سلیم محبتی کو گزری تمام باتیں یاد آرہی تھیں وہ شرارتیں
وہ ناراضگیاں وہ گریز وہ التفات وہ روٹھ جانا صنمی کا اور خود اس کا اور
پھر ایک دوسرے کو منانا اور خیال بھی رکھنا یہ سب کیا تھا اور چھوٹی چھوٹی
بے وفایاں اور پھر سے محبت کا بڑھ جانا اور تھوڑا سا گھٹ جانا اور اس کی
خاطر کسی سے لڑ جانا اور اس کی حمایت
اتنی تیزی سے لمبی مسافت میلوں کی گھنٹوں میں طے ہو گئی تھی اور وہ موقع پا
کر گھنٹوں بیٹھے رہنا اور ساتھ چاے پینا اور اس کا موبائل میں محو ہونا اور
سلیم کا اس کے ہاتھوں کو موبائل پر چلتے دیکھنا اور اس کا انجان بن کر
دِکھنا اور اپنے آپ کو چپکے چپکے دکھانا اور ایک حجاب بھی رکھنا ان کیفیات
کو اور بھی دلچسپ بنا رہے تھے اور یہ گنگنا رہے تھے
کون کہتا ہے محبت کی زباں ہوتی ہے
یہ حقیقت تو نگاہوں سے بیاں ہوتی ہے
اور وہ نگاہوں نگاہوں میں بہت دور نکل چکے تھے اس کا انجام سو چے بنا اور
تصور میں سلیم کے اسی کا لمس ہوتا اور اس کی نرم یادیں جزبات کو گرم کر
دیتیں اور پھر جدای کا احساس ان کو ٹھنڈا کر دیتا مگر کلیجے میں ٹھنڈ نہ
پڑتی اور اس کی امیدوں پر اوس پڑتی اور اس کی آنکھ رو پڑتی لیکن ساتھ ہی
ایک آہستہ آہستہ قید سے آزادی اور لوگوں کی تنقید سے نجات کا احساس بھی جنم
لے رہا تھا اور زندگی میں دوسری دلچسپیاں بھی بڑھ رہی تھیں جو اس کی
موجودگی میں کہیں گُم ہو گئ تھیں
اور عقل کہ رہی تھی کان میں کہ بھول جا اور دل تھا کہ بھول نہیں پا رہا تھا
کہاں آ کے رکنے تھے راستے کہاں موڑ تھا اسے بھول جا
وہ جو مل گیا اسے یاد رکھ جو نہیں ملا اسے بھول جا
وہ ترے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں
دل بے خبر مری بات سن اسے بھول جا اسے بھول جا
جاری ہے
|