پاکستان سمیت دنیا بھر میں خواتین ،ننھی بچیوں اور
بچوں سمیت زیادتی ، بدفعلی کے بعد قتل کے واقعات میں اضافہ خطرناک
حدپارکرچکاہے ،اکثر والد ین بات کا شکو ہ کرتے نظر آئیں گے کہ ہمارے معاشرے
میں موجود چند درندہ صفت نما انسانوں نے خواتین کا جینا حرام کررکھا ہے،
لاکھوں جنسی تشدد کا نشانہ بننے والی متاثرہ خواتین، بچیاں ، بچے حصول
انصاف کیلئے عدالتوں سے انصاف کی منتظربھی ہیں۔اس حقیقت میں کوئی شک نہیں
کہ خواتین ہمارے معاشرے کی باعزت مقام رکھتی ہیں پھر کیوں روزبروز خواتین
کے ساتھ زیادتی اور جنسی تشدد کے واقعات میں اصافہ ہورہاہے ہر محب شہری اس
پریشانی سے نجات کیلئے پریشان ہے ماہرین اور آج کی تحقیقات سے ثابت ہو
چکاہے کہ قدرت نے انسان کوزندگی کے ساتھ ساتھ دنیا کے ہر مسئلے کا حل کیلئے
سوچ بھی دی ہے ۔لیکن آج کل لوگوں میں یہ سوچ عام ہے کہ شائد ان واقعات کے
ذمہ دارحکمران ہیں ، عدالتیں ہیں ، قانون نافذکرنے والے ادارے ہیں ؟۔لیکن
تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ حقیقت کچھ اور ہے۔ اسی حوالے سے اسرئیل کو اگر
آپ نقشے پر دیکھے تو اس کا ایریا ایک ڈاٹ سے تھوڑا سا بڑا نظر آتا ہے جو کہ
پاکستان کے صرف دو شہروں اسلام آباد اور راولپنڈی کے برابر ہے۔ اس کی کل
آبادی 8.059 ملین ہے۔ لیکین پھر بھی ان کا ہر ایک بندہ اتنا جنیس اور قابل
کیوں ہے ؟بتایا جاتاہے کہ جب وہاں ماییں حاملہ ہوتی ہیں تو وہ باقاعدہ
ریاضی کی مشقیں حل کرتی ہیں اور ان کے شوہر بھی ان کے ساتھ ہوتے ہیں۔ وہ
دونوں مل کر یہ پریکٹس کرتے ہیں ، اور یہ پریکٹس بالکل اس طرح سے کی جاتی
ہے کہ اس میں بولا جاتا ہے کہ یہ ہو ،یہ ہو تو کیا بنے گا۔ کیونکہ ان کا
ماننا یہ ہے کہ یہ جو حاملہ خاتون ہے یہ جو کھاتی ہے ' جو سوچتی ہے اور خاص
طور پر ان کے جو ذہنی مشاغل ہوتے ہیں ، اس کا ڈایریکٹ اثر بچوں پر پڑتا ہے
یعنی نسل کے اوپر ، جو شخص ، جو انسان اس دنیا میں آنے والا ہے، اس کی
شخصیت اور اس کی سوچ کے اوپر پڑ رہا ہوتا ہے۔ وہ موسیقی میں گہری دلچسپی
لیتی ہے۔ وہ موسیقی سنتی ہے ، بجاتی ہے اور گاتی ہے۔ ان کو ایک ایسے ارام
دہ ماحول میں رکھا جاتا ہے جہاں پہ کویی ساس کے طعنے نہیں ہوتے ، کویی شوہر
کی بد مزاجی نہیں ہوتی ، کویی کڑوی کسیلی یا تناو والی بات نہیں کی جاتی۔
بلکہ ان کو ایسے دیکھا جاتا ہے کہ یہ ایک ایسے انسان کو جنم دینے والی ہے
جو کہ دنیا میں کچھ کرنے کی قابلیت اور صلاحیت رکھے۔ ان کا فوکس ہوتا ہے کہ
ایک ذہین انسان کو پیدا کیا جاےَ۔ بچہ صرف اسلئے نہیں کہ شوہر قابو میں
آجاےَ یا پھر ہمارا خاندان بڑا ہو جائے اور کویی ہمیں کچھ کہہ نہ سکے۔ ایک
قابل انسان پیدا کرنا سارے خاندان کا فوکس ہوتا ہے اور ایک خاص پلاننگ کے
تحت اس کیلئے ایک ٹارگٹ رکھا جاتا ہے۔ اسی لحاظ سے ان کے کھانے پینے پہ بھی
توجہ دی جاتی ہے اور ان کے کھانے میں کھجور ، دودھ ، بادام اور مچھلی شامل
ہوتی ہے۔ یہ چند عوامل بچے کے اس دنیا میں آنے سے پہلے ہیں۔ جب بچہ پیدا ہو
جاتا ہے تو وہ تین زبانیں ضرور سیکھتا ہے--- عربی ، عبرانی اور انگریزی۔ ان
کے بچوں کے گیمز جو ہوتے ہیں وہ یا تو زیادہ تر تیراندازی کرتے ہیں ، شوٹنگ
کرتے ہیں یا پھر دوڑ کے مقابلوں میں حصہ لیتے ہیں جسکا اثر جسمانی نشونما
یا فٹنس کے اوپر ہو۔ خاص طور پر تیراندازی یا شوٹنگ کے بارے میں ان کا یہ
کہنا ہے کہ جو لوگ ان سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں ،ساری زندگی ان کے اندر
فیصلے اور ججمنٹ کی ایک خاص صلاحیت پایی جاتی ہے۔ سگریٹ کے جتنے سارے
برانڈز ہیں وہ سارے یہودیوں کے ہی ہیں لیکن ان کے اپنے گھروں کے اندر اتنی
سختی ہے کہ اگر آپ مہمان بھی ہے تو وہ آپ کو بڑی خوش اخلاقی سے بولیں گے کہ
آپ سگریٹ باہر پی کے آجاےَ۔ کیونکہ ان کا کہنا اور ماننا ہے کہ سگریٹ کا
اثر بچے کی DNA کے اوپر پڑتا ہے۔ حالانکہ وہ مہمان کی مہمان نوازی بڑے
روایتی طریقے سے کرتے ہیں اور ان کی خوب آوبھگت کی جاتی ہے۔ جب پڑھنے کا
مرحلہ آتا ہے تو کلاس اے سے وہ ان کو کاروباری میتھس پڑھاتے ہیں اور وہ اس
کے اوپر پورا کمانڈ حاصل کر لیتے ہیں۔
ماہر ین کے کہنا ہے کی زندگی کی آمد قدرت کا بہترین شاہکار ہے۔ زندگی سے ہی
دنیا میں رونق ہے۔ جب کوئی زندگی کسی گھر میں جنم لیتی ہے تو اس گھر میں
رہنے بسنے والوں کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہتا۔اس خوشی میں مستقبل کا خواب
پوشیدہ ہوتا ہے یہی بچہ کل ماں باپ کا سہارا بنے گا اور دنیا کو آگے بڑھانے
کا ذریعہ۔ تبھی تو اس کی صحت و حفاظت کی خاطر گھر کی بزرگ عورتیں اور ڈاکٹر
ماں بننے والی خاتون کو ہدایتیں دیتے نظر آتے ہیں ماں قدرت کا انمول تحفہ
ہے جواشرف المخلوقات انسان کے لئے بہترین،استاداور قدرت کا ہیلتھ پلان ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہرانسان اپنے نئی نسل کو بچانے کیلئے مستقل طور پر
ہیلتھ پلان بنائے تاکہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں خواتین ،ننھی بچیوں اور
بچوں سمیت زیادتی ، بدفعلی اور نامعلوم وجوہات کی بناء پر قتل عام کو روک
جاسکے،نئی نسل کو بچانے کیلئے حکومت وقت کو بھی فوری طورپر اقدامات کرنے
ہونگے ۔ |