حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنھما
روایت کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لشکروں میں سے
ایک لشکر میں تھے، لوگ کفار کے مقابلے سے بھاگ نکلے اور ان بھاگنے والوں
میں، میں بھی شامل تھا پھر جب پشیمان ہوئے تو سب نے واپس مدینہ جانے کا
مشورہ کیا اور عزمِ مصمم کرلیا کہ اگلے جہاد میں ضرور شریک ہوں گے۔ وہاں ہم
نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جانے کی تمنا کی کہ خود کو آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پیش کردیں۔ اگر ہماری توبہ قبول ہوگئی تو
مدینہ میں ٹھہر جائیں گے ورنہ کہیں اور چلے جائیں گے۔ پھر ہم نے بارگاہِ
رسالتِ مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آکر عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اﷲ
علیک وسلم! ہم بھاگنے والے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری طرف
متوجہ ہوئے اور فرمایا،’’نہیں، بلکہ تم پلٹ کر حملہ کرنے والے ہو حضرت
عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنھما بیان کرتے ہیں کہ (یہ سن کر ہم خوش ہوگئے) آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے
دست اقدس کو بوسہ دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں
مسلمانوں کی پناہ گاہ ہوں(یعنی ان کا ملجا و ماویٰ ہوں، وہ میرے سوا اور
کہاں جائیں گے
:: ابوداؤدشریف، 3 : 46، کتاب الجهاد، رقم : 2647
ترمذی شریف، 4 : 215، ابواب الجهاد، رقم : 1716
ابوداؤد شریف، 4 : 356، کتاب الأدب، رقم : 5223
أدب المفرد، 1 : 338، رقم : 972،امام بخاری
مسندامام احمدبن حنبل، 2 : 70، رقم : 5384
امِّ ابان بنت وازع بن زارع اپنے دادا زارع بن عامر جو وفدِ عبدالقیس کے
ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تھے، سے روایت
کرتی ہیں کہ انہوں نے بیان کیا۔’’جب ہم مدینہ منورہ گئے تو اپنی سواریوں سے
جلدی جلدی اترے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک ہاتھ اور
پاؤں کو بوسہ دینے لگے۔
:: ابوداؤد شریف، 4 : 357، کتاب الأدب، رقم : 5225
شعب الايمان، 6 : 477، رقم : 8966
فتح الباری، 8 : 85
سنن الکبری، 7 : 102، رقم : 13365،بہیقی
تاريخ الکبير، 4 : 447، رقم : 1493،امام بخاری
فتح الباری، 11 : 57،
دراية في تخريج احاديث الهداية، 2 : 232، رقم : 691،امام عسقلانی |