(41) مولانا شبیر احمد عثمانی (المتوفی
1369ھ) :-
مولانا شبیر احمد عثمانی ’’فتح الملہم شرح صحیح مسلم‘‘ میں حدیث ’’کل بدعۃ
ضلالۃ‘‘ کی شرح کرتے ہوئے اقسام بدعت کے حوالے سے لکھتے ہیں :
50. قال علي القاري قال في الازهار أي کل بدعة سيئة ضلالة لقوله عليه
الصلوة والسلام (من سن في الإسلام سنة حسنة فله أجرها و أجر من عمل بها)(1)
و جمع ابوبکر و عمر القرآن و کتبه زيد في المصحف و جُدد في عهد عثمان رضي
الله عنه قال النووي البدعة کل شئ عمل علي غير مثال سبق و في الشرع إحداث
مالم يکن في عهد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و قوله کل بدعة ضلالة(2)
عام مخصوص. (3)
’’ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ الازھار میں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
’’کل بدعۃ ضلالۃ‘ سے ہر بدعت سيّئَہ کا گمراہی ہونا مراد ہے اس پر حضور صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ قول دلیل ہے کہ ’’من سن فی الاسلام سنۃ حسنۃ فلہ
اجرھا و اجر من عمل بہا جیسا کہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اﷲ عنہما نے قرآن کو
جمع کیا حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے اسے مصحف میں لکھا اور عہد عثمان
رضی اللہ عنہ میں اس کی تجدید کی گئی امام نووی فرماتے ہیں کہ بدعت ہر اُس
عمل کو کہتے ہیں جس کو مثال سابق کے بغیر عمل میں لایا جائے اور اِصطلاح
شرع میں ہر وہ نیا کام جو عہد نبوی میں نہ ہوا ہو بدعت کہلاتا ہے اور حدیث
کل بدعۃ ضلالۃ عام مخصوص ہے۔‘‘
ائمہ و محدثین کی طرف سے بدعت کی اس تقسیم کے بعد معلوم ہوا کہ اگر بدعت
شریعت کے مستحسنات کے تحت آجائے تو وہ بدعت حسنہ ہے اور اگر مستقبحات کے
تحت آجائے (یعنی مخالف دلیل ہو) تو بدعت سیئہ ہے اور اگر ان دونوں میں نہ
آئے تو وہ بدعت مباحہ ہے۔
1.
1. مسلم، الصحيح، 2 : 705، کتاب الزکوٰة، باب الحث علي الصدقه، رقم : 1017
2. نسائي، السنن، 5 : 55، 56، کتاب الزکاة، باب التحريض علي الصدقه، رقم :
2554
3. ابن ماجه، السنن، 1 : 74، مقدمة، باب سن سنة حسنة أو سيئة، رقم : 203
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 357. 359
5. ابن حبان، الصحيح، 8 : 101، 102، رقم : 3308
2.
1. ابوداؤد، السنن، 4 : 200، کتاب السنة، باب في لزوم السنة، رقم : 4607
2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 44، کتاب العلم، باب ما جاء في الأخذ بالسنة،
رقم : 2676
3. ابن ماجه، السنن، مقدمه، باب اتباع السنة الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم
: 42
4. طبراني، المعجم الکبير، 18 : 249، رقم : 624
3.
عثماني، فتح الملهم شرح صحيح مسلم، 2 : 406
(42) مولانا محمد زکریا کاندھلوی (المتوفی 1402ھ) :-
مولانا محمد زکریا کاندھلوی ’’اوجز المسالک اِلی مؤطا مالک‘‘ میں ’’نعمت
البدعۃ ہذہ‘‘ کے ذیل میں بدعت کا معنی و مفہوم اور تقسیم بیان کرتے ہوئے
لکھتے ہیں :
51. والبدعة الممنوعة تکون خلاف السنة، و هذا تصريح منه بأنه أول من جمع
الناس في قيام رمضان علي إمام واحد بالجماعة الکبري، لأن البدعة ما ابتدأ
بفعلها المبتدع، ولم يتقدمه غيره، و أراد بالبدعة : اجتماعهم علي إمام واحد
لا أصل التراويح أو الجماعة، فإنهم کانوا قبل ذلک يصلون أوزاعا لنفسه ومع
الرهط.
’’بدعتِ ممنوعہ خلافِ سنت ہوتی ہے۔ اور یہ اس کی وضاحت میں سے ہے کیونکہ یہ
(سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ) پہلے شخص تھے جنہوں نے قیام رمضان کے سلسلے
میں بڑی جماعت کے لئے لوگوں کو ایک امام کے پیچھے جمع کردیا۔ کیونکہ بدعت
وہ ہوتی ہے جس کی ابتداء کسی بدعتی نے کی ہو اور اس سے پہلے اس کے علاوہ
کسی اور نے اس کا اجراء نہ کیا ہو پس اس حدیث میں بدعت سے مراد ایک امام کے
پیچھے لوگوں کو مجتمع کرنا ہے نہ کہ نفس تراویح یا نفس جماعت کا آغاز کرنا
کیونکہ صحابہ اس سے قبل الگ الگ یا گروہ کی شکل میں نماز پڑھا کرتے تھے۔‘‘
کاندهلوي، أوجز المسالک الي مؤطا مالک، 2 : 297
(43) الشیخ عبد العزیز بن عبد اﷲ بن باز (1421ھ) :-
عصر قریب میں مملکت سعودی عرب کے معروف مفتی شیخ عبد العزیز بن عبد اﷲ بن
باز نے سعودی حکومت کے شعبہ ’’الافتاء والدعوہ والارشاد‘‘ کے زیر اہتمام
چھپنے والے اپنے فتاويٰ جات کے مجموعہ ’’فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحُوث
العلمیۃ والافتاء‘‘ میں بدعت حسنہ اور بدعت سیہ کی تقسیم بیان کرتے ہوئے
لکھا ہے :
52. أولاً : قسم العلماء البدعة إلي بدعة دينية و بدعة دنيوية، فالبدعة في
الدين هي : إحداث عبادة لم يشرعها اﷲ سبحانه و تعالي وهي التيي تراد في
الحديث الذي ذکر وما في معناه من الأحاديث. و أما الدنيوية : فما غلب فيها
جانب المصلحة علي جانب المفسدة فهي جائزة وإلا فهي ممنوعة ومن أمثلة ذلک ما
أحدث من أنواع السلاح والمراکب و نحو ذلک.
ثالثاً : طبع القرآن و کتابته من وسائل حفظه و تعلمه و تعليمه و الوسائل
لها حکم الغايات فيکون ذلک مشروعاً و ليس من البدع المنهي عنها؛ لأن اﷲ
سبحانه ضمن حفظ القرآن الکريم و هذا من وسائل حفظه.
’’علماء کرام نے بدعت کو بدعت دینیہ اور بدعت دنیویہ میں تقسیم کیا ہے،
بدعت دینیہ یہ ہے کہ ایسی عبادت کو شروع کرنا جسے اللہ تبارک و تعالیٰ نے
مشروع نہ کیا ہو اور یہی اس حدیث سے مراد ہے جو ذکر کی جا چکی ہے اور اس
طرح کی دیگر احادیث سے بھی یہی مراد ہے اور دوسری بدعت دنیوی ہے اور وہ یہ
ہے کہ جس میں مصلحت والا پہلو فساد والے پہلو پر غالب ہو اور وہ جائز ہے
اور اگر ایسا نہ ہو (یعنی مصلحت والا پہلو فساد والے پہلو پر غالب نہ ہو)
تو وہ ممنوع ہے۔ اس کی مثالوں میں مختلف اقسام کا اسلحہ سواریاں اور اس
جیسی دیگر چیزیں بنانا اسی طرح قرآن پاک کی طباعت و کتابت اس کو حفظ کرنے،
اسے سیکھنے اور سکھانے کے وسائل اور وہ وسائل جن کے لیے غایات (اھداف) کا
حکم ہے پس یہ ساری چیزیں مشروع ہیں اور ممنوعہ بدعات میں سے نہیں ہیں
کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن پاک کے حفظ کی ضمانت دی ہے اور یہ (سب
اس کے) وسائل حفظ میں سے ہے۔‘‘
ابن باز، فتاويٰ اللجنة، 2 : 325
ایک اور سوال کے جواب میں ابن باز بدعت دینیۃ اور بدعت عادیۃ کی تقسیم بیان
کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
53. البدعة تنقسم إلي بدعة دينية و بدعة عادية، فالعادية مثل کل ما جد من
الصناعات والاختراعات والأصل فيها الجواز إلا ما دل دليل شرعي علي منعه.
أما البدعة الدينية فهي کل ما أحدث في الدين مضاهاة لتشريع اﷲ.
’’بدعت کو بدعت دینیہ اور بدعت عادیہ میں تقسیم کیا جاتا ہے پس بدعت عادیہ
سے مراد ہر وہ نئی چیز جو کہ مصنوعات یا ایجادات میں سے ہو اور دراصل میں
اس پر جواز کا حکم ہے سوائے اس چیز کے کہ جس کے منع پر کوئی شرعی دلیل آ
چکی ہو اور پھر بدعت دینی یہ ہے کہ ہر نئی چیز جو دین میں ایجاد کی جائے جو
اللہ تعاليٰ کی شرع کے متشابہ ہو (یہ ناجائز ہے)۔‘‘
ابن باز، فتاويٰ اللجنة، 2 : 329
بدعت کی لغوی تعریف کے بعد بدعت خیر اور بدعت شر کی تفصیل بیان کرتے ہوئے
علامہ ابن باز لکھتے ہیں :
54. البدعة هي کل ما أحدث علي غير مثال سابق، ثم منها ما يتعلق بالمعاملات
و شؤون الدنيا کإختراع آلات النقل من طائرات و سيارات و قاطرات وأجهزة
الکهرباء وأدوات الطهي والمکيفات التي تستعمل للتدفئة والتبريد وآلات الحرب
من قنابل وغواصات و دبابات إلي غير ذلک مما يرجع إلي مصالح العباد في
دنياهم فهذه في نفسها لا حرج فيها ولا إثم في إختراعها، أما بالنسبة للمقصد
من اختراعها وما تستعمل فيه فإن قصد بها خير واستعين بها فيه فهي خير، وإن
قصد بها شر من تخريب و تدمير وإفساد في الأرض واستعين بها في ذلک فهي شر و
بلاء.
’’ہر وہ چیز جو مثال سابق کے بغیر ایجاد کی جائے بدعت کہلاتی ہے۔ پھر ان
میں سے جو چیزیں معاملات اور دنیاوی کاموں میں سے ہوں جیسے نقل و حمل کے
آلات میں سے جہاز، گاڑیاں، ریلوے انجن، بجلی کا سامان، صنعتی آلات اور
ایئرکنڈیشنرز جو کہ ٹھنڈک اور حرارت کے لئے استعمال ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ،
اور اسی طرح جنگی آلات میں سے ایٹم بم، آبدوزیں اور ٹینک یا اس جیسی دیگر
چیزیں جن کو لوگ اپنی دنیاوی مصلحت کے پیش نظر ترجیح دیتے ہیں۔ یہ تمام
چیزیں ایسی ہیں کہ فی نفسہ ان کی ایجادات میں نہ تو کوئی گناہ ہے اور نہ ہی
کسی قسم کا حرج ہے مگر ان چیزوں کے مقصد ایجاد کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے
کہ اگر تو ان چیزوں کے استعمال کا مقصد خیر و سلامتی ہے تو ان چیزوں سے خیر
کے معاملے میں مدد حاصل کی جا سکتی ہے تو یہ ایک بھلائی ہے اور اگر ان
چیزوں کا مقصد ایجاد زمین میں شر، فساد، تخریب کاری اور تباہی ہے تو پھر ان
چیزوں سے مدد حاصل کرنا تباہی و بربادی ہے اور یہ ایک شر اور بلاء ہے۔‘‘
ابن باز، فتاويٰ اللجنة، 2 : 321
جاری ہے--- |