بے قراری سی بے قراری ہے (قسط نمبر ٢٢)

بے قراری سی بے قراری ایک سماجی رومانوی و روحانی ناول ہے جس کی کہانی بنیادی طور پر دو کرداروں کے ارد گرد گھومتی ہے۔ عبیر جو ایک فیشن ڈیزائنر ہے اور اسلامی فیشن میں کچھ نیا کرنا چاہتی ہے۔ تیمور درانی جو ایک ملحد ہے جس کے خیال میں محبت اور زندگی بے معنی ہے۔

میں پراگندہ ذہن کے ساتھ گھر پہنچی تو شمائلہ کی گاڑی کھڑی دیکھ کر چونک گئی۔ آج وہ کئی مہینوں بعد ہمارے گھر آئی تھی۔ شاید وہ شادی کی تاریخ کے بارے میں ڈسکس کرنا چاہتی ہو۔ میں خوشی خوشی اندر داخل ہوئی تو گھر کی فضا ٹینس تھی۔ اماں کے چہرے پر شدید پریشانی تھی اور شگفتہ کی آنکھوں میں غصہ اور بے بسی۔
اللہ خیر کرے ایسا کیا ہو گیا۔
شمائلہ کے چہرے پر بیزاری اورلاتعلقی تھی۔ اس نے میرے سلام کا بے رخی سے جواب دیا، اٹھ کر گلے بھی نہ ملی۔ شمائلہ کے سامنے چائے ٹھنڈی ہو گئی تھی۔
اللہ خیر کرے۔۔ کس کی فوتگی ہو گئی؟
میرے حال احوال پوچھنے پر بھی روکھا سا جواب ملا۔ کچھ تو خرابی تھی۔
اس دوران اماں کے چہرے پر بے چینی بہت بڑھ گئی جیسے کچھ کہنا چاہتی ہوں لیکن کہہ نہ پارہی ہوں۔
میں نے شگفتہ کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھوں سے بھی کچھ نہ سمجھ پائی کہ بات کیا ہے۔
عبیر۔ شمائلہ منگنی کی انگوٹھی واپس کرنے آئی ہے۔ یہ کہتے ہی اماں رونے لگیں۔
کیا! میرے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔
لیکن کیوں؟ میں نے پلٹ کر شمائلہ کی طرف دیکھا۔ اس نے فوراً کوئی جواب نہ دیا۔
شمائلہ نے ہمیں بھی وجہ نہیں بتائی۔ کہتی ہے، آپ عبیر سے خود پوچھیں۔
کہیں کاشف اور امیرہ! او میرے خدا مجھے پہلے ہی سمجھ لینا چاہیے تھا۔
مجھے شدید غصہ آیا۔ کاشف اتنی چچھوری حرکت کرے گا۔ ہماری اتنے عرصے کی محبت کو ختم کر دے گا۔ یہ مرد سارے ہوتے ہی ایسے ہیں۔ پہلے محبت کے بڑے بڑے دعوے اور جیسے ہی کوئی دوسری ملی پرانی کو بھول گئے۔
اچھا تو کاشف نے امیرہ کی وجہ سے مجھے چھوڑ دیا ہے۔ میں نے بڑی مشکل سے یہ الفاظ ادا کیے۔
امیرہ کا نام سن کر شمائلہ چونکی۔ کون امیرہ؟
وہی جس کے ساتھ کاشف امریکہ میں رنگ رلیاں منا رہا ہے۔
اماں اور شگفتہ بھی میری جانب دیکھنے لگیں۔
تم کیا بات کر رہی ہو عبیر؟ کاشف کوئی رنگ رلیاں نہیں منا رہا بلکہ تم منارہی ہو۔ کاشف کو تو ابھی ہم نے تمھاری حرکتوں کے بارے میں بتایا بھی نہیں۔ جب اسے پتا چلے گا تو بیچارہ کتنا دکھی ہو گا۔ اسے ہمیشہ ہی بے وفا لڑکیاں ملتی ہیں۔
تم پیسہ دیکھ کر اتنی جلدی بہک جاؤ گی، میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ نوکری کرنا تو ٹھیک ہے، پر اس حد تک گر جانا، یہ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ مجھے اپنی چوائس پر افسوس ہے۔
شمائلہ پتا نہیں کیا کیا بولتی رہی۔ مجھے کچھ سنائی نہ دیا۔ میں تو یہی سمجھی کہ منگنی کاشف نے توڑی ہے
یہ آپ کیا بات کر رہی ہیں میری تو کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا۔ میں نے کنفیوژن سے پوچھا۔
تم سب جانتی ہوں کہ میں کیا بات کر رہی ہوں۔ نوکری کے نام پر تم جو کر رہی ہو۔ ۔ ۔
چھی۔۔ وہ شریف گھروں کی لڑکیاں ایسا سوچ بھی نہیں سکتیں۔
میں مزید کنفیوز ہو گئی۔ آپ کھل کر بات کریں آپ کہنا کیا چاہ رہی ہیں۔ ؟
اچھا یہ بتاؤ تم چھٹی والے دن کہاں سے اور کیا کر کے آ رہی ہو؟
اس کا ڈائیریکٹ ایسا سوال سن کر تو میرے ہوش اڑ گئے۔ مجھ سے تو کوئی بہانہ نہ بن پایا اور میں خاموشی سے شمائلہ کا منہ تکنے لگی۔
جواب دو عبیر شمائلہ کیا پوچھ رہی ہے؟ اسے بتاؤ کہ تم کام کا لوڈ زیادہ ہونے کی وجہ سے دفتر گئی تھیں۔ بڑی محنت کر رہی ہے میری بچی۔ اماں نے میری سائیڈ لیتے ہوئے پریشانی سے کہا۔
میں نے شمائلہ کی نظروں میں طنز کو پڑھ لیا، جیسے وہ جانتی ہو میں کہاں سے آ رہی ہوں۔
مگر وہ کیا جانتی تھی؟
آج کل کام زیادہ ہے تو کبھی کبھار ویک اینڈ پر بھی آفس جانا پڑتا ہے۔ میری ٹیم کے سب لوگ ہی آتے ہیں۔ میں نے اپنی طرف سے پورے یقین سے جھوٹ بولا۔
پر جب آپ نے کبھی جھوٹ بولا نہ ہو تو آپ کو لہجہ آپ کا ساتھ نہیں دیتا۔
میری بات ختم بھی نہ ہوئی کہ شمائلہ بولی۔
جھوٹ مت بولو عبیر، میرے پاس ثبوت ہیں۔ کیا تم چاہتی ہو کہ میں تمھاری ماں اور بہن کے سامنے وہ دکھاؤں۔ اس نے غصے سے کہا۔
میں پریشان ہو گئی۔ ایسا کیا کر دیا میں نے جس کا اس کے پاس ثبوت ہے؟ میں نے پریشانی سے اس کی طرف دیکھا۔
آپ کیا بات کر رہی ہیں شمائلہ۔ ایسا کیا کر دیا ہے عبیر نے؟ اماں کی پریشانی اپنے عروج پر پہنچ گئی۔
کہیں کسی نے مجھے تیمور درانی کے گھر جاتے اور وہاں سے آتے تو نہیں دیکھ لیا؟ صرف یہی ہو سکتا ہے۔ اس کا جواب بھی میں یہ دے سکتی ہوں: وہاں انٹیرئر ڈیزائننگ کا کام ہو رہا ہے۔
شمائلہ کی آواز کا کانفیڈنس مجھے چبھنے لگا۔
دیکھو عبیر میں تمھیں واقعی پسند کرتی تھی۔ میں نے منگنی سے پہلے تمھارے بارے میں ہر ذریعے سے پتا کروا یا۔ حتکہ کہ تمھارا موبائل اور انٹرنیٹ ڈیٹا بھی چیک کروا یا۔ تمھارا کردار بالکل ٹھیک تھا۔ کاشف کے نزدیک صرف کردار کی اہمیت ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے خاندان میں کوئی ایسی لڑکی آئے جس کے کردار پر کوئی ایک انگلی بھی اٹھا سکے۔
اس رات مجھے نہیں معلوم تمھارے اور ڈاکوؤں کے بیچ کیا ہوا۔ مگر لوگ باتیں کر رہے ہیں۔ ہمیں یہ منظور نہیں ہے کہ ہمارے گھر کے لڑکیوں کے بارے میں لوگ ایسی باتیں کریں۔
لیکن شمائلہ آپ جانتیں ہیں اس رات کچھ نہیں ہوا، اسی عزت کو بچانے کی خاطر تو ابا اپنی جان پر کھیل گئے۔ کم از کم آپ تو ایسی باتیں نہ کریں۔ میں نے غصے سے کہا۔
شمائلہ خود کو کیا سمجھتی ہے، شادی سے پہلے پوری یونیورسٹی کے سامنے ڈانس کرنا اورکھلم کھلا لڑکوں کے ساتھ دوستی۔ یہ سب ان کے خاندان کو قبول ہے، اور مجھ جیسی معصوم لڑکی کے کردار پر انگلیاں اٹھا رہی ہیں۔ میں نے بڑی مشکل سے خود کو یہ سب کہنے سے روکا۔
شمائلہ نے میری بات کا کوئی جواب نہ دیا مگر اسے میرا غصہ برا لگا۔
چلو اس رات کو چھوڑوں اس کے بعد تم کیا کرتی رہی ہو۔
میں کیا کرتی رہی ہوں؟ میں نے بھی ذرا ڈٹ کر پوچھا۔
یہ سنتے ہی شمائلہ نے اپنا موبائل نکالا اور ایک وڈیو چلا کر اماں کو دکھائی۔ ساتھ ہی اس نے موبائل کو لاؤڈ سپیکر پر لگا دیا۔ مجھے وڈیو تو نظر نہ آئی لیکن معلوم ہو گیا کہ یہ میری اور تیمور درانی کی بزنس میٹنگ والے دن کی خفیہ وڈیو تھی۔
لیکن کسی نے چھپ کر ہماری وڈیو کیوں بنائی؟ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ میری حیرانگی شرمندگی میں بدلنے لگی۔ ایسے جیسے کسی نے مجھے چوری کرتے پکڑ لیا ہو۔ میں شمائلہ، اماں اور شگفتہ کو کیسے سمجھاتی کہ یہ وڈیو اور آڈیو آؤٹ آف کنٹیکسٹ ہے۔ مجھے تو زبردستی بزنس میٹنگ میں لے جایا گیا تھا۔ میں نے وہاں جو باتیں کیں ان کا مطلب وہ نہیں ہے جو سمجھا جا رہا ہے۔ ہر بات کے ساتھ اماں کا چہرہ شرم سے لال ہوتا گیا۔
شگفتہ بے یقینی سے کبھی مجھے دیکھتی اور کبھی وڈیو کو۔ شمائلہ کے چہرے پر غصے کے ساتھ ہلکی سی فاتحانہ مسکراہٹ نظر آئی جیسے اس نے میری بدتمیزی کا جواب دے دیا ہو۔ کمرے میں صرف میری اور تیمور درانی کی آواز گونج رہی تھی۔
تیمور درانی: " مس عبیر آپ میری شخصیت اور میرے ماضی کے بارے اتنی متجسس کیوں ہیں۔ کچھ چیزوں کا ناجاننا ہی بہتر ہے؟
عبیر: سوری سر اگر آپ کو برا لگا ہے، میں تو بس آپ کی انوکھی شخصیت اور انوکھے خیالات کو سمجھنا چاہتی تھی، شاید آپ کی اتنی کامیابی کی سمجھ آ سکے۔
تیمور درانی: چلیں فرض کریں میں آپ کو اپنی کہانی سناتا ہوں، بدلے میں آپ مجھے کیا دے سکتی ہیں؟؟کیا آپ بدلے میں اپنا چہرہ دکھا سکتی ہیں؟
عبیر: اپنا چہرہ !۔ میں۔۔ میں کیسے دکھا سکتی ہوں۔
تیمور درانی: بات تو ایک ہی ہے مس عبیر آپ مجھ سے میری شخصیت اور ماضی پر اسے نقاب اٹھانے کا کہہ رہی ہیں۔ یعنی آپ بھی میرا اصل چہرہ دیکھنا چاہتی ہیں۔ اگر یہی چیز میں آپ سے ایکسپیکٹ کروں تو حیرانگی کیسی؟
عبیر: سر! میں۔ میں آپ کو کیا دے سکتی ہوں؟
تیمور درانی: ٹھیک ہے مس عبیر میں آپ کو آپ کے چہرے کا نقاب اٹھانے کا نہیں کہتا کیوں کہ آپ نے اپنی دادی سے وعدہ لیا ہے۔ پر آپ کی نیچر کے بارے میں میں ضرور جاننا چاہوں گا؟
عبیر: کیا مطلب میری اصل نیچر؟
تیمور درانی: جیسے میری شخصیت اور ماضی کے بارے میں جاننا آپ کی دلچسپی ہے اسی طرح آپ کے اندر کے جانور یا نیچر کے بارے میں جاننا میری دلچسپی ہے۔
خاموشی۔ ۔ ۔
تیمور درانی: مس عبیر میں کوئی زبردستی نہیں کرنا چاہتا، کیونکہ آغاز آپ نے کیا تھا اسی لیے میں نے کہہ دیا۔
عبیر: تو مجھے کیا کرنا پڑے گا؟
تیمور درانی: کچھ خاص نہیں، بس کچھ وقت ساتھ بتانا پڑے گا جس میں آپ کو کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ اگر آپ تیار ہیں تو ویک اینڈ پر میرے گھر آ جائیں۔
عبیر: سر میں سوچ کر بتاؤں گی۔
خاموشی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ٹیپ ختم ہوتے تک اماں تقریباً بے ہوش ہو گئیں۔ میں نے آگے بڑ ھ کر اماں کو سنھالنا چاہا تو انھوں نے میرا ہاتھ جھٹک دیا۔ مجھے تو 11000 ولٹ کا جھٹکا لگا۔ اماں کے چہرے پر نفرت کے آثار ایسے تھے جیسے میں کوئی ناپاک چیز ہوں۔
اماں ! شمائلہ، آپ لوگ جو کچھ سمجھ رہے ہیں ایسا کچھ نہیں ہے۔ میں کبھی تیمور درانی کے گھر ایسے ویسے کام سے نہیں گئی۔ میں تو صرف۔ ۔
میرے لہجے میں شدید بے بسی آ گئی۔
میں ان لوگوں کو کیسے سمجھاؤں کے جو کچھ دکھائی اور سنائی دے رہا ہے وہ سب ویسا نہیں ہے۔
شمائلہ کے چہرے پر طنز مزید بڑھ گیا۔
عبیر تم جتنا جھوٹ بولو گی اتنا پھنستی جاؤ گے۔ میں یہ سب تمھیں اور تمھارے گھر والوں کو بتاکر شرمندہ نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اسی لیے میں نے خاموشی سے منگنی توڑ دی۔ تم خاموشی سے سب سمجھ جاتیں تو بہتر تھا۔
میں خاموشی سے کیسے سمجھتی۔۔ میرے تو فرشتوں کو بھی علم نہیں تھا، آپ کیا کہنے والی ہیں۔
شمائلہ آپ میرا یقین کریں ایسا کچھ نہیں ہے جیسا آپ سمجھ رہی ہیں۔ میں ایسی ویسی لڑکی نہیں ہوں؟ میں تقریباً رو پڑی۔
میرے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا، مجھے کبھی ایسی صورتحال کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ سب سے افسوس ناک بات اماں اور شگفتہ کے چہروں پر شرمندگی تھی۔ جیسے یہ سب میں نے نہیں انھوں نے کیا ہے۔
میں التجا بھری نظروں سے کبھی اماں کو اور کبھی شگفتہ کو دیکھتی۔ دونوں نے تو میرے ساتھ آنکھیں ملانے سے انکار کر دیا۔
شمائلہ پلیز سمجھنے کی کوشش کریں۔ ۔
اچھا تم ہی بتاؤ کے اس دن کے بعد تم اتنی بار تیمور درانی کے گھر کیا کرنے گئی تھیں؟ شمائلہ نے بے زاری سے کہا جیسے اسے پہلے سے ہی جواب معلوم ہو۔
میں۔۔ میں اس کے گھر لائبریری ڈیزائن کرنے جاتی ہوں۔ میں نے ہلکی سی شرمندگی سے کہا۔ اب میں کیسے بتاؤں کہ میں وہاں تیمور درانی پر تشدد کرنے جاتی ہوں۔ کیا بتاؤں کہ میں نے اپنے کنٹریکٹ میں ایکسڑا فیور دینے کا ایگریمینٹ کیا ہوا ہے۔
مزید جھوٹ بول کر مجھے غصہ مت دلاؤ عبیر، کہ میں ساری باتیں بتاکر تمھیں مزید شرمندہ کروں۔
آپ میرا یقین کریں شمائلہ۔ میں قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسم کھا سکتی ہوں۔ میں نے ایسا ویسا کوئی کام نہیں کیا۔ یہ کہہ کر میں رونے لگی۔
میرے رونے کا شمائلہ پر الٹا اثر ہوا اور اسے مزید غصہ آ گیا۔
ٹھیک ہے جیسے تمھاری مرضی۔
تو پھر تم بھی سنو، اور آنٹی آپ بھی سنیں۔ تاکہ بعد میں آپ لوگ لوگوں کو یہ نہ کہتے پھریں کہ ہم نے کسی اور وجہ سے منگنی توڑی ہے۔ مجھے کئی مہینوں سے اس بات کا علم تھا۔ پر میں ششو پنج کا شکار رہی۔
میں تیز دھڑکن کے ساتھ شمائلہ کی بات سننے لگی۔ پتا نہیں وہ کیا انکشاف کرنے والی ہے۔ میں اپنی صفائی پیش بھی کرپاؤں گی یا نہیں؟
عبیر نے جب نوکری کرنا شروع کی تو مجھے بہت اچھا لگا۔ چلو اسی بہانے اس کا دل بھی بہل جائے گا، اور گھر کو بھی سپورٹ کرے گی۔ اگر آپ لوگ ہم سے بات کرتے تو ہم آپ کا خرچہ بھی اٹھا لیتے۔ آپ نے خود درای کا مظاہرہ کیا جو کہ اچھے خاندانوں کی نشانی ہے۔
کاشف کی تمھارے ساتھ منگنی کا ہمارے سوشل سرکل میں سب لوگوں کو پتا ہے۔ کئی لوگ جیلس بھی ہیں۔ کیونکہ ہم نے اپنے ان کی بیٹیوں کو ٹھکرا کر اپنے سے نیچے لوگوں میں رشتہ جوڑ لیا ہے۔ پر ہمیں لوگوں کی کوئی پرواہ نہیں۔ ہمارے نزدیک صرف کردار کی اہمیت ہے۔
ایک سوشل گیدرنگ میں میری ایک فرینڈ نے بتایا: عبیر کچھ ہفتوں سے اس کے پڑوس میں آتی ہے اور سارا دن وہیں گزراتی ہے۔ پہلے تو میں نے اس بات کو اہمیت نہ دی۔ جب اس نے عبیر کی اور اس کی گاڑی کی فوٹو بھیجی تو میں چونک گئی۔ میری فرینڈ کے بقول یہ گھر تیمور درانی نام کے کسی شخص کا ہے۔ شوشل حلقوں میں اس شخص کی شہرت اچھی نہیں ہے۔ بری شہرت کی لڑکیاں اس کے گھر ریگولر آتی جاتی ہیں۔ سنا ہے وہ اپنی پسند کی لڑکیوں پر خوب پیسے لٹاتا ہے۔
اب عبیر کا ایسے شخص کے گھر میں یوں جانا مجھے بالکل سمجھ نہ آیا۔ میں نے تمھارے ساتھ بات کرنے سے پہلے بات کی مکمل تحقیق کرانے کا سوچا۔ آج کل کے دور میں کسی کے بارے میں کچھ معلوم کروا نا زیادہ مشکل نہیں۔ میں یہ کام انتہائی رازداری سے کرنا چاہتی تھی۔ تاکہ یہ بات لوگوں میں نہ پھیلے۔
کچھ ہفتوں بعد مجھے تمھارا موبائل ڈیٹا، تمھاری آفس، پارٹیزاور ویک اینڈ کی مصروفیات کی وڈیوز اور تصویریں مل گئیں۔ تیمور درانی جیسی بری شہرت کا شخص تمھاری کمپنی کا مالک ہے۔ اس کا تمھیں اتنی زیادہ تنخواہ پر نوکری دینا سمجھ سے بالا تر ہے۔ تیمور درانی اکثر تمھیں اپنے کمرے میں بلاتا ہے جس کا تمھارے کام سے کوئی لینا دینا نہیں۔ کام کے بہانے وہ تمھیں ڈیٹ پر لے کر جاتا ہے۔ اس ڈیٹ پر جو باتیں ہوئیں وہ میں نے آپ لوگوں کو سنوا دی ہیں۔
تم اکثر ویک اینڈ پر بار تیمور درانی کے گھر جاتی ہو۔ یہ کہہ کر اس نے موبائل پر تصویریں کھول کر دکھائیں۔ اماں کے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔ جیسے انھیں یقین ہی نہ آ رہا ہو، وہ کیا سن رہی ہیں۔ انھوں نے موبائل کو یوں دیکھا جیسے کوئی سانپ ہو۔
شگفتہ نے مجبوراً موبائل پکڑا اور تصویروں کو دیکھنے لگی۔ اماں کی تصویروں کو دیکھنے کی ہمت نہ پڑی۔ وہ دوپٹا منہ پر رکھ کر رونے لگیں۔ ان کا رونا دیکھ کر میرے بھی آنسو نکل پڑے۔
میں اماں کو کیسے سمجھاؤں؟۔
کہیں کسی نے تیمور درانی کے گھر کے اندر کی وڈیوز تو نہیں بنالیں؟
اللہ نہ کرے ایسا ہو۔
شگفتہ نے تصویریں دیکھنے کے بعد موبائل میری طرف بڑھا دیا۔ میں نے جلدی سے موبائل پکڑا۔
دیکھوں تو سہی، ان میں ایسا کیا ہے۔
ایک آفس پارٹی میں میرے ٹیبل پر شراب کی بوتلیں پڑیں تھیں۔ جنھیں میں نے چکھنا تو دور کی بات دیکھا بھی نہیں تھا۔ میں تو اپنا اورینج جوس پی رہی تھی۔ تصویر سے یہی لگا کہ میں بھی ڈرنک کر رہی ہوں۔ پھر مختلف ڈیٹس پر مجھے تیمور درانی کے گھر جاتے دکھایا گیا۔ ایک تصویر میں وہی انٹیرئر ڈیزائنگ والی ٹیم کے ساتھ میری تصویر تھی جہاں لڑکے لڑکیاں بریک میں سگریٹ پی رہے تھے۔ اب میں تو صرف ان کے ساتھ کھڑی تھی۔ اس منظر کو دیکھ کر یہی اندازہ ہوا: ہم سب سموکنگ بڈی ہیں۔
ایک تصویر جو ساتھ والے کسی گھر کی چھت سے لی گئی تھی۔ اس میں مجھے تیمور درانی کے ساتھ لان میں کافی پیتے دکھایا گیا۔
حیرت انگیز طور پر آج شام، جب تیمور درانی کھلی شرٹ کے ساتھ مجھے باہر چھوڑنے آیا تو وہ تصویر بھی موجود تھی۔ اپنے زخموں کی وجہ سے اس نے ٹی شرٹ نہیں پہنی۔ بلکہ بٹنوں والی کیژول شرٹ پہنی تھی۔ جس کے سامنے کے آدھے بٹن کھلے تھے۔ اب دیکھنے والا اس منظر سے کیا مطلب لیتا۔
ہر تصویر کے ساتھ میرا دل ڈوبتا گیا۔ ہر منظر آوٹ آف کنٹیکسٹ تھا۔ میں اگر تفصیل بتاتی بھی تو میرے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا۔
میں نے بولنا چاہا، پر جیسے مجھ سے بولنے کی صلاحیت ہی چھن گئی ہو۔ مجھ پر شدید بے بسی اور شرمندگی چھاگئی۔ خیالات گنجل ہو گئے۔ مجھے کچھ سمجھ نہ آئی، کیا کروں۔
میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
او میرے خدا! یہ کیا ہو گیا ہے۔ ۔ میں تو بس عزت سے نوکری کرنا چاہتی تھی۔
میری عزت اور محبت دونوں ایک ہی دن چھن گئے۔
شمائلہ نے کچھ کہنا سننا مناسب نہ سمجھا۔ اس نے خاموشی سی انگوٹھی میرے حوالے کی اور گھر سے نکل گئی۔ میں خالی نظروں سے اسے جاتا دیکھتی رہی۔ اماں سکتے میں چلیں گئیں۔ ان کی آنکھیں کھلی اور چہرہ پتھرایا ہوا تھا۔
یہ ضرور کوئی ڈراونا خواب تھا۔
مگر یہ خواب طویل ہی ہوتا گیا۔ گھر میں ایسی خاموشی رہتی، جیسے کسی کا جنازہ اٹھا ہو۔
میرے ساتھ ہمیشہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟
جب بھی معاملات ٹھیک ہونے لگتے ہیں، یا تھوڑی خوشی ملنے لگتی ہے۔ ساتھ ہی غم کا ایک جھٹکا لگتا ہے۔
یا اللہ تیری حکمتیں نرالی ہیں۔
ہم کمزور بندوں سے یہ کس چیز کی آزمائش ہے؟
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کئی دن تک ہمارے گھر میں سوگ رہا۔ اماں نے تو میری طرف دیکھنا بھی چھوڑ دیا۔ میں دو ہفتے آفس نہیں گئی۔ سارا دن کمرے میں پڑی روتی رہتی۔ میں نے کئی بار کاشف سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ہر بار آٹو ریپلائے آتا، ڈونٹ ڈسٹرب آئی ایم بزی۔
شاید اس کی مصروفیت کافی بڑھ گئی ہے۔ ایک بار اس سے رابطہ ہو جائے میں اسے سب کچھ بتا کر سمجا لوں گی۔
صرف کاشف تھا جو میری بات کو سمجھ سکتا تھا۔
کہیں ایسا تو نہیں شمائلہ نے اسے بھی سب بتا دیا ہو۔ اور اس نے غصے میں میری کالز اور میسیجز کا ریپلائے کرنا چھوڑ ریا ہو۔
میں سارا دن وسوسوں اور خدشات میں گھری رہتی۔
زندگی میں پہلی بار مجھے ٹوٹ کر محبت ہوئی، میرے لیے یہ تصور کرنا بھی محال تھا، کہ میں کاشف کے علاوہ کسی کے ساتھ زندگی گزاروں گی۔ میں نے تو کبھی کسی اور کے بارے میں سوچا بھی نہیں۔
مجھے شدید بے چینی ہونا شروع ہو گئی۔ نہ کھانے کا دل کرتا، نہ کچھ کرنے۔ خیالات و جذبات کا طوفان میرے ذہن میں برپا رہتا۔ نظر ہر وقت فون پر رہتی کہ شاید کاشف کو ترس آ جائے اور وہ میری بات سن تو لے۔
میری جذباتی حالت ایسی نہیں رہی کہ میں مستقبل کے بارے میں کچھ سوچتی یا پلاننگ کرتی۔ مگر شگفتہ کا پریکٹیکل ذہن آگے کے بارے میں سوچنا شروع ہو گیا۔
اس نے مجھ سے صرف ایک شکوہ کیا۔ آپی مجھے نہیں معلوم آپ وہاں کیا کرنے جاتیں تھیں۔ کم از کم یہ تو سوچ لیتیں کہ آپ کے کسی ایکشن کا لوگ کیا مطلب لے سکتے ہیں۔
شگفتہ تم بھی مجھے قصور وار سمجھتی ہو؟۔۔ میرے اندر کوئی چیز ٹوٹ گئی۔
تمھیں اپنی آپی پر اعتبار نہیں ہے۔ میری ساری زندگی تمھارے سامنے ہے۔
آپی مجھے آپ پر یقین ہے۔ پر لوگ تو ثبوتوں کو دیکھتے ہیں۔ سارے شواہد آپ کے خلاف جاتے ہیں۔
یہ سن کر میں رونے لگی۔
اب میں اپنی بے گناہی کیسے ثابت کروں۔
آپی اب کسی پر اپنی بے گناہی ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جو ہونا تھا ہو گیا۔ اب آگے کی سوچیں۔
آگے کیا سوچنا ہے؟ زندگی تو ختم ہو گئی ہے۔ میں نے مایوسی سے کہا۔
آپی ذرا خود کو سنبھالیں اور زیادہ بڑے مسائل کی طرف توجہ دیں۔
اب اور کون سا بڑا مسئلہ آنا رہ گیا ہے؟ مجھے تو دنیا پورہ تباہ ہوتی محسوس ہو رہی ہے۔
شگفتہ نے افسوس کے ساتھ میری طرف دیکھا اور بولی۔
میں نے شمائلہ کی منت کی ہے کہ۔ ۔ ہماری عزت رکھ لیں۔
کیا مطلب ہماری عزت رکھ لیں؟ میں چونگ گئی۔
شمائلہ وہ تمام تصویریں اور وڈیوز کو ڈیلیٹ کر دے گی۔ اور ان ساری باتوں کو ہمیشہ کے لیے اپنے سینے میں دفن کر لے گی۔ ابھی کچھ عرصہ تک منگنی ٹوٹنے کا ذکر ہم دونوں خاندان کسی سے نہیں کریں گے۔
کچھ عرصہ بعد ہم لوگوں کو یہی بتائیں گے کہ منگنی ہم نے توڑی ہے۔ وہ بھی اس لیے کہ عبیر گھر کی اکیلی کما نے والی ہے جس کے چلے جانے سے گھر کا نظام دھرم بھرم ہو جائے گا۔
منگنی توڑنے کا سار الزام ہم پر آئے گا۔ ہم شمائلہ اور کاشف کے خاندان کی کوئی برائی نہیں کریں گے۔ بدلے میں وہ ہماری عزت بچائیں گے۔
نہیں مجھے یہ منظور نہیں ہے۔
ہم کیوں جھوٹ بولیں۔ جبکہ انھوں نے مجھ پر بے بنیاد لگا کر منگنی توڑی ہے۔۔ مجھے اپنی صفائی کا موقع بھی نہیں دیا۔ کیا صرف شک کی بنیاد کر کسی کی زندگی تباہ کر دینا کونسا انصاف ہے۔ میں نے تڑپ کر کہا۔
شگفتہ نے میری طرف یوں دیکھا جیسے میرے بچگانہ پن پر افسوس کر رہی ہو۔
آپی! آپ شاید معاملے کی نزاکت نہیں سمجھ رہیں۔
آپ صرف اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے کے لیے معاملے کو اچھالنا چاہتی ہیں۔ جبکہ یہ بھول رہی ہیں، ہمارے سر پر ہاتھ رکھنے والا کوئی بھی نہیں ہے۔
شکر کریں !ابا یہ سب دیکھنے سے پہلے ہی فوت ہو گئے۔ ورنہ وہ آپ کی بات بعد میں سنتے، کو غیرت کے نام پر قتل پہلے کرتے۔
میں سہم گئی۔
آپی میں آپ کا دکھ سمجھتی ہوں۔
مگر جذباتیت سے باہر آ کر یہ سوچیں۔ آپ کی وہ وڈیو اور تصویریں غلطی سے بھی کسی کے ہاتھ چڑھ گئیں تو۔ ۔ ۔۔
ہم کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔
لوگ پتا نہیں کیسی کیسی غلیظ باتیں کریں گے۔ ان کی دیدہ دلیری بڑھ جائے گی۔ ہم اکیلی عورتوں کو پہلے ہی کوئی بچانے والا نہیں ہے، اس کے بعد کیا ہو گا؟
منگنی ٹوٹنے کی خبر بہت بری ہے۔ لوگ طرح طرح کی افواہیں اڑائیں گے۔ لیکن کچھ عرصہ بعد بھول جائیں گے۔
خاندان اور محلے کے لوگ یہی کہیں گے نہ ہم نے آپ کو قربانی کی بکری بنایا ہے۔ اس سے آپ کی عزت میں اضافہ ہی ہو گا، کمی نہیں۔
میں نے اماں کو بھی سختی سے کہہ دیا ہے: وہ کسی سے بھی کچھ مت کہیہں۔ سب کچھ یوں چلتا رہنے دیں جیسے چل رہا ہے۔
دوسری طرح سے دیکھیں تو، لاکھ کوشش کے باوجود شمائلہ آپ کو قبول نہیں کرے گی۔
فرض محال، انھوں نے قبول کر بھی لیا تو بھی آپ کی اپنے سسرال میں کوئی عزت نہیں ہو گی۔ آُ کو ساری عمر لوگوں کی نظروں کی حقارت اور طعنے سننے پڑیں گے۔ آپ کے بچوں تک کی زندگی اجیرن ہو جائے گی۔
میں مردوں کے بارے میں زیادہ نہیں جانتی۔ پر اتنا پتا ہے، مرد اس معاملے میں بہت حساس ہوتا ہے۔ ایک بار شک اس کے ذہن میں آ جائے تو ساری دلیلیں بے اثر ہیں۔ اس کے دل میں پہلی جیسی محبت پیدا نہیں ہو سکتی۔
اگر بات پھیل گئی تو۔ آپ کی کہیں بھی شادی ہونا نا ممکن ہو جائے گا۔۔
ذرا سوچیں آپ بدنامی کا داغ لے کر ساری زندگی اکیلی کیسے گزاریں گی۔ اسی لیے بہتر ہے، ہم بات کو اس طریقے سے دبائیں کہ لوگوں کا دھیان اصل بات کی طرف سے ہٹ جائے۔
میں کافی سوچنے کے بعد اسی نتیجے پر پہنچی ہوں۔ ہمیں جلد از جلد یہ گھر اور محلہ چھوڑ کر کسی پوش علاقے میں شفٹ ہو جانا چاہیے۔ جہاں کے لوگوں کو ہماری ذاتی زندگی کے بارے میں جاننے کا شوق نہ ہو۔ یہاں کے لوگ جتنے ہمارے خیر خواہ اور چاہنے والے ہیں اس کا اندازہ ہمیں ابا کی فوتگی کے بعد ہو گیا تھا۔
میں ہر روز ایک عذاب سے گزرتی ہوں۔ جتنا چھوٹا علاقہ اتنی چھوٹی سوچ۔
میں حیرت سے اس کی باتیں سنتی رہی۔ میں نے تو اس اینگل سے سوچا ہی نہیں۔ یہ چھوٹی سی بچی کتنی سمجھدار ہو گئی ہے۔
میری ایک دوست کا بھائی پراپرٹی ڈیلر ہے۔ اس نے کلفٹن میں ایک بہت مناسب فلیٹ دیکھ لیا ہے۔ قیمت تھوڑی زیادہ ہے مگر اس مکان، اور اماں کے زیوروں کو بیچ کر کچھ نہ کچھ ہو جائے گا۔
کیا مطلب ہے؟
تم نے اس مکان کو بھی بیچنے کی بات کر لی، جسے ابا نے اتنی محبت سے بنایا، جہاں دادی اور ابا کی یادیں ہیں۔ ہم اس مکان کو کیسے چھوڑ سکتے ہیں؟
آپی آپ اور امی صورتحال کا صحیح ادراک نہیں کر رہیں۔
وہی عورتوں والی مخصوص باتیں کر رہی ہیں۔ وہی مکان گھر کہلاتا ہے جو آپ کو تحفظ اور خوشیاں فراہم کرے۔ ہم اکیلی عورتیں اگر ایسے محلے میں رہیں گی تو یہاں کے لوگ ہمیں کبھی بھی چین سے جینے نہیں دیں گے۔ ہمارا یوں مردوں کے تحفظ کے بغیر جینا ان کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے۔ وہ یہی سمجھتے ہیں، ہماری یہ آزادی ان کی عورتوں کو بھی شہہ دے گی کہ وہ بھی مردوں کی برابری کا سوچیں۔
بہت جلد یہہمیں رسوا کر کے مثال بنانے کی کوشش کریں گے۔ ہمارے معاشرے میں یہ مان لیا گیا ہے: باہر کی دنیا مرد کی ہے اور گھر کے اندرکی دنیا عورت کی۔ جو عورت بھی گھر سے باہر نکلنے کی کوشش کرتی ہے۔ اسے مردوں کی دنیا میں در اندازی کرنے والی سمجھا جاتا ہے۔ اسی لیے ایسی عورتوں کو ہراساں کر کے، نیچا دکھا کر، اور ڈرا دھمکا کر واپس گھروں کی طرف دھکیلا جاتا ہے۔ یوں لگتا ہے عورت کا خوف مرد کے دماغ پر سوار ہے۔ ہمیشہ سے ہمیں بہکانے والی، سازشی اور مکار کہا گیا۔
میں اس چیز کے خلاف ہوں۔ میں مرد کی برابری چاہتی ہوں، محبت میں بھی، گھر میں بھی، اور نوکری میں بھی۔ مجھے کسی کی ہمدردی اور محتاجی نہیں چاہیے۔ اور میں یہ بات دنیا پر ثابت کر کے رہوں گی۔
ابا کی فوتگی کے بعد اس محلے میں ہم پر زندگی تنگ سے تنگ ہوتی جا رہی ہے۔ مشکل ترین وقت میں بھی کوئی ہماری مدد کو نہیں آیا۔ بلکہ انھوں نے بری بری باتیں پھیلا کر ہمارے لیے مزید مسائل کھڑے کرنا شروع کر دیے۔
آپ کی منگنی ٹوٹنے کی خبر اگر یہاں رہتے ہوئے لوگوں کو ملی تو پتا نہیں کیا کیا باتیں کریں گے۔ مجھے تو ڈر ہے، اگر شمائلہ کے سسرال سے کوئی افواہ اڑ گئی تو پتا نہیں کیا ہو گا۔ بہتر ہے کہ ہم خاموشی سے کسی دوسری جگہ چلے جائیں۔
اس کی باتوں نے دماغ کو تو متاثر کیامگر دل نہیں مان رہا۔ پتا نہیں ہمارے ساتھ کیا ہونے والا ہے؟
فی الحال تو ہم فوری طور پر اس مکان کو بیچ کر کرائے کے مکان میں شفٹ ہو رہے ہیں۔ کچھ ہی مہینوں میں اپنا مکان بھی خرید لیں گے۔
شگفتہ پتا نہیں کیا کیا بولتی رہی۔ میرا ذہن اس کی باتوں سے ہٹ کر ابھی بھی اپنی منگنی ٹوٹنے اور کاشف کی جدائی پر اٹکا ہوا ہے۔
میں اسے کس طرح بھول جاؤں؟
کیا ہماری محبت اتنی کمزور تھی کہ حالات کا ایک جھٹکا بھی برداشت نہ کر سکی؟
کیا میں اسے حقیقت بتاؤں گی تو پھر بھی وہ میری بات کا یقین نہیں کرے گا؟
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میری شب وروز خواب کی کیفیت میں گزرنے لگے۔ مجھے کچھ بھی حقیقی نہ لگتا۔ مجھے علم نہ ہوا ہم کب کلفٹن کے ایک چھوٹے سے فلیٹ میں شفٹ ہوئے۔ سب کچھ اتنی تیزی اور خاموشی سے ہوا کہ میں تماشائی بنی دیکھتی رہی۔ ساری بھاگ دوڑ اور ٹینشن شگفتہ نے لی۔
اس کا اعتماد اور ہمت دیکھ کر میں حیران ہوتی۔ آخر میں ایسی کیوں نہیں ہوں؟ میں اتنی چھوئی موئی سی کیوں ہوں؟
میری چھٹیاں بڑھتی ہی گئیں میرا آفس جانے کو بالکل بھی دل نہ کرتا۔ کئی بار ایلف کی کال آئی۔ میں نے گھر کے شفٹ ہونے اور طبیعت کی خرابی کا بہانہ کر دیا۔ تیمور درانی نے اس دوران کوئی رابطہ نہ کیا۔
میں ایک عجیب کشمکش کا شکار تھی۔
آفس جاؤں یا نہ جاؤں؟
اب کیا آفس والے بھی میرے بارے میں جانتے ہوں گے۔ ویسے تو آفس کا ماحول کافی لبرل تھا۔ لوگ کسی کے ایسے معاملات میں دخل نہیں دیتے۔ پھر بھی لوگوں کا کیا بھروسا۔
میراد ل چاہا: سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر گھر بیٹھ جاؤں۔
اماں بھی مجھ سے ناراض تھیں۔ میں نے انھیں کئی بار سمجھانے کی کوشش کی۔ پر ان کا رویہ پہلے جیسا نہیں رہا۔
میں ان کے گلے لگ کر رونا چاہتی تھی مگر وہ مجھ سے یوں دور رہتیں، جیسے میں ناپاک ہوں۔
اماں سارا دن گم سم بیٹھی رہتیں، نہ کھاتی نہ سوتیں۔ کبھی کبھی مجھے ان کے کمرے سے چھپ چھپ کر رونے کی آواز آتی۔ انھیں روتا دیکھ کر میں اپنے آنسو بھی نہ روک پاتی۔
پچھلے ایک مہینے کے واقعات نے مجھے اس قدر ہلادیا کہ مجھے اپنا آپ اپنا نہ لگتا۔ راتوں کو نیند نہ آتی۔ کبھی تھوڑی سی اونگھ آبھی جاتی تو ایسے برے برے خواب آتے کہ میں ڈر کے مارے اٹھ بیٹھتی رونا شروع کر دیتی۔
کبھی میں دیکھتی کہ میری لاش پڑی ہے اور ایک بھیڑیا اسے نوچ نوچ کر کھا رہا ہے۔ کبھی ایسا لگتا، میں ایک ہرنی ہوں اور کئی لگڑ بھگے میرا پیچھا کر رہے ہیں۔ ان کے قہقے بالکل انسانوں جیسے ہوتے۔ میں دور سے کاشف کو دیکھتیاور وہ بے رخی سے چہرہ پھیر لیتا۔
کبھی شمائلہ نظر آتی ہے جو غصے سے انگوٹھی میرے منہ پر مار کر چلی جاتی۔ کبھی عمارہ مجھے دیکھ کر بھی اگنور کر کے کسی پارٹی میں چلی جاتی۔
ایک ویرانے میں اماں زارو قطار رو رہی تھیں۔ میں ان کے پاس گئی تو وہ مجھ سے ایسے ہٹ گئیں جیسے مجھے کوڑھ کی بیماری ہو۔ اس بیماری سے میرا جسم گلنا شروع ہو گیا۔
کتوں نے مجھے گھیرلیا۔ کسی بھی وقت وہ مجھے نوچنے والے تھے۔ ایک بھیڑیا آیا اور اور سب بھاگ گئے۔ اس بھیڑیے نے میرے ارد گرد چکر لگانا شروع کر دیے۔ میں سہمے ہوئے انداز سے اسے دیکھتی رہی۔ وہ بھیڑیا خود بھی زخمی تھا۔ اس کی کمر خون سے بھری ہوئی تھی۔ میں ڈر کے مارے اٹھ بیٹھی۔
میں نے حقیقت محسوس کرنے کے لیے خود کو چٹکی کاٹی۔
یا اللہ ہمارے ساتھ یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے۔ مجھے نہیں یاد پڑتا، ابا نے کبھی حرام کھایا ہو یا اماں نے کسی کا دل دکھایا ہو۔ اماں تو سارے زندگی لوگوں کی ہی خدمت کرتی رہیں ہیں۔ پھر بھی ہمارے اوپر اتنی آزمائشیں کیوں آئیں؟
کوئی تو وجہ ہونی چاہیے۔ ایک ہی سال میں ہمارے زندگی ایک بھگولے میں داخل ہو گئی۔ ہمارا انجر پنجر ڈھیلا ہو گیا۔ آگے بھی پتا نہیں کیا ہونا تھا۔
جانے ہماری خوشیوں کو کس کی نظر لگ گئی۔
ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کسی نے جادو کروا یا ہو؟
میں کچھ دنوں سے بہت شکی اور وہمی ہو گئی تھی۔ ہر بات سے ڈر جاتی۔ مجھے مستقبل کے بارے میں برے برے وسوسے آتے۔ دروازہ کھٹکتا تو لگتا ڈاکو آئے ہیں۔ کھانا کھانے لگتی تو محسوس ہوتا کوئی مردار چیز کھا رہی ہوں۔
ہر وقت کمرے میں سہمی سہمی بیٹھی رہتی۔ اماں کی حالت بھی میری جیسی ہی تھی۔ شگفتہ کی ہمت کی داد تھی کہ وہ اکیلی ہی سب کچھ کر رہی تھی۔
مجھے شدید ڈیپریشن کے دورے بھی پڑنے لگے۔ مجھے اپنی حالت کی خود بھی سمجھ نہیں آ رہی تھی۔
بس یوں لگتا کہ سب کچھ ختم ہونے والا ہے۔ ایک ویرانی اور مایوسی تھی۔۔
میں بہت خشوع و خضوع سے نماز اور قرآن پڑھنے لگی۔ اس سے مجھے تھوڑا سا سکون ملتا۔ پر اس کے بعد پھر وہی حالت ہو جاتی۔ کسی پل چین نہ آتا۔
کروں تو کیا کروں؟
میں نے کئی بار رو رو کر اپنی اس حالت کے ٹھیک ہونے کی دعا مانگی۔ پر کوئی فرق نہ پڑا۔
ایسا بات نہیں تھی کہ مجھے خدا کے بارے میں کوئی شک تھا۔ مگر خدا میری دعا سنتا کیوں نہیں؟
یا اللہ تو میری حالت ٹھیک کیوں نہیں کر دیتا؟ میں عجیب سی تکلیف کا شکار تھی۔ مجھے ایک پل چین نہیں آتا۔
ایک صبح یہ کیفیت اپنے عروج پر چلی گئ اور میرا خود پر کنٹرول ختم ہو گیا۔ میں نے کچن سے چھری اٹھائی اور پتا نہیں کیا سوچ کر اپنے کمرے کی طرف چل پڑی۔
یہ چھری کچھ ہی دیر میں میری ساری مشکلیں اور پریشانیاں دور کر سکتی تھی۔ میرے جانے کے بعد اماں اور شگفتہ کو طعنے دینے والا کوئی نہیں ہو گا۔ میں خود کشی نہیں کر رہی بلکہ ان لوگوں کی خاطر قربانی دے رہی ہوں۔ میرے مر جانے سے بدنامی دبی رہے گی۔
کوئی اماں کو طعنہ نہیں دے گا کہ آپ کی بیٹی نے ایسا کام کر دیا ہے۔ شگفتہ بہت سمجھ دار ہے۔ وہ خود کو اور اماں کو کسی نہ کسی طرح سنبھال لے گی۔ مجھے اکوئی مس نہیں کرے گا۔
کاشف اپنی نئی محبوبہ کے ساتھ کتنا خوش ہو گا۔ کیا میں اسے بالکل بھی یاد نہیں آؤں گی۔
تیمور درانی میرے بارے میں کیا سوچے گا؟ کیا میری موت سے اسے میرے اندر کے جانور کے بارے میں علم ہو جائے گا؟
کیا وہ میری خود کشی سے مجھے کبوتری سمجھے گا؟ مورنی سمجھے گا؟ شیرنی تو ہرگز نہیں سمجھے گا؟
کیا مجھے بھی وہ عنبر جیسا سمجھے گا؟
کیا وہ پھر یہی کہے گا، میری خود کشی بھی بے مقصد تھی؟
کیا میرا چہرہ بھی مرنے کے بعد سفید ہو گا؟
کیا میری آنکھیں بھی بھی خالی ہوں گی؟
میرے اندر مختلف آوازیں آنے لگیں میرے اندر ایک چھوٹی بچی اور ایک بوڑھی عورت بولنے لگی۔
کیا میرا ذہنی توازن خراب ہو گیا ہے؟کیا میرے اوپر آسیب کا سایہ ہو گیا ہے یا کسی نے جادو کروا دیا ہے؟
میں نے چھری اپنی کلائی پر رکھی۔ مجھے اپنی کلائی پر ایک ٹھنڈک کا احساس ہوا۔
۔ ۔ ۔ ۔
آپی۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔
شگفتہ بھاگتی ہوئی میرے پاس آئی۔ میرے ہاتھ سے چھری پکڑی کر ایک زور دار تھپڑ میرے منہ پر مارا۔
یہ کیا بیوقوفی کرنے جا رہی ہیں آپ؟
تھپڑ لگتے ہی میں اپنی ٹرانس جیسی کیفیت سے باہر نکل آئی۔
شگفتہ نے مجھے گلے کر رونے لگی۔
آپی ابا کے بعد آپ بھی ہمیں اکیلا چھوڑ کر جانا چاہتی ہیں۔
میں جیسے خواب کی دنیا سے واپس آ گئی۔ یہ میں کیا کرنے لگی تھی۔ یہ میرا خود پر کنٹرول کیوں ختم ہو گیا؟
بے بسی اور شرمندگی سے میری آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔
اسی دن شگفتہ مجھے سائیکیٹرسٹ کے پاس لے کر گئی، جس نے مجھے کچھ اینٹی ڈیپریسنٹ دیں اور کونسلنگ کی۔ سائیکیٹرسٹ کی باتوں سے زیادہ مجھے شگفتہ کی باتوں نے حوصلہ دیا۔ وہ سارا وقت میرے ساتھ گزارتی۔ اس نے مجھے مشورہ دیا۔ میں آفس جانا شروع کروں تاکہ میرا دھیان بٹا رہے۔
نہیں شگفتہ! میں اب اس دفتر میں دوبارہ نہیں جا سکتی۔ اس دفتر میں جانے سے ہی تو یہ دن دیکھنے پڑے ہیں۔
آپی !آپ کی بات ٹھیک ہے۔ لیکن اتنی جلدی دوسری نوکری کیسے ملے گی۔ کرائے کا گھر لینے سے خرچے مزید بڑھ گئے ہیں۔
آپ دفتر جا کر کچھ کسی دوسری نوکری کی کوشش جاری رکھیں۔ اس دوران میں بھی کچھ کرنے کا سوچتی ہوں۔
تم کیا کرو گی؟ تمھاری تعلیم تو ابھی شروع ہوئی ہے؟ میں اس کے بارے میں پریشان ہو گئی۔
اب کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑے گا۔ میں چار سال ڈگری ختم ہونے کا انتظار نہیں کر سکتی۔ دیکھتی ہوں، شام کو کہیں پارٹ ٹائم جاب کر لوں۔
میں مزید ڈیپریس ہو گئی۔ یہ بیچاری کیا کیا کرے گی؟ میں نے دفتر جانے کا فیصلہ کر لیا۔
دفتر جاتے ہوئے میری شرمندگی عروج پر چلی گئی۔ جیسے ہر شخص کی نظروں میں طنز ہو، لوگ چھپ چھپ کر مجھ پر ہنس رہے ہوں۔
میری ٹیم نے خیرت پوچھی اور پھر سب لوگ کام میں مصروف ہو گئے۔ ایلف نے ڈھیر سارا پینڈنگ کام مجھے پکڑا دیا۔ کام کی وجہ سے میں سب کچھ بھول گئی۔ اینٹی ڈیپیسنٹ کی وجہ سے جلد ہی میں تھک جاتیتھی۔ ہمت کر کے پھر بھی لگی رہی۔
معلوم ہوا، تیمور درانی دو مہینے کے لیے یورپ گیا ہے۔ تبھی تو میں کہوں اس نے مجھے سے رابطہ کیوں نہیں کیا۔
شکر ہے دو مہینے تو سکون سے گزریں گے۔
میں نے فیصلہ کر لیا ہے، تیمور درانی کے آنے سے پہلے پہلے میں اس نوکری کو چھوڑ دوں گی۔ میں نے کافی جگہ سی ویز بھیجنا شروع کیا۔ میرا ایک سال کا تجربہ ہونے والا تھا اسی لیے مجھے کچھ امید تھی۔
ایک دن ایلف میرے کمرے میں آئیں تو انھوں نے میرے لیپ ٹاپ پر سی وی کھلی دیکھی۔ انھوں نے مجھے سوالیہ نظروں سے دیکھا تو میں شرمندہ ہو گئی۔
وہ کیا سوچ رہی ہوں گی؟ میں چھپ چھپ کر دوسری کمپنیوں میں جاب کے لیے اپلائی کیوں کر رہی ہوں؟ انھوں نے مجھے اتنی محنت سے کام سکھایا اور میں کام سیکھنے کے بعد کسی اور کمپنی میں جانا چاہ رہی ہوں۔
ایلف نے اس وقت کچھ نہ کہا۔ بریک ٹائم میں انھوں نے بڑی شفقت سے پوچھا کہ مجھے اس کمپنی میں کوئی مسئلہ ہے جس کی وجہ سے میں ایسا کر رہی ہوں؟
اگر کوئی بھی ایسا مسئلہ ہے تو وہ مینجمنٹ سے بات کر کے اسے حل کروا سکتی ہیں۔
ان کے لہجے کی شفقت نے مجھے بہت شرمندہ کیا۔ وہ واقعی نہیں چاہتیں میں ان کی ٹیم چھوڑ کر جاؤں۔
اب میں عجیب کشمکش میں پھنس گئی۔ انھیں کیسے سمجھاؤں۔ میں نے اسی لمحے ایک کہانی گھڑی جس میں تیمور درانی کے علاوہ باقی تفاصیل وہی تھیں۔
ایلف!میں آپ کا خلوص دیکھ کر آپ کو اپنی کہانی سناتی ہوں۔ آپ اس کے بعد فیصلہ کیجئے کہ میرے پاس اور کونسا راستہ ہے۔
یونیورسٹی میں مجھے بہت ہی اچھے استاد ملے جنھوں نے مجھے آرٹ اور ادب کی گہرائی سے آگاہ کیا۔ باقی لوگ تو مجبوراً کلاسوں میں آتے تھے پر میں بڑے شوق سے ان کلاسوں میں جاتی۔ ان میں آرٹ کی ہسٹری پر بات ہوتی۔ مجھے آرٹ کی فلاسفی بہت اچھی لگتی تھی۔ قمر فانی میرے پسندیدہ ٹیچر تھے۔ وہ عمر میں کافی سینئر ہونے کے باوجود نوجوانوں سے زیادہ تر و تازہ اور فنی تھے۔ وہ آرٹ کی تاریخ اور فلاسفی کو بھی اتنی خوبصورتی سے بتاتے کہ بندہ بور نہ ہوتا۔ میرا ان سے یونیورسٹی کے دوران اور بعد میں بہت اچھا تعلق رہا۔ فانی صاحب کی شخصیت تو بہت اچھی تھی۔ لیکن لوگ انھیں نا پسند کرتے۔ شاید اس کی وجہ ان کی باغیانہ طبیعت اور غیر شادی شدہ ہونا تھا۔ ان کی کبھی کسی سے لڑائی تو نہیں ہوئی، پر ان کے طنزیہ جملے سب کو چبھتے۔
ان کے بارے میں بری بری باتیں پھیلائی جاتیں۔ کہ وہ معصوم لڑکیوں کو متاثر کر کے اپنے دفتر اور گھر میں بلاتے ہیں۔ مگر میں نے اتنے سال کبھی کوئی چھچوری حرکت تو کیا کوئی چھچوری نظر بھی محسوس نہیں کی۔ وہ ہمیشہ مجھے بیٹیوں کی طرح ٹریٹ کرتے تھے۔ میں ان کے گھر بھی گئی جہاں بے تحاشا کتابیں اور پینٹگز مجھے اچھی لگتیں۔
یونیورسٹی ختم ہوتے ہی میری منگنی ایک بہت اچھی جگہ ہوئی۔ مجھے اپنے منگیتر سے شدید محبت ہو گئی۔ پھر بدقسمتی سے ہمارے درمیاں دوریاں بڑھ گئیں۔ میرا منگیتر امریکہ ٹریننگ پر چلا گیا۔ پیچھے ہم پر قیامتیں ٹوٹ پڑیں۔ ہمارے گھر میں ڈاکا ڈلا، میرے ابا ہماری عزت بچاتے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس واقعہ نے ہماری زندگی تہہ و بالا کر دی۔ ساری دنیا ہماری دشمن بن گئی۔ ہمارے بارے میں عجیب عجیب باتیں کی جانے لگیں۔ گھر کا خرچ چلانے کے لیے مجھے نوکری کرنا پڑی۔
خوش قسمتی سے مجھے اس کمپنی میں جاب مل گئی۔ میں کبھی کبھار چھٹی کے دن فانی صاحب کے ہاں بھی جاتی۔ ان سے ادب اور آرٹ کے موضوع پر باتیں کرنا مجھے اچھا لگتا۔
دفتر کی پارٹیز میں مجھے آنا بالکل اچھا نہ لگتا۔ لیکنمجبوراً سوشالائزیشن کے لیے آ جاتی۔ میرے سسرال والوں کو پتا نہیں کیا شک ہوا اور انھوں نے میری جاسوسی کروا ئی۔ دفتر کی پارٹیز اور فانی صاحب کے گھر جانے کی تصویریں بنالیں۔ اب ان تصویروں کو دیکھ کر انھوں نے یہ مطلب لیا کہ میں اچھے کردار کی لڑکی نہیں ہوں۔
میرے سسرال والوں نے میری وضاحت سنے بغیر منگنی توڑ دی۔ میرا منگیتر بھی میری بات سننے کو تیار نہیں۔ بدنامی سے بچنے کے لیے ہم نے وہ محلہ چھوڑ دیا۔ اسی وجہ سے میں شدید ڈیپریشن کا شکار ہو گئی ہوں۔ ایک بار خود کشی بھی کرنے والی تھی۔ اسی وجہ سے میں نے فیصلہ کیا ہے، یہ کمپنی چھوڑ کر کسی اور شہر میں نوکری کر لوں۔
ایلف نے میری کہانی بڑے دھیان سے سنی اور اس پر یقین بھی کر لیا۔ میری کہانی ختم ہوتے ہی مجھے گلے لگا کر تسلی دی۔ ان کا خلوص دیکھ کر میری آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔ انھوں کہا کہ اگر ایسی بات ہے تو وہ میرے لیے کچھ کر سکتی ہیں۔
تمھیں کسی اور ملک جانے میں کوئی ایشو تو نہیں ہے؟
میرا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔ کوئی اور ملک؟
یورپ یا ترکی؟ میرے کچھ کمپنیوں میں اچھے تعلقات ہیں جو میری ریکیمینڈیشن پر تمھیں سیلیکٹ کر سکتے ہیں۔
اوف کورس کام اور ماحول ایسا نہیں ہو گا جیسا یہاں ہے۔ تمھیں شروع میں ایڈجسٹ ہونے کے لیے بہت محنت کرنا پڑے گی۔ وہاں کوئی تمھیں لڑکی سمجھ کر رو رعایت نہیں دے گا۔ ہاں تمھیں سیکھنے کے موقع بہت ملیں گا۔
میں سوچ میں پڑ گئی کہ کیا کروں؟ کیا کچھ عرصے کے لیے باہر چلے جانا مناسب ہے یا نہیں؟
ویسے بھی یہاں ہمارا کون تھا؟ صرف اماں اور شگفتہ ہی تو تھیں۔ شگفتہ تو ویسے بھی باہر پڑھنے جانا چاہتی تھی۔ اسی بہانے ہم تینور ماں بیٹیاں اکٹھی تو ہوں گی۔
میں نے گھر واپس آ کر کر شگفتہ سے بات کی تو وہ بہت ہی ایکسائیڈڈ ہو گئی۔
آپی اس سے بہتر تو کوئی بات ہو ہی نہیں سکتی۔ آپ کی منگنی ٹوٹنے اور دوسری باتیں دب جائیں گی اور کچھ عرصہ بعد ہم واپس آ کر اپنی نئی زندگی کا آغاز کر سکیں گے۔
میں اس کی باتوں سے کنونس ہونے کے بعد بھی شش و پنج کا شکار رہی۔
کیا کروں؟
ایک نیا ملک، نئی کمپنی اور نئی زندگی۔ میں یہ سب کیسے کرپاؤں گی؟
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میں نے ایلف کو ہاں کہہ دی۔ انھوں نے کچھ ہی دنوں میں دو یورپین اور ایک ترکش کمپنی میں میرا سکائپ انٹرویو رکھوادیا۔ دو کمپنیاں فرانسیسی تھیں اور ایک ترکش۔ انٹرویو تو بہت ہی لمبے اور ٹف ہوئے۔
ان کا سارا فوکس اس بات پر تھا، میں ان کے لیے کیا کر سکتی ہوں؟
شکر ہے ایلف نے میری اچھی خاصی تیاری کروا ئی، ورنہ میری تو ایسی صورتحال میں سانس ہی پھول جاتی تھی۔ اتنے اچھے انٹرویو کے باوجود دونوں فرانسیسی کمپنیوں نے مجھے ریجیکٹ کر دیا۔ البتہ ترکی کی کمپنی نے مجھے جاب آفر کر دی۔
پے پیکج ابتدائی طور پر کم تھا۔ لیکن پرفارمنس کے ساتھ بڑھنے کے چانسس بہت تھے۔ میں نے جیسے ہی آفر ایکسیپٹ کی، ویزہ پراسس سٹارٹ ہو گیا۔ کچھ ہی ہفتوں میں مجھے جانا تھا۔
مجھ سے زیادہ تیاریاں شگفتہ نے کرنا شروع کر دی تھیں۔ گھر کی فروخت سے آنے والے پیسوں کو فلفور اکاؤنٹ میں رکھ دیا۔ ترکی جا کر ان کی ضرورت پڑسکتی تھی۔ اماں نئے علاقے میں ابھی تک ایڈجسٹ نہیں ہو پائیں، نئے ملک کا سن کر تو ان کے ہوش ہی اڑ گئے۔ پے درپے صدموں نے ان کی فیصلہ کرنے کی صلاحیت چھین لی تھی۔ انھیں لگتا کہ ان کا کسی بات پر اختیار ہی نہیں رہا۔
حقیقت میں ہم سب گھر والوں کی زندگی خس و خاشاک جیسی ہو گئی تھی۔ حالات و واقعات کا ایک طوفان ہمیں بہائے لے جا رہا تھا۔
فلائٹ سے دو دن پہلے میں نے آفس میں خاموشی سے ریزائن دے دیا۔ ایلف کے علاوہ کسی کو کچھ علم نہیں تھا۔ میں نے اس بات کا زیادہ ڈھنڈورا پیٹنا مناسب نہ سمجھا۔ ایلف نے نیک تمناؤں کے سے ساتھ مجھے رخصت کیا۔ یہی کہا کہ وہاں جاتے ہی رابطے میں رہوں۔
اسی شام میں آفس سے گھر آئی تو دیکھا، شگفتہ اور امی گھر پر نہیں تھیں۔ پریشان ہو کر فوراً شگفتہ کو کال ملائی۔ اس نے بتایا، امی کا بلڈ پریشر بہت لو ہو گیا تھا اسی لیے وہ ہسپتال آئی ہے۔ پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے وہ کچھ دیر میں گھر پہنچ جائیں گے۔
مجھے تسلی نہ ہوئی۔ عجیب عجیب سے وسوسے آنا لگے جیسے اماں کو کچھ ہو گیا ہے اور شگفتہ مجھ سے اصل بات چھپا رہی ہے۔
میں نے کچھ دیر بعد پریشانی سے دوبارہ شگفتہ کو کال کی۔
شگفتہ سچ سچ بتاؤ امی ٹھیک تو ہیں نا۔ ۔ میری آواز رندھ گئی۔
اس نے غصے اور کوفت سے کہا: آپی پریشان نہ ہوں کچھ نہیں ہوا۔ ہم لوگ کچھ دیر میں گھر آ رہے ہیں۔
میں نے ایک ہفتے سے ڈیپریشن کی میڈیسن لینا بھی چھوڑ دی تھی۔ کیا اسی وجہ سے تو ایسا نہیں ہو رہا؟
کچھ دیر بعد دروازے پر گھنٹی بجی۔ میں پریشانی میں ننگے سر اور ننگے پاؤں ہی دروازہ کھولنے چلی گئی۔ صرف اماں کی صورت ہی مجھے تسلی دے سکتی تھی۔
دروازہ کھولتے ہی کاشف پر نظر پڑتے ہی میری سانس اٹک گئی۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مجھے یہ بھی یاد نہ رہا کہ میں بے نقاب اور ننگے سر ہوں۔
اس کی صورت دیکھتے ہی میرے سینے میں ٹھنڈک پڑ گئی۔
میرا سارا ڈیپریشن ختم ہو گیا۔ دل چاہا، اس کے سینے سے لگ جاؤں۔
یہ سب خواب جیسا ہے۔
لیکن وہ واپس کیوں آیا؟
یقینا! اسے میری معصومیت کا دل سے یقین ہے۔ اسی لیے ساری مخالفتوں کے باوجود وہ مجھے اپنانے آیا ہے۔
ایک لمحے میں میرے سارے غم دھل گئے۔ تاریک نظر آنے والا مستقبل، سہانا ہو گیا۔
اس نے شاید کبھی میری تصویر دیکھی ہو۔ مگر یوں بے نقاب کبھی نہیں دیکھا۔ اس کی آنکھوں کے تاثرات بدل گئے۔ کچھ لمحوں کے لیے وہ پتھر کا بت بن گیا۔۔
میں اس کی آنکھوں کے تاثرات نہ سمجھ سکی۔ میری سوچنے سمجھنے کی صلاحیت تو اسے دیکھ کر ہی ختم ہو گئی۔ ایک خیال آیا کہ کاش وقت رک جائے۔
اسی لمحے اس کی آنکھوں میں فوراً شدید غصے کی لہر اٹھی۔
ایک زور دار تھپڑ مجھے خواب سے باہر لے آیا۔ اس کا چہرہ غصے سے لال تھا۔ یوں لگا کہ وہ بڑی مشکل سے خود کو کچھ کرنے سے روک رہا ہے۔
تھپڑ اتنی زور سے لگا کہ میں سائیڈ پر گر گئی۔ میرا سر جھن جھنا گیا۔ دکھ کے مارے میری آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔
میں تڑپ کر اٹھی اور اس سے کچھ کہنے ہی والی تھی، کہ اس نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے روکا۔
بس عبیر! کسی وضاحت کی ضرورت نہیں۔ میں سب جان چکا ہوں۔ تمھاری کوئی وضاحت میرا دل صاف نہیں کر سکتی۔
میرا بس نہیں چل رہا کہ۔ ۔
یہ کہتے ہیں اس نے سامنے دیوار پر زور سے مکا مارا۔ اس کی آنکھوں میں بے بسی صاف دکھنے لگی۔ جیسے کسی شیر کو جکڑ دیا ہو۔
عبیر! میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ کہ۔۔ کہ تم پیسے کی چکا چوند سے اتنی جلدی کرپٹ ہو جاؤ گی۔ اس کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی آ گئی۔
صحیح کہتے ہیں ! سب لڑکیاں ایک جیسی ہوتی ہیں۔ بس ظاہری روپ بدلتے ہیں۔
تم تو اپنی پارسائی کی وجہ سے مجھے چہرہ بھی نہیں دکھاتی تھیں۔ پھر۔۔ پھر ایسا کیا ہو گیا کہ تم۔ ۔ ۔۔
اسے بھی تم نے اپنی معصومیت سے شکار کیا ہو گا۔ ہے نا؟
وہ دادی کا وعدہ، وہ پردہ داری!
کیاصرف امیر لڑکوں کو پھنسانے کے بہانے تھے؟
کاشف میری بات تو سنو۔
بس عبیر!
مجھے مزید غصہ مت دلاؤ کہ میں کچھ اور کر گزروں۔
میں گھر سے یہ فیصلہ کر کے نکلا تھا آج تمھاری بھی جان لوں گا اور اپنی بھی۔ تمھارا یہ خوبصورت چہرہ دیکھ کر میرا غصہ آدھا رہ گیا ہے۔
میں اس چہرے کو دیکھنے کے لیے کتنا تڑپتا رہا۔ آج اسے اپنے ہاتھوں سے کیسے مٹادوں۔
اس کی آواز بھرا گئی۔
تم نے میرے ساتھ اچھا نہیں کیاعبیر۔۔
میں تم سے نفرت کرتا ہوں۔
یہ کہہ کر وہ تیزی سے دروازہ بند کر کے چلا گیا جیسے اگر مزید رکا تو اپنے جذبات پر قابو نہ کر سکے گا۔
اس کی باتیں میرے سینے میں گرم سلاخوں کی طرح گھستی گئیں۔
میرا سانس لینا محال ہو گیا۔
میرے ذہن میں بس ایک ہی جملہ گونجنے لگا
میں تم سے نفرت کرتا ہوں۔ میں تم سے نفرت کرتا ہوں۔
میری پاکیزگی سے اسے محبت تھی۔
اب اس کی نظروں میں میری پاکیزگی میں ختم ہو گئی ہے۔
آج اس نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے
میری کوئی دلیل اس کے دل میں میری محبت بحال نہیں کر سکتی۔
میری پاکیزہ محبت ختم ہو گئی۔
محبت جو میری زندگی تھی۔
اب میری کوئی زندگی ہی نہیں۔
محبت کے بنا یہ زندگی کتنی بے معنی ہے
میں جیوں تو کس لیے؟
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
میرا خود پر اختیار ختم ہو گیا۔
یوں لگا یہ چہرہ اور جسم میرا حصہ نہیں۔ میں اس چہرے اور جسم سے علیحدہ ایک وجود ہوں۔ یہ ناپاک جسم اور چہرہ سزا کا مستحق ہے۔ مجھے ان سے نجات پانی ہے۔
میں فوراً ہی کچن میں گئی اور چھری پکڑ کر ایک ہی سیکنڈ میں بائیں کلائی کی نس کاٹ دی۔
میں کچن کی دیوار سے لگ کر بیٹھ گئی، اور اپنی سفید کلائی سے خون کو نکلتے دیکھنے لگی۔ میرا دل بہت آہستہ آہستہ ڈوبنے لگا۔ آنکھیں کھولنا مشکل ہو گیا۔ ذہن یوں تاریک ہونے لگا جیسے کسی بلڈنگ کی لائٹس آف ہوتی ہیں۔ میری سوچیں بہت آہستہ ہو گئیں، جیسے وقت رک گیا ہو
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔
مجھے ہوش آیا، تو انجان کمرے میں دوائیوں کی بو کے ساتھ میری پہلی نظر شگفتہ پر پڑی۔
اس کی آنکھوں میں شدید پریشانی اور غصہ تھا۔ مجھے اپنے جسم میں بالکل بھی جان محسوس نہ ہوئی۔ مجھے دوبارہ شدید ڈیپریشن محسوس ہوا۔ پاس بیٹھی اماں کی آنکھوں میں شدید غم تھا۔ میرے ہوش میں آتے ہی اماں فوراً میرے پاس آئیں اور میرا ہاتھ تھام کر رونے لگیں۔ انھوں نے کچھ نہ کہا لیکن ان کے آنسوؤں اور ہاتھ کی گرمی نے میرے اندر ایک سکون سا ڈال دیا۔ وہ سب کچھ ہونے کے بعد بھی مجھے کھونا نہیں چاہتیں۔
پھر بھی مجھے اپنے بچ جانے کا شدید غم ہوا۔
آخر مجھے کیوں مزید تکلیف سہنے کے لیے زندہ رہنے دیا؟
اماں نے فوراً مجھے گلے لگایا، اور میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ اماں کے گلے لگانے نے جیسے میرا سار اڈیپریشن دور کر دیا ہو۔ جیسے میں دوبارہ چھوٹی سی بچی بن گئی ہوں۔ پتا نہیں اس میں کتنا وقت گزر گیا۔ لیڈی ڈاکٹر نے آ کر ہمیں جدا کیا۔
جس وقت میں نے اپنی نس کاٹی، شگفتہ نے کاشف کو بلڈنگ سے نکلتے دیکھا۔ کاشف نے انھیں سلام کرنا گورا نہ کیا اور تیزی سے اپنی گاڑی میں بیٹھ کر چلا گیا۔ کاشف کا یوں غصے سے جانا شگفتہ کے ذہن میں خطرے کی گھنٹی بجا گیا۔ وہ یہی سمجھی کہیں کاشف مجھے کوئی نقصان پہچانے نہ آیا ہو۔
وہ بھاگتی پہنچی تو دروازہ کھلا تھا اور میں کچن مین اپنے ہی خون کے تالاب میں بیٹھی تھی۔
اس نے فوراً میری کلائی پر کس کے کپڑا لپیٹا اور قریبی ایمرجنسی میں لے گئی۔ کئی گھنٹوں اور خون کی کئی بوتلوں کے بعد میری حالت خطرے سے باہر ہوئی۔ شگفتہ کو تھوڑا بہت اندازہ ہو گیا کہ کیا ہوا ہو گا۔
میری رپورٹس میں یہی آیا کہ مجھے ڈیپریشن کا شدید اٹیک ہوا تھا۔ میری ذہنی حالت نارمل نہیں تھی۔ جس کی وجہ سے میں آگے بھی خود کشی کی کوشش کر سکتی تھی۔ اسی لیے مجھے انتہائی نگہداشت میں رکھنے کی ضرورت تھی۔
اماں اور شگفتہ کے چہروں پر پریشانی مجھے مزید پریشان کرنے لگی۔ وہ زبانی طور پر تو مجھے تسلی دیتی رہیں۔ میرے ساتھ اچھی اچھی باتیں کرتیں مگر خود ان کے چہروں پر کوئی اور ہی کہانی دکھتی۔ جب وہ کمرے سے باہر سائیکیٹرسٹ سے باتیں کر رہی ہوتیں تو مجھے برے برے خیال آتے۔
دوائیوں کے زیر اثر مجھے ہر وقت غنودگی اور نیند آئی رہتی۔ جب میں جاگی بھی ہوتی تو یوں لگتا جیسے خواب میں ہوں۔ کسی بھی چیز پر زیادہ دیر سوچ نہ پاتی۔ کبھی کبھی تو یہ بھی یاد نہ رہتا کہ میں کہاں ہوں۔ کب سے ہوں، اور کیوں ہوں۔
جب دوائیوں کا اثر تھوڑا کم ہوتا تو کاشف کی باتیں مجھے دوبارہ یاد آنے لگتیں، اب تو کاشف کے سسرال اور ہمارے محلے میں سب لوگوں کو پتا چل گیا ہو گا۔ وڈیوز اور تصویریں گھر گھر پھیل گئی ہوں گی۔
ہا ہا ہا۔ اچھا تو اس نقاب کے پیچھے یہ راز تھا۔
لوگ سالوں تک میری کہانی سنا کر اپنی بچیوں کو عبرت دلائیں گے۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے، ایک نقاب پوش لڑکی تھی۔۔ اس کا نام عبیر تھا، وہ لوگوں کے سامنے بہت نیک اور پارسا بنتی تھی، اپنے منگیتر تک کو اپنا چہرہ نہ دکھاتی۔ لیکن یہ سب ڈرامہ تھا، وہ اندر سے لالچی تھی۔ وہ پیسوں کے لیے کسی بھی حد تک چلی جاتی۔ اس کی ہوس ختم ہی نہ ہوتی۔ لیکن خدا نے اس نے انتقام لیا۔۔
تو میری پیاری بچیو تم نے عبیر جیسا نہیں ہونا۔ ۔ ۔
میرے چہرے پر ایسی کالک لگ گئتھی جو اب نہیں اتر سکتی۔
کاشف امریکہ میں امیرہ کو میری تصویریں دکھا کر رو رہا ہو گا۔ اسے ہمیشہ بے وفا لڑکیاں ملتی ہیں۔ امیرہ اسے تسلی دینے کے لیے گلے سے لگا لیتی ہو گی۔
میری آنکھوں سے آنسو نکل پڑے اور سینے میں آگ لگ گئی۔
تیمور درانی نے بھی میری جگہ کسی لڑکی کو نوکری دے دی ہو گی۔ اسے بھی اپنی لائبریری میں لے کر جاتا ہو گا۔ اسے بھی اپنی دکھ بھری کہانی سنا کر تشدد کرنے کے لیے کہتا ہو گا۔ وہ اسے بتاتا ہو گا کہ ایک لڑکی تھی عبیر جو بے وجہ ہی پاگل ہو گئی۔ وہ لڑکی عجیب تھی، بہت پارسا بنتی تھی لیکن پھر۔ ۔ ۔ ۔
کیا وہ لڑکی بھی نقاب لیتی ہو گی؟
مجھے اللہ تعالیٰ نے سزا دی ہے۔ یقیناً میرا تیمور درانی کے ساتھ وہ سب کام کرنا کسی طور بھی ٹھیک نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ ضرور مجھ سے ناراض ہے۔ یا اللہ مجھے معاف کر دے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
پتا نہیں کتنا وقت گزر گیا ہے۔ میں ہر وقت نیگیٹو ہی سوچتی رہتی۔ میرا دل چاہتا، اپنے سر پر بندوق رکھ کر گولی مار لوں، یہ سوچیں تو بند ہوں۔
میں اپنی سوچوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتی، تو میرے جسم میں شدید کپکپاہٹ شروع ہو جاتی۔ ایسے میں مجھے فوراً میڈیسن دی جاتیں۔ جن کے زیر اثر میں غنودگی کی حالت میں چلی جاتی۔
پہلے ہفتے تو اماں اور شگفتہ میرے ساتھ ہی رہیں۔ جب مجھے مستقل وارڈ میں منتقل کر دیا گیا تو وہ دن کے کسی ٹائم آتیں اور چلی جاتیں۔
کیا وہ بھی مجھے بھول گئی تھیں؟ لوگ پاگلوں سے یوں دور بھاگتے ہیں، جیسے انھیں اچھوت کی بیماری لگی ہو۔ لوگ اپنے پیاروں کو پاگل خانے میں داخل کروا کے بھول جاتے ہیں۔ پاگلوں کو ایک بار الیکٹرک شاک ٹریٹمنٹ ہو جائے تو پھر ریکوری کا چانس بہت کم ہو جاتا ہے۔ انسان پھر پہلے جیسا نہیں رہتا۔ اللہ نہ کرے مجھے الیکٹرک شاک ٹریٹ منٹ سے گزارا جائے۔
بچپن میں جب کبھی اماں ہمیں نانی کے ہاں لے کر جاتیں تو وہاں ان کے ڈھیر سارے رشتے داروں سے مل کر بہت مزہ آتا۔ وہاں میری عمر کے اتنی ساری کزنز ہوتیں۔ ہمارا کھیل کود کبھی ختم ہی نہ ہوتا۔ وہاں گھر کا انتظام امی کی بڑی بھابی سکینہ نے سنبھالا تھا۔ ان کا رعب دبدبہ بہت تھا۔ حتیٰ کہ ان کے شوہر یعنی میرے ماموں بھی ان سے دبے دبے رہتے۔ کھانا پکانے سے لے کر شادیوں تک کے سارے معاملات میں حتمی فیصلہ انھی کا ہوتا۔ اماں بھی ڈر کے مارے ان کا بہت احترام کرتیں۔
انھیں اپنے تینوں بیٹوں سے بہت پیار تھا۔ وہ ان کی کسی خواہش کو رد نہ کرتیں۔ ہمارے یہ تینوں کزن بہت ہی بدتمیز اور منہ پھٹ تھے۔ ہر وقت اوٹ پٹانگ حرکتیں کر کے سب کی ناک میں دم کیے رکھتے۔ آنٹی سکینہ کے خوف سے کوئی کچھ نہ کہتا۔ لاڈ پیار نے ان تینوں کو اچھا خاصا خراب کر دیا۔ پڑھائی انھوں نے کی نہیں، اور ہنر انھیں کوئی آتا نہیں تھا۔ بس باپ کے پیسوں پر عیاشی کرتے رہتے۔
گھر میں روز ان کی شکائتیں آنے لگیں۔ تنگ آ کر بڑے بیٹے کو غیر قانونی طور پر یورپ بھجوایا۔ اس نے وہاں جا کر پیسے بھجوانا شروع کیے، تو چھوٹوں نے مزید عیاشی شروع کر دی۔ کچھ عرصہ بعد منجھلے بیٹے نے بھی غیر قانونی طور پر باہر جانے کی کوشش کی۔ بدقسمتی سے ترکی کے بارڈر پر گارڈز کی فائرنگ سے مارا گیا۔
ابھی اس غم سے فرصت نہیں ملی تھی کہ، چھوٹے بیٹے کو ایک لڑائی میں کسی نے چھرا مار دیا۔ رات کا وقت تھا کوئی بچانے نہ آیا۔ سڑک پر ہی موت ہو گئی۔
آنٹی سکینہ پے در پے دکھ برداشت نہ کر سکیں۔ ان کی ذہنی حالت بگڑ گئی۔ کئی بار ان کا علاج کروا یا مگر حالت بہتر نہ ہوئی۔ ان کے غصے اور رونے دھونے سے تنگ آ کر انھیں مستقل طور پر پاگل خانے داخل کروا دیا گیا۔ کئی سال تک کوئی ان کا پوچھنے نہ گیا۔ ان کا ذکر ہوبھی جاتا تو ایک آدھا افسردہ جملہ کہہ کر کوئی دوسری بات کر دی جاتی۔ کئی سال بعد پاگل خانے میں ہی ان کا انتقال ہوا۔ ان کے جنازے پر بہت ہی کم لوگ تھے۔
کیا میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہو گا؟
مجھے اپنی ذہنی حالت خود بھی ٹھیک نہیں لگ رہی تھی۔ میری یاداشت ختم ہوتی جا رہی تھی۔ کبھی کبھار میں اپنے بستر کے پاس ایک عورت اور لڑکی کو اداس کھڑا دیکھتی۔
کافی غور کرنے کے بعد پہچانا جاتا یہ تو اماں اور شگفتہ ہیں۔ کیا واقعی وہ ہی ہوتیں یا میرا ذہن مجھے دھوکہ دے رہا تھا۔
میرے لیے حقیقت اور خواب میں فرق ختم ہو گیا۔ وقت میرے لیے سیدھا چلنا بند ہو گیا۔ مجھے اپنی عمر کا بھی اندازہ نہیں رہا۔ میرے وارڈ میں کوئی شیشہ نہیں تھا۔ پتا نہیں اب میں کیسی دکھتی ہوں گی۔
کیا میں جوان ہی ہوں یا بوڑھی ہو چکی ہوں۔ میرا نام عبیر ہی ہے یا میں کسی کہانی کا کردار ہوں۔
اندھیرے بڑھتے ہی جا رہے تھے۔ میری پہچان کھوتی جا رہی تھی؟
یا اللہ مجھے پاگل پن کی اس بے خودی سے بچا لے۔ یا اللہ میں اس مد ہوشی میں نہیں مرنا چاہتی۔
میں اپنے اندر کے اندھیروں میں ڈوب رہی تھی۔ روشنی کے سارے دروازے بند ہو رہے تھے۔
اماں اور شگفتہ مجھے ملنے کیوں نہیں آ رہیں؟
کیا انھوں نے بھی مجھے آنٹی سکینہ کی طرح چھوڑ دیا ہے؟
میری زندگی میں ویسا کچھ بھی نہیں ہوا جیسا سوچا تھا۔ کیا سب کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔
زندگی بھی عجیب ہے۔
میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟ کیا یہ میری آزمائش ہے یا سزا؟
اگر یہ سزا ہے تو کس بات کی؟ آزمائش ہے تو اس کے بعد مجھے کیا ملنا ہے؟
کہیں ایسا تو نہیں نہ ہی یہ آزمائش ہو اور نہ ہی سزا۔ یہ سب بے مقصد ہی ہو رہا ہو؟
ہو سکتا ہے میری یہ سب دکھ اور تکلیفیں بے معنی ہی ہوں۔
شاید میری زندگی ہی بے معنی ہو۔
خدا اگر سنتا ہے تو وہ میرے درد کم کیوں نہیں کر دیتا؟
کہیں تیمور درانی ٹھیک تو نہیں کہتا تھا؟ اسے بھی تو اپنے دکھوں اور تکلیفوں کا کوئی مقصد نظر نہیں آتا تھا۔
لیکن ان سب دلیلوں کے باوجود میرے دل میں خدا کی موجودگی کا ناقابل تردید احساس تھا۔
ایسا لگتا جیسے صرف وہ ہے جو میری ان تکلیفوں کا دیکھ رہا ہے۔ جیسے وہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔ اس پوری کائنات میں صرف وہ ہے جو میرے دکھ تو ویسے ہی سمجھتا ہے جیسے میں سمجھتی ہوں۔
میں اس گہرے احساس کو کسی بھی دلیل کے تحت رد نہیں کر سکتی۔ پاگل پن میں بھی مجھے صرف ایک احساس ہی باقی تھا۔ اس احساس کے سامنے سب کچھ ہیچ لگتا تھا۔
کیا خدا کی موجودگی کا یہ جذباتی احساس کوئی معنی نہیں رکھتا۔
میں سب کچھ کھو کر بھی اس احساس کو نہیں کھونا چاہتی۔
یا اللہ میں تجھے کھونا نہیں چاہتی۔
یا اللہ تو ہی میرا آخری سہارا ہے
یا اللہ مجھ پر جو بھی مشکلیں آئیں۔ میں پھر بھی سمجھتی ہوں کہ ان میں ضرور تیری حکمت ہے۔ یا اللہ یہ کائنات بے مقصد نہیں ہے۔ یا اللہ میں اپنے دل میں تجھے محسوس کرتی ہوں۔ کوئی دلیل مجھے اس سے باز نہیں رکھ سکتی۔
میری اپنے ہوش و حواس کی آخری کرن تک تجھے یاد رکھنا چاہتی ہوں
میں چاہتی ہوں کہ مجھے پاگل پن بھی ایمان کی حالت میں آئے۔
اشھد ان لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہﷺ
پھر مجھے شدید دورے پڑنا شروع ہو گئے۔ جن کے علاج کے لیے مجھے کئی بار الیکڑک شاک دیے جاتے۔ یہ عمل بہت ہی تکلیف دہ تھا، اوپر سے ہر الیکڑک شاک کے ساتھ میرے اندھیرے بڑھتے گئے۔
٭٭٭

 

گوہر شہوار
About the Author: گوہر شہوار Read More Articles by گوہر شہوار: 23 Articles with 29231 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.