صوبہ خیبر پختونخوا کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ
یہاں ہمیشہ کارکردگی کی بنیاد پر سیاسی پارٹیوں کو عوام نے ووٹ دئیے اور حقِ
حکمرانی عطا کیا۔اگر کسی پارٹی نے اپنے دورِ حکومت میں عوامی مفاد کے کام
نہیں کئے تو خیبر پختونخوا کے عوام نے اگلی مرتبہ کسی اور پارٹی کا انتخاب
کیا اور یوں ماضی میں ملک کے تمام بڑی سیاسی پارٹیوں کو یہاں حکومت کرنے کا
مو قعہ مِلا ، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ،متحدہ مجلسِ عمل ، اے این پی اور
تحریکِ انصاف کو یہاں کے عوام نے حکومت کرنے کے مواقع دئیے ۔مگرکسی بھی
سیاسی پارٹی کے طرزِ حکمرانی سے خیبر پختونخوا کے عوام کو اطمینان کی دولت
میسّر نہ آ سکی۔ اب ایکدفعہ پھر عام الیکشن قریب آرہے ہیں ۔تمام سیاسی
پارٹیاں انتخابی مہم یا تو شروع کر چکی ہیں یا شروع کرنے کے لئے پَر تول
رہی ہیں۔بناء بر ایں ذہن میں لامحالہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ صوبہ خیبر
پختونخوا میں اگلی حکومت کس کی بنی گی ؟ اس سوال کا جواب یقین کے ساتھ دینا
ممکن نہیں مگرعوامی رائے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ
اگلے عام انتخابات میں کس کو مسندِ اقتدار تک پہنچنے کا مو قعہ ملے گا۔۔
جہاں تک موجودہ بر سرِ اقتدار پارٹی پاکستان تحریکِ انصاف کا تعلق ہے ،اگرچہ
ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اگلے الیکشن میں کارکردگی کی بنیاد پر کلین سویپ کرے
گی مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کی کارکردگی موجودہ وزیرِاعلیٰ پرویز خٹک کے ضلع
نو شہرہ یا ضلع صوابی تک محدود رہی ہے۔جبکہ کئی اضلاع ایسے بھی ہیں جو
موجودہ حکومت کے نظرِ کرم سے یکسر محروم رہے وزیرِ اعلیٰ پرویز خٹک نے اپنے
پانچ سالہ دورِ حکومت میں وہاں قدم بھی نہ رکھا، جس کی ایک مثال ضلع کرک کی
ہے ،جہاں تینوں ممبرانِ اسمبلی کا تعلق تحریکِ انصاف سے ہے مگر وزیر اعلیٰ
وہاں ایک مرتبہ بھی تشریف نہیں لے گئے اور نہ ہی کو ئی قابل ذکر ترقی کا
منصوبہ شروع کر سکے۔اسی طرح کئی اور اضلاع بھی ہیں ۔نتیجتا تحریکِ انصاف کو
وہاں سے دوبارہ ووٹ ملنے کا امکان بہت کم دکھائی دیتا ہے ۔تعلیم اور صحت کے
شعبہ میں موجودہ حکومت نے اگر چہ کچھ کو شش ضرور کی ہے مگر اس میں ان کو
کوئی ایسی کامیابی نہیں مِلی جس سے عام آدمی مطمئن ہو۔البتہ محکمہ پولیس
میں سیاسی عدم مداخلت کی وجہ سے پولیس کی کارکردگی ماضی کے مقابلہ میں کافی
بہتر رہی ہے۔صوبے کے دارالخلافہ پشاور میں شروع ریپیڈ بس سروس کا منصوبہ
بھی موجودہ عہدِ حکومت میں مکمل اور ثمر آور ہوتا نظر نہیں آتا ۔لہذااس کا
کریڈٹ بھی شاید تحریکِ انصاف حاصل نہ کر سکے۔بِناء بر ایں کہا جا سکتا ہے
کہ پاکستان تحریکِ انصاف اگلے عام انتخابات میں صوبائی اسمبلی میں 25سے
زیادہ سیٹیں حاصل نہیں کر سکے گی اور یوں شاید وہ دوبارہ خیبر پختونخوا میں
حکومت بنا نے کے قابل نہیں ہو گی۔
’’ عوامی نیشنل پارٹی ‘‘ ماضی میں کافی اتار چڑھاو کا شکار رہی ہے۔اپنے
دورِ حکومت میں کچھ اچھے کام بھی کئے ہیں مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ
اپنا چال برقرار نہ رکھ سکی اور عوام میں ان کو وہ مقبولیت حاصل نہ ہو سکی
۔جس کی بنیاد پر ان کو اگلے عام انتخابات میں حکومت بنانے کا موقعہ مِل سکے
البتہ پچھلے انتخابات سے اگلی الیکشن میں ان کے سیٹوں میں دو سے چار سیٹیوں
کے اضافے کا امکان ہے۔جہاں تک پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا
تعلق ہے ، وہ چند سیٹیں جیتنے میں ضرور کامیابی حاصل کر لے گی مگر اتنی
نہیں کہ حکومت بنا سکے۔قومی ون پارٹی شاید پچھلی پوزیشن برقرار رکھنے میاں
کامیاب ہو جائے گی۔چوتھی قابلِ ذکر پارٹی متحدہ مجلسِ عمل(ایم ایم اے) ہے۔
جس میں جمیعتِ علماء اسلام (فضل الرحمن اور جماعتِ اسلامی کے علاوہ چار
دوسری مذہبی جماعتیں بھی شامل ہیں ۔ایک دفعہ بے حال ہونے کے بعد اب دوبارہ
متحدہ مجلسِ عمل بحال ہونے پر متفق ہو چکی ہے اگر چہ جے یو آئی اور جماعتِ
اسلامی کے درمیان شدید اختلافات بھی پائے جاتے ہیں مگر دونوں جماعتوں کو
الیکشن ایک پلیٹ فارم سے لڑنے میں واضح فائدہ نظر آرہاہے لہذا اگلے
انتخابات میں ان کا یک جان دو قالب ہونا نظر آرہاہے ۔ایسی صورت میں اس بات
کا قوّی امکان ہے کہ دوسری سیاسی جماعتوں کے مقابلہ میں ایم ایم اے کو اگر
چہ واضح اکثریت تو حاصل نہیں کر سکے گی مگر چند سیٹوں کی برتری سے نسبتا ٔ
دوسری سیاسی پارٹیوں پر سبقت لے جائیگی جو مسلم لیگ(ن) ‘ قومی وطن پارٹی
اور چند آزاد منتخب ممبران کے ساتھ مَل کر خیبر پختونخوا میں مخلوط حکومت
بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ |