تاریخ اسلام پراگرنگاہ دوڑائی جائے تو یہ حقیقت سامنے
آجاتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے مخلوق کی رشدو ہدایت کے لئے انبیاء کرام کومبعوث
فرمایا۔تمام انبیاء کرام اپنے اپنے ادوارمیں مخلوق کی ہدایت کافریضہ بخوبی
انجام دیتے رہے حضرت محمدمصطفی صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم خاتم النبین ہیں آپ
صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کے بعدنبوت کاسلسلہ ختم ہوگیااس لئے نبی کریم صلی
اﷲ علیہ والہٖ وسلم کے بعدامت کی ہدایت اوررہبری کے لیے اولیاء کرام بھیجے
گئے جن کاسلسلہ قیامت تک جاری وساری رہیگا۔اﷲ پاک کے وہ مقبول بندے جواس کی
ذات وصفات کے عارف ہوں اس کی اطاعت وعبادت کے پابندرہیں گناہوں سے بچیں اﷲ
تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے انہیں اپناقرب خاص عطافرمائے ان کواولیاء اﷲ کہتے
ہیں۔انہی برگزیدہ ہستیوں میں آج جس عظیم ہستی کامیں تذکرہ کرنے جارہاہوں ۔اسے
عالم ِ اسلام میں ’’سلطان سخی سروررحمۃ اﷲ علیہ ‘‘کے نام سے یادکیاجاتا ہے
۔
حضرت سخی سروررحمۃ اﷲ علیہ کاشماران اولیائے کرام صوفیائے عظام میں ہوتاہے
جنہوں نے تزکیہ نفس سے اﷲ کی رضاحاصل کی۔اﷲ تعالیٰ نے انہیں عزت اوربزرگی
عطافرمائی۔آپ رحمۃ اﷲ علیہ کااصل نام نامیِ ’’سیداحمدبن سیدزین العابدین بن
سیدعبدالطیف ‘‘ہے ۔آپ رحمۃ اﷲ علیہ کے القابات توبہت ہیں مگراب ’’سخی
سرور‘‘کے لقب سے مشہورومعروف ہیں ہیں۔آپ رحمۃ اﷲ علیہ کی ولادت باسعادت
14ذوالحجہ بروزپیر511ھجری کوشاہ کوٹ(سروری کوٹ ضلع ڈیرہ غازی خان جنوبی
پنجاب پاکستان )میں ہوئی ۔آپ رحمۃ اﷲ علیہ کے والدماجدکانام’’حضرت زین
العابدین رحمۃ اﷲ علیہ‘‘ہے۔
آپ رحمۃ اﷲ علیہ کاسلسلہ نسب چندواسطوں سے حضرت علی المرتضیٰ کرم اﷲ وجہہ
الکریم سے جاملتاہے۔’’سیداحمدبن سیدزین العابدین بن سیدعمربن سیدعبدالطیف
بن سیدبہاء الدین بن سیدغیاث الدین بن بہاء الدین بن سیدصلاح الدین بن
سیدزین العابدین بن سیدعیسیٰ بن سیدصالح بن سیدعبدالغنی بن سیدجلیل بن
خیرالدین بن سیدضیاء الدین بن سیدداؤدبن سیدعبدالجلیل رومی بن سیداسماعیل
بن امام جعفرصادق بن امام محمدباقربن امام زین العابدین علی بن سیدالکونین
امام حسین بن حضرت علی المرتضیٰ کرم اﷲ وجہہ الکریم
آپ رحمۃ اﷲ علیہ بڑے سخی تھی ۔جوکچھ آپ رحمۃ اﷲ علیہ کے پاس آتااسے راہِ
خدامیں تقسیم کردیتے تھے ۔آپ رحمۃ اﷲ علیہ کی سخاوت کاعالم یہ ہے کہ آپ
رحمۃ اﷲ علیہ کوجوجہیزملاوہ بھی آپ رحمۃ اﷲ علیہ نے محتاجوں میں تقسیم
فرمادیا۔آپ رحمۃ اﷲ علیہ کے آباؤاجدادعرب کے رہنے والے تھے ۔آپ رحمۃ اﷲ
علیہ کے والدماجدحضرت زین العابدین رحمۃ اﷲ علیہ شہربغدادسے برصغیرپاک
وہندمیں تشریف لاکرملتان کے قریب ایک گاؤں میں سکونت اختیارکی ۔
آپ رحمۃ اﷲ علیہ کے والدماجدحضرت زین العابدین رحمۃ اﷲ علیہ سرزمین پاک
وہندمیں تشریف لانے سے قبل بائیس سال سے روضہ رسول اطہرصلی اﷲ علیہ والہٖ
وسلم کی خدمت کرتے چلے آرہے تھے ۔ایک روزسیدالانبیاء ،خاتم المرسلین حضرت
محمدمصطفی صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے حالتِ خواب میں ہندوستان جانے کاحکم
دیا۔آپ رحمۃ اﷲ علیہ نے فوراًرخت سفرباندھ کرمدینۃ الاولیاء (ملتان ) کے
قریب ایک گاؤں سرورکوٹ میں تشریف لے آئے۔آپ رحمۃ اﷲ علیہ کے والدماجدحضرت
سیدزین العابدین رحمۃ اﷲ علیہ ہروقت یادِالٰہی میں مشغول رہاکرتے تھے۔حصولِ
رزق کے لئے زراعت کے علاوہ بھیڑبکریاں پال رکھی تھیں۔دوسال کے بعدحضرت زین
العابدین رحمۃ اﷲ علیہ کی زوجہ محترمہ بی بی ایمنہ نے داعی اجل کولبیک
کہا۔اوراس فانی دنیاکوچھوڑکرخالق حقیقی سے جاملیں۔ان کے بطن سے حضرت سلطان
قیصر،حضرت سیدمحموداورحضرت سیدسہراپیداہوئے تھے۔حضرت سلطان سخی سروررحمۃ اﷲ
علیہ بچپن ہی سے بڑے ذہین تھے ۔اکثراوقات اپنے والدماجدحضرت زین العابدین
رحمۃ اﷲ علیہ سے شرعی مسائل سیکھتے تھے ۔
حضرت سخی سروررحمۃ اﷲ علیہ کے ناناجان ایک زمین دارتھے ۔ناناجان کے انتقال
کے بعدآپ رحمۃ اﷲ علیہ کی والدہ ماجدہ کووراثت کافی جائیدادمیں
ملی۔بعدازتقسیم آپ رحمۃ اﷲ علیہ کے حصے میں آنے والی زمین چونکہ بظاہرخراب
وبنجرتھی۔لہذا!آپ رحمۃ اﷲ علیہ نے صبروشکرکے ساتھ والدہ ماجدہ کے حکم سے
اسی خراب وبنجرزمین پرکاشت شروع کردی اورفرمایااس کھیت کواﷲ عزوجل کے حوالے
کیا۔جب بارش ہوئی اورفصل پک کرتیارہوگئی توفضل الٰہی سے آپ رحمۃ اﷲ علیہ کی
فصل بہت زیادہ ہوئی ۔جبکہ دیگررشتہ داروں کی فصل انتہائی ناقص تھی۔یہ دیکھ
کروہ حسدکی آگ میں جل بھن کررہ گئے۔پہلے توانہوں نے زمین کی تقسیم پراعتراض
کیااوراب آپ کی فصل سے حصہ مانگنے لگے۔(تذکرہ اولیائے عرب وعجم340)
ایک مرتبہ دہلی شہرمیں ایک ایسی وباء پھیلی کہ بہت سے لوگ اس
کاشکارہوکرمرنے لگے ۔دہلی میں ایک شریف گھرانہ ایسابھی تھا۔جوآپ رحمۃ اﷲ
علیہ سے بے انتہامحبت وعقیدت رکھتاتھا۔وہ بھی اس وباء کی زدمیں آگیا۔چنانچہ
اس گھرکاسربراہ سینکڑوں میل سفرطے کرنے کے بعدحضرت سیدسخی سروررحمۃ اﷲ علیہ
کی بارگاہ میں حاضرہوااوراپنی پریشانی عرض کی ۔آپ رحمۃ اﷲ علیہ نے اسے
تھوڑاسانمک دیااورفرمایا’’گھرکے نمک میں ملاکراستعمال کرو‘‘چنانچہ اس شخص
نے گھرجاکرایساہی کیاتواﷲ عزوجل نے اس کے اہل خانہ کوشفاعطافرمادی۔(تذکرہ
اولیائے عرب وعجم،صفحہ339)
ایک دفعہ سوہدرہ کی حکومت کے افسر’’عمربخش ‘‘سخت بیمارہوگئے۔ان کے اہل خانہ
نے علاج معالجہ کی بہت کوششیں کیں۔لیکن وہ شفایاب نہ ہوسکے۔وہ لوگ حضرت
سلطان سخی سروررحمۃ اﷲ علیہ خدمت میں حاضرہوئے۔اوران سے دعاکی التماس کرنے
لگے۔ابھی وہ بیماری اورپریشانی کابتاہی رہے تھے۔کہ حضرت سلطان سخی سروررحمۃ
اﷲ علیہ نے زمین سے تھوڑی سی مٹی اُٹھاکرانہیں دی اورفرمایا’’اس مٹی کی ایک
خوراک مریض کوکھلادو!اہل خانہ نے وہ مٹی لے جاکر’’عمربخش ‘‘کوکھلائی۔مٹی
کھانے کے بعدوہ حیرت انگیزطورپرفوراًصحت یاب ہوگئے اوراس دن سے کام کاج بھی
شروع کردیے۔(خزینۃ الاصفیاء191)
ایک دن حضرت سلطان سخی سروررحمۃ اﷲ علیہ دھونکل میں خلوت نشین ہوکرمصروف
عبادت تھے ۔آس پاس وضوکے لئے پانی نہیں تھا۔چنانچہ آپ رحمۃ اﷲ علیہ نے
اپناعصازمین پرماراتووہاں سے پانی کاچشمہ جاری ہوگیا۔آپ نے لکڑی کاایک
کھونٹازمین میں ٹھونک دیاکچھ دنوں بعدوہ لکڑی خودبخودسرسبزہوگئی۔جہاں آپ
رحمۃ اﷲ علیہ نمازپڑھتے تھے۔وہاں لوگوں نے مسجدتعمیرکرادی۔(خزینۃ
الاصفیاء،صفحہ192)
آپ رحمۃ اﷲ علیہ کی شہادت22رجب المرجب 577ھجری کوترپن سال کی عمرمیں ہوئی
آپ رحمۃ اﷲ علیہ کامزارڈیرہ غازی خان جنوبی پنجاب پاکستان میں مرجع خلائق
ہے۔مشہورمغل بادشاہ ظہیرالدین بابرنے آپ رحمۃ اﷲ علیہ کے مزارمبارک کی
تزئین وآرائش پرلاکھوں روپیہ خرچ کیا۔اوراسے تعمیرکرواکراپنے لئے خوش بختی
کے دروازے کھولے ۔ایک شخص قندھارسے ملتان جارہاتھا۔راستے میں پاؤں پھسلنے
سے اس کااونٹ لنگڑاہوگیا۔آپ رحمۃ اﷲ علیہ کامزارقریب تھالہذاوہ اپنی
التجالے کرمزامبارک پرحاضرہوا۔اﷲ عزوجل نے اس کی یہ مشکل آسان فرمادی۔آپ
رحمۃ اﷲ علیہ کامزارآج بھی مرجع خلائق ہے ۔لوگ دوردرازسے سفرکرکے مزاراقدس
پرحاضرہوکراپنی خالی جھولیاں من مانگی مرادوں سے بھرتے ہیں۔(تذکرہ اولیائے
عرب وعجم ،صفحہ353)
اﷲ تعالیٰ کی ان پررحمت ہواوران کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی
الامین
|