سرکار دو عالم ، نور مجسم ، امام الانبیاء ، جناب احمد
مجتبٰی ،محمد مصطفٰی علیہ التحیۃ والثناء کی ذات والا صفات کی تعریف و
توصیف کما حقہٗ ہو ہی نہیں سکتی ۔ آپ ﷺکی تعریف جتنے مبالغہ اور غلو سے کی
جائے کم ہے ۔ کیونکہ احمد مجتبیٰ ﷺکے علمی و عملی ، خلقی و خُلقی ، صورتی و
سیرتی حسن و جمال فضائل و کمال ، محامد و محاسن کا شما ر ہو ہی نہیں سکتا ۔
خدا کی عظمتیں کیا ہیں محمد مصطفٰی ﷺ جانیں
مقامِ مصطفٰی کیا ہے محمد کا خدا جانے ﷺ
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا: اِنَّا اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ
ترجمہ : اے محبوب!بے شک ہم نے آپ کو بے شمار خوبیاں عطا فرمائیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرما یا :اِنَّا ، (ہم نے ) یہاں جمع کی ضمیر استعمال ہوئی
۔ جمع کا صیغہ کثرت اور تَعَدُّد پر دلالت کرتا ہے اور کبھی عظمت و شان کے
اظہار کے لیے آتا ہے یہاں پر یہی (عظمت و شان کا اظہار کرنا ) مقصود ہے
یعنی ہم نے جو زمین وآسمان کے خالق ومالک ہیں ، ہم جو عروسِ گیتی کو
سنوارنے اور نکھارنے والے ہیں ، ہم جن کے جود وکرم کا وسیع دستر خوان ہر
وقت بچھا ہوا ہے اور ہر ایک کے لیے صدائے عام ہے ۔ اے حبیب ہم نے آپ کو
کوثر عطا فرمایا ہے ۔ جو چیز ہم عطا فرمانا چاہیں اسے کوئی روک نہیں سکتا
جو چیز ہم عطا فرما ئیں اسے کوئی چھین نہیں سکتا ۔
(ملخص از تفسیر ضیا ء القرآن )
عربی لغت میں کسی کو کوئی چیز دینے کے لیے لفظ اِیْتَاء کا استعمال ہوتا ہے
اور اِعْطَا ء کا بھی لیکن دونوں کے مفہوم میں واضح فرق ہے ۔ وہ یہ کہ
اِعْطَا ءمیں ملکیت پائی جاتی ہے یعنی مالک بنادینا جبکہ اِیْتَاء میں یہ
معنیٰ نہیں پایا جاتا اور اس آیت کریمہ میں ،اِعْطَا ءکا لفظ استعمال ہوا
۔
علامہ ابو الفضل سید محمود آلوسی علیہ الرحمہ اپنی تفسیر روح المعانی میں
اس بارے میں رقم طراز ہیں کہ اس آیت میں لفظ ’’اِعْطَا ء‘‘سے اس بات کی
طرف اشارہ ہے کہ اللہ رب العالمین نے آپ کو الکوثر کا مالک بنا دیا ۔
(تفسیر روح المعانی )
اور فضائل کثیرہ عنایت کر کے تمام خَلق پر افضل کیا ، حسن ظاہر بھی دیا ،
حسن باطن بھی ، نسب عالی بھی نبوت بھی ، کتاب بھی ، حکمت بھی ، علم بھی ،
شفاعت بھی ، حوض کوثر بھی ، مقام محمود بھی ، کثرت امت بھی ، اعداء دین پر
غلبہ بھی ، کثرت فتوح بھی اور بے شمار نعمتیں اور فضیلتیں جن کی کوئی نہایت
نہیں۔ (تفسیر خزائن العرفان )
’’کوثر ‘‘ کثیر سے مبالغہ کا صیغہ ہے ۔ کوثر کے معنیٰ حضرت عبداللہ بن عباس
رضی اللہ عنہما وغیرہ ائمہ تفسیر سے ’’خیرکثیر “( یعنی بہت بھلائی ) منقول
ہے ۔ (بخاری ، در منثور ، خازن ، مدارک)
قاعدہ یہ ہے کہ ہر چیز اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہے اور کثیر کی ضد قلیل آئی
ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اللہ رب العالمین کے نزدیک قلیل کی مقدار کتنی ہے
؟کیا رب کا بیان کردہ قلیل ہم شمار کرسکتے ہیں ؟
رب کائنات قرآن مجید میں فرماتا ہے ۔
قُلْ مَتَاعُ الدُّنیاَ قَلِیلٌ ( سورۃالنساء آیت نمبر ٧٧)
ترجمہ: تم فرمادو ، دنیا کا سامان بہت قلیل (تھوڑا ) ہے ۔
اب یہ دیکھیں دنیا کا سامان کو نسا ہے اور کتنا ہے ۔ اناج ، گندم ، جوار ،
باجرہ ، چاول وغیرہ ۔ پھل ، آم ، کھجور ، سیب ، انگور وغیرہ اشیاء خوردنی
، پانی ، دودھ ، لسی ، چائے وغیرہ پینے کی چیزیں ۔ گھوڑا ، گدھا ، اونٹ ،
ہاتھی ، سائیکل ، موٹر سائیکل ، کاریں ، بسیں وغیرہ سواری کی چیزیں ۔ غرض
حیوانات ، نباتات ، جمادات ، ہزاروں ، لاکھوں ، کروڑوں ، اربوں در اربوں
چیزیں ہیں جو دنیا کا سامان ہیں اور ہمارے شمار سے باہر ہیں ۔ رب نے فرمایا
یہ سب قلیل ہیں کثیر نہیں اور جو فضائل و کمالات اور نعمتیں اور خوبیاں
اپنے حبیب ﷺکو عطا فرمائیں ۔ وہ قلیل نہیں ،کثیرنہیں، بلکہ کوثر ، کثیر در
کثیر ہیں ۔ جب رب اکبر کے ہاں کا قلیل بھی ہمارے شمار سے باہر ہے تو اس کے
یہاں کا کثیر اور پھر کثیر در کثیر ،کوثر !اس کا شمار کون کر سکتا ہے ؟کس
کی طاقت ہے کہ اس کا شمار اور احاطہ کرے ۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ حضور کے فضائل
کی کوئی حد نہیں۔
|