بے قراری سی بے قراری ہے (قسط نمبر ١٦)

بے قراری سی بے قراری ایک سماجی رومانوی و روحانی ناول ہے جس کی کہانی بنیادی طور پر دو کرداروں کے ارد گرد گھومتی ہے۔ عبیر جو ایک فیشن ڈیزائنر ہے اور اسلامی فیشن میں کچھ نیا کرنا چاہتی ہے۔ تیمور درانی جو ایک ملحد ہے جس کے خیال میں محبت اور زندگی بے معنی ہے۔

یونیورسٹی کے چاروں سال عنبر لوگوں کے دلوں سے کھیلتی رہی۔ وہ لوگوں کو اپنے حسن سے ایسا گھائل کرتی کہ بیچارے اس کے بے دام غلام بن جاتے۔ وہ ان کے ارمانوں پر نمک چھڑکتی اور وہ تڑپتے رہتے۔ کئی لوگ تو نفسیاتی مریض بن گئے۔ مگر اس کے دل پر کبھی رحم نہ آیا۔ اس کے نزدیک یہ پیار محبت صرف ڈرامہ ہے۔ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اس کے سامنے اس کی ماں کی مثال موجود تھی جس نے یونیورسٹی میں اپنے کلاس فیلو سے سے ٹوٹ کر پیار کیا۔ ان کا پیار چار سال چلتا رہا۔ وہ لڑکا ایک لوئر مڈل کلاس گھرانے سے تعلق رکھتا تھا، ٹیویشنز پڑھا کر اپنی فیس پوری کرتا۔ شکل و صورت اور باتیں بنانے میں اچھا تھا۔ کچھ مہینوں میں عشق کی آگ دونوں طرف لگ گئی۔ اس کی ماں نے اس لڑ کے پر پیسے لٹانا شروع کیے، حد یہ کہ لڑکے کی اکیسویں سالگرہ پر اسے اکیس گفٹ دیے۔
جب شادی کی باری آئی تو دونوں گھر والے صاف مکر گئے۔ دونوں نے بھاگ کر شادی کر لی۔ ایک ہی سال میں عشق بھاپ کی طرح اڑ گیا اور زندگی کی حقیقتیں منہ پھاڑے سامنے آ گئیں۔
ہم جتنا لوگوں کو جان جاتے ہیں ان کی کشش ختم ہوتی جاتی ہے۔
ہم نے جانا تو ہم نے یہ جانا
جو نہیں ہے وہ خوبصورت ہے
اس کی ماں اس عشق کو اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی قرار دیتی۔ وہ کہتی، اس بدنامی کا داغ آج تک میری اور میرے خاندان کی زندگی سے نہیں نکل سکا۔ میرے والدین میری شادی ایک بہت بڑے بزنس ٹائیکون کے بیٹے سے کروا نا چاہتے تھے۔ میں نے خود اپنے پیروں پر کلہاڑی ماری۔ آج وہ بزنس ٹائیکون منسٹر ہے، سارا شہر اس کی بیوی کی عزت کرتا ہے۔ میں جتنا بھی پیسہ خرچ کر لوں، وہ عزت اور مرتبہ نہیں مل سکتا۔
اسی لیے میری بیٹی تمھارے لیے میں کوئی بہت ہی اچھے خاندان کا لڑکا ڈھونڈوں گی۔ تم اپنی دل لگی کے لیے جہاں مرضی محبت کرو۔ شادی تم نے میری مرضی سے کرنی ہے۔ یہ مردوں کی میٹھی میٹھی باتیں صرف وقتی دھوکہ ہوتی ہیں۔ ہمیشہ ان کی میٹھی باتوں کے پیچھے ان کی اصل حیثیت دیکھا کرو۔
بچپن سے ہی ماں کی یہ باتیں سن سن کر اس کے ذہن میں محبت اور مردوں کے خلاف عجیب سی نفرت پیدا ہو گئی۔ وہ محبت کا ڈرامہ کر کے ان کو تڑپاتی، انھیں ترساتی۔ پر اپنا دل کسی کو نہ دیتی۔ اسے کبھی ایسا کوئی ملا ہی نہیں جس کو دیکھ کر اس کے دل کے تار ہل گئے ہوں۔ حالانکہ اس کے اردو گرد سب لوگ بہت ہی اچھے گھرانوں کے تھے۔ جن کے ساتھ شادی کرنے پر اس کی ماں باپ کو کوئی اعتراض نہ ہوتا۔
بچپن کے پانچ سال اس نے باپ کی شفقت کے بغیر ہی گزارے، وہ اپنی سہیلیوں کے باپوں کو دیکھ کر اپنی ماں سے باپ کے بارے میں سوال کرتی۔ اس کی ماں یہ کہہ کر اسے خاموش کروا دیتی کہ اس کا باپ مرچکا ہے۔ اگرچہ اس کا باپ کئی بار بیٹی کو ملنے آیا لیکن اس کی ماں نے ملنے نہ دیا۔ علیحدگی سے پہلے حالات اس نہج پر پہنچ گئے تھے کہ اس کی ماں نے اپنے شوہر پر تشدد کے ذریعے بیوی اور ہونے والی بچی کو قتل کرنے کا الزام لگایا۔ اس کے پاس جان بچانے کی صرف ایک ہی شرط رکھی گئی کہ طلاق دے دے۔ عنبر جب بڑی ہوئی تو اسے گھر کے ملازمین سے اپنے باپ کا پتا چلا۔ اس وقت تو اس نے کچھ نہ کیا لیکن یونیورسٹی کے دوران وہ ایک بار وہ اپنے باپ سے ملنے گئی۔
اس کا باپ کافی عرصہ بے روزگار رہنے کے بعد کسی سرکاری محکمے میں کلرک بھرتی ہو گیا تھا۔ ا س نے اپنے خاندان کی ایک بیوہ لڑکی سے شادی کر لی۔ جس سے چار لڑکے اور دو لڑکیاں پیدا ہوئیں۔ عنبر اپنے اندر کی خواہش کو نہ سمجھ سکی کہ وہ اپنے باپ سے کیوں ملنا چاہتی ہے۔
" ہماری اکثر خواہشیں ایسی ہی ہوتی ہیں جن کی کوئی وجہ نہیں ہوتی"
وہ اپنی گاڑی میں اس پرانے علاقے میں پہنچی تو اسے ہر طرف بوسیدگی اور شکست و ریخت نظر آئی۔ ہر چیز پرانی اور ٹوٹی پھوٹی تھی۔ وہ پوچھتی پچھاتی ایک پرانے سے مکان میں پہنچی۔ اندر چھوٹے سے مکان کی سیلن زدہ آب و ہوا نے اس کا استقبال کیا۔ اسے دیکھنے کے لیے پورا گھر امنڈ آیا۔ سب کی نظروں میں احساس کمتری تھی۔ اپنے باپ کو دیکھ کر تو وہ حیران رہ گئی۔ اس کی عمر پینتالیس کے لگ بھگ ہو گی، دیکھنے میں وہ ساٹھ سے زیادہ لگتا۔ کمزور سی صحت، سستی سی شلوار قمیض، سر پر ٹوپی اور پیروں میں پلاسٹک کی چپل۔ اس کے کپڑوں سے پسینے کی بو آ رہی تھی۔ وہ حیران ہوئی کہ اس شخص میں ایسی کیا بات تھی جس کی وجہ سے اس کی ماں اس کے عشق میں پاگل ہو گئی تھی۔
جب اس نے اپنا تعارف کروا یا تو اس کے باپ کے چہرے پر ہلکی سی خوشی نظر آئی پھر وہ بھی غائب ہو گئی۔ جیسے چھ بچوں کے بعد اسے ایک اور لڑکی کا وجود بوجھ محسوس ہوا ہو۔ اس نے دوتین گھنٹے وہاں گزارے اور اس کمرے کو بھی دیکھا جہاں اس کی پیدائش ہوئی تھی۔ اس کے باپ کی بیوی کی آنکھوں میں تھوڑی سی جلن تھی۔ شاید وہ سوچنے لگی کہ اپنے بچوں کو چھوڑ کر اس کا شوہر کہیں اپنی پہلی بیٹی کے پاس ہی نہ چلا جائے۔
عنبر اس گھر میں نہ جانے کیا ڈھونڈنے گئی تھی؟اسے وہ چیز وہاں نہیں ملی۔ اس کی ماں کا فیصلہ ٹھیک تھا۔ ورنہ وہ بھی اسی گھر میں پڑی سسک رہی ہوتی۔ وہ دوبارہ کبھی اس گھر میں نہیں گئی۔ اس کے باپ نے تین چار بار کال کر کے حال احوال پوچھنے کی کوشش کی۔ پر اس نے فون نہ اٹھایا۔
یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد عنبر کچھ مہینے گھر میں رہ کر بور ہو گئی۔ اس کی ساری فرینڈز اپنی اپنی لائف میں بزی ہو گئیں۔ تبھی اس نے سوچا، اسے بھی ٹائم پاس کے لیے جاب کرنی چاہیے۔
اس نے اس بات کا ذکر اپنی مما سے کیا۔ انھوں نے اسے ایک ابھرتی ہوئی ڈیری پروڈکٹس کی کمپنی میں پی آر آفیسر لگوادیا گیا۔ اسے یہ جاب دینے کی وجہ یہی تھی، کہ وہ اپنے فیملی لنکس استعمال کرتے ہوئے کمپنی کے لیے نئے کلائنٹس لائے۔ شروع میں تو سارا دن آفس کی پابندی کا سوچ کر ہی اس کا دم گھٹنے لگا۔ جلد اسے معلوم ہوا، اس پر آفس میں آنے کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ اس کا تو کام ہی پارٹیاں اٹینڈ کرنا، گالف کھیلنا، اور گھومنا پھرنا ہے۔ اسے یہ کام مزے کا لگا۔ نئے نئے لوگوں سے ملو اورصرف لنکس بناؤ۔
یہیں وہ کمپنی کے سی ای او بابر ہمدانی سے قریب ہو گئی۔
بابر ہمدانی نے لندن سکول آف اکنومکس سے ایم بی اے کیا۔ دو تین سال ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں تجربہ لینے کے بعد پاکستان میں اپنی کمپنی کھول لی۔ پانچ سالوں میں اس کی کمپنی کافی کامیاب ہو گئی۔ بابر ہمدانی کا خواب ڈیری پراڈکٹس میں لیڈنگ کمپنی بننا ہے۔ اس کی عمر ابھی تیس کے قریب بھی نہیں ہوئی اور اس کی خود کی کمپنی کی ویلیو اربوں میں چلی گئی۔ اس کی خوبصورتی اور ہینڈسمنس دیکھ کر لوگ کچھ دیر کے لیے رک جاتے۔ اس کی آواز میں ہمیشہ ایک تازگی اور زندگی کا احساس ہوتا۔
وہ ہر وقت فنی بات کر کے کسی کو بور نہ ہونے دیتا۔ عنبر اسے دیکھ کر حیران ہوئی۔ اس جیسے لا پرواہ نظر آنے والے بندے نے اتنی کامیاب کمپنی کیسے کھڑی کر لی۔
بابر ہمدانی صرف دیکھنے میں ہی لاپرواہ تھا۔ اس کا ذہن ہر وقت بزنس کے بارے میں ہی سوچ رہا ہوتا۔ اس کا یہ بہروپ اپنے اوپر سے توجہ ہٹانے کے لیے تھا۔ عنبر جتنا اس کے ساتھ میٹنگز میں جاتی گئی اس پر بابر کی شخصیت کھلتی گئی۔ بابر وہ واحد شخص تھا جس نے ایک لمحے کے لیے بھی اسے اہمیت نہ دی۔ اس کا رویہ انتہائی پروفیشنل ہوتا۔ اس نے کبھی کسی امپلائی میں ڈسکریمینیٹ نہیں کیا۔ خصوصاً اس نے کبھی لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیاں فرق نہیں رکھا۔ انھوں نے اکٹھے کئی میٹنگز میں کھانا کھایا لیکن بابر ہمدانی اسے ہمیشہ ایک ایمپلائی کی حیثیت ہی دیتا۔ شاید یہ ایتھکس اس نے باہر رہ کر سیکھے تھے۔
عنبر کو اس بے پرواہی سے چڑ ہونے لگی۔ وہ باقی لوگوں کی طرح ضرورت مند نہیں۔ ایک بہت اچھے گھرانے سے ہے۔ اسی لیے بابر ہمدانی کو اس کے ساتھ مختلف رویہ رکھنا چاہیے۔ باقی لوگوں کو تو وہ یہ بات جتاتی رہتی جو اس سے دبے دبے رہتے۔ خود بابر ہمدانی کے سامنے وہ کچھ نہ کہہ پاتی۔ اس کی شخصیت میں ایک کرشمہ تھا جو لوگوں کو متاثر کرتا۔ یہ جادو عنبر پر بھی چل گیا۔
آج تک باقی لوگوں نے ہی عنبر کا دل جیتنے کی کوشش کی۔ اسے خود کبھی ایسا کرنا ہی نہ پڑا۔ ہر لڑکے کا دل خود اس کے قدموں میں آ جاتا، جسے کچل کر وہ پھینک دیتی۔ پہلی بار اسے کسی بے پرواہ سے پالا پڑا تواحساس ہوا، اس کے عاشقوں پر کیا بیتتی رہی۔
وہ ہر روز گھنٹوں تیار ہونے کے بعد آفس جاتی، پر مجال ہے سوائے لاپرواہی کے کچھ نصیب ہوتا۔ اسے شدید غصہ آتا، ساتھ ساتھ بے بسی محسوس ہوتی۔ اس نے اپنے سارے لنکس استعمال کر کے بہت سے کام کے کلائنٹس ڈھونڈے، مگر سوائے پروفیشنل شاباش کے کچھ نہ ملا۔
اگر ذرا سا بھی اشارہ ملتا تو وہ خود بات کو آگے بڑھاتی۔ ہر روز غصے میں آفس سے واپس آتی۔ جو سامنے آتا اس کی بے عزتی کرنا شروع کر دیتی۔ ایک بار میرے پوچھنے پر اس نے میر امنہ ہی نوچ لیا۔
اس کو شک ہوا، شاید بابر ہمدانی کی کوئی گرل فرینڈ ہو۔ مگر کتنے مہینوں سے وہ دیکھ رہی تھی کہ بابر ہمدانی صبح سے لے کر آدھی رات تک کمپنی کے کاموں میں ہی مصروف رہتا ہے۔ کبھی کبھی تو آفس میں ہی سوجاتا۔ اس نے کبھی کسی گرل فرینڈ کو دفتر آتے یا اس کا فون آتے نہیں دیکھا۔ فیمیل ایمپلائیز اور کلائنٹس سے بھی اس نے کبھی فلرٹ کرنے کی کوشش نہیں کی۔
کہیں یہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو نہیں۔
نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔
لیکن وہ باہر رہا ہے، وہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
اس مفروضے کا بھی کوئی ثبوت نہ ملا۔
دن بدن اس کی بیچینی بڑھتی گئی۔ اس کے سب شوق چھٹ گئے۔ بس بابر ہمدانی کی توجہ حاصل کرنا اس کا مقصد بن گیا۔ کہاں لوگوں کو دبانے والی اب خود دبی دبی رہتی۔ بابر ہمدانی کی ایک ایک بے پرواہی اس کے دل پر کوڑے چلاتی اور وہ درد سے تڑپ اٹھتی۔
اللہ !کوئی اتنا بھی ظالم نہ ہو۔
ایک دن تو حد ہی ہو گئی۔ عنبر کی برتھ ڈے ہمیشہ سے ایک اہم ایونٹ ہوتا جس میں گرینڈ پارٹی ہوتی اور ساری فرینڈز آتیں۔ اس نے بابر ہمدانی کو بھی بلایا، اس نے سنی ان سنی کر دی۔ برتھ ڈے پر وہ توقع کرتی رہی کہ بابر ہمدانی پارٹی میں شامل ہو گا، اور اسے کوئی سرپرائز گفٹ دے گا۔ حیرت انگیز طور پر کچھ نہ بھولنے والا شخص اس کی برتھ ڈے بھول گیا۔ وہ پارٹی میں بھی نہیں آیا۔ وہ آخری دم تک یہی سمجھتی رہی، شاید بابر ہمدانی اسے سرپرائز کرنے کے لیے ایسا کر رہا ہے۔
اس رات کئی سالوں بعد وہ پھوٹ پھوٹ کر روئی۔ اس نے اپنے سارے گفٹ ضائع کر دیے۔ برتھ ڈے کی ساری چیزیں اس کا مذاق اڑانے لگیں۔ ایک شدید غم اس کے دل پر چھا گیا۔
آخر وہ میری طرف توجہ کیوں نہیں کرتا۔
مجھ میں کیا کمی ہے؟
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کچھ دن وہ بنا بتائے چھٹی کر کے بیٹھ گئی۔ پھر بھی اس سنگ دل نے خود فون تک نہ کیا، بلکہ ایچ آر سے خیریت پوچھنے کا فون کروا یا۔
اس کا دل چاہا کہ نوکری چھوڑ کر گھر بیٹھ جائے۔ لیکن یہ بھی اس کے اختیار میں نہ رہا۔ بابر ہمدانی کو بغیر دیکھے اس کے دل کو بھی چین نہ پڑتا۔ مجبوراً وہ آفس چلی گئی۔ اگلے کچھ دن اس نے اپنی طرف سے روکھا روکھا رویہ رکھا، کوئی فرق نہ پڑا۔
بابر ہمدانی کا رویہ بالکل نارمل رہا۔
ایک شام کلائنٹ نے میٹنگ کینسل کر دی تو وہ اکیلے ہی گالف کلب میں بیٹھے رہے۔ بابر ہمدانی میٹنگ کینسل ہونے کے باوجود ریلیکس موڈ میں تھا۔ اس نے عنبر سے پرسنل باتیں پوچھنا شروع کر دیں جو اس نے پہلے کبھی نہیں پوچھیں۔ جیسے وہ وکیشنز کے لیے کہاں جاتی ہے؟ اسے کون سی موویزاچھی لگتی ہیں۔ پہلے پہلے تو اس نے سوچا کہ ایک کورا سا جواب دے دے۔
آج پہلی بار اس نے مجھ میں دلچسپی دکھائی ہے کیسے منع کر دوں۔ وہ بڑی دلچسپی سے اسے اپنے بارے میں بتانے لگی۔ ساتھ ساتھ اس کے بارے میں بھی پوچھ لیتی۔ اس کے اندر کی ساری اداسی ختم ہو گئی، وہ بے وجہ ہنسنے لگی۔ بابر ہمدانی کی توجہ نے اس کے اندر ایک خوشی کا طوفان اٹھادیا۔
اسے حیرت ہوئی ہم دونوں کی لائکنگ ڈسلائکنگ کتنی ملتی ہیں۔ شام ختم ہونے تک عنبر خود کو ایک لوہا سمجھنے لگی جو مقناطیس کی طرف کھنچ رہا ہے۔
اس دن کے بعد عنبر کی فیلنگز بہت بڑھ گئیں۔ جیسے ہی بابر ہمدانی سامنے آتا اس کا دل تیزی سے دھڑکنے لگتا۔ وہ جتنا قریب آتا اس کے اندر کے تار اتنی تیری سے ہلتے۔ وہ بہانے بہانے سے اس کے قریب رہنے کی کوشش کرتی۔
بابر ہمدانی کے رویے میں کوئی تبدیلی نہ آئی۔ یوں لگتا کہ جیسے وہ شام ایک خواب تھی۔ یہ شخص آخر دلچسپی دکھانے کے بعد پیچھے کیوں ہٹ گیا ہے۔ وہ جان بوجھ کر اس کے ساتھ پرسنل باتیں چھیڑ دیتی مگر وہ دلچسپی نہ دکھاتا۔ وہ جتنا روکھا ہوتا اتنا اسے اچھا لگتا۔ وہ اگر ذرا سا اشارہ بھی کرتا تو وہ اس کے قدموں میں بچھ جاتی۔
کئی مہینے جب ایسے ہی گزرے تو ایک شام اس نے بہت ہمت کر کے اس کے سامنے اپنی محبت کا اقرار کر لیا۔ یہ اقرار کرتے ہی اس کی آنکھیں شرم سے جھک گئیں۔ اس کے جسم میں چیونٹیاں رینگنے لگیں۔
دوسری طرف کافی دیر تک گہری خاموشی رہی۔ اس نے تھوڑی دیر بعد گھبرا کر آنکھیں اوپر کیں۔ تو بابر ہمدانی کی آنکھوں میں محبت کی کوئی رمق نظر نہ آئی۔
عنبر مجھے افسوس ہے میں تمھاری محبت قبول نہیں کر سکتا۔
لیکن کیوں؟
میں اس کی وجہ نہیں بتا سکتا۔
کیا کسی اور سے محبت کرتے ہو، عنبر نے مایوسانہ لہجے میں کیا
نہیں۔ اس نے یقین سے کہا۔
تو میری محبت قبول کرنے میں کیا حرج ہے
بات ایسی نہیں ہے۔ تم اس کمپنی کی ایمپلائی ہو اور ایک ایمپلائی کے ساتھ ایسا تعلق رکھنا پروفیشنل ایتھکس کے خلاف ہے۔
مجھے اس جاب کی کوئی پروا نہیں ہے۔ میں ابھی تمھارے لیے یہ نوکری چھوڑنے کو تیار ہوں۔
میں صرف تمھارے لیے دفتر آتی ہوں۔
عنبر۔۔ عنبر، پلیز ٹرائے تو اینڈرسٹینڈ یہ نہیں ہو سکتا۔
کیوں نہیں ہو سکتا۔
تمھیں کس چیز نے روکا ہے؟
کیا تم اپنی پہلی محبت میں دل ٹوٹنے کی وجہ سے ایسا کر رہے ہو؟
میں اس بارے میں بات نہیں کر سکتا۔
تم پلیز آئندہ اس ٹاپک کو مت چھیڑنا۔
عنبر تڑپ کر رہ گئی۔
کیوں نہ چھیڑوں میں اس ٹاپک کو؟
پچھلے کئی مہینوں سے میرے دل و دماغ میں صرف تمھارا خیال ہے۔
میں اس دفتر کا ہر کام صرف تمھاری خوشی کے لیے کرتی ہوں۔
میں۔۔ میں زندہ ہوں تو صرف تمھاری وجہ سے ہوں۔
اور تم کہہ رہے ہو کہ میں اس ٹاپک پر بات نہ کروں؟ عنبر نے غصے اور بے بسی سے پوچھا۔
عنبر تم بہت اچھی لڑکی ہو۔۔ لیکن میں تم سے محبت نہیں کرتا
میں۔ ۔ میں تمھاری خاطر ہر حد تک جانے کو تیار ہوں۔ یہ الفاظ کہتے اسے بہت شرم آئی۔
عنبر ! تم پر اس وقت عشق کا بھوت سوار ہے۔ کچھ دن چھٹی لے کر گھر بیٹھو۔ تمھیں احساس ہو جائے گا کہ تم غلطی پر ہو۔
نہیں ! مجھے کسی بات کی پروا نہیں ہے۔ مجھے صرف اور صرف تم چاہیے ہو۔
میں تمھیں اپنا جواب بتاچکا ہوں۔
ایسا نہیں ہو سکتا۔ یہ کہہ کر وہ آفس سے باہر چل پڑا۔
اگلا پورا مہینہ بابر ہمدانی ملک سے باہر رہا۔
عنبر بنا پانی کی مچھلی کی طرح تڑپتی رہی۔ اس کا کھانا پینا بند ہو گیا۔ کسی کام میں دل نہ لگتا۔ چچی نے کئی بار پوچھا، مگر اس نے ٹال دیا۔ اسے کچھ سمجھ نہ آتا کہ کیا کرے۔ وہ کیسے بابر ہمدانی کی ہمدانی کی محبت حاصل کرے۔ ایک مہینہ جیسے کئی صدیوں کے برابر ہو گیا۔
پہلے اس کا دیدار تو نصیب ہوتا تھا اب وہ بھی چھن گیا۔
اس سے کہیو کہ دل کی گلیوں میں
رات دن تیری انتظاری ہے
ایک مہینہ پتا نہیں کیسے کٹا۔ جس دن بابر ہمدانی نے آنا تھا وہ گھنٹوں پہلے ائیر پورٹ پہنچ گئی۔ اسے دیکھتے ہی اس کا دل چاہا کہ اس سے لپٹ کر رونا شروع کر دے۔ وہاں بابر ہمدانی کے ساتھ کچھ جاننے والے بھی موجود تھے اسی لیے اس نے اپنے جذبات کو بڑی مشکل سے روکا۔ صرف ہینڈ شیک کرنے پر اکتفا کیا۔ لیکن جیسے ہاتھ ٹکرائے اس کے جسم میں کرنٹ سا لگا۔ اس کے لمس کے احساس کو وہ کافی دیر تک محسوس کرتی رہی۔
دفتر کی زندگی معمول پر آ گئی۔۔ ایک دن پھر اس نے جان بوجھ کر محبت کا ذکر چھیڑ دیا۔
عنبر ہمارے درمیاں طے پایا تھا کہ ہم اس بات کا ذکر نہیں کریں گے۔ اس نے تھوڑے غصے سے کہا
کیسے چھوڑ دوں اس بات کو؟ عنبر نے تڑپ کر کہا۔
بابر ہمدانی نے بحث سے جان چھڑانے کے لیے اٹھنا چاہا تو پتا نہیں کیا سوچ کر وہ اس کے پیروں میں گر گئی۔
اس کے اندر کوئی چیز ٹوٹ گئی۔
بابر پلیز سمجھنے کے کوشش کرو۔۔ تمھاری محبت کے بغیر میں زندہ نہیں رہ پاؤں گی۔ اس کی آنکھوں سے بے بسی کے آنسو نکل پڑے۔
عنبر! اٹھو کیا کر رہی ہو۔ لوگ دیکھیں گے تو کیا کہیں گے۔
مجھے تمھارے علاوہ کسی کی پرواہ نہیں ہے۔
مجھے ہر قیمت پر صرف تمھاری محبت چاہیے۔
یہ ممکن نہیں ہے۔
وہ بڑی مشکل سے پیر چھڑا کر چل پڑا۔
اس دن کے بعد عنبر نے بابر ہمدانی کی زندگی اجیرن بنا دی۔ یوں لگتا وہ اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھی ہے۔ آفس میں بھی لوگوں کو پتا چل گیا۔ سب لوگ باتیں بنانے لگے۔ مجبور ابابر ہمدانی نے ناصرف اسے نوکری سے نکالابلکہ اس کا دفتر آنا بھی بند کروا دیا۔
عنبر پھر بھی باز نہ آئی۔ وہ سار دن دفتر کے باہر بیٹھی رہتی اور زبردستی بھی اندر گھس جاتی۔ ایک عجیب تماشا لگ گیا۔ عنبر کو جیسے بابر کو حاصل کرنے کے علاوہ کسی چیز کی پرواہ نہ رہی۔ اس نے ایک دو بار بابر ہمدانی کو خود کشی کرنے کی دھمکی دے کر منانے کی بھی کوشش کی مگر کوئی کامیابی نہ ہوئی۔
ایک دن عنبر زبردستی آفس میں گھس گئی اور خوب ہنگامہ کیا۔ بابر ہمدانی کو کلائنٹس کے سامنے بہت شرمندگی اٹھانی پڑی۔ اس نے غصے میں عنبر کو تھپڑ مارا اور دھکے دے کر آفس سے نکال دیا۔
اس شام میں نے عنبر کو بہت ہی اداس دیکھا۔ وہ میرے کمرے میں آئی اور میری ڈائری مجھے واپس کر دی۔ میں نے اسے بیٹھنے کے لیے کہا تو وہ خالی ذہن کے ساتھ میرے بستر ہر بیٹھ گئی۔ اب وہ پہچانی ہی نہ جاتی۔ آنکھوں میں حلقے۔ بغیر میک ایک روکھا سا چہرہ۔ اجڑے بال اور ڈھانچہ جسم۔
مجھے اس کی حالت دیکھ کر رونا آ گیا۔ مجھے روتا دیکھ کر وہ مجھ سے لپٹ گئی اور خود بھی رونا شروع کر دیا۔ وہ خود کلامی کے انداز سے پتا نہیں کیا کیا بولتی رہی۔
میں سمجھ گئی ہوں تیمور، تم کیا محسوس کرتے ہو۔
مجھے ایک پل چین نہیں آتا۔ ایک آگ ہے جو میرے سینے میں لگی رہتی ہے۔
وہ کٹھوڑ کسی صورت نہیں مانتا۔ ۔
پتا نہیں اسے ایسا کیا چاہیے، جو مجھ میں نہیں ہے۔
آج اس نے مجھے سب لوگوں کے سامنے تھپڑ بھی مارا۔
تھپڑ کی خیر ہے۔ وہ اپنا حق جتانے کے لیے میری جان بھی لے لے۔ اس نے مجھے نفرت کے قابل بھی نہیں سمجھا۔ اس کی آنکھوں میں صرف بیزاری تھی۔ ایسے جیسے میں کوئی گندی مکھی ہوں جو اسے تنگ کر رہی ہوں۔ یہ میری برداشت سے باہر ہے۔ اس نے آج اپنی آنکھوں سے اپنا آخری فیصلہ سنا دیا ہے۔ یہ کہہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
میں اپنی طرف سے اسے تسلی دیتا رہا۔ اس کا یوں لپٹنا مجھے بہت اچھا لگا اور میں دعا کرنے لگا۔ کاش! وقت تھم جائے۔ پتا نہیں کتنی دیر بعد وہ اٹھی اور میرے چہرے کی جانب دیکھنے لگی۔
تیمور۔۔
یوں مجھے کب تک سہو گے تم
یوں کب تک مبتلا رہو گے تم
درد مندی کی مت سزا پاؤ
اب تو تم تم مجھ سے تنگ آ جاؤ
میں کوئی مرکز حیات نہیں
وجہے تخلیق کائنات نہیں
عنبرغم کے ہجوم سے نکلے
اور جنازہ بھی دھوم سے نکلے
جنازے میں ہو یہ شور حزیں
آج وہ مر گئی جو تھی ہی نہیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اسی رات عنبر نے بلیڈ سے اپنی نسیں کاٹ لیں۔ اگلے دن دوپہر کو ہم سب گھر والوں کو اس کی موت کا علم ہوا۔ اس کا چہرہ سفید پڑ چکا تھا۔ مجھے اس کی آنکھوں میں ایک خالی پن نظر آیا، جس نے میرے سینے کے خالی پن کو اور بڑھا دیا۔ میرے سینے میں شدید درد اٹھا اور میں اپنے کمرے میں آ کر نہ جانے کتنی دیر روتا رہا۔
انسانی زندگی بھی عجیب ہے ہم کبھی ظالم ہوتے ہیں تو کبھی مظلوم۔
عنبر کی زندگی کا کیا مقصد تھا، وہ کیوں مری؟ کیا اس کا جینا اور مرنا کسی مقصد سے تھا؟ میری ماں کیوں پاگل ہوئی، میرا باپ کیوں آئیڈیلیسٹ تھا۔ یہ سب سوال پھر پوری شدت سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ میں کیوں زندہ ہوں؟
عنبر نے اپنے نوٹ میں لکھا۔۔
" ممی! آپ ٹھیک کہتی تھیں یہ عشق ہر حال میں انسان کو برباد کرتا ہے۔ اگر محبوب مل جائے، تو عشق بھاپ کی طرح اڑ جاتا ہے۔ محبوب نہ ملے تو کسی پل چین نہیں آتا۔ محبوب کے بنا جینا فضول لگتا ہے "۔
چچی یہ نوٹ پڑھ کر غم سے نڈھال ہو گئیں۔ وہ عنبر کی چیزوں کو دیکھ دیکھ کر روتی رہتیں۔ ان کی جوان بیٹی نے عشق میں ناکامی پر اپنی جان ہی لے لی۔ چچی کی ساری نصیحتیں بے اثر رہیں۔ ان کی بیٹی خود کو جان لیوا عشق سے نہ روک سکی۔ یہ عشق چیز ہی ایسی ہے۔
عنبر کا اصل باپ بھی جنازے پر آیا اور خاموشی سے آنسو بہاتا رہا۔
عنبر کی فوتگی کے بعد چچی کی مجھ سے نفرت اور بڑھ گئی۔ میرا اس گھر میں رہنا محال ہو گیا۔ وہ کچھ وہمی سی ہو گئیں۔ میری نحوست کو عنبر کی موت کا ذمہ دار قرار دیتیں۔ ان کے مطابق میری نحوست کی وجہ سے میرے ماں باپ کا گھر نہ بسا، ان دونوں کی موت وقت سے پہلے ہو گئی۔۔
اگر میں مزید اس گھر میں رہا تو نہ جانے کیا ہو گا۔ ہر روز وہ گھر میں لڑائی ڈال کر بیٹھ جاتیں۔ چچا کو اتنی ٹینشن دیتیں کہ وہ کئی کئی دن گھر نہ آتے۔ آخر کار چچی جیت گئیں۔ میں چھت سے بھی محروم ہو گیا۔
یہ جو ہر موڑ پر آملتی ہے مجھ سے فرحت
بد نصیبی بھی کہیں میری دیوانی تو نہیں

 

گوہر شہوار
About the Author: گوہر شہوار Read More Articles by گوہر شہوار: 23 Articles with 32799 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.