شنو ہر روز اپنے نابینا باپ کے ساتھ مارکیٹ میں بھیک
مانگنے آتی۔ میں اسے کچھ نہ کچھ ضرور دیتا۔ اس کا مارکیٹ میں آنا تازہ ہوا
کے جھونکے جیسا ہوتا۔ برقع میں اس کی آنکھیں بہت ہی خوبصورت لگتیں۔ میں اس
کے نقاب کے پیچھے اس کے چہرے کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتا۔ یہ تخیل مجھے
حقیقت سے زیادہ اچھا لگتا۔ میں ہر دوپہر اس کے آنے کا بے چینی سے انتظار
کرتا۔ کئی مہینے ہونے کو آئے، مگر میں نے اس سے کبھی بات نہ کی۔ اس کا نام
بھی اس کے باپ کے پکارنے کی وجہ سے معلوم ہوا۔
مارکیٹ کے لوگ اسے بڑی بے شرمی سے اشارے کرتے۔ پیسے دیتے ہوئے کبھی اس کا
ہاتھ پکڑ لیتے، تو کبھی اس کا نقاب اتارنے کی کوشش کرتے۔ وہ بڑی بے بسی سے
یہ سب سہتی۔ ایک دو بار میں نے اس کی آنکھوں میں آنسو بھی دیکھے مگر کچھ نہ
کرپایا۔
اس کا ادھیڑ عمر باپ گلاب خان سب باتوں سے بے پرواہ بھیک کی صدائیں لگاتا
جاتا۔ اسے نہیں معلوم ہوتا کہ اس کی بیٹی کے ساتھ لوگ کیا کر رہے ہیں۔ یا
جان کر بھی انجان بن جاتا۔ وہ مقدر کے جبر کے سامنے کر بھی کیا سکتا تھا۔
چار سال پہلے اس نے تصور بھی نہ کیا تھا۔ وہ کبھی اسی مارکیٹ میں بھیک مانگ
رہا ہو گا جہاں کبھی اس کی اپنی دکان تھی۔
گلاب خان کی اپنی کپڑے کی دکان تھی۔ جسے اس نے ساری جوانی کی محنت کے بعد
بنایا تھا۔ اس کی شادی ادھیڑ عمری میں ہوئی۔ پانچ بیٹیاں کی نعمت ملی۔
پانچویں کی پیدائش پر بیوی کا انتقال ہو گیا۔ دوسری شادی سے پہلے ایک حادثے
میں اس کی آنکھیں ضائع ہو گئیں۔ کاروبار پر اس کے ایک ملازم نے قبضہ کر
لیا۔ گلاب خان کا کوئی عزیز رشتہ دار نہیں تھا جو اس کی مدد کو آتا۔ کچھ ہی
مہینوں میں وہ سڑک پر آ گیا۔ گھر کا خرچہ چلانے کے لیے بھیک مانگنا شروع کر
دی۔ میں نے گلاب خان کی اسی دکان پر کام کرنا شروع کیا۔
ہر روز اس دکان کے سامنے آ کر گلاب خان کے قدم رک جاتے۔ تاریک آنکھوں کے
پیچھے ماضی کے کچھ مناظر چلنا شروع ہو جاتے۔ وہ نہیں جان پایا، اسے کس چیز
کی سزا ملی۔ یہ کیسی آزمائش ہے۔ گلاب خان کے بجائے میں یہ سوچتا کہ یہ نہ
کوئی آزمائش، نہ ہی کوئی سزا ہے۔
یہ محض اس اتفاقیہ زندگی کا بھیانک مذاق ہے۔ یہ بھیانک مذاق روز ان گنت
لوگوں کی زندگی کے ساتھ کھیلا جاتا ہے۔ جن کے غموں کا حساب رکھنے والا کوئی
نہیں۔ یہاں کسی کا قصور نہیں۔
گلاب خان اور اس کی بیٹی شنو کو دیکھ دیکھ کر میں مزید اداس ہو جاتا۔ دادا
بھی بے وجہ اپنی محبوب کو روتا چھوڑ آئے، ابا بھی بے وجہ آئیڈلیسٹ تھے،
اماں بھی بے وجہ ہی پاگل ہوئیں، عنبر نے بھی بے وجہ ہی خود کشی کی۔ میں بھی
بے وجہ ہی یتیم ہوا۔ کوئی نہیں ہے جو یہ سب کروا رہا ہے، کوئی نہیں ہے جو
اسے روک سکتا ہے۔ یہ فقط ایک تماشا ہے جو بنا کسی مداری کے چل رہا ہے۔
ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے
میں کچی بستی میں ایک گندے سے کمرے میں رہتا۔ میری تنخواہ میں اتنا ہی ہو
پاتا۔ تعلیم چھٹ گئی، مستقبل کے سارے خواب بھی چلے گئے۔ میں اپنے ارد گرد
انتہائی غریب لوگوں کو دیکھتا جنھوں نے زندگی کی لڑائی میں شکست تسلیم کر
لی تھی۔ ان کی زندگی سے یہی سبق ملتا،
"انسانی منصوبے اور خواہشیں سب دھری کی دھری رہ جاتی ہیں اور وقت کا ریلہ
اپنے ساتھ سب کچھ بہا کر لے جاتا ہے "
میں بھی بس زندہ تھا۔ بستی کے ایک کچے مکان میں شنو بھی رہتی، جو سارا دن
بھیک مانگ کر تھک چکی ہوتی۔ اس کے اندر روٹی بنانے کی ہمت بھی نہ ہوتی۔ اس
کا باپ چارپائی پر لیٹ کر اپنے اندر کی ازلی تاریکی میں کھوجاتا۔ شنو اداسی
سے سوچتی: میری زندگی کیا تھی اور کیا بن گئی۔
وہ سڑکوں پر غیر محفوظ ہوتی اور اس کی چھوٹی بہنیں گھر میں۔ کبھی وہ اچھے
کپڑے پہنے سکول جاتی تھی۔ اب سکول سے واپس آتی اپنی سہلیوں سے خود کو
چھپانے کی ناکام کوشش کرتی۔ اس کا برقع میلا اور پھٹا ہوا ہوتا۔ نیا خریدنے
کے پیسے نہ ہوتے۔
اسے پروفیشنل فقیروں کی طرح بھیک مانگنا نہ آتی۔ تمام فقیروں نے اپنے اپنے
علاقے بانٹے ہوتے۔ جس میں کسی دوسرے کو داخل نہ ہونے دیا جاتا۔ تمام پیسے
والے اشاروں، مارکیٹوں اور علاقوں پر بڑے بڑے بدمعاشوں کا قبضہ تھا۔ جہاں
وہ بھتا لے کر اپنے منتخب فقیرون کو بھیک مانگنے دیتے۔ دوسرے کسی فقیر کا
وہاں داخلہ بھی ممنوع ہوتا۔ وہ جتنا بھی کماتے اس میں سے آدھا تو بھتے میں
چلا جاتا۔ شنو کو ابھی تک پروفیشنل فقیروں کی طرح مانگنا نہیں آیا تھا۔
مظلوم ہوتے ہوئے بھی مظلومیت کی ایکٹنگ نہ کرپاتی۔
چچا نے گھر سے کیا نکالا، میں حالات کے بھنور میں پھنس کرسب بھول گیا۔ میری
تعلیم چھٹ گئی، سر سے چھت چھن گئی، کھانے تک کے لالے پڑ گئے۔ میری انا اور
خود داری کو اتنے لوگوں نے پیروں تلے روندا کہ مجھے یاد ہی نہ رہا مجھ کوئی
انا بھی ہے۔ میرے بڑے بڑے خیالات بھاپ کی طرح اڑ گئے۔ میں روٹی کپڑا اور
مکان کی تلاش میں سرگرداں ہجوم کا حصہ بن گیا۔
پہلے میں صرف سوچتا تھا، انسانی زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہے۔ اب احساس کی
شدت کے ساتھ اس بات کو جان گیا۔
مجھے اپنی اس حالت کا ذمہ دار بھی کوئی نظر نہ آتا۔ بس حالات کا سیلاب مجھے
بہائے لے گیا۔ شنو ابھی نا سمجھ تھی، اسی لیے اس کی آنکھوں میں معاشرے کے
خلاف شکوہ نظر آتا۔ شاید وقت کے ساتھ وہ سمجھ جائے کہ زندگی میں شکوے اور
شکائتیں کام نہیں آتیں۔
میں نے مزدوری کرنے سے لے کر ٹیوشنیں پڑھانے تک سب کام کیے۔ میری باہر کی
چمڑی سخت ہونے لگی۔ اب میری دل میں کسی کے بارے میں رحم دلی کے جذبات نہ
ابھرتے۔ میں کسی کو لٹتا دیکھ کر بچانے کی کوشش نہ کرتا۔ بلکہ یہ دکھتا کہ
اس میں میرا کیا فائدہ ہے۔ میں اپنے کام میں ڈنڈی مارتا، پیسوں میں ہیر
پھیر کرتا۔ دکان میں آنے والے لوگوں الو بنانے کی پوری کوشش کرتا۔ میں نے
یہ سب باتیں اپنے ارد گرد ملازمین سے سیکھیں۔ وہاں مجھے احساس ہوا کہ
اخلاقیات اور حرام حلال کے جو باتیں ہمیں مسجد اور سکولوں میں سکھائی جاتی
ہیں۔ حقیقی زندگی میں کامیابی کے لیے ان کی کوئی حیثیت نہیں۔
ایک شخص ساری زندگی کی محنت سے دکان بناتا ہے۔ کوئی دوسرا اس پر قبضہ کر کے
امیر ہو جاتا ہے۔ کوئی قانون اور مذہب اس کا ہاتھ نہیں روکتا۔ قانون کے
رکھوالے پیسے لے کر ظالم کا ہی ساتھ دیتے ہیں۔ گلاب خان کی دکان پر قبضہ
کرنے والا شیر علی ایک معمولی سا ملازم تھا۔ گلاب خان کے حادثے کے بعد اس
نے پتا نہیں کیسے دکان کے کاغذ اپنے نام ٹرانسفر کروا لیے۔ گلاب خان کہتا
رہا، اس کو تو شیر علی نے صرف اتنا کہا تھا کہ وہ اس کے کاروبار میں شراکت
کے کاغذات پر انگوٹھا لگوا رہا ہے۔ کچھ مہینوں تک شیر علی نے گلاب خان کو
پیسے دیے۔ پھر اس نے لوگوں میں اعلان کر دیا کہ گلاب خان نے یہ دکان اس کے
نام فروخت کر دی ہے۔ گلاب خان کو اصل بات کا علم اس وقت ہوا جب شیر علی نے
پیسے دینے سے مکمل انکار کر دیا۔
پورے دن میں صرف وہی لمحہ سکون کا ہوتا جب شنو مارکیٹ میں آتی۔ اس کا برقع
پھٹا پرانا ہوتا۔ نقاب کے پیچھے اس کی آنکھوں میں ایک خالی پن ہوتا۔ ہر
گزرتے دن کے ساتھ وہ خالی پن بڑھتا ہی جاتا۔ اس نے لوگوں کی چھیڑ چھاڑ پر
احتجاج بھی چھوڑ دیا۔ وہ پلاسٹک کی گڑیا بن گئی جس کے محسوسات نہیں ہوتے۔
اس کی آنکھیں مجھے ایک کائناتی بلیک ہول لگتیں، جس کی گہرائی اور خلا میں
پوری کائنات سما سکتی ہے۔ میں اس خلا میں ڈوب جانا چاہتا۔
مہینوں گزرنے کے باوجود میں اس سے بات نہ کر سکا۔ میری آنکھیں تو نہ جانے
اس سے کیا کیا کہتیں مگر الفاظ میرا ساتھ چھوڑ دیتیں۔ کبھی کبھی میں شام کو
اس کے گھر کے پاس کھڑا ہو جاتا اور اسے اپنے باپ کے ساتھ واپس آتے دیکھتا۔
وہ مجھے دیکھتی بھی تو اس کی آنکھوں میں کوئی تاثرات نہ آتے۔
پھر یوں ہو اکہ، شنو اور گلاب خان کافی عرصہ بھیک مانگنے نہیں آئے۔ میں کچھ
دن بہت بے چین ہوا۔ اس کی اک جھلک دیکھنے کے لیے کئی بار اس کے گھر اور
محلے کے چکر لگائے۔ کچھ عجیب طرح کے لوگوں کو اس کے گھر آتا جاتا دیکھا۔
ادھر ادھر سے پتا کرویا تو معلوم ہوا۔ شنو اب پرانی والی شنو نہیں رہی۔ اس
نے اپنی طرف بڑھتی ہوئے ہاتھوں سے قیمت وصول کرنا شروع کر دی تھی۔
کل جنھیں چھو نہیں سکتی تھی فرشتوں کی نظر
آج وہ رونق بازار نظر آتے ہیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔
میرے اندر کے خلا کے ساتھ ایک بے حسی بھی آ گئی۔ اب میر اکسی سے بات کرنے
کو دل نہ کرتا۔ میں صرف لوگوں کو دیکھتا۔ ان کی باتوں اور حرکتوں سے ان کی
شخصیت کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتا۔ دکان پر بیٹھ کر دو سالوں میں زندگی
اور کاروبار کے بارے میں جو میں نے سیکھا۔ وہ میری سالوں کی پڑھائی اور
کتابوں سے اوپر تھا۔
میں ہر بات کے پیچھے مفاد کو ڈھونڈنے کی کوشش کرتا۔ ہر بات میں چالوں کی
تلاش کرتا۔ اپنے غلط اندازوں کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرتا۔ میرے اندر بھی
پیسہ کمانے اور طاقت حاصل کرنے کی خواہش اٹھنے لگی۔ میں پیسہ صرف اس لیے
کمانا چاہتا کہ میں لوگوں کا محتاج نہ رہوں۔ ان کے سہاروں سے اوپر اٹھ
جاؤں۔ تمام قسم کے رشتوں سے میرا دل اٹھ گیا۔
میرا ذاتی تجربہ یہی بتاتا ہے: دوستیاں اور رشتے صرف ضرورتوں کو پورا کرنے
کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ کبھی جسم کی ضرورت، کبھی تنہائی کاٹنے کی ضرورت،
کبھی دیکھ بال کی ضرورت۔ وغیرہ وغیرہ۔ جب ضرورتیں پوری ہو جاتی ہیں تب وہ
رشتے بھی بے معنی ہو جاتے ہیں۔
میاں بیوی کا رشتہ بھی کئی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے ایک ایگریمنٹ ہے۔
اسی کے لیے پیار محبت جیسے خوبصورت الفاظ ایجاد کیے گئے ہیں۔ ضرورتیں پوری
ہونے کے بعد یہ خوبصورت الفاظ بھاپ کی طرح اڑ جاتے ہیں۔ ماں باپ بھی اسی
وقت تک اچھے لگتے ہیں جب تک ان کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس دن کوئی باپ اپنی ساری
جائدار اور کاروبار بچوں کے نام لگاتا ہے اسی دن بچوں کا رویہ بدل جاتا ہے۔
فالج زدہ بوڑھوں کی زندگی بھی اسی لیے مظلوم ہوتی ہے۔
اسی لیے مجھے کسی رشتے کے جال میں نہیں پھنسنا۔ میں اپنی ہر ضرورت کو قیمت
لگا کر خریدنے کا قائل ہو گیا۔ کسی چیز پر میرا حق اتنا ہی ہے جتنی میں اس
کی قیمت دے سکوں، یا طاقت سے چھین سکوں۔ اس حق کو میں کسی اخلاقی و مذہبی
قانون کے تحت چھوڑ نہیں سکتا۔
تمام ضابطے اور اصول بھی غریب اور کمزور لوگوں نے اپنے لیے بنائے ہیں۔ طاقت
ور اور آزار بندے کی دنیا الگ ہے۔ وہ صرف طاقت کے اصول کو مانتا ہے۔ وہ
مانگتا نہیں چھین لیتا ہے۔
ثابت ہُوا سکونِ دل و جان نہیں کہیں
رشتوں میں ڈھونڈتا ہے تو ڈھونڈا کرے کوئی
میں نے یونیورسٹی میں پارٹ ٹائم بزنس ایڈمنسٹریشن میں داخلہ لے لیا۔ اگرچہ
چار سالوں کے بعد میں نے ڈگری تو لے لی۔ میں نے یونیورسٹی میں اتنا بھی
نہیں سیکھا جتنا میں نے دکان میں ایک مہینے میں سیکھا۔ یونیورسٹی میں مجھے
سوائے انگریزی میں بولنے اور لکھنے کے کچھ بھی نہیں سکھایا گیا۔ کاروبار
کیسے لگانا اور چلانا ہے، اس کی تو الف بے بھی نہیں سکھائی گئی۔ اسی لیے
پاکستان میں سارے کامیاب بزنس مین انگوٹھا چھاپ ہی ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ
انھوں نے اپنی اگلی نسل کو اچھی یونیورسٹیوں سے پڑھا کر اپنا امیج بہت اچھا
بنا لیا ہے اصل میں ان کی سوچ انگوٹھا چھاپ جیسی ہی ہے۔ انگوٹھا چھاپوں کے
پاس ایسا کیا ہوتا ہے جو یونیورسٹی سے پڑھے لکھوں کے پاس نہیں ہوتا؟
انگوٹھا چھاپ بہت ہی سیدھا ذہن رکھتا ہے۔ وہ ہر چیز میں اپنے فائدے اور
نقصان کو سب سے اوپر رکھتا ہے۔ وہ اپنے ذہن کو بڑی بڑی مذہبی، اخلاقی اور
عقلی باتوں میں نہیں لگاتا۔ وہ صرف پیسے کو دیکھتا ہے۔
پیسہ کہاں سے اور کیسے آتا ہے؟ یہی اس کا دین ایمان ہے باقی سب فضولیات
ہیں۔
انگوٹھا چھاپ کی عزت اور ذلت کے پیمانے بھی وہ نہیں ہیں، جو پڑھے لکھے عزت
داروں کے ہوتے ہیں۔ اسی لیے وہ کسی کام میں عار محسوس نہیں کرتا۔
اس کے مقابلے میں یونیورسٹی کا پڑھا لکھا بندہ اپنے ذہن میں بہت بڑے بڑے
خیالات رکھتا ہے۔ وہ ہر بات کو بہت خوبصورت انداز سے سمجھتا اور کہتا ہے۔
اس کے پاس بہت بڑے بڑے الفاظ ہوتے ہیں۔ جن کو استعمال کر کے وہ سمجھتا ہے
اس نے خزانہ دریافت کر لیا ہے۔ وہ لفظوں کے پیچھے حقیقت کو کبھی سمجھ نہیں
پاتا۔ اسی لیے کسی نہ کسی انگوٹھا چھاپ کی نوکری کرنے میں ساری عمر گزار
دیتا ہے۔ وہ انگوٹھا چھاپ کی طرح رسک لینے کی صلاحیت نہیں رکھتا کیوں کہ وہ
ڈھیر ساری سہولتوں کا عادی ہے۔ وہ اپنی سفید پوشی کا بھرم برقرار رکھنا
چاہتا ہے۔ اسی لیے روز ہی اپنی عزت نفس کی قربانی دیتا ہے۔
مجھے بزنس کی ڈگری نے بزنس کرنا اور زندگی میں کامیاب ہونا تو نہیں سکھایا
لیکن یہ سمجھا دیا کہ اگر میں نے کامیاب ہونا ہے تو ایک انگوٹھا چھاپ ہی
بننا ہے۔ مجھے پڑھے لکھوں کی طرح غلامی نہیں کرنی۔ مجھے پھر کسی کا مجبور
نہیں بننا۔ مجھے آزادرہنا ہے۔
میں نے پیسے کمانے کے لیے ہر چھوٹا بڑا کام کیا، کئی چھوٹے موٹے کاروبار
چلانے کی کوشش کی، جن میں انوسٹمنٹ بھی کم تھی اور منافع بھی کم۔ اس سے
مجھے سیکھنے کا کافی موقع ملا۔ میں ہر ناکامی کے بعد اپنی غلطیوں کو سمجھنے
کی کوشش کرتا۔ ہر بار میرے ساتھ کام کرنے والے دھوکہ کرتے۔ میں ہر بار نئے
لوگوں کے ساتھ کام کرتا۔ شروع شروع میں ہر ناکامی کے بعد میں بہت مایوس
ہوتا۔ رفتہ رفتہ یہ کام ایک کھیل بن گیا۔
مجھے نفع نقصان سے زیادہ اس کھیل کو کھیلنے میں مزا آنے لگا۔ میں نے سیکھنے
کا عمل نہیں چھوڑا۔ میں کامیاب کاروباری لوگوں سے ملاقاتیں کرتا۔ ان کی
باتوں کو بہت دھیان سے سنتا۔ ان کے کاروباری فیصلوں کی گہرائی کو سمجھتا۔۔
ان کی ناکامیوں تک کا جائزہ لیتا۔ بزنس کی پاپولر اور اچھی کتابیں بھی
پڑھتا جس سے میرا ذہنی کینوس بڑا ہوتا گیا۔
میرے پاس اب اتنا پیسہ آ گیا کہ نارمل سے علاقے میں کرائے پر گھر لے سکوں۔
ساتھ میں ایک سیکنڈ ہینڈ گاڑی بھی رکھ لی۔ گاڑی پر آنی جانی ہی ہوتی۔ جب
بزنس میں فائدہ ہوتا گاڑی آ جاتی، نقصان ہوتا بک جاتی۔ اچھے علاقوں میں
اکیلے بندے کو کوئی گھر کرائے پر نہں دیتا۔ اسی لیے کسی معمولی علاقے میں
گھر لینا پڑتا۔ جہاں چوری چکاری بھی بہت ہوتی۔ آئے دن پولیس تفتیش کے لیے
آئی رہتی۔ ایک دوبار شناخت کے لیے تھانے بھی جانا پڑا۔ اب میں اس چیز کو
سمجھ گیا۔ میں نے کبھی اسے انا کا مسئلہ نہیں بنایا۔ مجھے معلوم ہو گیا، وہ
پولیس والا اپنے طاقت کے حق کو استعمال کر رہا ہے۔ میں اسے اس کا حق ادا کر
دیتا۔ اگرچہ میں کوئی ایسا غیر قانونی کام نہ کرتا۔ پھر بھی ان کی جیب میں
کچھ نہ کچھ ڈال دیتا۔ اسی لیے مجھے تنگ نہ کیا جاتا۔
جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، میری بزنس سینس اچھی ہوتی گئی۔ میں نے لوکل اور
انٹرنیشنل سٹاک مارکیٹ میں انویسٹ کرنا شروع کیا۔ سالوں کے مشاہدے کے بعد
میرے اندر منافع کو سونگھنے کی حس پیدا ہو گئی۔ یہ واقعہ ایک ہی رات میں
نہیں ہوا۔ نہ ہی یہ کوئی لاٹری نکلی۔
میں غیر محسوسانہ طریقے سے جتنا اپنی اور لوگوں کی ناکامیوں کو سمجھتا گیا
میری ناکامیاں کم ہوتی گئیں۔
مجھے پتا لگنا شرع ہو گیا۔ کون سا بزنس کامیاب ہو گا، کون سا سٹاک اوپر
جائے گا اور کونسا نیچے۔ میرے ذہن میں سٹاک کے بارے میں بھی ایک تھیوری بن
گئی کہ وہ کیسے اوپر اور نیچے جا تے ہیں۔ کافی مہینوں تک میں اپنی اس
تھیوری کو ٹیسٹ کرتا رہا۔ میرے زیادہ تر فیصلے ٹھیک ہی ہوتے۔ تھیوری میں
خامیوں کی بھی نشاندہی ہونے لگی۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ میرا کوئی اندازہ
غلط نہ ہوتا۔ میں جس سٹاک کو بھی اٹھاتا وہ چڑھ جاتا، جس کو بیچتا وہ گر
جاتا۔
میں نے صحیح معنوں میں نوٹ چھاپنا شروع کر دیے۔ جب تک میں چھوٹی چھوٹی
انویسمنٹس کرتا رہا کسی کو کچھ پتا نہ چلا۔ لیکن جب میں نے بڑا ہاتھ مارنا
شروع کیا تو میرے ارد گرد بیٹھے لوگ چونک گئے۔ ایک تیس سال کا خاموش رہنے
والا نوجوان، جس کا نہ تو کوئی خاندان ہے اور نہ ہی کوئی حثیت۔ جسے پورے
شہر میں چار لوگ نہیں جانتے اسے سٹاک مارکیٹ کے بارے میں اتنا کیسے پتا۔
لوگوں کو لگا کہ میرے پاس کوئی روحانی یا سفلی علم ہے جس کی وجہ سے میں
صحیح اندازے لگا لیتا ہوں۔ کئی نے کہا میں نے جن رکھے ہوئے ہیں۔
کسی بھی کام میں اعلیٰ لیول کی ایکسپرٹی جادو کی طرح کی محسوس ہوتی ہے۔ مگر
اس کے پیچھے سالوں کی ریاضت ہوتی ہے۔ مجھے کئی بڑے بڑے بروکرز نے اپنے سائے
میں لینے کی کوشش کی مگر میں کسی کا پٹھو بن کر نہیں جینا چاہتا تھا۔ میں
نے لوکل مارکیٹ کے بجائے انٹرنیشنل مارکیٹس اور بزنس میں انویسٹ کرنا شروع
کر دیا۔ میری نظریں ہر وقت مار کیٹ پر لگی رہتیں، دنیا کس طرف جا رہی ہے،
لوگ کیا پسند کر رہے ہیں، نئی ٹیکنالوجی کونسی آ رہی ہے، کون سا بزنس اگلے
پانچ سالوں میں اوپر جائے گا اور کون سا بزنس بند ہو جائے گا۔ میں گھنٹوں
بیٹھ کر کمپنیوں اور سٹاک مارکیٹ کو دیکھتا۔
میں انویسٹمنٹ کی فیلڈ میں ایکسپرٹ لوگوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنی ٹیم میں
شامل کیا۔ ان کی ایڈوائز کو ہمیشہ مد نظر رکھتا۔ مجھے علم ہے کہ ایک بندے
کی صلاحیت محدود ہے اور ٹیم کی صلاحیت زیادہ۔ لوگ میری کامیابی کا راز
جاننے کی کوشش کرتے۔ صحافی اور بزنس مین مجھ سے ٹائم لینے کے لیے لڑتے۔ سب
کی خواہش ہوتی میری کامیابی کا راز جان سکیں۔ میں جب انھیں حقیقت بتاتا تو
وہ کہتے میں مذاق کر رہا ہوں۔
حقیقت میں میری کامیابی کا کوئی سیکریٹ نہیں ہے۔ یہ بھی اس کائنات اور
زندگی کے وجود کی طرح ایک اتفاق ہے۔ ہاں تھوڑی محنت میں نے کی لیکن زیادہ
تر یہ ایک حسین اتفاق ہی ہے۔
میں ایک کے بعد ایک بزنس میں شئیر ہولڈر بننے لگا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ
میرے پاس پیسے اور طاقت میں اضافہ ہوتا گیا۔ مجھے سمجھ نہ آتی کہ میں اتنی
طاقت اور پیسے کا کیا کروں۔ میں نے وہ کرنا شروع کیا جو میرے جیسے سارے لوگ
کرتے ہیں۔ پارٹیوں میں جانا، فضول چیزیں خرید کر پھینک دینا، مہنگے سے
مہنگے کپڑے، گاڑیاں، گھر، پینٹنگز، وغیرہ وغیرہ۔
میں یہ سب کرتے ہوئے بھی خود کو اجنبی محسوس کرتا۔ میرے اندر کاخلا اور
اداسی کم نہ ہوتی۔ پارٹیز میں اعلیٰ خاندانوں کی کم عمر اور حسین ترین
لڑکیاں میری توجہ حاصل کرنے کے لیے مری جاتیں۔ مجھے ان میں کوئی دلچسپی
محسوس نہ ہوتی۔ میں نے مجبوراً یک دو افئیر چلائے۔ ہر لڑکی اندر سے خالی
ہوتی۔ ان کے ظاہری روپ کے پیچھے کچھ نہ ہوتا۔ ان کے پاس کوئی ایسی چیز ہی
نہ ہوتی جو مجھے متاثر کرتی۔ وہ سمجھتیں، ان کا جسم مجھے متاثر کر دے گا۔
لیکن اس میں بھی کشش محسوس نہ ہوئی۔
جیسے جیسے میری ظاہری طاقت میں اضافہ ہوتا گیا میرے اندر کا ہر ذائقہ، ہر
رنگ اور ہر فیلنگ مرتی چلی گئی۔ میں اپنی اندر فیلنگ جگانے کے لیے لوگوں پر
طاقت کا رعب جھاڑتا۔ انھیں بے عزت کرتا اور ذلیل کرتا۔ یہ سب کرتے ہوئے بھی
مجھے کچھ محسوس نہ ہوتا۔ میں ایک ربوٹ بن گیا جو بغیر کسی محسوسات کے جی
رہا ہے۔
مجھے لوگوں سے بھی کوئی مطلب نہ رہا۔ انھیں دیکھتے ہی ان کی شخصیت اور مطلب
کو سمجھ جاتا۔ کوئی بھی شخص بغیر مطلب کے کبھی نظر نہ آتا۔ اپنی غرض کے لیے
وہ کتوں کی طرح میرے پیروں میں لیٹ جاتے۔ مطلب پورا ہونے کے بعد شیر بننے
کی کوشش کرتے۔
لوگوں سے مایوس ہو کر تھوڑا بہت سکون صرف کتابوں اور آرٹ میں ملتا۔ میں
فارغ وقت میں شاعری اور ادب کو پڑھتا اور تھوڑ دیر کے لیے خود فراموشی کا
شکار ہوتا۔ اچھی پینٹنگ کر دیکھ کر مجھے اپنے اندر کا خلا کم لگنے لگتا۔
لفظوں اور خیالات کا حسن حقیقت سے زیادہ محسوس ہوتا۔ میں نے ڈرنک کرنے کی
بھی کوشش کی لیکن نشے کی حالت میں پتا نہیں کیوں میں زارو قطار رونے لگتا۔
میرے ملازمین پریشان ہو جاتے اسی لیے اگر میں نے پینی بھی ہوتی تو کمرے میں
خود کو بند کر کے پیتا۔
پارٹیز میں اب بھی مجبور ا جاتا، وہاں خالی نظروں سے تماشے کو دیکھتا۔ ایک
پارٹی میں مجھے مورنی نما لڑکی نظر آئی۔ اس کے انداز میں کوئی منافقت نہیں
تھی۔ اس کی آنکھوں میں دعوت اور اس کے چہرے پر اس کی قیمت لکھی تھی۔۔ میں
اسے گھر لے آیا۔
اس کے انداز میں کوئی ڈر یا شرم نہیں تھی۔ اس نے مجھے اس طرح ٹریٹ نہیں کیا
جیسے باقی لڑکیاں کرتیں۔ اس کو دیکھ کر کچھ لمحوں کے لیے عنبر یاد آ گئی۔
اس کی موجودگی میں میرے مردہ جذبات جاگنا شروع ہوئے۔ لیکن یہ سب بھی کسی
سودے کی طرح تھا۔ آپ قیمت دیتے ہیں، اور کچھ دیر کے لیے محسوسات خریدتے
ہیں۔ میں اس کاروبار کو بھی سمجھ گیا۔ مجھے ان دکانوں کا بھی پتا چل گیا
جہاں سے یہ سودا خریدا جا سکتا ہے۔ میرے نزدیک یہ لڑکیاں ایک ایکٹر ہوتیں
جنھیں میں اپنی مرضی کا کردار دیتا۔
میں انھیں کبھی عنبر بن کر خود پر تشدد کا کہتا، تو کبھی شنو کی طرح نقاب
پوش بن کر بھیک مانگنے کا۔ وہ یہ سب خوشی سے کچھ کرتیں کیوں کہ انھیں اس
چیز کے توقع سے زیادہ پیسے ملتے۔ حیرت انگیز طور پر جب یہ بدنام زمانہ
عورتیں مجھ پر تشدد کرتیں تو میرے مردہ جذبات جاگ اٹھتے۔ میں ایک رو بوٹ سے
انسان بن جاتا۔
ہر لڑکی سے میرا دل کچھ عرصے بعد بھر جاتا۔ کیوں کہ وہ بھی ایک رو بوٹ بن
کر یہی کام کرنا شروع ہو جاتی۔ میری یہ کیفیت نفسیاتی بھی نہیں تھی کیونکہ
کسی نفسیات دان کو میری کیفیت سمجھ نہ آتی۔ وہ مجھے حیرت سے دیکھتے کہ میں
کیا بات کر رہا ہوں۔
ہائی سوسائٹی کے لوگوں میں نفسیاتی مسائل کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ میں اپنے
ارد گرد ہر شخص کو ڈپریشن کا مریض پاتا۔ ہر شخص نفسیات دان سے سیشن لے رہا
ہوتا۔ کچھ لوگ نشے کی وجہ سے بھی ذہنی امراض کا شکار ہو جاتے۔ پیسے کمانا
اور لوگوں پر اپنی طاقت برقرار رکھنا اتنا آسان کام نہیں۔ انسان کے اعصاب
جواب دے جاتے ہیں۔ اسی لیے یہ لوگ مذہب اور روحانیت کے بھی قریب ہو جاتے
ہیں۔
خود کو مذہبی ظاہر کرنے کا ایک فائدہ یہ ہے، کہ عوام میں آپ کی اور آپ کے
بزنس کی شہرت اچھی رہتی ہے۔ دوسرا روحانی سکون تو ملتا ہی ہے۔ امیر اور
مشہور لوگوں کی اکثریت کو میں نے بہت زیادہ وہمی دیکھا۔ وہ بات بات پر
پریشان ہو جاتے، انھیں لگتا کوئی ان کے خلاف جادو ٹونہ تو نہیں کر رہا۔ وہ
اپنی کامیابی کو کسی نہ کسی دعا اور مرشد کی نظر کرم کا نتیجہ سمجھتے۔ اسی
لیے سب نے کوئی نہ کوئی روحانی مرشد رکھا ہوتا۔ جو ان کی ترقی، شہرت اور
روحانی سکون کے لیے وظائف بتاتا۔ جسے یہ لوگ بہت پابندی سے پڑھتے۔
کبھی کبھی تو کئی بزنس مین اپنے روحانی بابوں کو میٹنگوں میں بھی لے آتے۔
بابا جی کی موجودگی سے میٹنگ میں برکت ڈل جاتی۔ میں ان باتوں کو کسی مذاق
سے زیادہ حیثیت نہ دیتا۔
یہ بابے مجھے بھی اپنے کشف سے متاثر کرنے کی کوشش کرتے۔ کبھی شفقت بھری
نگاہ ڈالتے، کبھی مجھ پر روحانی پھونکیں مارتے۔
بہت سالوں پہلے مجھے بہت تلخ طریقے سے بابوں کی حقیقت کا علم ہوا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بہت سال پہلے عنبر کی بے وجہ موت نے میری سوچ مکمل طور پر تبدیل کر دی۔ میں
اپنی زندگی کے واقعات کو کسی اور ہی طرح دیکھنے لگا۔ میرے ذہن میں زندگی کے
مقصد کے بارے میں شکوک و شبہات اٹھنے لگے۔
ہماری اس زندگی کا مقصد کیا ہے؟
ہم کیوں، بے وجہ اتنے دکھ سہتے ہیں؟
اس سارے کام میں خدا کی کیا حکمت ہے؟ اگر کوئی حکمت ہے تو ہمیں بتائی کیوں
نہیں جاتی؟
خدا اس سارے ظلم و ستم کو روکتا کیوں نہیں؟
کہیں ایسا تو نہیں کہ خدا صرف ایک تصور ہے؟ جسے مذہبی پیشواؤں نے لوگوں کو
دلاسا دینے کے لیے بنایا ہے؟
میں نے اس بارے میں سیرس انداز سے سوچنا شروع کیا۔ اس سوچ کے لیے میں نے
فلسفہ اور سائنس کا سہارا لیا۔ میں نے شروع میں خدا کو ثابت کرنے کی دلیلیں
ڈھونڈنا شروع کیں۔ مجھے جو بھی دلیل ملتی اس کے جواب میں اتنی ہی بڑی دلیل
کھڑی ہوتی۔ میں جتنا گہرائی سے سوچتا گیا مجھے ساری دلیلیں خدا کے خلاف ہی
ملتا شروع ہوئیں۔ جیسے جیسے میرا مطالعہ گہرا ہوتا گیا مجھے معلوم ہوا:
تمام جدید علوم، مذہب اور خدا کے باغی ہو چکے ہیں۔
تمام بڑے سائنسدان، سائیکالوجسٹ، فلسفی، تاریخ دان وغیرہ ملحد ہی ہیں۔
موجودہ زمانے کا علم اپنی حقیقت میں خدا سے منہ موڑ چکا ہے۔ جدید انسان
آزادی پسند ہے۔ وہ کسی الہامی چیز کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔
اب خدا پر صرف بغیر دلیل کے ایمان لایا جا سکتا ہے۔ عقلی طور پر نہیں؟
میں ذہنی طور پر متشکوک ہو گیا۔ یعنی جو کسی بات پر یقین نہیں رکھتا بلکہ
ہر بات پر شک کرتا ہے۔
میں نے کئی سال تک خدا کو عقلی و روحانی طور پر ماننے کی اپنے حد تک کوشش
کی۔ مجھے صرف یہی خیال تھا کہ خدا ہی ہے جو میری زندگی اور کائنات کو معنی
دے سکتا ہے۔ اگر خد انہیں، تو میرا دکھ بے معنی ہے۔ میرے اندر کا خلا بے
معنی ہے۔ ایسی زندگی کو جینے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
کوئی خدا ہونا چاہیے۔
مذہبی لوگوں سے میرا دل اکتاچکا تھا۔ ہاں روحانیت اور بابوں کے بارے میں
کچھ نرم گوشہ موجود تھا۔ وہ بھی شاید اس لیے کہ دادا کہ مرشد کا بہت اچھا
خاکہ میرے ذہن میں موجود تھا۔ یا پھر بچپن میں پڑھے ہوئے اولیاءاللہ کے
واقعات میرے لاشعور میں موجود تھے۔
میں نے سوچا، اگر مجھے کوئی صحیح ولی کامل مجھے مل جائے، تو میری زندگی
سنور سکتی ہے۔ میرے سوالوں کے جواب مجھے مل سکتے ہیں۔ میرے اندر کا خلا ختم
ہو سکتا ہے۔
میں نے مزدوری کے ساتھ ساتھ روحانی بابوں کو ڈھونڈنا شروع کیا۔ میں ہر
جمعرات کو عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر جاتا اور بڑے خلوص سے اپنی روحانی
منزل کو پانے کی دعا کرتا۔ میں نے اپنے دل کو صاف کرنا شروع کیا۔ اپنے چچا
چچی سمیت تمام لوگوں کو معاف کر دیا۔ میں صرف اللہ کا قرب حاصل کرنا چاہتا
تھا۔ قریب قریب ہر مجذوب کے پیچھے چل پڑتا کہ شاید اس کی ایک نظر سے میرے
رستے کھل جائیں۔
لیکن نہ میرے اندر کوئی تبدیلی آئی اور نہ ہی میرے راستے کھلے۔
ایک دن میں دکان پر بیٹھا اردو اخبار پڑھ رہا تھا کہ ایک مشہور صحافی نے
کسی بہت بڑے بزرگ کا ذکر کیا۔ اس صحافی کے بقول یہ بزرگ اس دور کے مجدد اور
عارف ہیں۔ وہ ہر ہفتے کو کراچی میں محفل لگاتے ہیں جہاں عوام کا جم غفیر
حاضری کے لیے حاضر ہوتا ہے۔ میں بہت خوش ہوا اور اگلے ہی ہفتے بزرگ سے ملنے
پہنچ گیا۔
بابا جی ڈیفنس کی کسی کوٹھی میں محفل لگاتے تھے۔ میں وہاں آنے والے لوگوں
کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ ان سب کی گاڑیاں اور حلیے دیکھ کر میں یہ سوچنے
لگا کہ اتنے امیر لوگوں کو کیا مسائل ہو سکتے ہیں۔ ہر ایک کے ہاتھ میں
تسبیح نظر آئی۔ جسے وہ مسلسل کر رہا تھا۔ لوگوں کے بیٹھنے کے لیے کرسیاں
رکھی تھیں۔ ایک اسسٹنٹ لوگوں کو باری باری اندر بھیجتا۔ اندر کا کوئی ٹائم
فکس نہیں تھا کوئی پندرہ منٹ لگاتا تو کوئی پندرہ سیکنڈ میں باہر آ جاتا۔
میرا حلیہ اور لباس اتنا معمولی تھا، کہ سب لوگوں نے عجیب نظروں سے دیکھا،
جیسے میں کوئی جانور ہوں۔
پتا نہیں اسسٹنٹ لوگوں کو کس حساب سے اندر بھیجا جا رہا تھا۔ میرے بعد میں
آنے والے بھی اندر چلے گئے۔ میں صبح سے شام تک وہاں انتظار کرتا رہا۔ جب سب
لوگ چلے گئے تو پھر میری باری آئی۔ مجھے اندر بھیجتے ہوئے نوجوان اسسٹنٹ کے
چہرے پر عجیب سی بیزاری تھی۔ اندر کا ماحول ایسا تھا، جیسے کسی بہت بڑے
افسر کا کمرہ ہو۔
بابا جی ایک بہت بڑی میز کے پیچھے بیٹھے تھے۔ انھیں دیکھ کر میں چونکا۔۔
میں سمجھا کوئی سفید داڑھی اور جبے کلے والے بزرگ ہوں گے۔ یہ تو کلین شیو
اور پینٹ کوٹ پہنے ہوئے تھے۔ ان کی عمر کوئی ستر کے لگ بھگ ہو گی۔ آنکھوں
میں چمک اور چہرے پر تازگی۔ میں نے بڑے مؤدبانہ انداز سے انھیں سلام کیا جس
کا انھوں میں بے رخی سے جواب دیا۔
انھوں نے مجھے بیٹھنے کے لیے نہیں کہا۔ اسی لیے میں نے کھڑے کھڑے ہی اپنا
نام اور مدعا بیان کیا۔ بابا جی نے اپنی تسبیح پھیرتے ہوئے آنکھیں بند کیں۔
کچھ دیر بعد خود کلامی کے انداز میں بولنے لگے۔
انھوں نے مجھے میرے بارے میں کچھ موٹی موٹی باتیں بتائیں۔ تو میں بہت متاثر
ہوا کہ بابا جی کو تو سب کچھ معلوم ہے۔ بابا جی ہر بات ڈھکے چھپے انداز میں
کرتے۔ جس کی مکمل سمجھ ہی نہ آتی۔ انھوں نے مجھے پڑھنے کے لیے کافی لمبی
چوڑی تسبیح بتا دی۔
میں ان سے بہت کچھ پوچھنا چاہا لیکن بابا جی کے اسسٹنٹ نے پیچھے سے آ کر
مجھے ملاقات ختم کرنے کا حکم دیا۔ مجھے ابھی اندر گئے ہوئے ایک منٹ ہی ہوا
تھا۔ مجھے شدید تشنگی محسوس ہوئی۔
واپس آ کر میں نے بابا جی کی بتائی ہوئی باتوں کو سوچنا شروع کیا۔ مجھے
بابا جی کی باتوں سے تھوڑی تسلی ہوئی۔ میں نے بابا جی کا بتایا ہوا ذکر با
قاعدگی سے کرنا شروع کیا۔ ایسا لگنے لگا کہ بس کچھ ہی عرصہ میں میری روحانی
منزمل کھل جائے گی۔ میں ہر وقت اپنے آپ کو عبادات اور ذکر ازکار میں مصروف
رکھتا۔ میری زبان پر ہر وقت ذکر اور میری سوچ میں صرف اللہ کاہی خیال رہتا۔
میں نے اللہ کو محبوب حقیقی کے طور پر یاد کرنا شروع کیا۔ مجھے ہر شعر کا
حقیقی مفہوم سمجھ آتا۔ میں نے یہ جان لیا: خدا ہی محبوب حقیقی ہے۔ ساری
محبتیں اور چاہتیں اسی کے لیے ہونی چاہئیں۔ بازاری گانوں کو سن کر بھی خدا
ہی یاد آتا۔
تیرا میرا رشتہ ہے کیسا اک پل دور گوارا نہیں
تیرے لیے ہر روز ہیں جیتے تجھ کو دیا میرا وقت سبھی
کوئی لمحہ میرا نہ ہو تیرے بنا، ہر سانس پہ نام تیرا
کیوں تم ہی ہو، اب تم ہی ہو، زندگی اب تم ہی ہو
ایک سال گزر گیا۔ میرے اندر کوئی تبدیلی نہ آئی۔ میری زندگی ویسی ہی رہی۔
نہ اندر کا خلا ختم ہوا اور نہ ہی باہر کی زندگی میں کوئی تبدیلی آئی۔ میں
یہ سوچنے لگا کہ شاید میں ہی کوئی چیز غلط کر رہا ہوں۔ میں نے سوچا کہ بابا
جی سے ہدایت لینے دوبارہ جاتا ہوں۔ اس بار پھر کافی رش تھا، جیسے ساری دنیا
ہی روحانی مسائل کا شکار ہو۔
چلو میرے جیسے غریب بے گھر انسان کو تو مسائل ہو سکتے ہیں ان بڑے لوگوں کو
کیا تکلیف ہے۔ مجھے بابا جی کے پاس جانا تو اچھا لگتا۔ پر وہاں آئے لوگ
اپنی نظروں سے مجھے دفع ہو جانے کا اشارہ کرتے۔ میں ان نظروں کو اگنور کرنے
کی پوری کوشش کرتا۔
اس بار میری باری جلدی آئی، مگر یہ کیا۔۔
بابا جی نے مجھے اس طرح دیکھا جیسے میں پہلی بار آیا ہوں۔ انھیں جیسے اس
بات کا بھی علم ہی نہ ہو کہ میں پچھلے ایک سال سے کتنے خشوع و خضوع سے ذکر
کر رہا ہوں۔
میں نے انھیں روحانی اور مادی مسائل بتائے۔ بابا جی نے حکم دیا: بزنس
ایڈمنسٹریشن میں ماسٹر کر لو تو سارے معاملات ٹھیک ہو جائیں گے۔ ساتھ ساتھ
یہ ذکر جاری رکھو۔
اس بار بھی بابا جی کے اسسٹنٹ نے مجھے ایک منٹ کے بعد باہر نکال دیا۔
یہ کیا بات ہوئی، باقی لوگوں کے لیے آدھا گھنٹہ اور میری بات بھی مکمل نہیں
ہونے دی جاتی۔
میں نے واپس آ کر کچھ دن کے بعد بزنس ایڈمنسٹریشن میں داخلہ لے لیا۔ میری
زندگی میں تھوڑی مصروفیات بڑھ گئیں۔ دن میں دکان اور شام میں یونیورسٹی اور
ساتھ میں اتنا ڈھیر سارا وظیفہ۔ میں کسی بات سے مایوس نہیں ہوا۔
میں نے عہد کیا: اللہ کی یاد کو کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ میری ذہن پر صرف اور
صرف ایک خیال چھایا رہتا۔ میرے ہونٹ ہلتے رہتے اور میں اپنے ہی اندر ڈوبتا
جاتا۔ لیکن سال گزرنے کے ساتھ ساتھ میرے اندر کوئی تبدیلی نہ آئی۔
کیا میرے اندر کوئی خرابی ہے؟
میں ہر کچھ عرصے کے بعد بابا جی کے بعد ملنے کی کوشش کرتا، پر ان سے ملاقات
نہ ہوپاتی۔ ان کا اسسٹنٹ ہمیشہ کہتا، وہ کسی بڑی شخصیت کے ساتھ میٹنگ میں
ہیں۔
یہ بڑی شخصیات مشہور صحافی، سیاست دان، جرنیل، اور بزنس مین ہوتیں۔ یہ لوگ
اپنی بڑی بڑی گاڑیوں میں بابا جی کو ملنے آتے۔ تحفے تحائف بھی لے کر آتے۔
میرے دل میں بابا جی کی عظمت کم نہ ہوتی۔ میں یہی سمجھتا: بابا جی ایک
حقیقی ولی اللہ ہیں جو دنیا کو چھوڑ چکے ہیں۔ وہ ان بڑے لوگوں سے بھی اسی
لیے ملتے ہیں تاکہ انھی بھی دین کا پیغامد ے سکیں۔ میں گھنٹوں باہر بیٹھا
میٹنگ ختم ہونے کا انتظار کرتا، جیسے ہی میٹنگ ختم ہوتی بابا جی گاڑی میں
بیٹھ کر چلے جاتے۔ میں دور کھڑا تکتا رہتا۔
مجھے شدید ذلت اور دھتکارے جانے کا احساس ہوتا۔
کبھی مختصر سی ملاقات ہوبھی جاتی، تو بابا جی میرے سوالوں کا جواب دینے کے
بجائے دوبارہ سے وہی تسبیح پڑھنے کو دے دیتے۔ میں انھیں بتانے کی کوشش
کرتا: میں نے اسم اعظم سوا کروڑ بار پڑھ لیا ہے لیکن میرے اندر تبدیلی نہیں
آ رہی۔۔
مجھے بتائیں کے میری اندر خرابی ہے یا میری تسبیح پڑھنے میں۔
بابا جی کسی بات کا سیدھا جواب نہ دیتے۔ ان سے ہر ملاقات کے بعد میں زیادہ
شدت سے ذکر ازکا رشروع کر دیتا۔ شاید اب کچھ تبدیلی آ جائے اور میرے اندر
کی آنکھ کھل جائے۔
اب میں نے سوچنا شروع کیا کہ بابا جی کے علاوہ بھی تو اللہ کے ولی ہوں گے۔۔
انھیں بھی تو ڈھونڈنا چاہیے۔ اردو ناول نگاروں اور صحافیوں کو ہر وقت بابے
ملتے ہیں، مجھے کیوں نہیں ملتے؟
ایک بندے سے ایک اور بابا جی کا پتا چلا جو بہت بڑے صاحب کشف و کرامت ہیں۔
وہ بندے کو دیکھتے ہی اس کے مسائل جان لیتے ہیں۔ ان کی ایک دعا سے سارے
مسئلے حل ہو جاتے ہیں۔
میں ان کے پاس پہنچ گیا۔ یہاں بھی گاڑیوں کی لائن اور امیر لوگوں کی بہتات
نظر آئی۔ یہ روحانی دنیا پر بھی امیر لوگوں کا ہی قبضہ ہے۔ میرے جیسے
غریبوں کے لیے تو روحانی دنیا کے دروازے بھی بند تھے۔ خیر یہاں بھی گھنٹوں
انتظار کے بعد باری آئی تو اندر ایک بیوروکریٹ نما صوفی کو بیٹھے دیکھا۔
ان کے چہرے ہر غصہ ان کی جلالی طبیعت کو ظاہر کرتا تھا۔ بابا جی نے بھی
سلام کا جواب نہ دیا اور نہ ہی بیٹھنے کو کہا۔ میں تھوڑی دیر خاموش رہا کہ
شاید بابا جی میری شکل دیکھ کر ہی میرے سارے مسائل کو سمجھ کر شفقت فرمائیں
گے۔
کچھ دیر گزری تو بابا جی نے کہا
ہاں جی کیوں آئے ہو؟ مجھے ان کے لہجے کی سختی اور حقارت بہت چھبی۔
بس شاہ جی حاضری دینے آیا ہوں۔ باقی باتیں آپ جانتے ہی ہیں
نام بتاؤ اور مسئلہ کیا ہے؟
میں پریشان ہوا! بابا جی تو شکل دیکھتے ہی مسئلہ سمجھ جاتے ہیں۔ اب میں
انھیں کیا بتاؤں کہ میرے اندر کی آنکھ کھول دیں۔
بس بابا جی زندگی ساری ہی مسئلوں سے بھری ہوئی ہے کیا بتاؤں۔
اوے نام کیا ہے تمھارا؟ بابا جی نے غصے اور بیزاری سے کہا۔
میں پریشان ہوا۔۔
میں نے اپنا نام بتایا تو انھوں نے پوچھا کہ میں نے تعلیم کتنی حاصل کی ہے؟
بابا جی نے تو انٹرویو ہی شروع کر دیا ہے۔
جی میں بزنس ایڈمنسٹریشن کی تعلیم حاصل کر رہا ہوں۔
انھوں نے آنکھیں بند کر کے کشف لگایا۔
تمھارے لیے بزنس ایڈمنسٹریشن ٹھیک نہیں ہے تمھیں انگلش میں ماسڑ کر کے
ٹیچنگ کرنی چاہیے۔
مجھے حیرت کا جھٹکا لگا۔۔
ایک بابا جی نے کشف سے یہ بتایا کہ مجھے بزنس ایڈمنسٹریشن کرنا چاہیے۔
دوسرے نے کہا انگلش میں ماسڑ کرو۔ اگر دونوں ہی ٹھیک ہیں تو پھر میں کیا
کروں؟ کیا بزنس ایڈمنسٹریشن ادھورا چھوڑ کر انگلش میں ماسٹر شروع کر دوں۔
بابا جی نے بھی مجھے پڑھنے کے لیے کئی وظائف دیے۔ جو میں نے اپنی روٹین میں
شامل کر لیے۔
میں نے ان بابا جی کے دربار پر بھی کئی بار حاضری دی۔ ہر بار وہ پہلے سے
زیادہ غصے میں ہوتے۔
میں نے دیکھا کسی بھی امیر بندے کے ساتھ غصے والا رویہ نہ رکھا جاتا۔ اسی
لیے کئی صحافی اخبار کے کالموں میں بابا جی کے اچھے اخلاق کی تعریفیں کرتے۔
انھیں بڑی عزت سے بٹھایا جاتا ان کے مسئلے کو بڑے دھیان سے سنا جاتا اور
پھر تبرک کے طور پر چیزیں دی جاتیں۔
میری باری آتی تو بابا جی کیا، دروازے پر کھڑا اسسٹنٹ بھی بیزرا دکھائی
دیتا۔ تین چار ملاقاتوں کے بعد میں ان بابا جی کے پاس جانا چھوڑ دیا کہ
کہیں اپنے جلال میں مجھے جلا کر بھسم ہی نہ کر دیں۔
بابوں کی تلاش میں کئی شہروں اور مزاروں کی بھی خواری کاٹی۔ ایک بابا جی کا
سنا جنھوں نے اپنی آپ بیتی میں دعوی کیا کہ ان کے پاس اسم اعظم ہے۔ ان کو
فون کیا کہ روحانیت کے معاملے میں رہنمائی کریں۔ جواب ملا:
او جاہل انسان !۔۔ میرا قیمتی وقت ضائع نہ کر، پہلے میری شہرہ آفاق کتاب
خرید کر پڑھ۔
میں نے فوراً بابا جی کی کتاب پڑھی۔ اس میں بابا جی نے اپنی ایسی ایسی کشف
و کرامات لکھیں کہ یقین ہو گیا کہ ان سے بڑا ولی اللہ کوئی نہیں ہے۔ کتاب
پڑھنے کے بعد بابا جی سے ملاقات کی کوشش شروع کر دی۔ پر بابا جی ہاتھ ہی نہ
پکڑاتے۔ کئی مہینوں کی کوشش کے بعد بابا جی نے لاہور میں اپنے گھر پر آنے
کو کہا۔ کئی گھنٹوں کا سفر کر کے جب لاہور پہنچا تو بابا جی نے ملاقات سے
انکار کر دیا اور وجہ بھی نہیں بتائی۔
پانچ سال گزر گئے۔ ذکر اور وظائف کا سلسلہ جاری رہا۔ تعلیم بھی مکمل ہو
گئی۔ مگر زندگی میں کوئی تبدیلی نہ آئی۔ وہی دکان کی نوکری، اندر وہی خالی
پن۔ میں پہلے والے بابا جی کے پاس پہنچا، تاکہ ان سے آگے کی رہنمائی لوں۔
بابا جی اس بار بھی بہت ہی مشکل سے ملے۔
پہلے تو پہچانے نہیں، پھر ذکر ازکار کے معاملے میں وہی گول مول باتیں کرنا
شروع کیں۔ انھیں معلوم ہی نہ ہوا کہ میں کروڑوں مرتبہ پابندی سے درود شریف
اور اسم اعظم پڑھ چکا ہوں۔
بابا جی میں نے بزنس ایڈمنسٹریشن میں ماسٹر کر لیا ہے اب آگے کی رہنمائی
کریں۔
یہ کرنے کا تمھیں کس نے کہا تھا؟ یہ تو بالکل بھی تمھارے مزاج کے مطابق
نہیں ہے۔
ایک بجلی گری۔
لیکن۔ ۔
آپ ہی نے تو۔ ۔ ۔ میری زبان رک سی گئی۔
اس سے پہلے کے میں ان سے کچھ کہتا ان کا اسسٹنٹ مجھے اٹھانے آ گیا اس دن
میں اٹھنے کے موڈ میں نہیں تھا، میں نے اسسٹنٹ کا ہاتھ جھٹک دیا۔
بابا جی یہ کیا بات ہوئی، پانچ سال بعد آپ مجھے کہہ رہے ہیں کہ بزنس
ایڈمنسٹریشن میں ماسٹر کرنے کا کس نے کہا تھا۔
آپ۔۔ آپ نے ہی مجھے ایسا کرنے کو کہا تھا۔
بابا جی نے میرا احتجاج سنا ان سنا کر دیا۔
ان کا اسسٹنٹ مجھے زبردستی اٹھانے کے لیے آگے بڑھا۔
بابا جی یہ کیا ڈرامہ ہے، یہ کیسا کشف ہے جہاں آپ کو یہ بھی نہیں پتا: میں
کتنے سالوں سے راہ حق کا مسافر ہوں۔
آج مجھے جواب چاہیے، یہ کیا مذاق ہے کہ ہر بار زبردستی اٹھا دیا جاتا ہوں۔
کبھی تو میرے سوالوں کا جواب دیں۔ میرے اندر کا غصے باہر نکل آیا۔ میری
آواز اونچی ہو گئی۔
میں کچھ اور بھی کہنا چاہتا تھا۔ مگر اس سے پہلے میری منہ پر ایک زور دار
گھونسا پڑا۔ میں منہ کے بل نیچے گر پڑا۔ پھر دو بندوں نے مجھے لاتوں اور
مکوں سے مارنا شروع کر دیا۔ یہ سب اتنی جلدی ہوا کہ مجھے کچھ سوچنے سمجھنے
کا ٹائم نہ ملا۔ بابا جی خاموشی سے تسبیح کرتے رہے۔ ان کے چہرے پر کوئی
تاثر نظر نہ آیا۔ میرے ناک سے خون نکلنے لگا اور پسلیوں کے ٹوٹنے کا احساس
ہوا۔
مجھے یہ سزا بابا جی کے دربار میں گستاخی پر دی گئی۔ جب وہ مجھے مار مار کر
تھک گئے تو لوگوں سے چھپ چھپا کر پچھلے دروازے سے باہر لے جا کر گھر سے دور
ایک ویران جگہ پر پھینک دیا۔
کافی دیر نیم بیہوشی میں رہنے کے بعد میں آہستہ آہستہ اٹھا اور قریب موجود
بیچ پر بیٹھ گیا۔
اس دن کئی سالوں بعد میں پھوٹ پھوٹ کر رویا۔
دکھ اس بات کا نہیں تھا کہ بابا جی نے جلال دکھاتے ہوئے میرا پٹائی کروائی۔
اس دن ساری امیدیں دم توڑ گئیں۔
میرا ایمان مجھ سے چھن گیا۔
مجھے اپنے ایمان کے ختم ہونے کا بہت دکھ ہوا۔ اس دن میرے اندر پوری کائنات
کا خلا سما گیا۔ ایک ایسا خلا جو کائنات کی طرح پھیلتا ہی جاتا ہے۔ ایسی
کائنات جس کا کوئی خدا نہیں ہے۔ جو خود بخود پیدا ہوئی ہوئی اور خودبخود
قائم ہے۔
خدا کے خیال سے محروم ہونا ایک کرب انگیز تجربہ ہوتا ہے۔ ایک لمحہ آپ کے
سینے میں خدا کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے۔ اگلے ہی لمحے آپ کا سینہ خالی
ہو جاتا ہے۔ آپ کے اندر ایک لامتناہی خلا پیدا ہو جاتا ہے۔ پھر کوئی دلیل
آپ کو خدا کے بارے میں قائل نہیں کر سکتی۔
اس بے مقصد زندگی کے کھیل بھی نرالے ہیں میرا خدا اسی جگہ چھنا جہاں میں
اسے ڈھونڈنے گیا تھا۔
دادا انقلاب کی خاطر محبت کو روتا چھوڑ آئے، ابا ناکام زندگی کے بعد نشہ
کرنے لگے، اماں میری تصویر دیکھ کر روتی تھیں، عنبر نے محبت میں ناکامی کے
بعد اپنی نسیں کاٹ لیں، چچی عنبر کی یاد میں پاگل ہو گئیں۔ چچا سوتیلی بیٹی
کے غم میں قیدیوں کو مارتے رہتے، گلاب خان نابینا آنکھوں سے اپنی دکان تلاش
کرتا، شنو رونق بازار بن گئی اور میں سالوں خدا کو ڈھونڈنے کے بعد اس سے
محروم ہو گیا۔
اس دن کے واقعات نے میرے اندر بہت سی چیزیں ہمیشہ کے لیے تبدیل کر دیں۔ میں
نے فیصلہ کیا اب کسی کے آگے سر نہیں جھکاؤں گا، چاہے اس میں زندگی برباد ہو
جائے۔
کسی وہم، جادو ٹونے اور روحانی بات کو نہیں مانوں گا
کسی سے نہیں پوچھوں گا میں نے کرنا کیا ہے بلکہ اپنا مقدر خود بناؤں گا۔
اپنے اندر کے خلا اور زندگی کی بے مقصدیت کو حقیقت مان کر زندگی گزاروں گا۔
اس دن کے بعد میں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ اور ایک کے بعد ایک کامیابی
میرے قدم چومتی گئی۔ میں کئی سال تک روحانی بابوں کے پیچھے لگا رہا کہ یہ
مجھے بتائیں گے کہ میرا مقدر کیا ہے جبکہ میرا مقدر تو ہر وقت میرے اپنے
ہاتھ میں تھا۔
ہر طرح کی پابندی صرف کمزور لوگوں کے لیے ہے۔ طاقت ور انسان کو کسی چیز کا
لحاظ نہیں ہوتا۔ جب آپ کے پاس پیسہ اور طاقت ہو تو یہ مذہبی و روحانی لوگوں
کو خود بخود آپ کے قریب ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔
کئی سال بعد وہی بابے مجھے وقت دینے کو تیار رہتے۔ مجھے خاص روحانی محفلوں
میں شرکت کی دعوتیں ملتیں۔ اب مجھے ان چیزوں میں کوئی کشش نہیں رہی۔
میں نے بابا جی اور ان کے کارندوں سے اس شام کی پٹائی کا بدلہ نہیں لیا۔
کیونکہ میرے نزدیک یہ میرے محسن ہیں جنھوں نے میری پٹائی کر کے عقیدت اور
جہالت کا جن میرے اندر سے نکال دیا۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو میں باقی عوام
کی طرح ساری زندگی ان کے قدموں میں بیٹھا خدا کو ڈھونڈ رہا ہوتا۔
|