مرد ہو یا عورت جس گرداب میں پھنس جایں اور جس محبت کا
انجام بھی واضع نہ ہو اس سے نکلنا ضروری ہو جاتا ہے کارواں اور کاروبار
زندگی کو رواں دواں رکھنے کے لیے
جیسے غم جاتے جاتے جاتا ہے خوشی بھی آتے آتے آہی جاتی ہے اور شاید وہ اپنی
اپنی زندگی میں مگن ہو گئے تھے اور ہونا بھی چاہیے تھا اور ارد گرد کے
لوگوں کی ضرورت بھی تھے اور جو رشتے کمزور پڑ چکے تھے وہ آہستہ آپستہ معمول
کے مطابق ہونے لگے تھے اور سلیم محبتی اپنی جگہ اور صنمی اپنی جگہ خدمت خلق
کے جزبہ سے سرشار بھی تھے جس نے ہی اس گرداب سے نکلنے میں مدد بھی فراہم کی
تھی ورنہ دیر بھی لگ سکتی تھی اور ڈپریشن کی شکل بھی اختیار کر سکتی تھی
اور جو خدا پر بھروسہ کرتے ہیں ان کی نجات کا رستہ نکل ہی آتا ہے
ان کی زندگی کا نیا سفر شروع ہو چکا تھا جس میں وہ ساتھ تو نہ تھے لیکن ایک
دوسرے کو بہت کچھ دے گئے تھے اور بہت کچھ سکھا گئے تھے اور دنیا کو دکھا
گئے تھے اور ایک دوسرے کے لیے آج بھی نیک جزبات رکھتے تھے اور یادوں کی کاٹ
تو ختم ہو گئ تھی مگر بھولے نہ تھے اور اپنی یادوں کا گُلدستہ سنبھال کر
کہیں سجا دیا تھا اور کبھی کبھی دیکھ لیا کرتے تھے اور مہک بھی جایا کرتے
تھے اور یہ مہک انہیں طاقت فراہم کرتی تھی نئے لمحوں کو جینے کے لیے کیونکہ
ان کے دل صاف تھے اور نیت بھی صاف تھی اور ان کی وجہ سے ارد گرد کا ماحول
بھی صاف ستھرا ہو گیا تھا
اور وہ یادوں کا گلدستہ الماری میں رکھ کر کام پر نکل جاتا تھا لیکن اُن
یادوں سے مہکتا رہتا تھا اور وقت اور نسیاں کی نعمت جدای کی کاٹ کم کر دیتے
ہیں ورنہ تو انسان ماضی کے صحرا میں بھٹکتا ہی رہے اور وہ حقیقت جو کبھی
حقیقت تھی اب افسانہ بن کر کتابوں کے صفحوں کی زینت بن چکی تھی
چلتے چلتے
یونہی کوی مل گیا تھا سر راہ
چلتے چلتے
کہ فسانہ بن گئ ہے میری بات
چلتے چلتے
|