حضرت امیرالمؤمنین معاویہ ؓبن ابوسفیانؓ ۔۔۔۔۔۔۔مناقب ،حیات اور خدمات

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

سعادت مند و ذی وقار،صحابی رسول ،کاتب وحی امیر المؤمنین حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ قبیلہ قریش کی معزز شاخ بنو امیہ سے تعلق رکھتے تھے ،آپ کا شجرہ نسب والد کی طرف سے معاویہ بن ابو سفیا ن بن حرب بن امیہ بن عبد شمس بن عبدمناف بن قصی ہے (جمہرۃ الانساب ص۱۱۱)جب کہ آپ کا والدہ کی طرف سے نسب یوں ہے ،معاویہ بن ہند بنت عتبہ بن ربیعہ بن عبد شمس بن عبد مناف ہے (نسب قریش)گویا کہ رسول اﷲ ﷺ کے ساتھ آپ کے دادا عبدمناف سے نسب ایک ہو جاتا ہے،بعثت نبوی ﷺ سے پانچ برس قبل آپ کی ولادت باسعادت ہوئی،(الاصابہ)حضرت امیرمعاویہ ؓ غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک اورسلیم الفطرت نوجوان تھے،آپ نے سن ۷ ہجری میں عمرۃ القضاکے موقع پر اسلام لایا ،اور اسے اپنے والدین سے چھپائے رکھا تھا،جب کہ اس کا اظہار۸ ہجری میں فتح مکہ کے موقع پر اپنے والد ابوسفیاں صخر بن حرب ؓ کے ساتھ اسلام لانے کے ساتھ کیا تھا،(اسدالغابہ)
امیر المؤمنین حضرت امیر معاویہ ؓ کا شمار ان کبار صحابہ میں ہوتا ہے ،جو تفقّہ و علم کے شناور اور حکمت و تدبر کے امام شمار ہوتے ہیں، آپ کی تربیت امام الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ نے خود فرمائی، صحبت نبویﷺ کا وافر حصہ پایا ،آپ کوکاتب وحی ہونے کا اعزاز حاصل ہے جب کہ نبی کریم ﷺ نے آپ کے لیے ھادی اور مہدی ہونے کی دعا فرمائی اور آپ ﷺکا یہ ارشاد مبارک حضرت امیر معاویہؓ کے مدبّر وفقیہ ہونے پر سند قوی ہے کہ" میری امت میں حضرت امیر معاویہ سب سے زیادہ بُردبار ہیں۔ آپ کو بارگاہ رسالت سے مسلمانوں کی خلافت وقیادت کی بشارت ملی، آپ ﷺ نے حضرت امیر معاویہ ؓ کومخاطب کرکے ارشاد فرمایا کہ اے معاویہؓ!اگر تمہارے سپرد خلافت کی جائے تو تم اﷲ سے ڈرتے رہنا اور انصاف کرنا(الاصابہ)۔

دربار رسالت ﷺمیں حضرت امیر معاویہؓ کو اہم مقام حاصل تھا،آپ کتابت وحی کی سعادت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ نبی کریم ﷺکی خدمت کاکوئی موقع اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے ،حضور اکرم ﷺ نے غیر مسلم بادشاہوں اور سرداروں کو جو ۱۴۰ خطوط لکھوائے ،ان میں سے ۱۲۰ خطوط کی کتابت حضرت امیر معاویہ ؓ نے کی تھی۔ چنانچہ علامہ ابن حزم کے مطابق کا تبین وحی میں سب سے زیادہ حضر ت زید بن ثابت ؓ آپ ﷺ کی خدمت میں رہے اس کے بعد دوسرا درجہ حضرت معاویہ ؓکا تھا۔ چنانچہ کاتبین وحی کی شان و مقام کس قدر بلند ہے۔ ان کی صداقت کے لئے یہ ایک ارشاد باری تعالیٰ ہی کافی ہے،’’فی صحف مکرمہ مرفوعۃ مطھر ۃ بایدی سفرہ کرام براۃ ‘‘ یعنی قرآنی صفحات بہت معزز اور بلند درجہ والے پاکیزہ ہیں، چمکتے ہوئے ہاتھوں والے اوربہت زیادہ عزت والے لوگ ہیں ۔حضرت عمرو بن عاص ؓ فرماتے ہیں میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا،اے اﷲ! معاویہ ؓ کو کتاب سکھا دے اور شہروں میں اس کے لے ٹھکا نا بنا دے اور اس کو عذاب سے بچا دے۔(مجمع الزوائد)

حضرت عبدالرحمن بن ابی عمیرہ ؓ فرماتے ہیں آپ ﷺ نے حضرت معاویہ کے حق میں یہ دعا فرمائی اللھم اجعلہ ھادیا مھدیا و اھدیہ ‘‘ اے اﷲ ! لوگوں کے لئے(معاویہ) کو ہادی بنا ،ہدایت یافتہ فرما اور انکے ذریعہ دوسروں کو ہدایت عطا فرما ۔ (جامع ترمذی ۵۷۴) حضرت عرباض بن ساریہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو فر ماتے ہوئے سنا قال النبی ﷺ ’’ اللھم علم معاویہ الکتاب و الحساب وقد العذاب ‘‘ اے اﷲ ! معاویہ ؓ کو کتاب وحساب کا علم دے اور عذاب سے محفوظ رکھ ۔ ( مسند احمد ج ۴ ۱۵۷۰؁ ، مجمع الذوائد ج ۹ ھ ۵۹۴) لاتذکرہ معاویہ الا بخیر معاویہ ؓ کا تذکرہ صرف بھلائی کے ساتھ کر و ( تفسیرالجنان) یبعث اﷲ تعالیٰ معاویہ یوم القیامۃ وعلیہ دومن نور لایمان ‘‘ اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن معاویہ ؓ کو اٹھائیں گے تو ان پر نور ایمان کی چادر ہوگی ( تاریخ اسلام از حافظ دذھبی )رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا " جو معاویہ سے لڑے گا زیر ہوگا ۔( ابن حجر الامابہ) صاحب سری معاویہ بن ابی سفیان فمن لحد فقد نجاۃ ومن ابغضہ فقد ھلک ‘‘ معاویہ میرا راز دان ہے جس نے اسکے ساتھ محبت کی، نجات پا گیا ،جس نے بعض رکھا وہ ہلاک ہوگیا۔ (حضرت امیر معاویہؓ از علامہ ضیاء الرحمن فاروقی) احلم من امتی معاویہ ؓ میری امت میں معاویہ سب سے زیادہ بردبار ہیں (ایضاً ) میری امت کا پہلا لشکر جو بحری لڑائیوں کا آغاز کر ے گا اس پر جنت واجب ہے۔ ( بخاری ج ص ۴۱۰ کتاب الجہاد مسلم ج ۶ ۶۴۲؁ ) حافظ ابن حجر عسقلانی (متوفی ھ۸۵۲ ) حافظ بدالدین عینی الحنفی متوفی (۸۵۵ ھ )رحمت اﷲ فرماتے ہیں ھذا الحدیث منقبہ لمعاویہ لانہ اول من غزالبحر ‘‘ یہ حدیث حضرت معاویہ ؓ کی منقبت ہے کیونکہ وہی پہلے شخص جنہوں نے سب سے پہلے سمندر پار جہاد کیا۔حضرت سیدنا ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ حضرت علی ؓ نے فرمایا ۔ معاویہ میرا بھائی ہیں ۔ ( مکتوبات ج ۲ ۵۴؁ )

حضرت علی المرتضیؓ نے لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا, اے لوگو! معاویہ ؓ کی امامت کو برا مت جانو، اﷲ کی قسم اگر تم نے انہیں کھو دیا تو تم دیکھو گے کہ سر اپنے شانوں سے جدا ہوں گے ،جس طرح ہنزل کا پھل اپنے درخت سے ٹوٹ کر گرتا ہے ۔(البدایہ والنہایہ ج 8) حضرت عمر ؓ نے فرمایا جب امت میں تفرقہ اور فتنہ برپا ہو تو تم لوگ معاویہ ؓ کی اتباع کرنا اور ان کے پاس شام چلے جانا (تطہیرالجنان) معاویہؓ کا ذکر کرو تو خیر سے کرو(ترمذی) حضرت عبداﷲ بن عباس ؓ نے فرمایا میں معاویہؓ سے زیادہ حکومت کے لیے موزو ں کسی کو نہیں پایا(طبری،البدایہ والنہایہ ج ۸ ص ۱۳۵) حضرت حسن ؓ نے فرمایا جو معاویہؓ کو برا کہتا ہے اس پر خدا کی لعنت ہو(الاستیعاب)حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے فرمایا میں نے حضرت عثمان ؓ کے بعد معاویہؓ جیسا عادل اور حقانی فیصلہ کرنے والا نہیں دیکھا (البدایہ والنہایہ۔ ج ۸ ص۱۳۲)۔حضرت ابو درداء ؓ بن عامر نے فرمایا میں نے رسولﷺ کے مشابہ نماز پڑنے والا معاویہؓبن ابی سفیانؓ کی طرح نہیں دیکھا (منہاج السنہ)۔حضرت عبداﷲ بن عمر ؓ نے فرمایا میں نے معاویہؓ سے بڑھ کر کسی کو سردار نہیں پایا(الاستیعاب)۔حضر ت معاویہؓ نبی کریم ﷺ کے سامنے بیٹھ کر وحی کے خطوط لکھا کرتے تھے(مجمع الزائد)۔ حضرت عبداﷲ بن زبیر ؓ نے فرمایا حضرت معاویہؓ کے کیاکہنے اہل زمین کا کوئی شب بیداری کرنے والا ان سے زیادہ عقلمند نہ تھا(البدایہ والنہایہ)۔حضرت عمیر بن سعدؓ نے فرمایا اے لوگو معاویہؓ کا ذ کر بھلائی کے ساتھ کرورسولﷺ نے انہیں ہادی مہدی کے لقب سے نوازا ہے۔حضرت ضہاک بن قیس ؓ نے فرمایامعاویہؓ عرب کی تلوار کی دہار اور اس چمک کی خوشبو ہے اﷲ نے انکے طفیل فتنہ وفساد کا خاتمہ کردیااور اپنے بندوں پر انہیں حکومت دی انکی افواج خشکی اور تری پر چھا گئی۔

حضرت امیر معاویہ ؓ نے فتح مکہ کے بعد تمام غزوات میں اپنی بہادری کا خوب مظاہرہ کیا اور داد شجاعت حاصل کی ،وصال نبوی ﷺ کے بعد خلیفہ الرسول ﷺ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے دور میں جنگ یمامہ میں بھرپور انداز میں شرکت کی جب کہ خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق ؓ نے آپ کو 19 ؁ ھ میں حضرت یزید بن ابو سفیانؓکی وفات کے بعد گورنر شام مقرر فرمایا،خلیفہ ثالث حضرت عثمان غنی ؓ نے اپنے دور میں شام کے ساتھ ساتھ حمص،قنسرین اور فلسطین کے علاقے بھی آپ کے ماتحت کردئیے، آپ اپنے زیر اثر علاقو ں پر مضبوط گرفت رکھتے تھے، حضرت عمر فاروق ؓ فرمایا کرتے تھے کہ تم قیصر و کسریٰ اور ان کی سیاست کی تعریف کرتے ہو حالانکہ تم میں امیر معاویہ موجود ہیں، اے لوگو! تم میرے بعدآپس میں تفرقہ بندی سے بچو، اگر تم نے ایسا کیا تو سمجھ رکھو ۔۔۔۔۔معاویہ شام میں موجود ہے۔(الاصابہ)جنگ صفین کے بعد حضرت علی المرتضیٰ ؓ نے لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا، اے لوگو!تم معاویہ کی گورنری اور امارت کو ناپسند مت کرو، اگر تم نے ان کو گم کر دیاتو تم دیکھو گے کہ سر اپنے شانوں سے اس طرح کٹ کٹ کے گریں گے جس طرح حنطل کا پھل اپنے درخت سے ٹوٹ کر گرتا ہے۔(البدایہ والنہایہ)حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے کہ میں نے امیر معاویہؓ سے بڑ ھ کرسلطنت اور بادشاہت کے لائق کسی کو نہیں پایا۔(الاصابہ)حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا کہ میں نے معاویہ سے بڑھ کر سرداری کے لائق کسی کو نہیں پایا۔(البدایہ والنہایہ)

بحیثیت گورنر شام 25؁ھ میں آپ نے روم کے خلاف جہاد شروع کیا،27 ؁ھ میں انسانی تاریخ میں پہلا بحری جنگی جہازوں کابیڑہ تیار کرواکر قبرص کی طرف روانہ کیا، اور صرف ایک سال بعداس اسلامی لشکر نے؂ قبرص پر اسلامی پرچم لہرا کرفتح حاصل کی،بلاشبہ یہ بہت عظیم سعادت و بشارت حضرت امیر معاویہ ؓ کے حصہ میں آئی،جس کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ میری امت کاپہلا وہ لشکر جس نے بحری لڑائی لڑی ،تو اس نے اپنے اوپر جنت واجب کر لی۔(صحیح البخاری) 41؁ھ میں حضرت علی المرتضی ؓ کے جانشین حضرت حسن ؓ کے ساتھ صلح کی ،جس کے نتیجہ میں حضرت امیر معاویہ ؓ امیر المؤمنین اور خلیفۃ المسلمین کے منصب پر فائز ہوئے، اس سال کو تاریخ عرب میں عام الجماعۃ کہا جاتا ہے یہ وہ سال ہے جس میں امت کا منتشر شیرازہ پھر مجتمع ہو گیا اور پوری دنیا کے مسلمانوں نے ایک امیر کے ہاتھ پر بیعت خلافت کی۔
 
امیر المؤمنین حضرت امیر معاویہ ؓ نے خلافت کی بھاگ دوڑ سنبھالنے کے ساتھ ہی جہاد اسلامی کے رکے ہوئے سلسلہ کو دوبارہ شروع کیا جو حضرت عثمان غنی ؓ کی شہادت کے وقت سے رکا ہوا تھا،آپ نے رومیوں کے خلاف 16جنگیں لڑیں،49؁ھ میں قسطنطنیہ کی طرف زبردست لشکر روانہ کیا،جس میں کبار صحابہ ؓ شامل تھے ،لشکر کے سپہ سالار سفیان بن عوف ؓ تھے،یہی وہ خوش نصیب تھے جن کے بارے میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ پہلا لشکرجو قسطنطنیہ کا جہاد کرے گا ان کو بخش دیا جائے گا۔(البدایہ والنہایہ)آپ نے براعظم یورپ،افریقہ اور جنوب ومشرق ایشیائی ممالک ہندوستان، افغانستان، بخارا وسمرقند تک خلافت اسلامیہ کی سرحدوں کو وسعت دی اور اسلامی قوت میں غیر معمولی اضافہ کیا۔
امیر المؤمنین حضرت امیر معاویہ ؓ نے اپنے دور خلافت میں باقاعدہ بحری فوج کا قیام عمل میں لایااورامیرالبحرجنادہ بن ابی امیہ کو مقررکیا،مصر و شام کے ساحلی علاقوں پر جہاز سازی کے کارخانے قائم کئے،جہاں سے ایک ہزار سات سو بحری جنگی جہاز تیار کرکے اسلامی بحری بیڑے میں شامل کئے گے۔ڈاک کے محکمہ کو توسیع دے کر مزید مستحکم کیا گیا، محکمہ دیوان خاتم کا قیام عمل میں لایا،خانہ کعبہ کی خدمت کے لیے خادمین مقرر کئے گے اور حریر و دیباج کا غلاف تیار کروا کربیت اﷲ پر چڑھایا گیا۔مجموعی طور پر آپؓ اکتالیس (41)سال تک امارت و خلافت کے منصب پر رہے،علامہ ابن کثیر آپ کی خلافت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ آپ کے دور میں جہاد کا سلسلہ قائم رہا، پرچم اسلام بلند ہوتا رہااور مال غنیمت اطراف سلطنت سے بیت االمال میں آتا رہا،مسلمانوں نے راحت و آرام اور عدل و انصاف کی زندگی بسر کی۔(البدایہ والنہایہ)آپ کا دور ہر اعتبار سے کامیاب تھا،آپ رعایا کوآرام و سکون پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کرتے تھے،رعایا تک ان کاحق پہچانے اور دیکھ بھال کے لیے آپ نے ایک مکمل نظام وضع کیا ، ہر قبیلہ اورعلاقہ میں ایک شخص کونمائندہ مقرر کیا کہ وہ اپنے متعلقین کے احوال معلوم کرتا رہے،بچے کی پیدائش ہو یا کسی مہمان کا آنااس کا وظیفہ اور اخراجات بیت المال سے ادا کئے جاتے۔رفاہ عامہ کے لیے نئی نہروں کی کھدائی اور پرانی نہروں کو از سر نو جاری کیا، مساجد و مکاتب کا جال بچھایا،دمشق کے غنڈوں اور بدمعاشوں کی فہرست بنوائی جب کہ عوامی فلاح و بہبود کی ہر ممکن کوشش کی، ان تمام اقدامات کا نتیجہ ہی تھا کہ رعایا میں آپ کی مقبولیت اور محبوبیت قابل رشک تھی(الادب المفرد، امام بخاریؒ)۔آپ ؓ عام مسلمانوں کے حالات میں دلچسپی لیتے اوران کی شکایات کو بغور سنتے،پھر حتیٰ الامکان اس کو دورفرماتے تھے۔مؤرخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ کا دور خلافت میں امن،خوشحالی اورفتوحات ہونے کے ساتھ ساتھ خارجہ پالیسی کے لحاظ سے کامیاب ترین دور تھا۔

حضرت امیر معاویہ ؓ نے پوری زندگی عوامی خدمت ،اسلام کی تبلیغ و ترویج ،اعلاء کلمۃ اﷲ کی جدوجہد اور قوانین اسلام کے نفاذ میں گزار ی،چنانچہ 60؁ھ میں اٹھتر سال کی عمرمیں خلافت اسلامیہ کا عظیم باب،علم و حلم اور تدبر وحکمت کا آفتاب ومہتاب ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا،آپ کی نماز جنازہ حضرت ضحاک بن قیس نے پڑھائی اور آپ کی تدفین دمشق میں ہوئی۔رضی اﷲ عنہ ورضوا عنہ

 

Molana Tanveer Ahmad Awan
About the Author: Molana Tanveer Ahmad Awan Read More Articles by Molana Tanveer Ahmad Awan: 212 Articles with 275848 views writter in national news pepers ,teacher,wellfare and social worker... View More