ارشد حکیم کا تعلق پنجاب پولیس سے ہے۔ دیکھنے میں مولوی
سا ہو کر بھی سیدھا سادہ شخص ہے۔ اس کی عمومی حضرات سے گفتگو بھی دنیاداری
سے متعلق ہوتی ہے۔ ہاں البتہ ٹیڑھی اور شطرنجی نوعیت کی گفتگو اس کے ہاں
سننے کو نہیں ملتی۔ سول لباس میں کوئی طرح داری نہیں ملتی۔ ٹوہر ٹپا کہیں
دور تک نظر نہیں آتا۔ دنیاداری کے کاموں میں سولہ آنے گم اور مگن سا نظر
آتا ہے۔ یہ سب دیکھ کر کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ اندر سے بحرالکاہل سے
بھی گہرا اور پورا کا پورا ہے۔ پنجابی اور اردو میں شاعری کرتا ہے۔ موقع
ملے اور ڈیوٹی سے فرصت ملنے پر ادبی تقریبات میں شامل ہوتا ہے۔ اپنے حصہ کی
داد بھی وصول کرتا ہے۔ چوں کہ ہر کوئی نہیں جانتا کہ وہ پولیس مین ہے اس
لیے داد اپنے کہے کے تناظر میں ہی وصول کرتا ہے۔
اس کی پوری شاعری پر لکھنے کی بعد میں کوشش کروں گا۔ اس کے بعض اشعار کی
تفہیم ظاہر سے کہیں ہٹ کر ہے۔ وہ تفہیم غور کرنے کے بعد دماغ کے معدہ میں
اترتی ہے۔ یہ ہی صورت اس کے ہضم کرنے کی ہے۔ جیسے کانوں سے مکی کی روٹی کے
ساتھ ساگ نوش جان کر لیا ہو۔
پان سات روز ہوئے میرے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ میں بیمار تو کئی سال سے ہوں
لیکن اس روز بیماری کچھ زیادہ ہی پڑی ہوئی تھی۔ یہاں تک کہ حواس بھی بی
ماری کی گرفت میں تھے۔ شعر چوں کہ میری کم زوری ہیں اس لیے بھول گیا کہ میں
بیمار ہوں۔ اس نے جب یہ شعر سنایا تو سوچ کا طوفان کھڑا ہو گیا اور مجھے
یاد تک نہ رہا کہ بیمار ہوں:
فقر اظہار میں غنا سا ہے
بےنیازی بھرا خدا سا ہے
بانٹ دینے والے کو غنی کہا جاتا ہے اور یہ صفت اللہ تعالی ذات گرامی سے
وابستہ ہے۔ اللہ تعالی اس امر سے قطعی بے نیاز ہوتا ہے کہ کمی ہو جائے گی۔
بانٹ دینے والے کے نزدیک سے بھی اس قسم کی سوچ گزر نہیں پاتی اگر وہ ایسا
سوچنے لگا تو بانٹ کا عمل درست سمت پر نہ رہے گا۔ یہ بات اپنی جگہ اللہ اور
دے دے گا۔ بانٹ دینے کا اپنا ہی لطف اور مزا ہے۔ حاتم ایسا سوچتا تو قارون
بن جاتا۔ قارون کی دولت اسے لے ڈوبی لیکن حاتم کی سخاوت آج بھی دلوں میں
نقش ہے اور یہ پڑھنے میں نہیں آیا کہ وہ کنگال ہو گیا تھا۔
بانٹ کا اپنا ایک مزا ہوتا ہے۔ غنی بانٹ میں کوئی غرض نہیں رکھتا۔ یہ بات
غنی کے قریب سے بھی نہیں گزر پاتی کہ اسے دینے کے صلہ میں سلامیں وصول ہوں
گی۔ وہ یاد رکھا جائے گا یا دینے کے نتیجہ میں اسے واپسی دوگنا حاصل ہو
جائے گا۔ اگر لینے والے سے کسی قسم کی توقع باندھ کر دیا جائے گا تو یہ
خودغرضی کے زمرے میں داخل ہو گا۔ اس طرح دینے والے کو غنی نہیں تاجر کہا
جائے گا۔ اللہ چوں کہ غنی کی صفت رکھتا ہے۔ اللہ کی عطائیں ہر قسم کی غرض
سے بالاتر ہیں۔ وہ بےنیاز ہے۔ اس کا بندہ جب باطور خلیفہ یہ صفت فریضے کے
طور پر اختیار کرتا ہے تو اس کی بانٹ میں کسی قسم کی غرض یا ریا پوشیدہ
نہیں ہوتی۔ اس کی بانٹ کھری کھری اور نکھری نکھری ہوتی ہے۔ ہر کھری اور
نکھری نکھری بانٹ بےغرضی اور بےنیازی کا عنصر رکھتی ہے۔
بےطلبی‘ بےغرضی اور بےنیازی صرف اور صرف اللہ کی ذات گرامی سے وابستہ ہے۔
وہ ہر قسم کی حاجت سے بالا ہے۔ بےشک غنی کا خاصہ یہ ہی ہے۔ غنی شخص‘ مخلوق
سے دینے کے سلسلہ میں بامنافع واپسی کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ اسی لیے یہ غنا‘
خدا سا ہے۔ خدا اس لیے نہیں کہ وہ لطف و عطا اور کرم کے لیے خدا کے حضور
دست بستہ کھڑا نظر آتا ہے۔ گویا گرہ میں ہونے کے معاملہ ان حد نہیں جب کہ
خدا ہونے اور میسر کے معاملہ میں ان حد ہے۔
اب جب دین غرض‘ منافع یا کسی بھی نوعیت کے منافع سے وابستہ ہو جاتی ہے تو
وہ دین غنا کے زمرے میں نہیں آتی۔ جب کسی بھی طور سے لین مطمع نظر ٹھہرے تو
جمع انبار جو حدوں میں ہوتا ہے‘ تکبر کی بستی کا اقامتی ہو کر خود کو خدا
سمجھنے لگتا ہے۔ اس کا یہ تکبر چھینا جھپٹی فسق و فجور کا ہی باعث نہیں
بنتا بل کہ بل کہ مخلوق کے لیے بہت بڑی آزمائش بن جاتا۔ لوگ ظلم‘ زیادتی
اور جبر کی آگ میں جلتے ہیں۔ بستیاں لہو میں نہاتی ہیں۔ کبھی زہر پیتا ہے
تو کبھی نیزے چڑھتا ہے۔ تاریخ کے پاس مت جائیے‘ یہ متکبروں اور متکبروں کے
جھولی چکوں کا قصیدہ ہے‘ ہاں عہد عہد کے ارشد حکیم کے کلام کو پڑھیے۔
علامتوں اور استعاروں میں لپٹی ان کی کرتوتوں کو دیکھ لیجیے۔ ان متکبروں کا
اصل چہرا سامنے آ جائے گا۔
اگر غنا کو تھرل کے مفہوم دیئے جائیں تو غیرفریبی اور مصنوعی تھرل میں
نمایاں فرق ہوتا ہے۔ فریبی اور مصنوعی تھرل لین اور کسی ناکسی نوعیت کی غرض
سے جڑی ہوتی ہے۔ اسے کاروباری اور تاجری تھرل کا نام دیا جا سکتا ہے۔ چالیس
پیتالیس سال پہلے کی بات ہے۔ میں بےغم ہجور کے کسی حکم پر گھر سے باہر آیا۔
ایک دوکان دار کاروباری مصروفیت کے ساتھ ساتھ ریڈیو بھی سن رہا تھا۔ ریڈیو
پر امیر خسرو کا یہ کلام نشر ہو رہا تھا:
نمی دانم چہ منزل بود شب جائے کہ من بودم
میرے قدم وہیں رک گئے اور بےغم ہجور کا حکم ایک دم سے صفر ہو گیا۔ اس کی
معنویت اور فوری ضرورت فنا کی وادی میں جا بسی۔ سڑک کنارے کڑی دھوپ کا
احساس ہوئے بغیر کلام سنتا رہا۔ جب کلام ختم ہوا تو مجھے گرمی کا شدت سے
احساس ہوا تاہم یہ بھول گیا کہ گھر سے کس کام کے لیے آیا ہوں۔ غنا کی اس
حالت میں‘ میں کا احساس دم توڑ گیا تھا۔ ان لمحوں میں تو کے سوا کچھ بھی نہ
تھا۔ غنا کی اس صورت میں وجود کے سارے سل تھرل میں آ جاتے ہیں۔ تندرست سل
اپنی جگہ کم زور‘ بیمار‘ لاغر‘ مدہوش یہاں تک کہ مردہ سل بھی حرکت میں آ
جاتے ہیں۔
حضرت داؤد علیہ السلام جب کلام الہی پڑھتے تو پرندے تک مزید پرواز سے معذور
ہو جاتے۔ بلاشبہ ان کی آواز میں جادو رہا ہو گا لیکن اس آواز میں کہے گئے
کو بہرصورت کریڈٹ جاتا ہے۔ ایسے ہی نہیں کہا جاتا کہ لفظ اپنی معنویت کے
حوالہ سے ہی زندہ رہتا ہے۔ جوں ہی آلودہ ہوتا ہے جبر زبان کو تو اپنا کر
سکتا ہے لیکن ہردے اس کی گرفت سے ہزاروں کوس دور رہتا ہے۔ جبر کی گرفت جوں
ہی کم زور پڑتی ہے آلودہ اپنی موت آپ مر جاتا ہے۔
غنا کا یہ حوالہ بھی خدا سا لگنے لگتا ہے‘ تفہیم کے قریب تر چلا جاتا ہے۔۔
اس خدا سا لگنے میں بھی یہ حقیقت پنہاں ہے کہ شخص چوں کہ میں کی حودود میں
نہیں ہوتا اور یہ کیفیت اختیاری نہیں فطری ہوتی ہے اسی وجہ سے غنا خدا سا
لگنے لگتا ہے۔
ارشد حکیم محکمہ پولیس میں سہی اور دیکھنے میں مولوی سا نہیں‘ مولوی ہے۔
دونوں ادارے میں کی بستی کے باسی تھے اور باسی ہیں لیکن یہ ہاتھی کے دانت
دیکھانے کے اور کھانے کے اور کے‘ کی عمومی تفہیم کے قطعی برعکس ہے۔ اس کے
کردار و عمل میں تصوف جلوہ گر ہے۔ صوفی خود کو ظاہر نہیں کرتا اور ناہی
اپنے صوفی ہونے کا اقرار کرتا ہے۔ عجز وانکسار اس کا وتیرہ رہا ہے۔ دعا ہے‘
اللہ کریم اس کے علم اور قلبی کیفیات کو اپنی عطاؤں سے سرفراز رکھے۔ آمین
|