ماہ محرم سن ہجري کا پہلا مہينہ
ہے جس کی بنياد تو آنحضرت ﷺ کے واقعہ ہجرت پر ہے ليکن اس اسلامی سن کا تقرر
اور آغاز ِ استعمال 17ھ ميں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد حکومت ميں
ہوا۔ بيان کيا جاتا ہے کہ حضرت ابو موسی ٰ اشعری رضی اللہ عنہ يمن کے گورنر
تھے ان کے پاس حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فرمان آتے تھے جن پر تاريخ درج نہ
ہوتی تھی ۔ 17ھ ہجری حضرت ابو موسی ٰرضی اللہ عنہ کے توجہ دلانے پر حضرت
عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے صحابہ کو اپنے ہاں جمع فرمايا اور ان کے سامنے
يہ مسئلہ رکھا، تبادلۂ افکار کے بعد قرار پايا کہ اپنے سن تاريخ کی بنياد
واقعہ ہجرت کو بنايا جائے اور اس کی ابتداء ماہ محرم سے کی جائے کيونکہ 13
نبوت کے ذوالحجہ کے بالکل آخر ميں مدينہ منورہ کی طرف ہجرت کا منصوبہ طے
کرليا گيا تھا اور اس کے بعد جو چاند طلوع ہوا وہ محرم کا تھا۔ (فتح الباري،
باب التاريخ ومن أين أرخو التاريخ؟ ج334/7، حديث: 3934، طبع دارالسلام)
مسلمانوں کا يہ اسلامی سن بھی اپنے معنی و مفہوم کے لحاظ سے ايک خاص
امتيازی حيثيت کا حامل ہے ۔ مذاہب عالم ميں اس وقت جس قدر سنين مروج ہيں وہ
عام طور پر يا تو کسی مشہور انسان کے يوم ولادت کو ياد دلاتے ہيں يا کسی
قومی واقعۂ مسرت و شادمانی سے وابستہ ہيں کہ جس سے نسل انسانی کو بظاہر
کوئی فائدہ نہيں، مثلاً مسيحی سن کی بنياد حضرت عيسیٰ عليہ السلام کا يوم
ولادت ہے۔ يہودی سن فلسطين پر حضرت سليمان عليہ السلام کی تخت نشينی کے ايک
پر شوکت واقعے سے وابستہ ہے۔ بکرمی سن راجہ بکرما جيت کی پيدائش کی يادگار
ہے، رومی سن سکندر فاتح اعظم کی پيدائش کو واضح کرتا ہے، ليکن اسلامی سن
ہجری عہد نبوت کے ايسے واقعے سے وابستہ ہے جس ميں يہ سبق پنہاں ہے کہ اگر
مسلمان اعلائے کلمۃ الحق کے نتيجے ميں تمام اطراف سے مصائب و آلام ميں گھر
جائے ، بستی کے تمام لوگ اس کے دشمن اور درپے آزار ہوجائيں، قريبی رشتہ دار
اور خويش واقارب بھی اس کو ختم کرنے کا عزم کرليں، اس کے دوست احباب بھی
اسي طرح تکاليف ميں مبتلا کردئيے جائيں، شہر کے تمام سربرآوردہ لوگ اس کو
قتل کرنے کا منصوبہ باندھ ليں، اس پر عرصہ حيات ہر طرح سے تنگ کرديا جائے
اور اس کی آواز کو جبراً روکنے کی کوشش کی جائے تو اس وقت وہ مسلمان کيا
کرے؟ اس کا حل اسلام نے يہ تجويز نہيں کيا کہ کفر و باطل کے ساتھ مصالحت
کرلی جائے، تبليغ حق ميں مداہنت اور رواداری سے کام ليا جائے اور اپنے
عقائد و نظريات ميں لچک پيدا کرکے ان ميں گھل مل جائے تاکہ مخالفت کا زور
ٹوٹ جائے۔ بلکہ اس کا حل اسلام نے يہ تجويز کيا ہے کہ ايسي بستی اور شہر پر
حجت تمام کر کے وہاں سے ہجرت اختيار کر لی جائے۔
چنانچہ اسی واقعۂ ہجرت پر سن ہجری کی بنياد رکھی گئی ہے جو نہ تو کسی
انسانی برتری اور تَفَوُّق کو ياد دلاتا ہے اور نہ شوکت و عظمت کے کسی
واقعے کو، بلکہ يہ واقعہ ٔ ہجرت مظلومی اور بے کسی کی ايک يادگار ہے کہ جو
ثبات قدم، صبر واستقامت اور راضی برضائے الہٰی ہونے کی ايک زبردست مثال
اپنے اندر پنہاں رکھتا ہے۔ يہ واقعہ ٔ ہجرت بتلاتا ہے کہ ايک مظلوم و بے کس
انسان کس طرح اپنے مشن ميں کامياب ہوسکتا ہے اور مصائب و آلام سے نکل کر کس
طرح کامرانی و شادمانی کا زريں تاج اپنے سر پر رکھ سکتا ہے اور پستی و
گمنامی سے نکل کر رفعت و شہرت اور عزت و عظمت کے بام عروج پر پہنچ سکتا ہے۔
علاوہ ازيں يہ مہينہ حرمت والا ہے اور اس ماہ ميں نفل روزے اللہ تعالیٰ کو
بہت پسند ہيں جيسا کہ حديث نبوی ﷺ ميں ہے۔ (يہ حديث آگے آئے گی)
يہ بھی خيال رہے کہ اس مہينے کی حرمت کا سيدنا حضرت حسين کے واقعۂ شہادت
سے کوئی تعلق نہيں ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہيں کہ يہ مہينہ اس ليے قابل احترام
ہے کہ اس ميں حضرت حسين کی شہادت کا سانحۂ دلگداز پيش آيا تھا يہ خيال
بالکل غلط ہے۔ يہ سانحۂ شہادت تو حضور اکرم ﷺ کی وفات سے پچاس سال بعد پيش
آيا اور دين کی تکميل آنحضرت ﷺ کی زندگی ميں ہی کردی گئی تھی۔
[ٱلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِى
وَرَضِيتُ لَكُمُ ٱلْإِسْلَـٰمَ دِينًۭا ۚ] (المائدۃ3/5)
اس ليے يہ تصور اس آيت قرآنی کے سراسر خلاف ہے، پھر خود اسی مہينے ميں اس
سے بڑھ کر ايک اور سانحۂ شہادت اور واقعۂ عظيم پيش آيا تھا يعنی يکم محرم
کو عمر فاروق رضي اللہ عنہ کي شہادت کا واقعہ۔ اگر بعد ميں ہونے والی ان
شہادتوں کی شرعاً کوئی حيثيت ہوتی تو حضرت عمر فاروق رضي اللہ عنہ کی شہادت
اس لائق تھی کہ اہل اسلام اس کا اعتبار کرتے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی
شہادت ايسی تھی کہ اس کی يادگار منائی جاتی اور پھر ان شہادتوں کی بنا پر
اگر اسلام ميں ماتم و شيون کی اجازت ہوتی تو يقينا ً تاريخ اسلام کی يہ
دونوں شہادتيں ايسی تھيں کہ اہل اسلام ان پر جتنی بھی سينہ کوبی اور ماتم
وگريہ زاري کرتے ، کم ہوتا۔ ليکن ايک تو اسلام ميں اس ماتم و گريہ زاری کی
اجازت نہيں، دوسرے يہ تمام واقعات تکميل دين کے بعد پيش آئے ہيں اس ليے ان
کی ياد ميں مجالس عزا اور محافل ماتم قائم کرنا دين ميں اضافہ ہے جس کے ہم
قطعاً مجاز نہيں۔ |