بے قراری سی بے قراری ہے (قسط نمبر ١٩)

بے قراری سی بے قراری ایک سماجی رومانوی و روحانی ناول ہے جس کی کہانی بنیادی طور پر دو کرداروں کے ارد گرد گھومتی ہے۔ عبیر جو ایک فیشن ڈیزائنر ہے اور اسلامی فیشن میں کچھ نیا کرنا چاہتی ہے۔ تیمور درانی جو ایک ملحد ہے جس کے خیال میں محبت اور زندگی بے معنی ہے۔

مجھے اتفاق اور اپنی محنت سے پیسہ، طاقت اور عزت مل گئی۔ پر میری زندگی کی بے معنویت اور خلا بہت بڑھ گیا۔ میں غربت میں بھی اتنا ہی خالی تھا، جتنا پیسہ آنے کے بعد خالی ہوں۔ مجھے اپنے انسان ہونے کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ مجھے کسی کامیابی پر خوشی نہیں ہوتی۔ کسی چیز کے چھن جانے پر دکھ نہیں ہوتا۔ کوئی چیز خالص اور پاکیزہ نہیں لگتی۔ کسی شخص، جگہ، یا چیز سے تعلق ہی محسوس نہیں ہوتا۔ میں ایک رو بوٹ کی طرح ہر کام کرتا اور کامیاب ہوتا جاتا۔
لیکن یہ کامیابی اور ناکامی کس لیے ہے۔ ڈاکٹروں اور سائیکیٹرسٹس اس کی کوئی تشخیص نہیں کرپاتے۔ ایک مذہبی سے سائکیٹریسٹ کو جب یہ پتا چلا کہ میں ملحد ہوں تو اس نے کہا کہ میری بیماری کا تعلق جسم سے نہیں ہے بلکہ روح سے ہے۔
یہ سائیکٹرسٹ مجھے کسی عقل مند الو کی طرح لگتا تھا۔
تیمور میرا خیال ہے تم اگر دل سے خدا کو مان لو تو تمھاری یہ بیماری ٹھیک ہو سکتی ہے۔
میں نے بڑی حیرانی سے اس سائیکیٹرسٹ کو دیکھا جو امریکہ سے پڑھے ہونے کے باوجود ایسی دقیانوسی باتیں کر رہا ہے۔ کیا اس کی تعلیم اسے یہ نہیں بتاتی کہ مادے سے آگے کوئی چیز وجود نہیں رکھتی۔
اشفاق صاحب میں نے کئی سال خدا کو سچے دل سے ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے۔ بابوں کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق دل کی گہرائیوں سے کروڑوں مرتبہ خدا کو پکارا ہے۔ مجھے کچھ محسوس نہ ہوا۔
میرے اور خدا کی تلاش کے درمیاں تو مولوی اور بابے خود آ کر کھڑے ہو گئے۔ انھیں دیکھ کر مجھے یقین ہو گیا کہ خدا موجود نہیں ہے
ادھیڑ عمر سائکیٹرسٹ میری بات سن کر مسکرایا
نئے دیوانوں کو دیکھیں تو خوشی ہوتی ہے
ہم بھی ایسے ہی تھے جب آئے تھے ویرانے میں
تیمور! کیا تم نے خدا کو صرف اس لیے چھوڑ دیا کہ اس کے نام پر لوگوں نے مذہب و روحانیت کا کاروبار چلایا ہوا ہے؟ سائیکریٹرسٹ نے ہمدردانہ لہجے میں پوچھا۔
ہاں ! یہ وجہ بھی ہے۔ زیادہ مسئلہ اندر کا ہے۔ مجھے اپنے اندر کبھی بھی خدا کے ساتھ کوئی تعلق محسوس نہیں ہوا۔ اسے کروڑوں مرتبہ پکارنے کے باوجود رائی برابر بھی اس کا قرب نہیں ملا۔
مجھے اپنے ارد گرد صرف ظلم، دکھ اور پریشانیاں ہی نظر آتیں ہیں۔ میں یہ سوچتا ہوں کہ خدا اتنا رحم دل ہونے کے باوجود اس ظلم کو کیوں نہیں روکتا۔ اکثرلوگ اپنے دل میں خدا کے ساتھ ایک مضبوط تعلق محسوس کرتے ہیں۔ وہ خدا سے اپنا دکھ درد شئیر کرتے ہیں۔ وہ اس سے دعائیں مانگتے ہیں اس سے شکوے کرتے ہیں۔ میں نے کبھی اتنا مضبوط تعلق محسوس نہیں کیا۔۔
مجھے اپنے اندر صرف ایک خلا محسوس ہوتا ہے جیسے میں صرف خول ہوں اور اندر کچھ نہیں ہے۔
تیمور میرے خیال سے تمھیں اپنے تمام رشتوں سے ہمیشہ دھوکہ ملا ہے اسی لیے تم خدا سمیت کسی سے بھی کوئی تعلق محسوس نہیں کرتے۔
شاید ایسا ہی ہو۔ تو کیا آپ کہنا چاہتے ہیں میرے الحاد کی بنیادیں عقلی نہیں جذباتی ہیں۔
تیمور ہماری جدید ریسرچ تو یہی کہتی ہے کہ عقل جذبات کی لونڈی ہوتی ہے۔
میں آپ کے علم سے اختلاف نہیں کر سکتا۔ مگر میں نے کئی سال خدا کو ماننے کی سنجیدہ کوشش کی ہے۔ اس وقت بھی میرے اندر کا خلا ختم نہیں ہوا۔ شاید آپ کہہ سکتے ہیں میرا ایمان اتنا مضبوط نہیں تھا۔
تیمور میں کسی حد تک تمھاری بات سمجھ سکتا ہوں کیوں کہ جوانی میں کئی سال میں بھی خدا کے وجود کا منکر رہا ہوں۔ تمھیں خالی پن محسوس ہوتا ہے مجھے بے چینی محسوس ہوتی تھی۔
لیکن پھر اللہ کے فضل سے یہ کفر ٹوٹا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میں کئی سال تک اپنے اندر بے چینی محسوس کرتا رہا
(سائیکیٹرسٹ اشفاق نے خدا کو کیسے کھویا اور پایا)
میری ساری تربیت مذہبی ماحول میں ہوئی، اسی لیے میں بہت کٹر مذہبی تھا۔ میں نے کبھی نماز روزہ نہیں چھوڑا، روزانہ قرآن پاک کی تلاوت اور ترجمہ پڑھتا۔ میں بچپن اور نوجوانی میں ان تمام فضول حرکتوں سے باز رہا، جن میں میری عمر کے سارے لوگ مشغول رہتے۔ میں نے بہت چھوٹی عمر سے ہی ڈاکٹر بن کر انسانیت کی خدمت کا فیصلہ کیا۔
میرے والد یونیورسٹی میں اردو کے استاد تھے اور والدہ گائیناکالوجسٹ۔ میں نے اپنی زندگی میں اپنی والدہ سے زیادہ اچھے رحم دل اور اچھے اخلاق والی خاتون نہیں دیکھیں۔ وہ اپنے پیشے کو انسانیت کی خدمت سمجھ کر کرتیں۔ کبھی کبھی تو چوبیس گھنٹے بھی ڈیوٹی پر رہتیں۔ اپنی ساری مصروفیت کے باوجود وہ عبادتوں میں کبھی کوتاہی نہ کرتیں۔ اپنی تنخواہ سے غریبوں کی چھپ چھپ کر مدد کرتی رہتیں۔
میرے والد جوانی میں اتنے مذہبی نہیں تھے لیکن میری والدہ کے ساتھ رہ کر ان میں بھی تبدیلی آ گئی۔ میں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھا۔ میری پیدائش کے وقت جو کملیکیشنز آئیں اس کے بعد میری والدہ کے ہاں دوسری اولاد نہیں ہوئی۔ اس کمی پر بھی میری والدہ نے کبھی شکوہ شکایت نہیں کی۔ انھوں نے میرے والد سے کہا کہ وہ مزید اولاد کے لیے دوسری شادی کرنا چاہتے ہیں تو خوشی سے کر لیں۔ والد صاحب نے ایسا نہ کیا۔
میں نے اپنی اپنی والدہ سے انسپائر ہو کر ڈاکٹر بننے کا خواب دیکھا۔ ہر امتحان میں کامیابی حاصل کی اور کنگ ایڈورڈ سے ایم بی بی ایس کر لیا۔ یونیورسٹی کے دوران میرا شوق سائیکیٹری کی طرف ہوا۔ میں نے اس شعبہ میں مزید تعلیم حاصل کرنے کا سوچا۔ میری والدہ نے مجھے سپانسر کیا اور میں امریکہ چلا گیا۔
جیسے جیسے اپنی فیلڈ کا علم حاصل کرتا گیا، میرا ایمان کمزور ہونے لگا۔ سائکیٹری فیلڈ ہی ایسی ہے انسانی دماغ اور نفسیات میں جتنا گھستے جاؤ ہمارے ارد گرد پھیلی توہمات سے دل اٹھ جاتا ہے۔ انسان بہت عقلی ہو جاتا ہے۔ ایک سٹڈی کے مطابق سب سے زیادہ ایتھسٹ بننے کا رجحان سائیکیٹرسٹ اور رائٹرز میں ہوتا ہے۔
میں ہر چیز کو سائنس کے پیمانے سے دیکھنے لگا۔ سائنس نے مذہب اور خدا پر جو اعتراضات اٹھائے وہ مجھے صحیح لگے۔ میرا دنیا دیکھنے کا زاویہ اور زندگی کا مقصد بھی تبدیل ہو گیا۔ اب میں انسانیت کی خدمت کے بجائے صرف پیسہ کمانا چاہتا تھا۔ میرے لیے صرف اپنی خوشیوں کی اہمیت رہ گئی۔ میں نے مذہب و اخلاقیات کی ساری حدیں پا رکرنا شروع کر دیں۔ میں ہر رات آفس سے تھکا گھر آتا اور شراب کے نشے میں دھت ہو جاتا۔ میری زندگی میں کئی لڑکیاں آئی گئیں لیکن کسی سے محبت نہیں ہوئی۔
کچھ سال امریکہ میں پریکٹس کرنے کے بعد میں وہاں کی زندگی کی تیزی اور بے معنویت سے تنگ آ گیا۔ مجھے اپنی آزادی بھی چھبنے لگی۔ میرے والدین بوڑھے ہو گئے۔ وہ اصرار کرتے میں پاکستان واپس آ کرشادی کروں اور گھر بساؤں۔ وہ بڑھاپے میں اپنے پوتے پوتیوں کو کھلانا چاہتے تھے۔ خاص طور پر میری والدہ بہت اصرار کرتیں۔ وہ کئی بار میرے پاس امریکہ آئیں۔ میری تنہائی اور الحاد دیکھ کر پریشان ہو جاتیں۔ پر ان کی محبت میں کوئی فرق نہیں آیا۔ کہتیں جوانی میں اکثر لوگ مذہب سے بغاوت کرتے ہیں، لیکنعمر گزرنے کے ساتھ سب ٹھیک ہو جاتے ہیں۔
میں ان کے بے حد اصرار پر پاکستان آ گیا۔ یہاں بھی میرا دل نہ لگا۔ پتا نہیں مجھے کس چیز کی تلاش تھی۔ میں نے ڈیفنس میں اپنی پریکٹس شروع کی۔ جلد ہی میرا کام زور و شور سے چل پڑا۔ میرے سارے کلائنٹس بہت امیر ہوتے جو پرائیوسی کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ امیر لوگوں میں ڈرگز اور ورک لوڈ کی وجہ سے ذہنی مسائل زیادہ ہوتے ہیں۔ میری والدہ مجھے رشتے کے لیے لڑکیاں دکھاتی رہتیں۔ ساری الیٹ فیملیز سے ہو تیں مگر میر ادل کسی پر بھی نہ آتا۔
مہینے اور سال گزرتے گئے۔ میرے اندر بھی کچھ عجیب سی بیچینی تھی جو مجھے کسی بھی حال میں خوش نہ رہنے دیتی۔
کسی این جی او نے کچی بستی میں ذہنی مسائل کے حل کے لیے فری کیمپ لگایا۔ میں ایسے کاموں سے دور ہی رہتا تھا۔ میری والدہ نے مجھے زبردستی حکم دیا کہ وہاں جاؤں اور پورا ہفتہ غریبوں کا مفت علاج کروں۔ میں نے سوچا، چلو کچھ تبدیلی آباو ہوا ہی ہو جائے گی۔ اب والدہ کو کیا ناراض کروں۔ میں نے اپنی ساری اپوائنٹ منٹس آگے کیں اور چل پڑا۔
وہاں زیادہ تر ایسے لوگ تھے جو نشے کی وجہ سے ذہنی مسائل کا شکار ہوئے۔ مجھے پہلے تو ان لوگوں سے آلکس آئی۔ بعد میں احساس ہوا یہ لوگ اتنے برے بھی نہیں ہیں بس حالات کے ستائے ہوئے ہیں۔ ان لوگوں کی زندگی دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔ وہ لوگ روٹی کپڑا اور مکان کو ترستے۔ ان کے بیمار بغیر علاج کے ہی مر جاتے۔ میں نے ایک ہفتے کے بجائے دو ہفتے وہاں لگائے۔ کئی لوگوں کو ری ہیبی لیٹیشن سینٹر میں داخل کروا یا۔ کئی عورتوں کو بتایا کہ ان کے اندر کوئی جن نہیں ہے۔ نہ ہی کسی نے ان پر جادو کیا ہے۔
آخری شام میں اکیلا بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا۔ ایک دبلا پتلا بوڑھا شخص اندر آیا۔ اس کے کپڑے میلے تو نہیں پر بہت پرانے تھے۔ اس کی شخصیت میں کوئی بھی خاص بات نظر نہیں آئی۔ میں نے یہی سمجھا کہ کوئی مریض ہے۔ ایسے بوڑھوں کو گھر والے سٹھیا یا ہوا سمجھتے ہیں۔ ان کی سوچ بھی پرانی ہو جاتی ہے اور مزاج میں چڑچڑاپن آ جاتا ہے۔ انھیں غصے اسی بات کا ہوتا ہے، کہان کے پیاروں نے انھیں اہمیت دینا چھوڑ دی ہے۔ اور اب ان کی زندگی کسی کام کی نہیں ہے۔
میں نے اس بابے کو غور سے دیکھا اور کچھ سوالات کیے۔ اس نے کسی بات کا جواب نہیں دیا اور مجھے خاموشی سے دیکھتا رہا۔ میں نے اسسٹنت کو آواز دی کے دیکھے اس بابے کے ساتھ کوئی آیا ہے کہ نہیں۔
معلوم ہوا کہ وہ اکیلا ہی ہے۔ میں یہی سمجھا کہ اس بابا جی کا ذہنی توازن بگڑا ہوا ہے۔ اس کی تشخیص کرنی پڑے گی۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کرتا۔ وہ بابا بڑے دھیمے لیجے میں بولا۔
میری بیماری کی تشخیص کرنا چاہتے ہو اور اپنی بیماری کو بھول جا تے ہو۔
میں ٹھٹک گیا۔
لوگوں کی ذہنی بیماری کا علاج کر رہے ہو، پر اپنا علاج نہیں کرپاتے۔ تمھاری یہ تعلیم تمھاری بیچینی کا علاج کیوں نہیں کر دیتی۔
میں نے حیرانگی سے اس پاگل نظر آنے والے بابے کی بات سنی۔۔
پاگل بہت سی باتیں کرتے ہیں جن کا کوئی مطلب نہیں ہوتا۔
اس سے پہلے کہ میں اس کے سوال کا جواب دیتا یا اس سے کچھ پوچھتا۔ اس نے میری ذہنی و جذباتی کیفیت کے بارے میں وہ باتیں بتانا شروع کیں، جو شاید میں خود سے بھی چھپاتا ہوں۔ وہ بے تکان بولتا چلا گیا اور اس کی باتیں میرے ذہن کو کھولتی گئیں۔
مجھے یوں محسوس ہوا، جیسے وہ بہت ہی بڑا سائیکالوجسٹ ہے۔
اشفاق! خدا کوئی سائنسی یا فلسفیانہ مسئلہ نہیں ہے جو اتنی آسانی سے کہ حل ہو جائے۔ یہاں مسئلہ خدا نہیں انسانی ذہن ہے۔
انسان کا ذہن ایسا بنا ہے کہ یہ کبھی بھی موجود پر راضی نہیں ہوتا۔ اسے موجود سے باہر کی تلاش رہتی ہے۔
خدا کی لامتناہیت انسان کے ذہن میں نہیں سما سکتی۔
جس دن انسانی ذہن خدا کے مقابل اپنی لاچارگی مان لیتا ہے اس کے اندر کا انتشار اور کنفیوژن ختم ہوتی ہے۔
خدا کو مانے بغیر انسان کی زندگی میں سکون نہیں آ سکتا۔
یہ زندگی اور پوری کائنات خدا کے بغیر بے معنی ہے۔
اپنے سائنسی دماغ سے کہو: میں بغیر دلیل کے خدا کو مانتا ہوں۔
ہمیشہ امام رازی کے واقعہ کو یاد رکھو۔
امام رازی اور شیطان
امام رازی اسلامی تاریخ کے بڑے اماموں میں سے ایک ہیں۔ ان کی تفسیر کبیر اپنے درجے کی آخری کتاب ہے۔ آج بھی ہر اہل علم اسی کی طرف رجوع کرتا ہے۔ امام صاحب عقلیت پسند ہونے کی وجہ سے دین کو عقل کے پیمانے پر مانتے۔ ان کے پاس خدا کے وجود کی سینکڑوں عقلی دلیلیں تھیں۔ جب ان کی وفات کا وقت آ یا تو شیطان ان کو بہکانے کے لیے آن پہنچا۔ شیطان نے خدا کے بارے میں عقلی شبہات اٹھانا شروع کیے۔ جوابا امام راضی نے خدا کے حق میں عقلی دلیلیں دیں۔
امام صاحب کی ہر عقلی دلیل کو شیطان رد کر دیتا۔ ایک وقت آیا کہ امام صاحب کے پاس خدا کے حق میں دلیلیں ختم ہو گئیں۔ عجیب مشکل وقت پیش آ گیا۔ ساری زندگی جس عقل پر بھروسہ کیا آج وہی دغا دینے لگی۔ ایسے وقت میں انھیں اپنے مرشد کی آواز سنائی دی۔
رازی یہ مزدور عقل کا دام پھیلا کر تجھ سے آخری وقت میں ایمان کی دولت چھیننا چاہتا ہے۔ یہ شیطان بہت عقل مند ہے۔ اس کا انسان کو بہکانے کا صدیوں کا تجربہ ہے۔ اس کا مقابلہ عقل سے نہیں صرف اللہ کی مدد اور اس پر ایمان سے ہی ہو سکتا ہے۔ اس مردود سے کہہ کہ میں خدا کو بغیر دلیل کے مانتا ہوں۔ امام صاحب نے ایسا ہی کیا اور اپنا ایمان بچایا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اشفاق میاں اپنے عقلی دماغ کو بھی یہی کہو: " میں خدا کو بغیر دلیل کے مانتا ہوں "
میرے ساتھ بولو: " میں خدا کو بغیر دلیل کے مانتا ہوں "
میں اسے ایسے ہی مانتا ہوں جیسے ماننے کا حق ہے۔
اپنا عقلی غرور توڑ کر بولو: میں اسے سب سے بڑا مانتا ہوں۔
بولو: اس کے علاوہ کوئی موجود نہیں ہے
بولو: وجود صرف اسے ہی ثابت ہے
اس کی باتیں سن کر میرا اپنے اوپر کنٹرول ختم ہو گیا۔ اس بابے کے الفاظ اور لہجے میں کوئی ایسی بات تھی کہ میرے ارد گرد اور اندر کا موسم تبدیل ہو گیا۔ میرے اندر کی بے چینی اپنے عروج پر چلی گئی۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہوتی محسوس ہوئی۔
میرے منہ سے صرف یہ جملہ نکلا: میں خدا کو بغیر دلیل کے مانتا ہوں۔
یہ الفاظ جیسے ہی میرے منہ سے نکلے میرے سینے میں ٹھنڈک پڑنا شروع ہو گئی۔ یوں جیسے کسی نے برف کی سل میرے سینے پر رکھ دی ہو۔ میری سوچوں کا گنجل پن اور جذبات کی بے چینی بھاپ کی طرح اڑ گئے۔ کئی سال بعد مجھے دنیا کسی اور طرح نظر آنے لگی۔
اس شخص نے میرے اندر ایمان کا ایسا بیج بویا جو ہر گزرتے دن کے ساتھ تناور درخت بنتا گیا۔
الف اللہ تے چنبے دی بوٹی
مرشد من وچ لائی ھو
ایمان کی پہلی سٹیج شک ہوتی ہے۔ انسان ہر بات ہر شک کرتا ہے۔ اپنے ذہن میں چھوٹی چھوٹی دلیلوں سے خدا کو رد کر کے خوش ہوتا ہے۔ اس کا علم جیسے جیسے بڑھتا جاتا ہے اس پر اپنی جہالت واضح ہوتی جاتی ہے۔۔ علم کی ایک خاص سطح پر جا کر اسے کامل ایمان حاصل ہو جاتا ہے جس کے بعد وہ کسی دلیل کو نہیں سنتا۔
وہ دن اور آج کا دن مجھے خدا کے بارے کوئی شبہ نہیں ہوا۔
میں نے خدا کی رضا کے سامنے اپنا سر جھکا لیا۔ وہ مالک کائنات ہے اور ہم حقیر سی مخلوق۔ ہمیں یہ زیب نہیں دیتا کہ اس کے کسی بھی کام پر سوال کریں۔
مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ وہ شخص اسی بستی میں ایک کرائے کے مکان میں رہتا ہے۔ گزر بسر کے لیے پرانی کتابوں کی ایک دکان چلاتا ہے۔ اس کے ماضی کے بارے میں کوئی نہیں جانتا۔ کئی سال پہلے وہ اکیلا اس بستی میں آیا۔ تبھی سے یہیں رہ رہا ہے۔ اس دن کے بعد میں نے انھیں اپنا مرشد تسلیم کر لیا۔ مجھے جب بھی کوئی علمی یا نفسیاتی مسئلہ ہوتا ہے میں ان کے پاس چلا جاتا ہوں۔ نہ جانے وہ میرے بغیر کہے ہی سب سمجھ جاتے ہیں۔ اور اس مسئلے کو حل کر دیتے ہیں۔ میرے نزدیک اس سے بڑی کرامت کوئی نہیں ہو سکتی۔
کئی سالوں سے میں انھیں اسی مکان اور اسی چھوٹی سے دکان میں دیکھ رہا ہوں۔ میں نے کئی بار ڈھکے چھپے ان کی مدد کی کوشش لیکن انھوں نے بڑے واضح انداز میں منع کر دیا۔ میں جب بھی جاتا ہوں چائے پلاتے ہیں یا کھانا کھلاتے ہیں۔ کہتے ہیں کھانا کھلانا اللہ کو بہت پسند ہے، اسی لیے فقیروں نے ہمیشہ لنگر کا انتظام کیا ہے۔ ان کی شفقت دیکھ کر مجھے اپنی والدہ یاد آ جاتی ہیں۔
میں بھی نام نہاد مولویوں اور بابوں سے تنگ ہوں، جن کے دربار میں جاؤ تو مجبوراً احترام کرنا پڑتا ہے، جو چندے اور نذرانے لے کر خوش ہوتے ہیں۔ جو عزت وصول کرنا اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔ جو خدا کا نام استعمال کر کے دنیا میں ایک خدا بنے بیٹھے ہیں۔ جو نام تو میرے پیارے رسولﷺ کا لیتے ہیں لیکن سیرت پاکﷺ کی خاک تک بھی نہیں پہنچتے۔ انھیں صرف طاقت اور پیسے سے غرض ہے۔ انسانوں اور علم سے محبت کہیں دور دور تک نظر نہیں آتی۔ مجھے بابا جی نے یہی سکھایا کہ خدا کی رحمت و شفقت کا دنیا میں اصل اظہار صرف رسول پاکﷺ کی بعثت سے ہوا ہے۔ آپﷺ ہی رحمت العالمینﷺ ہیں۔ آپﷺ ہی خاتم الا انبیا ء ہیں۔ آپﷺ کے وسیلے سے ہی ہم نے خدا کو جانا اور مانا ہے۔ دعا یہی ہے اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ہمارا خاتمہ ایمان پر فرما دے اور نبی پاکﷺ کے وسیلے سے نجات عطا فرما دے۔
یہ کہہ کر سائکیٹرسٹ اشفاق کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔
میں تمھیں ان کے پاس لے کر جاتا ہوں۔ شاید بابوں پر تمھارا غصہ کم ہو جائے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میں سائکیٹرسٹ اشفاق کی جذباتیت دیکھ کر متاثر ہوا۔ لیکن اس کے بابا جی سے ملنے کی کوئی خواہش میرے دل میں پیدا نہ ہوئی۔ میں بابوں سے اکتا چکا تھا، ہر مرید اپنے بابے کے بارے میں زمین آسمان ایک کرتا ہے۔ میں نے ملاقات سے معزرت کرنا چاہی لیکن وہ ملاقات پر بضد رہا۔
تم کسی بابے کے طور پر نہیں ایک سائکیٹرسٹ سمجھ کر ہی مل لو۔ ہو سکتا ہے تمھارے مسئلے کی صحیح نشاندہی وہ کر دیں۔
میں نے مذاقاً کہا، ایک امریکہ سے آیا ہوا سائکیٹرسٹ مجھے نفسیاتی تجزیے کے لیے کچی بستی کے ایک غریب کتب فروش کی طرف ریفر کر رہا ہے۔ کیا سائکیٹری اس مقام پر پہنچ گئی ہے۔
اس نے میری بات کا برا نہیں منایا۔
تیمور ! علم عاجزی کا نام ہے۔
" علم کے میدان میں صرف اور صرف دلیل کی حکمرانی ہے "
اگر ایک ان پڑھ کتب فروش کا نفسیاتی تجزیہ مجھ سے بہتر ہے تو مجھے تسلیم کرنا چاہیے کہ میرا علمابھی ناقص ہے۔ تم تو اس بات کو بہتر جانتے ہیں۔ ایک انگوٹھا چھاپ اچھا بزنس مین ہوتا ہے یا ایک بزنس سکول سے پڑھا ہوا؟
اس کی یہ بات میرے دل کو لگی۔ واقعی کسی یونیورسٹی سے نفسیات کی اعلیٰ ڈگری لے لینا، لوگوں کے نفسیاتی مسائل کو حل کرنے کی گارینٹی نہیں ہے۔ میں مجبوراً اس کتب فروش احمد عزیز سے ملنے کو تیار ہو گیا۔
ہم اورنگی میں موجود اس پرانی سی کتابوں کی دکان پر پہنچے تو وہاں کتابیں زیادہ اور جگہ کم تھی۔ وہاں ہر طرح کی پرانی کتابیں موجود تھیں۔ مگر کتابوں پر موجود گرد یہ بتاتی کہ دکان پر مہینوں سے کوئی نہیں آیا۔
کاؤنٹر کے پیچھے ایک بوڑھا شخص جس کے بال اور لمبی داڑھی سفید ہو چکی تھی۔ اس کے کپڑے بہت ہی پرانے تھے۔ وہ آنکھوں پر موٹے شیشوں والی عینک لگا کر بڑے ہی انہماک سے کوئی انگریزی کتاب پڑھ رہا تھا۔ وہ ہماری موجودگی سے بے خبر رہا۔ تھوڑی دیر کے بعد اس نے کتاب پر سے نظریں اٹھائیں تو اسے ہماری موجودگی کا احساس ہوا۔
اسے دیکھ کر مجھے ایک بوڑھے کچھوے کا احساس ہوا۔ ایک ایسا کچھوہ جو زمانے سے بے خبر اپنی ہی چال چلتا رہتا ہے۔
سائیکیٹرسٹ اشفاق کو دیکھ کر اس کی آنکھوں میں چمک آئی۔ اس نے ہمیں سامنے پڑی ٹوٹی ہوئی کرسیوں پر بیٹھنے کو کہا۔ فوراً ہمارے لیے سامنے والے کھوکے سے چائے منگوائی۔ میں نے سوچا پہلی بار کسی نام نہاد بابے نے اپنی جیب سے کچھ کھلایا پلایا تو سہی۔
اشفاق نے میرا تعارف کروایا تو بابا احمد عزیز تھوڑی دیر کے لیے مجھے غور سے دیکھتے رہے پھر ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ابھری۔ دھیمے سے لہجے میں کہنے لگے۔
تیمور تلاش حق اتنا آسان نہیں ہے۔ اس راستے ہیں بہت دشواریاں اور پریشانیاں آتی ہیں۔ اس راہ میں انسان کبھی مایوس ہو کر اور کبھی غصے میں آ کر منزل کو چھوڑ دیتا ہے۔
داتا صاحب نے بھی یہی لکھا: تلاش حق میں انھیں کوئی کامل استاد نہ ملا تو وہ مایوس ہو گئے۔ تبھی ان کے دل میں خدا کی طرف سے خیال آیا کہ اگر ساری دنیا خدا کو چھوڑ دے گی تو کیا تو بھی خدا کو چھوڑ دے گا۔
جو شخص بھی خدا کی راہ میں صدق دل سے کوشش کرے گا خدا اسے کسی نہ کسی انداز میں اپنا قرب عطا فرمائے گا۔
تیمور مسئلہ یہ ہے: ہم بہت جلد باز ہو گئے ہیں۔ ہمیں دنوں اور مہینوں میں نتائج چاہیں۔ خدا کو پانا بھی ہمارے لیے کسی دنیاوی کامیابی جیساہی بن جاتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں دو چار وظیفے اور چلے کریں اور خدا کو پالیں۔ ایسا کرتے ہوئے، ہم در اصل خدا کے بجائے اپنی خواہش نفس کی پیروی کرتے ہیں۔
یوں خواہش نفس ہی ہمارا خدا بن جاتی ہے۔ ایسا ہی ایک درباری صوفی کے ساتھ ہوا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
درباری صوفی کی مشاہدہ حق کی کہانی
پرانے دور میں ایک شخص تھا، جس نے سالوں کی محنت کے بعد ایک ایسا مخفی علم حاصل کیا، جس کے ذریعے وہ لوگوں کے ذہن میں آنے والے مناظر کو کاغذ پر دکھا سکتا تھا۔ لوگ اس سے ڈرنے لگے، کیوں کہ ان کی وہ باتیں بھی سامنے آ جاتیں، جو وہ خود سے بھی چھپاتے تھے۔ اس شخص نے لوگوں کو ڈرا دھمکا کر پیسہ وصول کرنا شروع کر دیے۔ اسی دور میں ایک درباری صوفی نے " مشاہدہ حق" یعنی دیدار الٰہی کرنے کا دعوی کیا۔
یہ دعوی سن کر اس شخص نے اعلان کیا: میں اس صوفی کے کیے ہوئے مشاہدہ حق کو کاغذ پر دکھا دوں گا۔ درباری صوفی صاحب سمیت کئی لوگ پریشان ہو گئے۔
" کیا اب سب لوگ مشاہدہ حق کر سکیں گے؟
کیا راز ازل قیامت سے پہلے ہی فاش ہو جائے گا؟
عوام الناس میں شدید اشتیاق پیدا ہو گیا۔ پورے ملک میں بس ایک ہی بات کا ذکر ہونے لگا۔ بادشاہ کے مشیروں نے مشہو رہ دیا: اس کام کو رکوایا جائے۔ مگر عوام کا دباؤ اتنا بڑھ گیا کہ یہ ممکن نہ رہا۔
لوگوں کا ایمان بہت بڑھ گیا۔ ہر گھر میں دیدار الٰہی کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ مسجدیں نمازیوں سے بھر گئیں۔ بڑے بڑے گناہ گار توبہ تائب ہو گئے۔ عالم دین یہ بحث کرنے لگے: جب طور پہاڑ تجلی الٰہی کی ایک جھلک برداشت نہ کر سکا تو ایک معمولی کاغذ کی کیا حثیت۔ اگر تجلی الٰہی سے ساری دنیا ہی تباہ ہو گئی تو کیا ہو گا۔ اسی ڈر سے فقیہ شہر نے اس کام کو رکوانے کا حکم دے دیا۔ مگر لوگ اب کسی بات کو سننے کو تیار نہیں تھے۔ وہ ہر قیمت پر محبوب حقیقی کا دیدار کرنا چاہتے تھے۔
انھی دنوں ایک مجذوب شہر کی گلیوں میں پھرا کرتا تھا۔ یہ مجذوب کبھی بہت بڑا عالم اور فقیہ شہر کا استاد تھا۔ اپنے علم کی انتہا پر اس کے دل میں خواہش اٹھی کہ مشاہدہ حق نصیب ہو جائے۔ اسی خواہش میں علم، عزت، مرتبہ، اور خاندان سب لٹا دیا۔ کہتے ہیں: مشاہدہ حق کے بعد وہ جذب کی حالت میں چلا گیا۔ فقیہ شہر نے اس مسئلے کے سلسلے میں اپنے مجذوب استاد سے رابطہ کیا۔
مجذوب یہ بات سن کر بہت ہنسا۔ کہا، فکر کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اب یہ راز فاش ہوہی جانے دو۔
مقر رہ دن پورا شہر ایک بڑے میدان میں اکٹھا ہوا۔ حیرت انگیز طور پر کاغذ کے اوپر درباری صوفی کی اپنی تصویر بنی ہوئی آئی۔ یعنی درباری صوفی نے اپنے ہی نفس کو خدا سمجھنا شروع کر دیا تھا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
خدا کی راہ میں پہلا قدم اپنے نفس کو پہچان لینے سے شروع ہوتا ہے۔
"جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا"
آج کل تو نفسیات ہمیں انسانی فطرت کے متعلق بہت زیادہ رہنمائی کرتی ہے۔ یہ ہمیں ہماری صدیوں پرانی جبلتوں کے بارے میں بتاتی ہے۔ ہمارے نفس کی اصل فطرت جانوروں جیسی ہے۔ اسے اپنی بقا، اپنی بھوک، اور اپنی خوشی سے زیادہ کسی چیز کی فکر نہیں یہ کسی طرح کی پابندی برداشت نہیں کرتا۔
یہ نفس ہر شخص میں مختلف روپ میں ہوتا ہے۔ ہر شخص کے رجحانات، خامیاں اور کمزوریاں مختلف ہوتی ہیں۔ جیسے کچھ لوگوں میں شہرت کی خواہش بہت شدید ہوتی ہے۔ کچھ لوگوں کی جنسی بھوک بہت ہوتی ہے۔ کچھ لوگوں میں مال کی حرص، کسی میں کنجوسی اور کسی میں سرکشی وغیرہ۔ ہماری تمام خواہشوں کی جڑیں انھیں کمیوں اور کمزوریوں تک جاتی ہیں۔
پم اپنی تمام صلاحیتیں انھی خواہشوں کو پورا کرنے میں لگا دیتے ہیں۔ اور اسی خوش فہمی مہں رہتے ہیں کہ ہم شاید بہت نیک کام کر رہے ہیں۔
جب تک ہم اپنی نفسانی کمزوریوں اور خامیوں کو سمجھ کر انھیں ٹھیک نہیں کرتے۔ سادہ لفظوں میں جب تک ہم اپنے نفس کو نہیں مارتے، ہم خدا کا قرب نہیں حاصل کر سکتے۔
خدا بہت غیرت والا ہے وہ کسی ایسے دل میں حکمرانی نہیں کرتا جس میں پہلے سے ہی خواہش نفس موجود ہو۔
جس دن دل ہر شہ سے خالی ہو گا اسی دن خدا کا گھر بن جائے گا۔
تیمور تمھارے اندر اٹیچ منٹ ڈس اورڈر ہے، تمھیں کبھی کسی سے محبت نہیں ملی۔ تمھیں بہت چھوٹی عمر سے ہی رشتوں کی سرد مہری کا سامنا کرنا پڑا۔ تمھاری پہلی محبت نے خود کشی کر لی۔ تمھیں گھر سے نکال کر زمانے کے تھپڑوں کا سامنا کرنے کے لیے اکیلا چھوڑ دیا گیا۔ تم نے انسانوں سے مایوس ہو کر خدا کی محبت تلاش کرنے کی کوشش کی۔ تم خدا میں وہ چیز حاصل کرنا چاہتے تھے جو تمھیں انسانوں میں نہیں ملی۔
یاد رکھو خدا صرف اسے ملتا ہے جو اسے اپنی زندگی کی ترجیح اول بناتا ہے۔ خدا کو گڑی پڑی چیز نہیں ہے کہ اچانک مل جائے۔ خدا نے خود فرمایا"میں چھپا ہوا خزانہ تھا، میں نے چاہا کہ جانا جاؤں، میں نے کائنات بنا دی"
اوپر سے تمھارا واسطہ بھی نام نہاد درباری صوفیوں سے پڑا۔ جو خدا کے نام پر دکان چلا رہے ہیں۔ ان لوگوں کے منافقانہ رویے نے تمھیں خدا سے بھی متنفر کر دیا۔ خدا کو پانے کے لیے تمھیں اپنے کمپلیکسس کو دور کرنا پڑے گا۔
تیمور بیٹا جو کچھ تمھارے ساتھ ہوا، اس میں تمھارا کوئی قصور نہیں۔ یہ سب بھی ایک آزمائش تھی جس سے اوپر اٹھ کر تمھیں روحانی طور پر مزید مضبوط ہونا تھا۔ یہ بھی تو دیکھو کہ انھی آزمائشوں کی وجہ سے تم اس مقام پر پہنچ گئے ہو۔
بابا جی کا میرے ماضی اور نفسیات کے بارے میں اتنی تفصیل سے جاننا مجھے عجیب لگا۔ پر میرے سائنسی دماغ نے مجھے یہی کہا: بہت سی چیزیں آنکھوں اور دماغ کا دھوکہ ہی ہوتی ہیں۔ اس کائنات میں کوئی بھی غیر فطری کام نہیں ہو سکتا۔ سب کچھ فطرت کے قوانین کے اندر ہوتا ہے۔
بابا جی میں اس مقام تک پہنچا ہوں توا س میں کسی خدائی طاقت کا کوئی کمال نہیں ہے یہ صرف اتفاق اور تھوڑی بہت میری محنت کا نتیجہ ہے۔
بابا جی ہنس پڑے۔
تیمور یہ جو اتفاق یا رینڈمنس ہے اس کا راز بھی تو کوئی نہیں جان سکا۔
سائنسدان ہر کیوں کہ جواب میں یہی کہتے ہیں یہ بے بے معنی اور اتفاقیہ ہے۔
یہ کائنات ایک اتفاق ہے۔
اس دنیا کا اتنا پرفیکٹ ہونا ایک اتفاق ہے۔
دنیا میں زندگی کا آغاز ایک اتفاق ہے۔
مادیت کے سارے کے قوانین ایک اتفاق ہیں۔
زندگی کی بقا ایک اتفاق ہے۔
زندگی کی ہر کامیابی اور ناکامی اتفاقیہ ہے۔
عرج و زوال بھی اتفاق ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ۔
کیا کبھی یہ بھی سوچا، ہو سکتا ہے بنانے والے نے یہ سب کچھ ڈیزائن ہی ایسا کیا ہو۔
میں چونکا، میں نے اس اینگل سے کبھی سوچا نہیں تھا۔
ایسا ہو سکتا ہے لیکن اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
تیمور ایک ہی بات کو دیکھنے کے دو زاویے ہو سکتے ہیں۔ ایک ہی ڈیٹا پر دو مخالف نظریات بن سکتے ہیں۔ جو چیز اتفاقیہ نظر آتی ہے وہ اس طرح ڈیزائن بھی تو ہو سکتی ہے۔ یہ بھی مائنڈ سیٹ کی بات ہے۔ اس بات کو میں تمھیں ایک کہانی کے ذریعے سمجھاتا ہوں۔

چار مرغابیوں کا خوشی سے کوئی تعلق نہیں
سائبیریا ایک برفیلی دوزخ ہے۔ سردیوں میں درجہ حرارت منفی پچاس سے اوپر چلا جاتا۔ وہاں زندگی کا وجود بھی ایک عجوبہ ہے۔ وہاں ٹائے گا قبائل کے لوگ صدیوں سے رہ رہے ہیں۔ انھوں نے اپنے آپ کو اس سخت ماحول کا عادی بنایا ہوا ہے۔
روسی انقلاب کے بعد لاکھوں لوگوں کو قید با مشقت کے لیے سائبیریا بھیجا گیا۔ اکثر لوگ ان سختیوں کو برداشت نہ کر سکے اور جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ سائبیریا کی جیلیں دنیا کی سب سے غیر روایتی جیلیں ہیں۔ جہاں کوئی سلاخیں نہیں ہوتیں۔ یہ سرد جہنم کسی بھاگنے والے کو زندہ رہنے ہی نہیں دیتی۔ ہزاروں اسی کوشش میں مارے جاتے ہیں۔ معدودے چند ہی زندہ بھاگنے میں کامیاب ہوئے۔ انھی بھاگنے والوں میں ایک سابقہ انقلابی فیبی اوف بھی تھا۔
کہتے ہیں انقلاب اپنے بچوں کو کھا جاتا ہے۔ حیرت ہے کہ ہر انقلاب کے کچھ عرصہ بعد انقلاب لانے والوں کو غدار کہہ کر مار دیا گیا۔ فرانسیسی، روسی، چینی، سمیت بے شمار انقلابوں میں ایسا ہوا۔ روسی انقلاب کے بعد جب سٹالن نے اقتدار سنبھالا تو سب سے پہلے انقلابیوں کی گردنیں اتاریں۔ فیبی اوف بہت ہی عقلی دماغ رکھنے والا مارکسسٹ تھا۔ اس نے مارکس کو پڑھنے کے بعد کبھی خدا کے بارے میں نہیں سوچا۔ قید میں بھی وہ کبھی مایوس نہیں ہوا۔ کئی بار بھاگنے کی کوشش کی۔ پر ہر بار پکڑا جاتا۔ شدید تشدد اور قید تنہائی بی اس کا عزم کم نہ کرپاتی۔
آخر کار اس کی کوشش کامیاب ہو گئیں۔ سخت سردی میں اس کا پیچھا کرنے والے تو اس کی موت کا یقین کر کے واپس چلے گئے۔ وہ کسی طرح چھپتا چھپاتا ا یورپ سے ہوتا ہوا امریکہ پہنچ گیا۔
قید سے آزادی نے اس کا خود پر اعتماد اور زندہ رہنے کی بھوک بڑھا دی۔ اس نے سیلز مین کا کام شروع کیا۔ کچھ ہی سالوں میں اپنے سٹور کا ملک بن گیا۔ مارکس کی باتیں اور محنت کشوں کے انقلاب پر سے تو یقین اٹھ گیا۔ لیکن خدا کو وہ اب بھی نہیں مانتا تھا۔
اس کی ملاقات ایک بہت ہی خوبصورت جرمن لڑکی اینجیلا سے ہوئی۔ دونوں کی مذاج بالکل مختلف تھے، پھر بھی انجانے طریقے سے دونوں میں محبت پیدا ہو گئی۔ یہ پکا ملحد تھا اور وہ پکی خدا پرست۔ اس لڑکی کو فیبی اوف کا خدا کو نہ ماننا کھٹکتا۔ وہ کہتی تم ایک بار ایمان لاکر تو دیکھو تمھاری دنیا بدل جائے گی۔ مگر فیبی اوف بہت شائستگی سے بات کو بدل دیتا۔
ایک سہانی شام دونوں جھیل کے کنارے خاموش بیٹھے تھے۔ فضا میں مرغابیوں کی پھڑپھڑاہٹ اور پانی کا شور تھا۔ جھیل کی شفاف سطح پر بیٹھی چار مرغابیوں کو دیکھ کر فیبی اوف کے دل میں عجیب سی خوشی کا چشمہ پھوٹ پڑا۔ اس نے سوچا
چار مرغابیوں کا خوشی سے کیا تعلق ہے؟
میں نے آج تک اتنی خوشی محسوس نہیں کی۔ یہ اتفاقیہ لمحہ شاید پھر زندگی میں کبھی نہ آئے، مجھے اینجیلا کو شادی کے لیے پروپوز کرنا چاہیے۔
اینجیلا کو بہت خوشی محسوس ہوئی۔ مگر اس نے پروپوزل کی قبولیت کے لیے خدا کو دل سے ماننے کی شرط عائید کی۔ اینجیلا نے چار مرغابیوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔
فیبی!تم خدا کو مان کیوں نہیں لیتے؟
کیا ان چار مرغابیوں کا خوشی سے تعلق محض اتفاقیہ ہے؟
کیا ہم دونوں محض اتفاق سے ملے ہیں؟
کیا تمھارا سائبیریا کی قید سے بچ جانا اور میرا جرمن کنسنٹریشن کیمپ سے بچ جانا محض اتفاقیہ ہے؟
نہیں فیبی! مان لو کہ یہ خدا کی طرف سے ہے۔
سنو پیاری !میں تمھارے جذبات کو سمجھتا ہوں۔ ایسی بات نہیں ہے کہ میں نے کبھی سچے دل سے خدا کو ماننے کی کوشش نہیں کی۔ میں جیسے ہی سائبیریا کی قید سے بھاگا، تو ایک رات برف کے طوفان میں بری طرح پھنس گیا۔ میرا پیچھا کرنے والے بھی بڑی مشکل سے جان بچا کر بھاگے۔ مجھے کوئی راستہ یا محفوظ ٹھکانہ نظر نہ آیا۔ میں سمجھ گیا، اب موت یقینی ہے۔
اس لمحے میں نے سچے دل سے خدا کو پکارا" اے خدا اگر تو مجھے غیبی انداز سے مدد بھیج کر موت سے بچا لے تو میں ساری عقلی دلیلیں رد کر کے تجھے مان لوں گا۔ پر غیب سے کوئی آواز یا مدد نہیں آئی۔ میں مایوس ہو گیا"۔
تھوڑی دیر بعد ٹائے گا قبیلے کے کچھ شکاری وہاں سے گزرے اور مجھے بچا کر اپنی بستی میں لے آئے۔ اس وقعہ کے بعد مجھے کامل یقین ہو گیا کہ خدا نہیں ہے۔
اینجیلا حیرانی سے چلائی۔ ۔ ۔ کیا مطلب ہے؟ کیا تمھیں اب بھی سمجھ نہیں آئی؟خدا نے ہی ان شکاریوں کو تمھاری مدد کے لیے بھیجا تھا۔
نہیں اینجیلا! وہ لوگ تو اتفاق سے شکار سے لوٹ رہے تھے۔ اور ان کا خدا سے بھی کوئی تعلق نہیں تھا۔ خدا انھیں کیسے بھیج سکتا ہے۔ یہ محض ایک حسین اتفاق تھا۔
اینجیلا نے اس سے بحث کرنا مناسب نہ سمجھا۔ اس نے خاموشی سے انگوٹھی لوٹادی۔ فیبی اوف کبھی انگوٹھی کو اور کبھی جھیل کی سطح کو دیکھتا۔
جھیل کی سطح سے چار مرغابیاں اڑ گئیں،
چار مرغابیاں جو اتفاق سے آئیں
چار مرغابیاں جو اتفاق سے اڑ گئیں۔
چار مرغابیاں جن کا خوشی سے تعلق تھا،
چار مرغابیاں جن کا اب خوشی سے کوئی تعلق نہیں۔
محبت جس کا خوشی سے تعلق تھا
محبت جس کا اب خوشی سے کوئی تعلق نہیں
زندگی جس کا خوشی سے تعلق تھا
زندگی جس کا اب خوشی سے کوئی تعلق نہیں

اک حویلی تھی دل محلے میں
اب وہ ویران ہو گئی ہو گی۔
فیبی اوف نے اسی جھیل کے ٹھنڈے نیلے پانی میں ڈوب کر خود کشی کر لی۔
اس کائنات میں ہونے والے ہر واقعہ کی دو تعبیریں ہو سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ خدا ہے اور وہ ہر چیز کا خالق، مالک اور رازق ہے۔ کوئی پتہ بھی اس کی مرضی کے بغیر نہیں ہلتا۔
دوسری یہ کہ کائنات خود اپنی خالق، مالک اور رازق ہے۔ یہ سب کچھ اتفاقیہ اور خود بخود ہو رہا ہے آپ کو دونوں میں سے کسی ایک بات کو ماننا پڑتا ہے۔
لوگ کہتے ہیں خدا دنیا میں ہونے والے ظلم و ستم، جنگوں، حادثوں، اور بیماریوں کو کیوں نہیں روکتا؟
سوال یہ ہے: آخر ہم کون ہوتے ہیں خدا کے کاموں میں دخل دینے والے؟ ہم کیوں خدا کو اپنی خواہشات کے تحت چلانا چاہتے ہیں۔
کیوں چاہتے ہیں خدا ویسا ہی رحم دل ہو جیسا ہم اسے چاہتے ہیں۔ کیا ایک خالق کو اس بات کا حق بھی نہیں ہے کہ وہ اپنی مرضی کی کائنات بنا سکے۔
جس عقل و جذبات کے تحت ہم ایسا سوچتے اور محسوس کرتے ہیں وہ بھی تو خدا کی ہی دی ہوئی ہے۔
ہم بہت محدود سوچ رکھتے ہیں جو اپنی خوشی اور اپنے غم سے شروع ہو کر اپنے آپ پر ہی ختم ہو جاتی ہے۔ ہم اگر اس کی حکمتیں نہیں سمجھتے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر کام کے پیچھے کوئی حکمت ہے ہی نہیں۔
خدا کو جھٹلانے سے کوئی بھی مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ سب کچھ ویسا ہی رہتا ہے۔ ہاں مان لینے سے علم کے راستے کھل جاتے ہیں۔
نفسیات کی جدید ریسرچ اسی بات کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ ایمان والے اور ملحد علیحدہ علیحدہ ذہنی ساخت رکھتے ہیں۔ دونوں کسی دلیل کے تحت ایسا نہیں کرتے بلکہ ہر بات کو پہلے سے تہ شدہ مائنڈ سیٹ کے تحت دیکھتے ہیں۔ اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ خدا کو ماننے کا معاملہ دلیل کا نہیں ہے۔
تمھار مسئلہ بھی عقل سے زیادہ جذبات کا ہے۔ تمھارے زخم ابھی تک ہرے ہیں۔ تم انھیں بھرنے نہیں دیتے، انھیں بار بار کریدتے رہتے ہو۔ تمھارا رویہ ایبارمل ہوتا جا رہا ہے۔ اسی لیے جسمانی اور ذہنی تکلیف تمھیں لذت دیتی ہے۔ لوگوں کی دی ہوئی سزائیں کم ہوئیں تو تم نے خود کو سزا دینا شروع کر دی۔
بیٹا خود کو معاف کر دو۔
میرے ذہن میں بہت عرصے بعد آندھیاں چلنا شروع ہوئیں۔ اس شخص کی باتوں میں عجیب سا جادو ہے، جو جذبات پر اثر کرتا ہے۔ میں نے کچھ کہنا چاہا پر خاموش رہا۔
جس دن تم اپنی نفسیاتی کمزوریوں سے اوپر اٹھ کر لوگوں سے پیار کرنا شروع کر دو گے، تمھارے اندر کا خلا ختم ہو جائے گا۔ سب انسان ہی خامیوں والے ہیں۔ ان کی خامیوں سے نفرت کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ اچھی خوبیوں والوں سے تو سارے ہی محبت کرتے ہیں۔ اصل بڑائی تو یہ ہے کہ انسان بروں سے محبت کرے۔ اللہ کو یہ بہت پسند ہے۔ اس کو صرف اخلاص چاہیے۔ تم اپنی مرضی کے خلاف اپنا پیسہ غریبوں پر خرچ کرنا شروع کرو۔ لوگوں کو کھانا کھلا یا کرو۔ تمھارے اندر کا خلا کچھ کم ہو گا۔
لیکن تم مکمل طور پر اس وقت ٹھیک ہو گئے جبکسی ایمان والی لڑکی کی محبت تمھاری دل میں سما جائے گی۔ وہ ایمان والی ہی اپنے ساتھ ایمان لے کر آئے گی۔ تم نے انسان اور خدا دونوں پر اپنے دل کے دروازے بند کر دیے ہیں۔ وہ چوری چھپے داخل ہو گی۔ ایسا ہونا بظاہر نا ممکن ہے، لیکن میں دعا کروں گا اللہ اپنی رحمت سے ایسا کروا دے۔
یہ کہہ کر بابا جی خاموش ہو گئے۔ مجھے اپنے اندر جو تھوڑی بہت جذباتی ہلچل محسوس ہوئی۔ میں نے اس پر زیادہ توجہ دینا مناسب نہ سمجھا۔ اس کے بعد بابا جی ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے۔ اس دوران دکان میں کوئی گاہک نہ آیا۔ بابا جی کی باتوں میں ایک انوکھی تازگی تھی، جو ان کی عمر کے بابوں میں مفقود ہوتی ہے۔
باتوں کے دوران میں نے بابا جی سے پوچھا۔
بابا جی آپ کو خدا کیسے ملا؟
بابا جی میرا سوال سن کر تھوڑی دیر خاموش رہے۔ میرے چہرے کو غور سے دیکھا اور مسکراتے ہوئے کہنے لگے۔
یہ بہت ہی پرسنل سی بات ہے اور اس میں اپنی ذات کی بڑائی کا ایلیمنٹ بھی آ جاتا ہے۔ میں نے آج تک یہ بات کسی کو نہیں بتائی۔ پر تمھیں بتا دیتا ہوں شاید تم میری کہانی سن کر ہی خدا کی طرف آ جاؤ۔

یا اللہ: مجھے اپنی ذات کی آگہی کا ایک قطرہ عطا فرما دے
(بابا احمد عزیز کی کہانی)
میرا تعلق کسی مذہبی و روحانی خاندان سے نہیں ہے۔ نہ ہی میرے خاندان میں کوئی صاحب نظر و کرامت بزرگ گزرا۔ بس سیدھے سادے غریب مسلمان تھے جن کی خواہش تھی: بس خاتمہ ایمان پر ہو جائے۔ میں نے اپنے دادا کے بارے میں سنا کہ انھیں پیر مہر علی شاہ سے خاص عقیدت تھی۔ اکثر ان کے پاس حاضری دینے جاتے۔ س
ہمارا گاؤں پنجاب کا ایک دور دراز پسماندہ علاقہ ہے۔ میرا بچپن اور لڑکپن انتہائی سادگی اور گمنامی میں گزرا۔ گھر میں سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے لاڈلا تھا۔ طبیعت میں بے چینی اور شوخی بہت تھی۔ میری شرارتوں سے محلے والے پریشان رہتے۔ چھوٹی عمر سے مجھے شاعری اور مطالعہ کی لت لگ گئی۔ میں دنیا جہاں کی الم غلم کتابیں پڑھ کر لوگوں پر اپنے علم کا رعب جھاڑتا، لیکن سکول کی پڑھائی مجھ سے نہ ہوتی۔ سکول کالج میں صرف اتنا ہی پڑھتا کہ پاس ہو جاؤں۔
میں نے چھوٹی عمر سے ہی مشاعروں میں جانا شروع کیا۔ میرے کلام کی تعریف اس وقت کے مشہور شعرا نے بھی کی۔ اپنے کلام پر واہ واہ سن کر میرا نفس غبارے کی طرح پھول جاتا۔ یہ تعریف بھی عجیب شہ ہے انسان خود کو وہ سمجھنا شروع کر دیتا ہے جو وہ نہیں ہوتا۔ انھی دنوں مجھے مخفی علوم حاصل کرنے کا چسکا چڑھا۔ میں نے پامسٹری، آسٹرالوجی اور اس قسم کے علوم کو سیکھنا شروع کیا۔ اس سلسلے میں جو بھی کتاب یا استاد ملا اس سے فیض حاصل کیا۔ کچھ سالوں میں اتنی مہارت حاصل ہو گئی کہ لوگ دور دور سے میرے پاس آنے لگے۔
اب یہ علوم کوئی سائنسی تو ہیں نہیں بس ایک قیافہ اور انسانی نفسیات کا علم چاہیے ہوتا ہے۔ لوگ پہلے ہی اس ذہنی کیفیت میں ہوتے ہیں، انھیں جو بھی بتاؤ مان لیتے ہیں۔ میرے قیافے صحیح ہونے لگے۔ لوگ دور دور سے مستقبل جاننے کے لیے آتے۔ جلد اس کام سے میرا دل اکتا گیا۔ لوگوں کو بیوقوف بنانے میں کوئی لذت نہیں ہے۔
میں پڑھائی کے بہانے لاہور چلا گیا۔ وہاں فلسفہ اور ادب کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا شروع کی۔ میں جتنا جانتا گیا اتنی ہی پیاس بڑھتی گئی۔ میری حالت ایک سمندر کے سامنے پیاسے جیسی تھی۔ فلسفہ و ادب کے گہرے مطالعے نے وجود خدا سے میرا دل اٹھا دیا۔ میرے پاس خدا کو ماننے کی کوئی عقلی دلیل نہ رہی۔ اس دور میں پڑھے لکھے لوگوں کی اکثریت مارکسسٹ اور مذہب بیزار تھی۔ بوڑھے اور نوجوان کھل کر مذہب کو ایک افیون کہا کرتے۔ میں فکری طور پر تو الحاد کا شکار ہو گیا مگر میری باغیانہ طبیعت مارکسسزم پر بھی راضی نہ ہوئی۔ مجھے کسی انقلاب کی خواہش نہیں تھی۔
خدا کے وجود پرشک کرنے کے باوجود دل کہیں خدا کے ساتھ ہی اٹکا ہوا تھا۔ خیال آیا کہ علم محدود ہے اس لیے مطالعہ بہت زیادہ بڑھا لیا۔ کوشش کی، بڑے علوم میں سے کچھ نہ کچھ سیکھ لیا جائے۔ شاید کچھ یقین میسر ہو جائے۔ میں جتنا زیادہ پڑھتا گیا اتنا ہی کم مائیگی کا احساس ہوا۔ فلسفہ میں ماسٹر کیا اور ایک سرکاری کالج میں لیکچرر لگ گیا۔ میں پڑھانے سے زیادہ خود پڑھتا رہتا اسی لیے اچھا استاد بھی نہ بن سکا۔ استاد بننے کے لیے اپنے علم پر جو اعتماد چاہیے وہ مجھ میں تھا ہی نہیں۔ میں ہمیشہ اپنے علم کو شک کی نگاہ سے دیکھتا۔
میں نے باقی سب شوق چھوڑ کر علم کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ علم کے ساتھ شکوک مزید بڑھ گئے۔
میں عقلی طور پر اس بات کو مان گیا: یہ زندگی ایک بے مقصد اتفاق ہے۔
اس آگہی نے مجھے مزید اداسی کر دیا۔
میری عمر اس وقت تینتیس چونتیس سال ہو گی، جب میری بے یقینی اپنے عروج پر تھی۔ پچھلے کچھ سالوں سے میں باہر کی بجائے اندر کی دنیا میں زیادہ رہنے لگا تھا۔ میں نے اپنے شکوک و شبہات کا ذکر کسی سے نہیں کیا۔ لوگ مجھے ابھی تک ایمان والا ہی سمجھتے۔ میں خود سے سوال کرتا کہ میں یہ منافقت کب تک چلاؤں گا۔ میں کب اتنی ہمت پاؤں گا کہ کھل کر کہہ سکوں: میں خدا کو نہیں مانتا۔
ایک شام چائے خانہ میں وہی خدا، مذہب، معنی، اور مارکسسزم کی بات چھڑ گئی۔ محفل میں اکثریت پکے مارکسسٹوں کی تھی۔ میں نہ چاہتے ہوئے بھی میں اس بحث میں کود پڑا۔ میں نہ جانے کیوں خدا کے وجود کو ڈیفنڈ کرنے لگا حالانکہ میں خود ایمان نہیں رکھتا تھا۔
بحث وتکرار میں وہی ہوا جو ہر بحث میں ہوتا ہے یعنی تلخ کلامی، جذباتی دعوے اور اپنے مؤقف کی سچائی کا حد سے زیادہ یقین۔ میں نے دلیلوں سے سب کے منہ بند کرادییے۔ حالانکہ مجھے خدا کے حق میں دی گئی دلیلوں کے جوابی دلائل بھی پتا تھے۔ میرے مخالفین میں کوئی بھی اتنا پڑھا لکھا نہیں تھا۔ جب عقلی دلیلیں ختم ہو گئیں تو وہ ذاتی حملوں پر اتر آئے۔ مخالفین نے مجھ سے پوچھا: اگر میں خدا کو مانتا ہوں تو پھر نماز کیوں نہیں پڑھتا۔ میں نے جھوٹے منہ کہہ دیا کہ میں چھپ کر عبادت کرتا ہوں تاکہ کسی قسم کی ریا کاری نہ ہو۔
رات گئے جب بحث بے نتیجہ ختم ہوئی تو دلوں میں تلخیاں بڑھ گئی تھیں۔ میں غصے میں وہاں سے اٹھا اور پیدل ہی رہائش گاہ کی جانب چل پڑا۔
مجھے اپنے رویے پر حیرت ہوئی۔ میں خدا کو نامانتے ہوئے بھی اس کے وجود کا دفاع کیوں کر رہا تھا؟
کیا میں مارکسسٹوں پر اپنی علمی برتری جتانا چاہتا ہوں یا کوئی اور بات ہے؟
میں نے خدا کے حق میں دلیلوں سے پکے ملحدوں کے منہ بند کر دیے لیکن کیا خود میرے پاس خدا کے حق میں کوئی پکی دلیل ہے؟ اگر نہیں تو یہ منافقت کس لیے؟ میں نے یہ ظاہری خول کیوں چڑھا رکھا ہے؟
میں نے اپنی جذباتی کیفیت کو جانچنا شروع کیا۔ میں جتنا غور کرتا گیا مجھے احساس ہوا کہ میں اتنے سال سے خود کو دھوکہ دے رہا ہوں۔ میں خدا کے خلاف ہر طرح کی عقلی دلیل جاننے کے بعد بھی جذباتی طور پر اسی کے حق میں سوچتا ہوں۔ مجھے خدا کے خیال سے ایک اندھی محبت ہے جو کسی دلیل کو نہیں مانتی۔

ہیں دلیلیں تیرے خلاف مگر
سوچتا ہوں تیری حمایت میں
یہ احساس ہوتے ہی میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو ٹپک پڑے۔ ایک بے بسی اور لاچارگی کے احساس نے مجھے اپنے گھیرے میں لے لیا۔ اس لمحے میں نے سچے دل سے ایک بار خدا کو پکارا۔
" اے خدا اگر تو واقعی موجود تو مجھے اپنی ذات کی آگہی کا ایک قطرہ عطا فرما دے، میں عہد کرتا ہوں کہ ساری زندگی تجھ سے کچھ اور نہیں مانگوں گا"
شاید وہ قبولیت کا لمحہ تھا۔ اکثر صوفیاء نے ایسے قیمتی لمحات کا ذکر کیا ہے۔ ولیم جیمز کی Varieties of religious experiences ایسی صوفیانہ واقعات اور تبدیلیوں سے بھری پڑی ہے
یہ لمحہ انسان کو سراسر اللہ کی رحمت سے نصیب ہوتا ہے، انسان کا اس میں کوئی کمال نہیں ہوتا۔ اس لمحے کے بعد انسان کا خدا پر کامل یقین ہو جاتا ہے۔ وہ پھر کوئی دلیل نہیں مانگتا۔ اسے ہی یقین کامل کہتے ہیں۔
وہ دن اور آج کا دن مجھے خدا کے بارے میں کسی قسم کا شک نہیں ہوا۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے علم کے دروازے مجھ پر کھل گئے ہوں، واقعی
" نظر بدل جانے سے نظارہ بدل جاتا ہے "
بس آج تک خدا سے کیے عہد کو نبھانے کی کوشش میں ہوں۔ اسی لیے یہاں بیٹھا اللہ کو یاد کرتا رہتا ہوں۔ خود سے تو بہت سے شکوے ہیں، مگر خدا کی ذات سے کوئی شکوہ نہیں ہے۔ اس کی رضا کے سا منے سر تسلیم خم کر دیا ہے۔ دعا یہی ہے کہ خاتمہ ایمان پر ہو جائے کیوں کہ نبی پاکﷺ کا فرمان ہے کہ
(ایک بندہ اہل جہنم کے اعمال کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے اور ایک بندہ اہل جنت کے عمل کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ جہنمی ہوتا ہے۔ اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالْخَوَاتِیْم یعنی عمل کا اعتبار خاتموں پر ہے۔ )
(مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الایمان، باب الایمان بالقدر، الفصل الاول)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بابا جی کی کہانی میں مجھے خلوص نظر آیا۔ پر میرا دل پھر بھی خدا کے وجود کے بارے میں کسی طور قائل نہ ہوا۔ ان کی کہانی سے تو یہی معلوم ہوا: صرف سیے شخص کو خدا کو ماننا چاہیے جسے کوئی ذاتی روحانی تجربہ ہوا ہو۔
بابا جی مسکراتے ہوئے میری طرف دیکھتے رہے۔ انھوں نے کوئی اور نصیحت نہ کی۔ ہم چائے پی پر وہاں سے رخصت ہو گئے۔ بابا جی سے ملاقات نے میری سوچ پر تو کوئی اثر نہ ڈالا لیکن اس ملاقات سے میرے اندر کا خلا کچھ کم ہوا۔ شاید ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کی موجودگی کا لوگوں کی جذباتی کیفیت پر اثر ہوتا ہے۔ میں یہ مانتا ہوں کہ اس کا روحانیت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ سب کچھ بھی مادی ہے۔
گھر آ کر میں نے بابا جی بتائی ہوئی باتوں کے بارے میں سوچا تو مجھے ہنسی آنے لگی۔ یعنی کوئی ایمان والی چوری چھپے میرے دل میں ایمان لے کر داخل ہو گی اور میرا کفر لوٹ کر چلی جائے گی۔ یہ بھی اپنی نوعیت کی انوکھی چوری ہو گی۔
جب وہ ایمان والی میرے دل میں قبضہ کر کے بیٹھ جائے گی تو میرے اندر کا خلا ختم ہو جائے گا۔ کمال ہے؟
یہ بابے بھی عجیب ہوتے ہیں۔ پہلے کئی بابوں نے مجھے اسم اعظم پڑھنے پر لگائے رکھا۔ آخر میں پٹائی کر کے خدا کا خیال ہی میرے اندر سے نکال دیا۔ اب یہ بابا جی ہیں جو کسی ایمان والی کو ڈھونڈنے کے پیچھے مجھے لگانا چاہتے ہیں۔ میں نے اس پورے واقعہ کو ہی اپنی یاداشت سے نکال دیا اور اپنے خالی پن کو لے روز مرہ کی مصروفیات میں گم ہو گیا۔ دن مہینے اور سال گزرتے گئے۔ میں ایک بزنس کے بعد دوسرے بزنس میں کامیاب ہوتا گیا۔ زندگی بس عادتا ہی گزر رہی ہے۔
سانس لینا بھی کیسی عادت ہے
جیئے جانا بھی کیا روایت ہے
کوئی آہٹ نہیں بدن میں کہیں
کوئی سایہ نہیں ‌ ہے آنکھوں میں
پاؤں بے حِس ہیں چلتے جاتے ہیں
اِک سفر ہے جو بہتا رہتا ہے
کتنے برسوں سے کتنی صدیوں سے
سانس لیتے ہیں، جیتے رہتے ہیں

عادتیں بھی عجیب ہوتی ہیں !

 

گوہر شہوار
About the Author: گوہر شہوار Read More Articles by گوہر شہوار: 23 Articles with 29105 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.