میرے لکھنے کا انداز

بہت سے دوستوں نے مختلف مواقع پہ یہ سوال کیا کہ آپ کیسے لکھتے ہیں اور کس وقت لکھتے ہیں کس انداز میں لکھتے ہیں ؟
میں نے عرض کیاکہ میں ہمیشہ رَف کاغذ پر لکھتاہوں اورکسی جگہ کوخالی نہیں چھوڑتایہاں تک کہ اس کے کونوں پہ بھی لکھتاہوں یہ عادت مجھے حضرت شیخ الحدیث مولانامحمدزکریاؒ کے حالات پڑھ کر پڑی کہ وہ ہمیشہ رَف کاغذپر لکھتے تھے اوریہ بات بھی ہے کہ میں ہر وقت لکھ لیتاہوں شور ہویاسکون ہو،کوئی آئے یاجائے ،کوئی سوال کرے یابات کرے ،اﷲ کے فضل وکرم سے جوسکریب چل پڑی چلتی رہتی ہے میرے دل ودماغ میں خودبخود عنوان آتے رہتے ہیں پھر اس کے مطابق دلائل وبراہین بھی آتے جاتے ہیں کبھی یوں بھی ہوتاہے کہ ایک کاغذ پہ بات لکھی وہ ایک فائل میں رکھ دی اوردوسری لکھی تودوسری فائل میں رکھ دی۔پھر فائلیں ادھر اُدھر ہوگئیں تلاش جاری رہی مگر مضمون نہ ملا،دوسرالکھناپڑاکچھ عرصہ بعد وہ بھی مل گیااس کوکسی دوسری جگہ مناسب لگادیاکبھی یوں بھی ہوامضمون لکھااورکسی کتاب میں رکھ دیاپھر بھول گیاکافی مدت بعد ملالکھنے میں بھی عجب وغریب مناظر ہوتے ہیں نمازتہجد کے بعد اگر مضمون لکھاجائے تووہ بڑاجامع ہوتاہے کاغذوقلم ہمیشہ پاس رکھاجائے،جوچیز جہاں سے ملی وہاں نوٹ کر لی بہت بڑاذخیرہ بن جاتاہے کبھی بزرگوں کی طرف سے حکم ہوتاہے اس موضوع پر لکھو!اورکبھی دوست واحباب حکم دیتے ہیں کہ اس موضوع پر لکھو!اﷲ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے ہمارے اوپر بہت بڑافضل وکرم کرتاہے جس موضوع پر لکھافائدہ ہوا،اچھوں نے حوصلہ افزائی کی ،حاسدین پر نام ہی سے جلن ہوئی شکر اﷲ کاکہ ہم ان کے لیے بھی دعاگورہے کہ اﷲ تعالیٰ ہدایت دے،اﷲ اچھائی میں مدد فرمائے حسد کاعلاج کسی کے پاس نہیں ہے۔
میں نے جب لکھناشروع کیاتودل ودماغ میں اس شعر کوجگہ دی
؂اندھیروں سے کہہ دو کہیں اوربسیراکریں
ہم نئے عزم سے بنیاد سحررکھتے ہیں
رات کودیر تک لکھناصبح سویرے بیدار ہونامعمولات کوبروقت کرنااﷲ تعالیٰ کافضل وکرم رہایہ آواز ہمیشہ کانوں میں گونجتی رہی
؂ میں کرن ہوں شبِ سینے میں اترناہے مجھے
نورسے دنیاکومالامال کرنا ہے مجھے
میں ہواکاہاتھ پکڑے جارہاہوں تیزتر
وقت کے معیار پر پورااترنا ہے مجھے
میں نے لکھاتودل میں یہ تمناپیداہوئی کہ سب کوساتھ لے کر چلناہے سب کوایک اورنیک کی دعوت دینی ہے جوڑپیداکرنا ہے توڑسے بچناہے ،اخلاق وکردار کادامن ہمیشہ بلندرکھناہے ،بات دلائل سے مگر ہر حال میں لہجہ نرم رکھناہے ،دل ودماغ کوتیار کر لیاکہ خود کسان بنناہے خوددرخت لگاناہے اورخودآبیاری ونگرانی بھی کرنی ہے جوحال بھی ہومستقل مزاج رہناہے۔اﷲ پاک کافضل وکرم رہاجوارادہ کیاتھااﷲ پاک نے پوراکردیاجب کسی نے اصلاح کی توفوراًقبول کر لی ضدوحسد سے بچنے کی کوشش کی توبہ واستغفار کامعمول رہا،درودشریف کاوظیفہ لکھنے میں برکت کاذریعہ رہا،کبھی تلخی کے جواب میں یوں کہہ کر گزر گئے
؂اک تبسم ہزار شکوؤں کاکتناپیاراجواب ہوتاہے
ایک لطیفہ کی بات اور حسد کی آگ
ہماری کتاب مینارہ نور حصہ او ل جب شائع ہوئی توایک محفل میں ایک شخص نے یوں کہامیں گڑنگی صاحب کی کتاب گھر میں لے گیاروزانہ ایک واقعہ پڑھ کربچوں کوسناتاہوں اورسارے گھر والے سنتے ہیں بڑافائدہ حاصل کرتے ہیں علمی وادبی اورتاریخی کتاب ہے ،ایک مولو ی صاحب کے دل میں حسد کی آگ بھڑک اٹھی اورکہنے لگااس کوکتاب لکھنے کی کیاضرورت ہے کل ہمارے سامنے پڑھتاتھاآج کتابیں لکھتاہے جوبندہ بول رہاتھاجب مولوی صاحب خاموش ہوئے توکہا،مولوی صاحب !آپ کے پیداہونے کیاضرورت تھی آپ کے بغیر بھی رب کانظام چل رہاتھابس کیاتھاوہ شخص شیر کی طرح دھاڑ مار کر بول رہاتھااوروہ مولوی جس کی بات حسد کی آگ کے شعلے مار رہی تھی خاموش ہوگئی کچھ جواب نہ بن پڑاہمیں جب اس بات کاپتہ چلاتواﷲ پاک کاشکراداکیااس بندے اور مولوی صاحب کے لیے دعاکی اﷲ تعالیٰ ہدایت دے کچھ عرصہ کے بعد وہی مولوی صاحب یہ کہتے سے گئے یار گڑنگی نے توحیران کر لیااتنی کتابیں لکھ لیں۔
میں نے توغالب کی بات کوپلے باندھاہواتھا
؂ ہے رنگ لاالہ گل ونسریں جداجدا
ہر رنگ میں بہارکااثبات چاہیے
یہ باربار اپنے آپ کوکہتاکہ لکھنامشکل ہے اور مشکل کام کم لوگ کرتے ہیں تم مشکل میں کود پڑواورلکھواورخوب لکھو،تمہارے دنیاسے جانے کے بعد بہت بڑاصدقہ جاریہ ہوگا،سب سے پہلامیرامضمون روزنامہ نوائے وقت راولپنڈی میں شائع ہوا،اس کے بعد ایسااخباراوررسالہ کوئی نہیں جس میں مضمون شائع نہ ہواہو،بلکہ ہر طرف اورہر مدیر کی طرف سے یہ آوازآتی تھی کہ آپ ہمارے اخبار کے لیے لکھاکریں ہم نمایہ شائع کریں گے،ہم لکھتے رہے قارئین کرام پڑھتے رہے کچھ حضرات کی طرف سے ایسے حوصلہ افزائی کے خطوط اورپیغام ملے کہ دل کوسکون ملا،بہت سے حضرت کی طرف سے جب یہ باتیں معلوم ہوئیں کہ آپ کی کتب پڑھ کرفلاں مسئلہ معلوم ہوااور اب اس مسئلہ پر عمل کر رہاہوں ،اخبارات اوررسائل میں تبصرے ہوئے ،رب کافضل وکرم ہوااورنبی پاک ﷺ کی برکت شامل حال رہی اوریہ حرکت وبرکت جاری رہی ۔منزل کی تلاش میں جب قلم نے ساتھ دیاتوزبان پر یہ الفاظ جاری ہوئے
؂آسانیوں سے پوچھ نہ منزل کاراستہ
اپنے سفرمیں راہ کے پتھر تلاش کر
ذرے سے کائنات کی تفسیرپوچھ لے
قطرے کی وسعتوں سے سمندرتلا ش کر
لکھنابڑامشکل کام ہے اس کی قدر وہی جانتاہے جواس میدان میں کبھی آیاہواورسواری کی ہو،جولوگ خط کاجواب نہیں دیتے وہ اس کام کی کیاقدر کریں گے اوراس کی عظمت کاکیااندازہ کریں گے۔
ایک حوالہ کی تلاش میں ساری رات گزرگئی
اس موقع پہ عجیب واقعہ نقل کیاجاتاہے آپ حیران ہونگے ،ہر پڑھنے والااورسننے والاحیران ہوگاراقم الحروف کی ایک کتاب’’قبروں سے خوشبو‘‘زیرطباعت ہے اس کے لیے ایک حوالہ کی ضرورت پڑگئی کہ محدث کبیرشیخ الحدیث حضرت مولانامحمدزکریاؒ کے پسینہ سے حدیث کی برکت سے خوشبوآتی تھی یہ حوالہ حضرت مولانامفتی محمد جمیل خان ؒ نے ماہنامہ اقراء ڈائجسٹ کادوشماروں میں شیخ الحدیث نمبر شائع کیاتھااس میں پڑھاتھا،سردیوں کی لمبی رات تھی عشاء کی نماز پڑھ کر اس حوالہ کی تلاش شروع کی یہ لمبی رات گزر گئی یہانتک کہ ایک مسجد سے اﷲ اکبر کی صداگونج اٹھی ادھر آوازکانوں میں گونجی ادھر رسالہ مل گیا۔عجیب اتفاق یہ کہ ساری رات کتب خانہ کوکنگال کرنے میں میرے ساتھ اہلیہ محترمہ نے بھی ساتھ دیاوہ بھی جاگتی رہیں لیکن پتہ کی بات یہ کہ بات کرنے کاموقع نہیں ملا،ایک طرف سے وہ کتب کوتلاش کرتی رہیں اورایک طرف سے میں پھر کہناپڑا
؂ہر آن قلم کی حرمت کومقدم رکھنا
سچائی کے زریں اصولوں کوگلے سے لگائے رکھنا

Qazi Israil
About the Author: Qazi Israil Read More Articles by Qazi Israil: 38 Articles with 42570 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.