ھولوکاسٹ پر تنقید جرم

تحفظ ناموسِ رسالت اور ہماری ذمہ داری (حصہ دوم )

بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی
معاملے کا دوسرا پہلو حقوقِ انسانی سے تعلق رکھتا ہے۔ ہر انسان کو یہ حق ہے کہ وہ اپنی رائے کا اظہار کرے اور اگر کوئی چیز قابلِ تنقید ہو تو اس پر تنقید بھی کرے، لیکن کسی بھی انسان کو آزادیِ قلم اور حریت بیان کے بہانے یہ آزادی نہیں دی جاسکتی کہ وہ کسی دوسرے فرد کی عزت، ساکھ، معاشرتی مقام اور کردار کو نشانہ بناکر نہ صرف اس کی بلکہ اُس سے وابستہ افراد کی دل آزاری کا ارتکاب کرے۔

اگر یورپ کے بعض ممالک میں (مثلاً ڈنمارک، اسپین، فن لینڈ، جرمنی، یونان، اٹلی، آئرلینڈ، ناروے، نیدرلینڈ، سوئٹزرلینڈ، آسٹریا وغیرہ) آج تک blasphemy یا مذہبی جذبات مجروح کرنے پر قانون پایا جاتا ہے اور برطانیہ جیسے رواداری والے ملک میں ملکہ کے خلاف توہین blasphemy کی تعریف میں آتی ہے، تو کیا کسی کارٹونسٹ یا کم تر درجے کے ادیب یا ادیبہ بلکہ کسی بھی فرد کو یہ حق دیا جاسکتا ہے کہ وہ گھٹیا ادب کے نام پر جو ہرزہ سرائی چاہے کرے۔ معاملہ تحریر کا ہو یا تقریر کا، ہر وہ لفظ اور ہر وہ بات جو ہتک آمیز ہو، اسے ’آزادیِ رائے‘ کے نام پر جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ ایسی بدیہی حقیقت ہے جس کا انکار کوئی عقل کا اندھا ہی کرسکتا ہے۔ کسی بھی مہذب معاشرے میں آزادیِ رائے کے نام پر کسی دوسرے کے حقِ شہرت، حقِ عزت کو پامال نہیں کیا جاسکتا۔ اگر ایسا کیا جائے گا تو یہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی۔

ھولوکاسٹ پر تنقید جرم
سیکولر اور آزاد خیال دنیا جس چیز کو اہم سمجھتی ہے، اس پر حرف گیری کو جرم قرار دیتی ہے اور عملاً اپنے پسندیدہ تصورات اور واقعات پر تنقید، محاسبے اور بحث و استدلال تک کو گوارا کرنے کے لیے تیار نہیں۔
آج جو لوگ اللہ کی مقدس کتابوں کی تحقیر و تذلیل اور اللہ کے پاک باز رسولوں کو سب و شتم کا نشانہ بنانے سے روکنے کو آزادیِ رائے اور آزادیِ اظہار کے منافی قرار دیتے ہیں اور ان گھناؤنے جرائم کے مرتکبین کو پناہ دینے میں شیر ہیں، ان کا اپنا حال یہ ہے کہ جرمنی میں ہٹلر کے دور میں یہودیوں پر جو مظالم ڈھائے گئے اور جنھیں بین الاقوامی قانون اور سیاست کی اصطلاح میں ’ہولوکاسٹ‘ کہا جاتا ہے محض یہودیوں اور صہیونیت کے علَم برداروں کو خوش کرنے کے لیے ان پر تنقید کو اپنے دستور یا قانون میں جرم قرار دیتے ہیں۔ ایسے محققین، مؤرخین اور اہلِ علم کو جو دلیل اور تاریخی شہادتوں کی بنا پر ’ہولوکاسٹ‘ کا انکار نہیں صرف اس کے بارے میں غیرحقیقی دعوؤں پر تنقید و احتساب کرتے ہیں، نہ صرف انھیں مجرم قرار دیتے ہیں بلکہ عملاً انھیں طویل مدت کی سزائیں دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر آسٹریا کا قانون National Socialism Prohibition Law 1947 amended 1992کی رُو سے جو مندرجہ ذیل جرم کا ارتکاب کرے گا:
Whoever denies, grossly plays down, approves, or tries to excuse the National Socialist genocide or other National Socialist crimes against humanity in print publication, in broadcast or other media....will be punished with imprisonment from one to ten years, and in cases of particularly dangerous suspects or activity be punished with upto twenty years imprisonment

جو کوئی طباعتی، نشری یا کسی اور میڈیا میں انسانیت کے خلاف قومی سوشلسٹ جرائم یا قومی سوشلسٹ نسل کشی کا انکار کرتا ہے، یا اسے بہت زیادہ کم کر کے بیان کرتا ہے یا اس کے لیے عذر فراہم کرتا ہے، اسے ایک تا ۱۰ سال کی سزائے قید اور خصوصی طور پر خطرناک مجرموں کو یا سرگرمیوں پر ۲۰سال تک کی سزائے قید دی جاسکے گی۔

آسٹریا میں یہ قانون کتابِ قانون کی صرف زینت ہی نہیں ہے بلکہ عملاً دسیوں محققین، اہلِ علم، صحافیوں اور سیاسی شخصیات کو سزا دی گئی ہے اور برسوں وہ جیل میں محبوس رہے ہیں۔ اس سلسلے کے مشہور مقدمات میں مارچ ۲۰۰۶ء میں برطانوی مؤرخ ڈیوڈ ارونگ کو ایک سال کی سزا اور جنوری ۲۰۰۸ء میں وولف گینگ فرولچ کو ساڑھے چھے سال کی سزا دی گئی اور عالمی احتجاج کے باوجود انھیں اپنی سزا بھگتنی پڑی۔ حقوقِ انسانی کے کسی علَم بردار ادارے یا ملک نے ان کی رہائی کے لیے احتجاج نہیں کیا اور نہ سیاسی پناہ دے کر ہی انھیں اس سزا سے نجات دلائی۔ یورپ کے جن ممالک میں محض ایک تاریخی واقعے کے بارے میں اظہار یا تخفیف کے اظہار کو جرم قرار دیا گیا ان میں آسٹریا کے علاوہ بلجیم۱؂ ، چیک ری پبلک ۲؂، فرانس ۳؂، جرمنی۴؂، ہنگری۵؂ ،سوئٹزرلینڈ۶؂،لکسمبرگ۷؂ ، ہالینڈ۸؂ اور پولینڈ۹میں قوانین موجود ہیں۔ اسی طرح اسپین،پرتگال اور رومانیہ میں بھی قوانین موجود ہیں۔

سوال یہ ہے کہ اگر ایک عام آدمی کی عزت کی حفاظت کے لیے Law of Libel and Slander آزادیِ اظہار کے خلاف نہیں اور ہولوکاسٹ کے انکار یا بیان میں تحقیر یا تخفیف کو جرم قابلِ سزا تسلیم کیا جاتا ہے تو اللہ کے رسولوں اور انسانیت کے محسنوں اور رہنماؤں کی عزت و ناموس کی حفاظت کے قوانین نعوذ باللہ ’کالے قوانین‘ کیسے قرار دیے جاسکتے ہیں۔

رہی آج کی مہذب دنیا جو انسانی جان، آزادی اور اظہار رائے کی محافظ اور علَم بردار بن کر دوسرے ممالک اور تہذیبوں پر اپنی رائے مسلط کرنے کی جارحانہ کاروائیاں کررہی ہے، وہ کس منہ سے یہ دعویٰ کر رہی ہے جب اس کا اپنا حال یہ ہے کہ محض شبہے کی بنیاد پر دوچار اور دس بیس نہیں لاکھوں انسانوں کو اپنی فوج کشی اور مہلک ہتھیاروں سے موت کے گھاٹ اُتار رہی ہے۔ بیسویں صدی انسانی تاریخ کی سب سے خوں آشام صدی رہی ہے۔ جس میں صرف ایک صدی میں دنیا کی کُل آبادی کا ۳ء۷ فی صد استعماری جنگوں اور مہم جوئی کی کاروائیوں میں لقمۂ اجل بنا دیا گیا ہے اور اکیسویں صدی کا آغاز ہی افغانستان اور پاکستان میں بلاامتیاز شہریوں کو ہلاک کرنے سے کیا گیا ہے
اتنی نہ بڑھا پاکیِ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بند قبا دیکھ

نوٹ:
َ َ ڈاکٹر انیس احمد صاحبَ َ کا یہ مضمون ماہنامہ َ َ ترجمان القرآن َ َ کے دسمبر کے شمارے میں شائع ہوا ہے۔ اس کی اہمیت کے پیش نِِظر ہم اسے یہاں پیش کررہے ہیں۔ مضمون کی طوالت کےباعث اس کو ایک ہی کالم کے بجائے اصل مضمون میں دئے گئے اس کے ذیلی عنوانات کے تحت حصوں میں شائع کیا جارہا ہے۔ جو لوگ اس مضمون کو براہ راست اور ایک ہی نشت میں پڑھنا چاہیں ان کے لئے یہاں اس مضمون کا لنک دیا جارہا ہے۔
https://www.tarjumanulquran.org/2010/12_december/ishraat001/1.htm
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1473217 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More