وھ آج یوں بیٹھی تھی کہ جیسے ہر کشتی کو جلا چکی ہو. اس
کے کانوں میں اپنی ماں کی آواز گونج رہی تھی
:
"طوائف کا کوئی گھر نہیں ہوتا، اس پر مرد نوٹوں کی برسات تو کرسکتا ہے مگر
اس کو بیوی کا درجہ نہیں دے سکتا. تم عزت کی زندگی کے خواب دیکھنے چھوڑ دو.
امراو جان ادا سے لے کر پگلی نسرین تک ہم سب کا سفر اس بازار سے شروع ہو کر
اسی بازار میں ختم ہوتا ہے. "
وھ اپنے ہاتھ میں پکڑے طلاق نامہ کو یوں دیکھ رہی تھی جیسے وہ اس کی پھانسی
کا پروانہ ہو. اس کے ذہن میں صرف یہی سوال گونج رہا تھا کیا اس کے آنے والے
بچے کا مقدر بھی وہی ہوگا جو اس کے ساتھ ہوا.اس نے بےاختیار جھرجھری سی لی
اور عمران کے خط کو دوبارہ پڑھا. اس میں لکھا تھا
صبا !میں نے بہت کوشش کی کہ اپنے والدین کو منا سکوں مگر وہ مجھے عاق کررہے
ہیں اور میں یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ ایک شاندار زندگی چھوڑ کر میں زمین
پر آجاؤں. میں تمہیں دو لاکھ کا چیک دے رہا ہوں ،امید ہے تم واپس اپنے
کوٹھے پر چلی جاؤگی. "
اس نے بے یقینی سے آنکھیں جھپکیں، خط کی عبارت دھندلی ہورہی تھی، بے اختیار
اس کو اندازہ ہوا کہ وہ رو رہی تھی. اچانک اس کے ذہن میں پچھلے ہفتے پڑھی
ہوئی نظم گونجی.
جو اس نے بڑی چاؤ سے عمران کو سنائی تھی اور بڑے ہی مان سے کہا تھا کہ یہ
شاعرھ کی دی ہوئی ساری تشبیہات بہت ہی دلآویز ہیں مگر یہ آخر میں اس نے
جدائی کا تذکرہ اور پیا کے در پر بیٹھے ہونے کا ذکر کیوں کیا ہے؟
اس وقت نے عمران نے اس کے بال بکھیر کر اس کو وہمی قرار دیا تھا . اس کو
اچانک ایسے محسوس ہوا جیسے کہ وہ شاعرھ بڑی افسردگی سے وھ نظم خاص اس کو
سنا رہی ہو. بےاختیار ہی صبا نے وھ نظم زیر لب دہرائی.
میرے پیا کا کیا کہنا؟
میرے من میں ان ہی کا بسیرا
جیسے بگیا میں پھولوں کا مہکنا
ایسے ہی میرے رینا میں پیا کا آشیانہ
جیسے زرتار ڈوپٹہ میں کہکشاں کی تاریں
ایسے ہی میرے من میں اس کی پریت کے سلمہ ستارے
جیسے صبا کا ساتھ ہو ساگر سے
جیسے چندا کا ساتھ ہو رات سے
ایسے ہی میرے پیا کا ساتھ مجھ باوری سے
دن رات بھلائے بیٹھی ہوں
پیا کے در آئی بیٹھی ہوں
چراغ شب کی طرح ٹمٹماتی ہوں. نہ جلتی ہوں، نہ بجھتی ہوں
پپیہا بن کوکتی ہوں
پی کہاں؟پی کہاں؟ |