سعودیہ آخرکار اپنی بین الاقوامی تعلقات اور عمومی رویوں
میں لچک کی سیاست کا آغاز کررہا ہے۔ اور ماضِی کے تلخ اور کڑک سیاسی مزاج
کو تبدیل کرکے بین الاقوامی برادری میں اپنا مثبت پہلو اُجاگر کرنے کی جانب
گامزن ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔جس کے اثرات سال گزشتہ سے خواتین بارے میں کچھ
نرم قوانین متعارف کرکے دیکھنے کو ملے۔ اس سال جیسے نئے ولی عہد محمد بن
سلمان السعود نے چکھا ہی مارا ہے اور امریکہ کا پرجوش دورہ کیا اور بہت
سارے نئے وعدے اور معاہدے کیے۔ امریکہ کی جانب سے بن سلمان کا پرتپاک
استقبال ہوا ۔امریکی صدر ڈونلٹ ٹرم نے فخریہ اعلان کیا کہ سعودیہ کن تباہ
کن ہتھیاروں سے جو امریکہ سے خرید کر اپنے مسلم بھائیوں کا قتل عام کررہا
ہے اور وہ لسٹ بھِی دکھائی جس کے لیے معاہدے ہوئے۔ بن سلمان کا دورہ امریکہ
پر دیے گئے بیان نے تمام مسلمانوں کوہلا کر رکھ دیا۔ کہ کس طرح ہمارا قبلہ
واشنگٹن کی طرف مڑگیا ہے۔ بن سلمان نے امریکہ کے دشمن کو اپنا دشمن قرار
دیا اور امریکہ کے دوست اپنا دوست کہا۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی ، سعودی ولی
عہد نے اپنے تازہ انڑویو جو دی انٹلانٹک نیوز کو دی ہے میں اسرائیل کی
فلسطین کی سرزمین پر حق ملکیت تسلیم کی اور کہا کہ اسرائلیوں کو اپنی زمین
کا حق حاصل ہے۔ یعنی سادھی سی بات میں فلسطینوں کو سمجھا دیا گیا کہ سکون
سے اسرائیلیوں کی بات مان لو۔اور ان کے ساتھ پنگا لینےسے باز رہو۔ انہوں نے
اپنے جمعرات کو ٹائم میگزین کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ وہ تل ابیب کے
ساتھ تعلقات کو نارمل کرنے کے حق میں ہیں لیکن مسئلہ فلسطین اس راہ میں
کانٹا بنا ہوا ہے۔ انہوں نے ایران کی طرف کنایۃ کہا کہ اسرائیل اور سعودیہ
کو مشترکہ دشمن کا سامنا ہے۔ ان تمام حالات میں جبکہ سعودیہ کا جھکاو
اسرائیل اور امریکہ کی جانب ہوچکا ہے پاکستان کس ڈگر چل رہا ہے۔؟ہمارا
ہمیشہ سے سعودیہ کے ساتھ جذباتی وابستگی رہی ہے۔ لیکن یہ وابستگی کبھی کسی
مشکل میں ہمارے کام نہیں آئی بلکہ اگر حالات کا بغور جائزہ لیا جائے تو
پاکستان کی مشکلات میں سعودیہ کا ہمیشہ ہاتھ رہا ہے۔ اسرائیل پاکستان کا وہ
دشمن ہے جو بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کو مٹانے کے در پے ہے۔ اسی لیے اس
دشمن کو پاکستان نے آج تک تسلیم نہیں کیا۔ اور پاکستانی پاسپورٹ پر واضح
الفاظ میں لکھا ہوا ہے کہ یہ پاسپورٹ اسرائیل کے سوا دنیا کے سارے ملکوں
میں کارآمد ہے۔ سوال یہ ہے کہ جس کعبہ وقبلہ کی وساطت ہمارا سعودیہ کے ساتھ
جذباتی وابستگی ہے۔ اب جبکہ آل سعود کا قبلہ واشنگٹن اور تل ابیب کی جانب
شفٹ ہوچکاہے اور بیان یہ آرہا ہےکہ اسرائیل کا دشمن سعودیہ کا دشمن ، تو ہم
تو اسرائیل کے پکے دشمن ہیں۔ تو کیا محمد بن سلمان کے تازہ بیان کے حساب سے
پاکستان بھی سعودیہ کا دشمن ہے۔ یا ہمیں ابھِی بھِی خیر کی توقع رکھنی
چاہیے۔ ؟ |