تقاضائے عدل


کسی سلطنت میں ایک نو عمر لڑکی سے زیادتی ہوئی کیس بادشاہ وقت تک پہنچا اس نے لڑکی کو طلب کیا اور اس سے پوچھا کہ جب تم پر یہ ظلم ہورہا تھا تم اس وقت چیخی اور چلائی تھی اس نے ہاں میں جواب دیا ،بادشاہ وقت نے اس لڑکی کو ساتھ لیا اور آبادی والے علاقے میں چلا گیا اور لڑکی کو کہا کہ اب اتنی ہی زور سے چلاؤ جتنی زور سے اس وقت چلائی تھی لڑکی نے چیخنا شروع کردیا بادشاہ وقت نے پولیس اہلکاروں کو کہا کہ اس کی آواز جہاں تک پہنچتی ہے اتنی ہی دور چلے جاؤ چنانچہ اہلکار وں نے حکم کی تعمیل کی بادشاہ وقت نے اندازہ لگاتے ہوئے حکم صادر کیا کہ جہاں لڑکی سے زیادتی ہوئی وہاں سے اتنے میٹر کے فاصلے میں جتنے بھی مرد رہتے ہیں سب کو گرفتار کرو اور ان سے مجرم کا پتا کراو، اگر وہ نا بتائیں تو سب کو قتل کردو آپ یقین کریں کے آدھے دن کے اندر اندر مجرم کو گرفتار کرلیا گیا اور اس نے اعتراف جرم بھی کرلیا۔

صلاح الدین ایوبی ؒ کے دور حکومت میں ایک شخص کو قتل کردیا گیا ایوبی اس وقت محاذ جنگ پر تھا اس کی انٹیلی جنس نے اسے رپورٹ دی کہ ایک ہفتہ گزرگیا مگر قاتل کا پتا نہیں چلا صلاح الدین ایوبی ؒ نے اپنے انٹیلی جنس ادارے کے سربراہ علی بن سفیان کو وہیں رکنے کا کہا اور رات کے اندھیرے میں چند محافظوں کے ہمراہ دارالحکومت پہنچ گیا اور خود تفتیش شروع کردی دو دن بعد عوام کو ایک اجتماع گاہ میں جمع ہونے کا حکم ملا مقررہ وقت پر جب لوگوں نے اپنے درمیان اپنے محبوب قائد کو دیکھا تو ان کی حیرت کی انتہاء نہ رہی ،صلاح الدین ایوبی ؒ خطاب کے لئے آئے اور انہوں نے کہا کہ مجھے یہاں آئے دودن ہوچکے اس بات کا علم گورنر اور میرے چند قریبی دوستوں کے علاوہ میرے گھر والوں کو بھی نہی مجھے فلاں شخص کے قتل ہونے کی خبر ملی اور ساتھ یہ بھی بتایا گیا کہ ا س کے قاتلوں کا پتا نہیں چل رہا پہلے میں نے سوچا کہ جنگ سے فارغ ہوکر قاتلوں کا سراغ لگاؤ ں پھر مجھے خیال آیا کہ اگر میں اس محاذ میں شہید کردیاگیا تو بحیثیت حکمران اس شخص کے قتل کا جواب مجھے بھی دینا پڑے گا چنانچہ میں محاذجنگ کو اپنے دوستوں کے سپرد کرکے منہ اندھیرے یہاں پہنچا،تحقیق کی اور اب آپ کے سامنے اس قاتل کو سرعام سزا دی جائے گی تاکہ دوبارہ کوئی ایسی حرکت نا کرسکے تھوڑی دیر بعد لوگوں نے دیکھا کہ کوتوال کو گرفتار کرکے لایا جارہا ہے اس وقت جو بات ایوبی ؒ نے کہی وہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہے ،صلاح الدین ایوبی ؒ نے کہا کہ اس قتل کی گتھی اس لئے نہیں سلجھ رہی تھی کہ اس شخص کو قتل کوتوال نے کروایا تھا اور قاتل کو اس نے خود زہر دے کر ماردیا ، اگر محافظ ہی لٹیرے اور قاتل بن جائیں تو قوموں کو تباہ ہوتے دیر نہیں لگتی اسے سرعام قتل اس لئے کیاجائے گا کہ پتا چلے جو قوم کا جتنا ذمہ دار ہے اس کی غلطی کی سزا بھی اتنی ہی بڑی ہوتی ہے ،جن لوگوں کو عوام کے جان و مال پر دسترس دی گئی ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کریں اور عوام کو اپنا محکوم سمجھیں اور خود کو فرعون سمجھنے لگیں ،آپ لوگوں کے ساتھ کوئی زیادتی ہوتی ہے تو اس کی آواز بلند کریں تاکہ آپ کی چیخ کے ڈر سے کوئی زیادتی نہ کرسکے ۔

اب آپ اپنے ملک عزیز پاکستان میں ہونے والے زیادتی کے واقعات خصوصاً قصور کی بے قصور زینب کاواقعہ یا ماورائے عدالت قتل جیسا کہ نقیب محسود کے واقعہ کو دیکھیں اس طرح کے درندگی کے واقعات مسلسل کئی دھائیوں سے جاری ہیں مگر ان کے قاتل گرفتار نہیں ہوتے ،انہیں سزائیں نہیں ملتیں ،انہیں عبرت کا نشان نہیں بنایا جاتا جس کی وجہ سے اس طرح کے غلط عناصر کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور یہ معاشرے کا ناسور بن کر پورے ملک کو اپنی گندی سوچ کی بدبو سے متعفن کرتے رہتے ہیں ،اس طرح کے واقعات کے بعد والدین پر کیاگزرتی ہے لوگ اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے سے ڈرنے لگتے ہیں نوجوان شدید ذہنی اذیت کا شکار ہوجاتے ہیں اور اس سب کا ذمہ داروہ طبقہ ہے جن کے ذمہ اس طرح کی صورتحال کو کنڑول کرنا ہے اگر کہیں گڑبڑ ہورہی ہے تو بغیر کسی تفریق کے اسے سزا دی جانی چاہئے نا کہ اس کی پشت پناہی کی جائے بلکہ پشت پناہی کرنے والوں کو اور زیادہ کڑی سزاد دی جائے تو اس طرح کے عناصر کی حوصلہ شکنی ہو اگر زینب کے قاتلوں کو اور ماورائے عدالت قتل کرنے والوں کو اور پاکستانی قوم کے بیٹوں کو لاپتہ کرنے والوں کو حقیقی معنوں میں سزادی جائے تو یہ اذیت نما سلسلہ نہ صرف رک سکتا ہے بلکہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوسکتا ہے ۔

سب سے خطرناک کام جرم کی پشت پناہی ہے ملک عزیز پاکستان میں کچھ عرصہ بعد کسی نا کسی حوالہ سے جو خوف و ہراس کی فضاء قائم کی جاتی ہے تو اس بے یقینی کی فضاء میں سب سے زیادہ نقصان اس ملک عزیز پاکستان کا ہوتا ہے اور لا محالہ سب سے زیادہ فائدہ ملک دشمن عناصر کا، کیونکہ اس کا اثر تعلیمی اداروں سے لے کر کاروبار ی حلقوں تک پہنچاتا ہے اور اگر یہ دونوں ادارے بے یقینی اور خوف و ہراس کی زد میں ہوں تو آپ خود اندازہ لگائیں ملک کی ترقی کا گراف کس حد تک گر سکتا ہے اس لئے ارباب حل و عقد کو چاہئے کہ ٹال مٹول سے کام مت لیں اور اپنے چہیتوں کو بچانے کی بجائے اصل مجرموں کو سزا دلوائیں تاکہ آئیندہ کوئی بھی شخص اپنے ذاتی مفادات کی خاطر ملک و قوم کے مستقبل کو داؤ پر نہ لگا سکے اور اگر ہم مظلوم کی داد رسی نہیں کرسکتے یا اس کا حق نہیں دلواسکتے تو یاد رکھیں انسانوں کو پیدا کرنے والا اﷲ تعالیٰ اپنی پیدا کی ہوئی مخلوق سے بہت محبت کرتا ہے اور یہ اس کا وعدہ ہے کہ اس کی مخلوق سے ناحق کرنے والا دنیا و آخرت دونوں میں سزا پائے گا سیدنا فاروق اعظم ؓ اپنے دور حکومت میں ایک کتے کے مرنے سے بھی ڈرتے تھے کہ کہیں اس کا حساب نہ دینا پڑجائے اور ادھر ہم اپنے دور حکومت میں ہزاروں اشرف المخلوقات کے قتل کا بوجھ کب تلک اپنے کندھوں پر اٹھاسکتے ہیں ۔خسرالدنیا والآخرہ
٭٭٭٭

Sufiyan Farooqi
About the Author: Sufiyan Farooqi Read More Articles by Sufiyan Farooqi: 28 Articles with 27137 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.