہوئی ہے بلکہ چار
پانچ دہائیاں ہو چکی ہیں کہ حالانکہ مسجدوں میں عورتوں کو جانے منع نہیں
کیا جانا چاہیے مسجدوں کی کے باہر سیکورٹی ہونی چاہیے کہ عورتیںبھی مسجدوں
میں جاکر عبادت کر سکیں اور اس بات کا رجحان بنانا چاہیے کہ سکولوں کی
بجائے ملک پاکستان کے لوگ سکولوں اور بازاروں کی بجائے مسجدوں کا رخ کریں
بڑی مسجدوں میں یہ انتظام ہونا چاہیے کہ لڑکیاں بھی مسجدوں میں عبادت کر
سکیں اس کام میں سکولوں نے کوئی وقت نہیں چھوڑا ہے اس لئے گورنمنٹ سکولوں
میں یہ انتطام ہونا چاہیے کہ ساری کلاسوں کو مسجد میں لے جاکر نماز سکھائیں
اور نماز کے وقت پر سکول کے بچّے مسجد میں چلے جائیں اور نما زادا کر کے
واپس آ جائیں یا اس طرح کا کوئی اور طریقہ کر کے لوگوں کو دین کی طرف لے کر
آئیں اس کام مین زبردستی کرنے کا حکم ہے جوحکمران لوگ زبر دستی نیکی کاکام
نہیں کراتے وہ حکمران نہیں ہیں بلکہ بے وقوف ہیں کیونکہ زبردستی وہ نہیں کر
سکتا جس کے پاس عہدہ نہیں ہے اختیار نہیں ہے اللہ کے حکم پر لوگوں کو
کاربند کرنے کے لئے سختی کا استعمال کرنا چاہیے اور جو بندہ نماز ادا نہیں
کرتا اس کو چوک میں لمبا ڈال کر اس کو پانچ سوٹے مارنے چاہئیں اس سلسلہ میں
پیش رفت کرنے والوں کو جن ان گنت مسائل کا سامنہ ہے وہ یہ ہیں-
1- کہ اللہ کے حکم کے مطابق عمل درآمد کرنے کے لئے شروعات کیسے کی جائیں -
2- اللہ کے حکم کے مطابق چند ایک بندوں کو چوک میں لٹا کر ڈنڈے مارنے سے
پولیس والوں کی نوکری چلی جائے گی -
3_ اللہ کی حد کو نافذ ہونے سے روکنے کے لئے سیکولر قوّتیں حد سے زیادہ ظلم
ڈھا رہی ہیں اور پاکستان کے لوگ اس بات سے ڈر چکے ہیں کہ ہم کسی پر ڈنڈے
برسائیں گے تو عراق اور افغانستان کی طرح ہمارا وجود بھی خطرے میں پڑ جائے
گا-
4- سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں میں اس شعور کو ختم کر دیا گیا ہے کہ
اللہ کے حکم کی حیثیت کیا ہے جبکہ سب لوگ اس بات پر متفقْ ہیں کہ زبردستی
نماز پڑھانا عقل مندی نہیں ہے اورڈنڈے برسانا آمریّت ہے جبر ہے ظلم ہے نا
انصافی ہے لوگ حکومت کو ختم کرنے پر تل جاتے ہیں کہ اللہ کا حکم تو یہ ہے
کہ اسلام میں کوئی زبردستی نہیں ہے-
5- آج کے پاکستانی کہتے ہیں کہ نماز پڑھنا سب کا اپنا اپنا ذاتی مسئلہ ہے
کہ کوئی نماز پڑھے نا پڑھے یہ ایک پرسنل معاملہ سمجھا جاتا ہے کسی کی ذاتی
زندگی میں مداخلت کرنا مناسب نہیں ہے-
6- آج کے لبرل لوگ برملا اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ اگر ہم پر ڈنڈے
برسائے گئے تو ہم پھر بھی نماز نہیں پڑھیں گے تو حکومت ہمارا کیا بگاڑ لے
گی ہم حکومت کا تختہ پلٹ دیں گے اور سب عوام سڑکوں پر نکل آئیں گے اور
دھرنے اور مظاہرے کریں گے حتّی کہ حکومت کے گھٹنے ٹیک دیں گے-
جواب
میں ان اہم مسائل کا جواب پوری محنت سے دینے کی کوشش کروں گا اللہ پاک مجھے
اور آپ کو عمل کرنے کی توفیق دے-
ایک دفعہ میری ایک افسر سے بات ہوئی اس نے کہا کہ ہندو ہم پر ہنستے ہیں اور
جو یہاں پر رہتے ہیں اور بظاہر اسلام کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں وہ کہتے ہیں
کہ پاکستان میں مسلمان بہت کم ہوتے جارہے ہیں حالانکہ سعودیہ میں تو
مسلمانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے ہر کوئی مسلمان نماز پڑھتا ہے جو نماز نہیں
پڑھتا اس کو انویسٹی گیشن سے گزرنا پڑتا ہے اور بڑی سختیاں کی جاتی یں اور
ہر حال میں نمازی بنایا جاتا ہے تو وہاں کے لوگ 95 فی صد نما زی ہیں اور
یہاں کے لوگ 5 فی صد نمازی ہیں اور باقی پچانوے فی صد بے نمازی بن چکے ہیں
تو ہم ان ہندووں کے طعنوں کا کیا جواب دیں کہ ہمارے گھر والے بھی اور بہن
بھائی بیوی بچّے بھی ان کے ساتھ ہیں کہ ہندووں کا جواب نہیں آیا آپ کو تو
کیا پاکستان کی پولیس اتنے جوگی بھی نہیں ہے ہندووں کے اس سوال کا جواب دے
سکیں تو ہم ہھر ان کے ساتھ ہیں کہ غیر مذہب کے ہوکر ان کو ہمارے مذہب کے
ملک سے مٹ جانے کا خیال ہے وہ اس بات کا بھی مطالبہ کر سکتے ہیں کہ اگر آپ
لوگ جس کام کے لئے ملک بنایا وہ کام نہیں کر رہے تو پھر ہمیں یہاں پر مندر
تعمیر کرنے دیں اور ہمارے ملک کے ساتھ پھر سے جڑ جائیں پھر اتنی کشیدگیاں
اور اتنا مسئلہ کشمیر کیا واویلا کیوں تو اس نے مجھے یہ باتیں کر کے پریشان
کر دیا میں نے کہا بھائی اس کا جواب انتہائی آسان ہے کہ جو بندہ نماز نا
پڑھے اس کوچوک میں لمبا لٹا کر پانچ دنڈے مارے جانے چاہیئں تو اس نے کہا کہ
یہ کام ہم کیسے کریں کہ جب کسی کو ڈنڈے ماریں گے تو وہ ہماری نوکری کا ویری
بنا جائے گا
اور بات اتنی بڑھ سکتی ہے کہ حکومت کا تختہ الٹ جائے پھر اس نے کہا جس کو
ماریں گے وہ کہے گا کہ سارے ملک میں تمھیں میں ہی نظر آیا ہوں کہ جس کو
ڈنڈے مارے جائیں باقی ساری دنیا نماز ہی نہیں پڑتی ان کو بھی پھر مارو مجھ
اکیلے کو مار کر باقی سب کو چھوڑ دیا یہ کہا کا انصاف ہے-
میں نے کہا کہ کسی کو تو شروعات کرنی ہی پڑے گی پہلے حکومت کو اعلان
کرناچاہیے کہ جو بندہ نماز ادا نہیں کرے گا اس کو یہ سزا ملے گی کہ چوک میں
لٹا کر پانچ سوٹے مارے جائیں گے اور ان کو چالان کا سامنا بھی کرنا پڑے گا
جو بندی نماز نہیں پڑھے گا اس کو تین دن تک تھانے میں گزارنے پڑیں گے اور
وہاں اس کو نماز کا پابند بنایا جائے گا اور اس سے وعدے بھی لئے جائیں گے
جو وعدہ نہیں کرے گا اس کو اس وقت تک رہا نہیں کیا جائے گا -
اس نے کہا یہ تو دشمنوں کو پتا چل گیا تو چند دنوں میں حکومت کا خاتمہ کرا
دیں گے اور دوسری بات یہ کہ تھانے میں تو جو مسجد ہے اس میں دس بارہ بندوں
سے زیادہ جگہ ہی نہیں ہے تو میں نے کہا شہر میں بڑی مسجدیں بنائی جانی
چاہئیں اور ان میں بے نمازیوں کو باندھنا چاہیے اگر یہ سب نہیں کریں گے تو
ہندوستان کا قبضہ ہونے سے نہیں روکا جاسکتا پھر تو ملک گیا کام سے بھائی
حکومت تمھاری پروٹوکول تمھارے اور تم ہمیں ذمّہ دار قرار دے رہے ہو اور ذمہ
داری پورے ملک کی اور تنخواہ ایک ٹکا بھی نہیں اس نے جواب دیا کہ بھائی اس
ملک کا یہی وطیرہ ہے کہ ایسے ہی تو بنگلہ دیش کو ہم سے ہندووں نے چھین لیا
اور تیری طرح کے ایک شریف آدمی کو جنرل ٹکا قرار دے دیا اور بے عزّتی اس کی
مفت میں کرتے رہے اور سیاست اپنی چمکاتے رہے-
بحر حال اگر اللہ کے حکم کے مطابق یہ حکم نا جاری کیا گیا کہ جو آدمی نماز
نہیں پڑھے گا اس کو ڈنڈے ماریں جائیں گے اور پھر روز کے دو چار کو مارتے
رہیں تو پھر لوگ نمازی بن جائیں گے اور قید اور جرمانے کرتے رہیں ورنہ پھر
ہندوستان نے یہ کہہ رکھا ہے کہ ہم نے بنگلہ دیش میں لاکھ مسلمان فوجیوں کو
قیدی بنایا تھا اور اب پاکستان میں 10 لاکھ کو بنانے سے ہمیں کوئی نہیں روک
سکتا تو پھر وہ اپنے ہندووں کو نوکریں دیں گے مسلمانوں کو توپحر چن چن کر
ماریں گے یا در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کر دیں
گے------------------------------- جاری ہے |