نیچ ذات اور خطبہ حجتہ الوداع

“ تم پھر آگئی تیلیوں کا رشتہ لے کر ، کتنی بار تمہیں بولا ہے کہ ہم چوہدری کمیوں میں رشتہ نہیں کرتے۔ تم پھر آجاتی ہو ؟ “ دادی نے نخوت سے کہا ۔ ہر روز کی طرح آج بھی دادی اپنی مخصوص کردہ بڑے صحن میں اپنے تخت پر براجمان تھی۔ اسکے ہاتھ تیزی سے تسبیح کے دانے گراتے جا رہے تھے۔
“ لڑکا ڈاکٹر ہے ڈاکٹر اور سونا سنکا بھی، تیلی ہیں تو کیا ہوا بڑے سوکھے لوگ ہیں اور پڑھے لکھے لوگ کہاں ملتے ہیں۔ چھوٹی سی فیملی ہے۔ دو ہی تو بہن بھائی ہیں بس۔ ہماری نمو راج کرے گی راج “ اسنے سامنے رکھے چائے اور بسکٹ سے انصاف کرتے ہوے اپنے پیشہ ورانہ انداز سے کہا۔
“ اٹھ چلو جلدی شاباش نکلو یہاں سے، نمو کے لئے چوہدریوں کے لڑکے مر گئے کیا ؟ چلو بی بی نکلو یہاں سے ؟ دادی نے ماتھے پر تیوری لا کر شیرنی جیسی نظروں سے گھور کر کہا۔ رشتے والی مائی کا بسکٹ والا ہاتھ منہ کے پاس جاتے ہی رک گیا۔ وہ حیرانی سے اسے دیکھنے لگی پہلے تو اسے سمجھ نہیں آئی کہ اسے ہوا کیا پر سمجھ آنے پر اسنے ہاتھ میں پکڑا بسکٹ کھینچ کر چائے والے کپ میں پھینکا اور غصے سے اٹھ کر کھڑٰ ی ہو گئی۔
“ نمو کا رشتہ پھر اپنے جیسے چوہدریوں میں ہی کرنا ایک وی منڈہ اسکے جوڑ کا نہیں ہے سارے کے سارے چیٹے ان پڑھ اور ایک نمبر کے آوارہ ، سارا دن پنڈ میں لو لو پھرتے ہیں۔ اگر ایسا ہی لڑکا ڈھونڈنا تھا تو اپنی نمو کو اتنا پڑھا لکھا کر کیوں رکھا اسے وی چیٹی ان پڑھ رہنے دینا تھا ہہہنن “ اسنے پاؤں میں چپل پہنتے ہوئے تیز تیز زبان چلاتی گیٹ پار کر گئی۔
“ اسنے کونسا اتنا پڑھ کر تیر مار لیا کرنا تو چولہا چوکی ہی ہے نہ ؟ “ دادی نے اونچی آواز میں کہا تا کہ وا جاتی جاتی سن جائے۔ اسنے جواب میں بس ہاتھ اوپر کیا پر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
وہ کھڑکی کے پاس کھڑٰی بھیگی آنکھوں سے یہ سب دیکھ رہی تھی۔ یہ ہر روز کا تماشہ تھا۔ جب سے وہ شہر سے اپنی پڑھائی پوری کر کے آئی تھی دادی کو اسکی شادی کی فکر ستانے لگی تھی۔ مگر چوہدریوں کا پورے گاؤں میں کوئی بھی اسکے جوڑ کا نہیں تھا۔ دادی نے اسکی پڑھائی کی بہت مخالفت کی پر ماں کی بات کر آگے باپ کی شفقت جیت گیئ اس طرح نمرہ شہر جا کر اپنی پڑھائی کرنے لگی۔ نمرہ اپنے گھر کی اکلوتی بیٹٰی تھی۔ وہ پانچ سال کی تھی جب اسکی ماں اس دنیا سے رخصت ہو گئی تھی۔ دادی نے باپ کی دوسری شادی کر دی اور وہ لوگ الگ گھر میں رہنے لگے۔ اور نمرہ دادی کے پاس رہنے لگی۔ دادی کو اپنی اس پوتی سے بہت محبت تھی۔ پر وہ خاندان کی روایات کو جان سے زیادہ عزیز سمجھتی تھی۔
پر خاندان بھر میں نمرہ کے جوڑ کا ایک بھی رشتہ نہیں تھا۔ اور دادی یہ بات اچھے سے جانتی تھی۔ وہ نہ تو نمرہ کی شادی خاندان میں کر رہی تھی نہ باہر کرنے کا حوصلہ رکھتی تھی۔ اسی فکر میں وہ دن رات جل رہی تھی اور بیمار رہنے لگی تھی۔
آنسو تیزی سے اسکی آنکھوں سے بہنے لگے اور دل میں وہ یہ الفاظ دھراتی جا رہی تھی۔
“ کسی کو کسی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں سوائے تقویٰ کہ“ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ ہی ساری زات پات اونچ نیچ سب ختم کر دیتے ہیں پھر لوگ کیوں انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں۔ وہ دل میں سوچ رہی تھی کہ دادی کی آواز پر آنسو صاف کرتی۔ “ آئی دادو “ کہتی باہر کو بھاگی۔
“ میں زرا باہر جا رہی ہوں، تو اچھے سے دروازہ بند کر لینا اور جب تک میں نہ آؤں دروازہ نہیں کھولنا۔ “ دادی اتنا کہہ کر چھڑی کے سہارے چلتی گیٹ پار کر گئی۔ نمرہ گیٹ بند کر کے اپنے کمرے میں آگئی۔ کمرے میں آتے ہی اسنے الماری میں چھپا کر رکھا موبائل باہر نکالا، جوکہ سائلنٹ موڈ پر تھا اسنے جیسے ہی موبائل کی سکرین آن کی پچاس سے زیادہ مسڈ کال تھی۔ اسنے کال ہسٹری اوپن کی تو سب مسڈ کال فرحان کی تھی۔
“ یااللہ خیر ، اتنی مسڈ کال “ اسنے جلدی سے کال بیک کی، جو کہ پہلی بیل پر ہی ریسیو کرلی گئی۔
کہاں تھی تم ؟ کب سے فون کر رہا ہوں۔“ اسنے کال اٹھاتے ہی جلدی سے پوچھا۔
“ یہی تھی آپ کو پتہ تو ہے دادی کا، جب وہ گھر ہوں میں بات نہیں کر پاتی۔ ابھی باہر گئی ہیں تو میں نے موبائل ابھی دیکھا ہے۔ “ اسنے تفصیل سے بتایا
“ یار کیا ہیں تمھاری دادی ؟ انہوں نے پھر انکار کر دیا۔ وہ کاسٹ کو لے کر اتنی سائیکو کیوں ہیں۔ وہ ہمیں کبھی ایک ہونے نہیں دے گی۔“ فرحان نے اداسی سے کہا
“ ایسے نہیں کہتے وہ بہت اچھی ہیں بس اپنے پرانے طور طریقوں پر قائم ہیں۔ جو انکے بڑوں نے کیا وہ بھی ویسا ہی کرے گی۔ “
“ تو، تم بات کرو ان سے یار ، وہ تمہیں ضرور سنے گی۔ تم پڑھی لکھی لڑکی ہو اپنے علم کے ذریعے انہیں قائل کرو۔ مجھے یقین ہے تم کر سکتی ہو۔“ اسنے اعتماد سے کہا۔
“ میں نے آج تک انکی کسی بات کو نہ نہیں بولا نہ انکے آگے زبان کھولی پر اب اگر میں خاموش رھ گئی تو بہت سی لڑکیاں اس اونچی نیچی زات کے چکر میں جاہلوں کی نظر ہو جائے گی مجھے اپنے خاندان کی لڑکیوں کی آواز بننا ہو گا۔ میں یہ آپ کے لئے نہیں کہ رہی ہو میں تو ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی 14 سو سال پہلے کہی بات کو سامنے رکھنا چاہتی ہوں جو انہوں نے خطبہ حجت الودع کے موقع پر فرمائی تھی۔“
“ میں جانتا ہوں “ اسنے ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ نمرہ نے دادی آگئی بول کر کال کٹ کردی۔
اور جلدی سے موبائل کو واپس الماری میں رکھ کر دادی کے پاس باہر پہنچ گئی ۔ دادی کے پاس گیٹ کی چابی موجود تھی اس لئے گیٹ بجنے کو آوآز نہیں آتی تھی۔
“ باہر تو بہت گرمی پر رہی ہیں کھڑے ہونا وبال جان ہو رہا تھا۔“ وہ جلدی سے بھاگ کر فریج میں سے ٹھنڈے پانی کی بوتل نکال کر ایک گلاس بھی ساتھ لے آئی اور دادی کے پاس بیٹھ کر اسے گلاس بھر کر پانی کا دیا۔
“ جیتی رہ میری بچی تو نہ ہوتی جانے میرا کیا ہوتا۔ میرے بڑھاپے کو بھی ایک نوجوان سہاری مل گیا۔ اب بس مرنے سے پہلے ایک ہی خواہش ہے کہ تو کسی اچھے بندے کی زوجیت میں چلی جائے ، تاکہ میں سکون سے مر سکوں۔“
دادی نے اسکے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا اور آنکھوں میں آئی نمی کو صاف کیا۔
“ دادو ،،،، مجھے ایک بات کرنی ہے آپ سے۔ “ اسنے وہی تخت پر دادی کے پاس بیٹھتے ہوے کہا۔
“ بول میری بچی اس میں پوچھنے والی کونسی بات ہے ؟ “ دادی نے اسکے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
“ پتہ نہیں ،،، میں آپ کو سمجھا پاؤ گی کہ نہیں۔
“ کیا بات ہے بیٹا ؟ جو تم اتنا سوچ رہی ہو ؟ جو بھی بات ہے بولو بیٹا۔“ دادی نے پیار سے کہا۔
آپ کو پہلے میرے کچھ سوالوں کے جواب دینے ہوں گے۔ میں جو بھی کہوں گی آپ اسے سنے گی سمجھے گی۔
“ ہاں ہاں بولو تو میں سن رہی ہوں۔ اب تو مجھے بھی بے چینی ہو رہی ہے۔ آخر ایسی کونسی بات ہے ؟ رہی بات جواب کی تو تمہیں تمھارے ہر سوال کا جواب ملے گا ۔“ دادی نے اب سنجیدگی سے کہا۔
“ کیا آپ خطبہ حجتہ الوداع پر یقین رکھتی ہیں؟ “ اسنے جلدی سے اسکی آنکھوں میں دیکھ کر پوچھا۔ دادی کو ایسے سوال کی امید نہیں تھی پہلے تو وہ حیران ہوئی کہ اس سوال کا آخر کیا مطلب پھر وہ گویا ہوئی۔
“ ہاں کیوں نہیں الحمداللہ۔ “ دادی نے کہا۔
“ کیا میں آپ کو ان میں سے کچھ لاینز پڑھ کر نہ سناؤ “
“ ہاں کیوں نہیں ؟“ دادی نے نا سمجھی سے کہا انہیں کوئی بات سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی۔ کہ انکی پوتی ان سے آخر کہنا کیا چاہتی ہے؟
“ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری خطبہ حجتہ الوداع میں فرمایا۔ “ اللہ تعالی کا فرمان ہے، کہ انسانوں! ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد عورت سے پیدا کیا۔ اور تمہیں جماعتوں اور قبیلوں میں بانٹ دیا۔ تاکہ تم الگ الگ پہچانے جا سکو، تم میں زیادہ عزت اور کرامت والا اللہ کی نظر میں وہی ہے۔ جو اللہ سے زیادہ ڈرنے والا ہے۔ نہ عربی کو عجمی پر نہ عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت حاصل ہے، نہ کالا گورے سے افضل ہے نہ گورا کالے سے۔ہاں، بزرگی اور فضیلت کا کوئی معیار ہیں تو وہ تقوی ہے۔سب انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدم کی حقیقت کیا ہے کہ وہ مٹی سے بنے ہیں۔ اب فضیلت و بزرگی کہ تمام دعوے میرے پاؤں تلے روندے جا چکے ہیں۔“ کیا یہ آپ نے نہیں سنا تھا دادو؟ “
نمرہ کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
“ ہاں سنا بہت بار اب تو بینائی کمزور ہوگئی۔ میں نے بہت بار یہ پڑھا بھی ہے پر یہ سب مجھے بتانے کا مطلب کچھ سمجھ نہیں آیا؟ دادی نے پر سوچ لہجے میں کہا۔
“ تو اگر آپ یہ پڑھ چکی ہیں اس پر ایمان کیوں نہیں رکھتی؟ “ اسنے سوال کیا۔
“ میری کچھ سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ تم کیا کہنا چاہتی ہو بہتر یہی ہے ، کہ جو بھی بات ہے صاف صاف کہ دو پہلیاں کہاں اب سمجھ آتی ہیں بوڑھی ہو گئی ہونہ۔ “ دادی نے اپنا رٹا رٹایا جملہ بولا۔
“ میں بس یہ کہنا چاہتی ہوں کہ جب آپ خطبہ حجتہ الوداع پر یقین رکھتی ہیں، بہت بار پڑھ اور سن چکی ہیں تو ،،، پھر پڑھ سن کر بھی ایمان نہیں رکھتی۔ کیوں آپ اس پر عمل نہیں کرتی ؟ کیوں آپ ذات کے اونچ نیچ کو لے کر غرور جیسی لعنت میں مبتلا ہو جاتی ہیں کیا نبی پاک نے نہیں فرمایا کہ سب انسان برابر ہیں سوائے تقوی کے؟ آپ ان کی نافرمانی کیوں کرتی ہیں کیوں خود کو اونچا اور چھوٹی ذات والے کو نیچ سمجھتی ہیں ؟ اگر اللہ آپکو نیچ ذات کے گھر پیدا کر دیتا کیا تب بھی آپکی سوچ ایسی ہوتی ؟ کیا تب آپ خود کو کمی کمین بولتی؟ “ نمرہ نے آہستگی سے دادی کو آئینہ دیکھایا تھا۔
“ میں ،،،، میں آج تک اپنے بڑوں کی کہی ہوئی باتوں پر چل رہی تھی۔ کبھی خود سے سوچا ہی نہیں کہ ،،،،، میں کیا کر رہی ہوں خود کو اونچا دوسرے کو حقیر کیسے سمجھ بیٹھی میں میری بچی ،،،، جبکہ ،،، جبکہ میں خود ایک ادنی سی مٹی سے بنی ہوں ۔“ دادی کی آنکھوں میں آنسو تھے وہ بات کرتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ان سے لفظ بھی ٹھیک سے ادا نہیں ہو رہے تھے ۔ نمرہ نے انہیں گلے لگا کر آنسو صاف کئے اور انہیں رونے دیا۔ کافی دیر رو لینے کے بعد وہ پھر گویا ہوئی۔
“ میں بجائے شکر کے غرور میں مبتلا ہو گئی تھی۔ مجھے تو شکر ادا کرنا چاہئے تھا کہ مجھے اس رب نے ایک عزت دار گھرانے میں پیدا کیا۔ ورنہ میں اس قابل نہیں تھی میری بیٹی۔ ہمیں سنی سنائی باتوں بڑوں کی روایات کو ماننا چاہیے پر اپنی عقل بھی استعمال کرنی چاہئے۔ جو میں نا کر سکی اور اللہ نے مجھے تیرے ذرئعے میری اوقات بتائی۔میں آج ہی اس ڈاکٹر کو ہاں بولتی ہوں تیرے لئے اور اللہ سے معافی بھی مانگنی ابھی بہت کام کرنے والا ہے میں ابھی آتی ہوں۔“ دادی اس سے الگ ہو کر اپنے آنسو صاف کرتی اندر کمرے میں چلی گئی ۔ وہ وہی بیٹی اپنے رب کا شکر ادا کرنے لگی۔ ( ختم شدہ)

Zeena
About the Author: Zeena Read More Articles by Zeena: 92 Articles with 212493 views I Am ZeeNa
https://zeenastories456.blogspot.com
.. View More