آج پھر ماہا کو اپنا میاں،بچے، گھر سب زہر لگ رہے تھے.
غصہ سے پھنکتے ہوئے اس نے سوچا "میری زندگی یہی چولہا چوکی کرتے گزر جائے
گی. اس آدمی میں ترقی کرنے کا کوئی جذبہ نہیں ہے. اوپر سے یہ بچوں کی لائن
لگا دی ہے. "
وھ من ہی من میں کلس رہی تھی.
وھ تو تین بچے پیدا کرنے کے حق میں ہی نہیں تھی. مگر اس کے میاں نے اسقاط
حمل کروانے سے اسے سختی سے منع کردیا تھا.
اس کو اللہ نے شکل صورت تو درمیانی ہی دی تھی مگر ناز و ادا کے ایسے جال اس
نے فلموں سے سیکھے تھے کہ مردوں کو بسمل کرنا جانتی تھی. مگر اس کے سیدھے
سادے میاں پر ان واروں کا کوئی اثر نہیں تھا. وہ اپنی تعریف سننا چاہتی تھی.
بڑی بڑی گاڑیوں میں پھرنا چاہتی تھی. ریسٹورنٹ کے نت نئے کھانے کھانا چاہتی
تھی. بڑی بڑی زیورات کی دکانوں کے پاس سے گزرتے ہوئے اکثر اس کا دل للچاتا
اور اس کا میاں بڑے رسان سے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے سمجھاتا :
"نیک بختے ہم جیسے لوگ ایسے زیورات افورڈ نہیں کرسکتے. "
اس کا جی جل جاتا.
آج کل اس نے میاں سے جھگڑا ڈالا ہوا تھا کہ اب اسے تین بچوں کے ساتھ موٹر
سائیکل پر بیٹھتے ہوئے شرم آتی ہے اگر اس نے گاڑی نہ خریدی تو وہ گھر
چھوڑنے پر مجبور ہوجائے گی. اس کا میاں اس کے پیار میں ہار کر آج اسے لے کر
سیکنڈ ہینڈ گاڑیوں کے شوروم پر لے گیا. شوروم کا مالک ایک عیاش انسان تھا.
اس نے ماہا کی آرزوئیں بڑی آسانی سے محسوس کرلیں اور اپنا جال بچھا دیا. اس
نے ان کو گاڑی بڑی مناسب قیمت پر دے دی. نکلتے نکلتے ماہا سے دوبارہ آنے کا
بھی کہا. ماہا سجاد کی پر وجاہت سراپا دیکھ کر مچل گئی. وہ سمجھی کہ اس کے
ناز و انداز نے کام دکھا دیا ہے. اگلے دن ہی وہ دوپہر کے وقت سجاد کے شوروم
پہنچ گئی. سجاد اسے کھانا کھلانے کے لیے فائیو اسٹار ہوٹل لے گیا. کھانے کی
میز سے کمرے تک کا سفر بڑی آسانی سے طے ہوگیا. اب تو ماہا کو اپنے میاں میں
ہزاروں عیب نظر آنے لگے. سجاد کے دئیے ہوئے زیورات نے اس کی بینائی کو خیرہ
کر دیا تھا. وھ گناہ، ثواب سے قطع نظر اس اندھی رھ پر بھاگی جارہی تھی.
سجاد کا والہانہ پن اس کو پاگل کیا جارہا تھا. اس نے آخر کار اپنے میاں سے
خلع لے لیا. بچے اس نے دنیا دکھاوے کے لئے اس خیال سے رکھ لئے تھے کہ کچھ
عرصہ کے بعد اس کا سابقہ میاں ان کو لے ہی جائے گا.
سجاد نے اس کو ایک چھوٹا سا فلیٹ کرائے پر لے دیا تھا. وقت گزرنے کے ساتھ
ساتھ سجاد کا رویہ تبدیل ہونے لگا تھا. اب وھ ہفتہ ہفتہ اس کی طرف نہ آتا.
ماہا اس کی بے التفاتی سے پریشان ہوگئی. ایک دن اس نے سجاد سے شادی کا
مطالبہ کیا تو وہ ہنس کر بولا :
"میرا دماغ تو خراب نہیں کہ میں تین بچوں کی ماں سے شادی کرلوں. "
ماہا پر دیوانگی سی طاری ہو گئی اس نے سجاد کا منہ اپنے لمبے ناخنوں سے
چھیل دیا. سجاد اس کو دھکہ دے کر نکل گیا.
ماہا کے تن بدن میں آگ لگی ہوئی تھی. اس کو اپنے بچے اپنی خوشیوں کے قاتل
لگ رہے تھے.
جب اس کو ہوش آیا تو وہ پولیس کی حراست میں تھی اور پولیس والے اس سے بار
بار ایک ہی سوال کررہے تھے کہ اس نے اپنے بچوں کو کیوں مارا؟
اس پر جب یہ حقیقت واضع ہوئی کہ اس کے بچوں کی موت کی زمہ دار وھ خود ہے تو
وہ ہوش و حواس سے عاری ہوگئی.
لوگ اکثر اب جیل میں اس عورت کو دیکھ کر تاسف کا اظہار کرتے ہیں جو ہر وقت
اپنے فرضی بچوں سے کھیلتی رہتی ہے.
سوال یہ اٹھتا ہے کہ ایک مسلمان معاشرے میں زنا کیوں فروغ پارہا ہے. اگر
قرآن کو سمجھ کر پڑا جائے تو ہر حکم قرآن میں موجود ہے.
يَآ اَيُّھا النَّبِىُّ اِذَا جَآءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلٰٓى
اَنْ لَّا يُشْرِكْنَ بِاللّھِ شَيْئًا وَّلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِيْنَ
وَلَا يَقْتُلْنَ اَوْلَادَھنَّ وَلَا يَاْتِيْنَ بِبُھتَانٍ
يَّفْتَـرِيْنَھٝ بَيْنَ اَيْدِيْھنَّ وَاَرْجُلِھنَّ وَلَا يَعْصِيْنَكَ
فِىْ مَعْرُوفٍ ۙ فَبَايِعْھنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَھنَّ اللّھَ ۖ اِنَّ اللّھَ
غَفُوْرٌ رَّحِـيْـمٌ (12)
"اے نبی جب آپ کے پاس ایمان والی عورتیں اس بات پر بیعت کرنے کو آئیں کہ
اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گی اور نہ چوری کریں گی اور نہ زنا کریں
گی اور نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی اور نہ بہتان کی اولاد لائیں گی جسے
اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان (نطفہٴ شوہر سے جنی ہوئی) بنا لیں اور نہ
کسی نیک بات میں آپ کی نافرمانی کریں گی تو ان کی بیعت قبول کر اور ان کے
لیے اللہ سے بخشش مانگ، بے شک اللہ بخشنے والا نہایت رحم والا ہے."
اللہ تعالٰی ہم سب کو قرآن اور احادیث کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق
عطا کرے آمین. |